سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
یاد رہے سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کے ٹرائل سےمتعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ 2 مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے، اور یہ بھی حکم دیا تھا کہ ٹرائل کورٹ ان کی غیرموجودگی میں ٹرائل مکمل کرکے حتمی فیصلہ جاری کردے۔
اگر پرویز مشرف وطن واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرتے ہیں تو شریف خاندان کا یہ گھسا پٹا بیانیہ بھی ختم ہو جائے گا کہ ہم کیوں واپس آئیں، پہلے مشرف کو واپس لاؤ :)
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں
عمران خان کی وکالت نہ کرتا تووہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہوتے، پنجاب میں عثمان بزدار سے بہتر شخص لگایا جانا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنماء حامد خان کی گفتگو
1530630006_admin.JPG._1
ثنااللہ ناگرہ اتوار 28 اپریل 2019 20:02
pic_1739f_1527075468.jpg._3


لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔28 اپریل 2019ء) تحریک انصاف میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، پارٹی کے سینئر رہنماء اور قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی وکالت نہ کرتا تووہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہوتے،پنجاب میں عثمان بزدار سے بہتر شخص لگایا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی وکالت نہ کرتا تووہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہوتے۔ پنجاب میں عثمان بزدار سے بہتر شخص لانا چاہیے تھا۔ حامد خان نے کہا کہ جہانگیرترین ترین جیسے لوگ پارٹی کو ہائی جیک کرنے آتے ہیں۔ جہانگیرترین سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس سے قبل گورنر پنجاب نے بھی جہانگیرترین کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ گورنر پنجاب چوہدری سرورنے بھی گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی میں سب کچھ جہانگیرترین ہیں تو کون سے آلو چنے بیچنے آئے ہیں، کسی نے مجھے ہٹانے کا سوچا بھی تو پہلے ہی استعفیٰ دے دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو تکلیف ہے کہ میں صاف پانی عوام کو کیوں دے رہا ہوں کسی نے مجھے ہٹانے کا سوچا تو پہلے استعفیٰ دے دوں گا، اگر سب کچھ جہانگیر ترین ہیں تو ہم یہاں آلو چنے بیچنے نہیں آئے؟ پارٹی میں اختلافات ہوتے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں سب متحد ہیں۔ گورنر چوہدری سرور نے کہا کہ وزیراعلی عثمان بزدار سے میرا کوئی جھگڑا نہیں ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے سے متعلق بھی کوئی بات میرے علم میں نہیں ہے۔ چوہدری سرور نے کہا کہ پانچ لاکھ گھر تو بنائے جا سکتے ہیں لیکن حکومت کیلئے پچاس لاکھ گھر بنانا بہت مشکل ٹارگٹ ہے۔ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی، حکومت کہیں نہیں جا رہی ۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پرویز مشرف نہ چل پھر سکتے ہیں نہ بول پا رہے ہیں، وکیل
ویب ڈیسک جمعرات 2 مئ 2019
1653641-parvaizmusharraf-1556777985-814-640x480.jpg

پرویزمشرف پاکستان نہ آ سکنے پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں، وکیل مشرف فوٹو:فیس بک

اسلام آباد: سابق آرمی چیف اور صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا ہے کہ پرویز مشرف نہ چل پھر سکتے ہیں نہ بول پا رہے ہیں۔

بلوچستان ہائی کورٹ کی چیف جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی، لیکن ملزم پرویز مشرف تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود آج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

پرویزمشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پرویزمشرف نے گزشتہ صبح پاکستان آنا تھا، لیکن علالت کے باعث نہیں آسکے، وہ پاکستان نہ آ سکنے پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں، دو برس کے دوران وہ 40 مرتبہ اسپتال داخل ہوئے ہیں۔

وکیل مشرف نے کہا کہ میں مشرف کی معاونت کے بغیرعدالت کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتا، مشرف سے ملنے گیا اور ان کے ساتھ تین دن تک رہا، ان کی جسمانی حالت دیکھ کرحیران رہ گیا، وہ چل پھر نہیں سکتے اور بول بھی نہیں پا رہے، ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ ان کا سفر کرنا محفوظ نہیں ہوگا۔

مشرف کے وکیل نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مشرف کو پیش ہونے کا ایک موقع دیا جائے اور علالت کے باعث کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔ عدالت نے پرویزمشرف کی التواء کی درخواست منظور کرتے ہوئے آئین شکنی کیس کی سماعت 12 جون تک ملتوی کردی۔ عدالت نے پرویزمشرف کی بریت کی درخواست پرحکومت کو نوٹس بھی جاری کردیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد: سابق آرمی چیف اور صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا ہے کہ پرویز مشرف نہ چل پھر سکتے ہیں نہ بول پا رہے ہیں۔
اللہ سب کو صحت دے۔ بس ایک چیز سمجھ نہیں آتی کہ ان کرپٹ حکمرانوں کو ساری بیماریاں اقتدار سے اتر کر کیوں لگ جاتی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف کی جگہ رانا تنویر پی اے سی کے چیئرمین نامزد
ویب ڈیسک جمعرات 2 مئ 2019
1653913-ranashehbaqz-1556789703-355-640x480.gif

مسلم لیگ (ن) نے فیصلے سے متعلق اسپیکر قومی اسمبلی کو آگاہ کردیا۔

مسلم لیگ (ن) نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جگہ رانا تنویر کو پی اے سی کا چیئرمین نامزد کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جگہ سابق وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردیا اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ان دنوں علاج کی غرض سے لندن میں ہیں جس کی وجہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس نہیں ہورہے ہیں، اسی وجہ سے پارٹی کی جانب سے رانا تنویر احمد کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

واضح رہے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے رانا تنویر قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے پارلیمانی لیڈر تھے لیکن اب ان کی جگہ سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کردیا گیا ہے۔
---
کیا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی وطن واپسی کا پروگرام مؤخر ہو گیا ہے؟ اندرونی اطلاعات کیا ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو آپ بتلائیں کہ کپتان نے ڈیل دی ہے کہ ڈھیل؟ ;)

ن لیگ کی مجلس عاملہ نے شہبازشریف کی جگہ خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر اور رانا تنویر حسین کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین نامزد کردیا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہئیے کہ شہبازشریف اب اپنا بوریا بستر گول کر کے لندن دفعان ہوچکا، اب وہ واپس آنے کا نہیں۔

ان لوگوں کے نزدیک وطن، دھرتی، پاکستان جیسے الفاظ کی اہمیت تب تک رہتی ہے جب تک ان کے حکمران بننے کی امید باقی رہے، امید ختم ہوتی ہے تو یہ بھی اپنا ٹھکانہ کہیں اور بنا لیتے ہیں۔

ان خانہ بدوشوں کو پنجاب کے گیارہ کروڑ غیور عوام نے تین مرتبہ وزارت عظمی اور سات مرتبہ وزارت اعلی دی اور حاصل وصول یہ رہا کہ پنجاب کے عوام کی دولت لوٹ کر ٹی ٹیوں کے ذریعے اپنی بیوی بچوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کیں اور پھر سارا مال لندن بھیج کر اہل خانہ سمیت وہیں منتقل ہوگئے۔

اے میری دھرتی کے غیور لوگو!

پڑھ کر شرم تو آئی ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1654835-nawazsharif-1556865889-867-640x480.jpg

پاکستان میں علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز موجود ہیں، چیف جسٹس فوٹو:فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے اور بیماریوں میں پیچیدگیاں آتی جارہی ہیں، انہیں جو علاج درکار ہے وہ پاکستان میں ممکن نہیں، دوران ضمانت ان کا ہائپر ٹینشن اور شوگر کا علاج ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز نے اینجیو گرافی کی سفارش کی تھی، اور اس کے لیے ہی عدالت نے ضمانت دی تھی، فیصلہ میں نوازشریف کو پورا پیکج دیا تھا، ان کے پاس بہت سے قانونی آپشن موجود ہیں، پاکستان میں علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز موجود ہیں، عدالت نے ضمانت علاج کے لیے دی تھی صرف ٹیسٹ کرانے کے لیے نہیں، 6 ہفتہ بعد بھی ان کی اینجیو گرافی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز کو سیاسی رنگ میں دیکھ کر عدالت کو بدنام کیا جاتا ہے، صرف سزائے موت کے مقدمہ میں ہی سزا معطل ہوتی ہے، عدالتی حکم واضح ہے اگر نواز شریف نے سرنڈر نہ کیا تو ان کی گرفتاری ہوگی۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی۔

26 مارچ کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کی تھی، عدالت نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی تھی۔

نواز شریف نے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں دل اور گردوں کے امراض لاحق ہیں، وہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے تیسرے درجے کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں، لہذا نواز شریف کو علاج کے لیے صرف پاکستان کے اندر پابند کرنے کے 26 مارچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس کا کیا مطلب لیا جائے کہ شہباز شریف صاحب نے ڈیل کر لی ہے اور نواز شریف صاحب ابھی تک 'اڑے' ہوئے ہیں ۔۔۔! :) نواز شریف صاحب کا شروع دن سے یہی مسئلہ ہے کہ وہ اپنے معاملات خود سے طے نہیں کرتے ہیں، الا یہ کہ انہیں معاملات طے کر کے دیے جائیں۔ اگر 'سازشی عناصر' کی بات مان لی جائے تو جو سہولت شہباز شریف کو دی گئی ہے، وہ نواز شریف صاحب کو نہیں دی گئی ہے اور شاید وہ اپنی روایتی ضد کی وجہ سے یہ آپشن اختیار بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی کہ، مسلم لیگ نون بیک وقت دو کشتیوں کی سوار ہے اور یہ منقسم بیانیہ جماعت کو مزید کمزور کر دے گا۔ دوسری جانب یہ بھی ہے کہ نواز شریف صاحب کو جیل میں ڈالنے کے اپنے مضمرات ہوں گے اور جیل میں موجود نواز شریف صاحب حکومت کے لیے بہرصورت خطرے کی علامت بنے رہیں گے اگر معاشی صورت حال ناہموار رہتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
خبردار کرتا ہوں، ون یونٹ یا صدارتی نظام نافذ کیا تو ملک ٹوٹے گا:
استغفراللہ۔خدانخواستہ۔
اللہ کبھی بھی ایسا نہ کرے۔ اللہ پاکستان کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!
نجانے کیسے جو کچھ زبان پہ آتا ہے، بول دیتے ہیں۔ان کے دلوں میں کوئی ڈر خوف بھی نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
جاسم۔
ہر زمرہ میں بُری بُری خبریں لے کے آجاتے ہیں۔۔۔کوئی اچھی سی، خوش کُن سی بات بھی کر لیا کریں۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
غلیظ سے غلیظ تر ہوتی سیاست
27/04/2019 یوسف رشید



کار زارِ سیاست سے اگرچہ کچھ زیادہ خوش فہمیاں وابستہ نہیں، لیکن حالیہ چند سالوں میں دشنام طرازی، بہتان تراشی، فحش و لغو گفتگو اور بد اخلاقی کے جس معیار پر ہماری سیاست پہنچ چکی ہے، اس کے بعد کسی شریف خاندانی آدمی کے لئے سیاست میں قدم رکھنا خاصا دشوار ہو چکا ہے۔ یہ موضوع ایک بار پھر زیربحث اس لئے ہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو بلاول صاحبہ کہا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ چہرے پر مخصوص تمسخرانہ تاثرات کے ساتھ کپتان عوام کے ردِ عمل سے خوب محظوظ ہوئے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ غلطی سے کہہ دیا، دروغ گوئی ہے۔

سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یاد نہیں پڑتا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لئے اخلاق سے عاری القابات اور فحش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایوب خان کی فاطمہ جناح سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قائد اعظم کی ہم شِیر واضح طور پر فیلڈ مارشل کے اقتدار کے لئے خطرہ تھیں۔ ایوب خان نے انہیں امریکی اور انڈین ایجنٹ تک کہا لیکن کبھی بد زبانی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اور تو اور جب سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے تو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کے چلتے بنے۔

اسی کی دہائی تک سیاست مجموعی طور شایستگی کے لبادے میں رہی۔ اس عرصے میں واحد استثنیٰ ذوالفقار علی بھٹو ہیں، جنہوں نے اپنے مخالفین کو گالیوں اور بد تمیزی پر مبنی القابات سے پکارا۔ بھٹو کو اپنی مقبولیت کا زعم بہت تھا۔ اس زعم میں وہ مخالفین کے لئے نا مناسب الفاظ استعمال کر بیٹھتے تھے۔ مثلاً بھٹو، ائیر مارشل اصغر خان کو آلو کہا کرتے تھے، مولانا مودودی کو اچھرے کا پوپ کہا کرتے تھے، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتے تھے، اور تو اور اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کو مولانا وہسکی کہہ کر پکارتے، ایک بار ایک رپورٹر نے احمد سعید کرمانی کے بارے میں سوال کیا تو ’ہو از شی‘ کہہ کر استفسار کیا۔ اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ان الفاظ کی ہے جو بھٹو نے پاکستانی سیاست میں متعارف کروائے۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے بد گوئی کے اس سلسلے کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔ اگر چہ میاں نواز شریف خود شایستگی کے لبادے میں رہتے، لیکن سب کچھ انہی کے ایما پر ہو رہا ہوتا تھا۔ شیخ رشید ان دنوں نواز شریف کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے ایک سے ایک اوچھی حرکت کرتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جعلی فحش تصاویر کے پمفلٹ ہیلی کاپٹر سے پھینکوائے جاتے، شیخ رشید نے ایک سے زیادہ مرتبہ بے نظیر بھٹو کو ییلو کیب کہا۔

اس کے معنی ظاہر ہے انتہائی گھٹیا تھے۔ محترمہ عموماً شایستگی اپناتیں اور اس طرح کی باتوں کا جواب نہیں دیتی تھیں۔ ایک موقع پر اگر چہ احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھیں، اور میاں نواز شریف کے شیر کہلانے پر تبصرہ کیا کہ امی جنگل گئی تھیں یا شیر گھر آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بد اخلاقی کا مظاہرہ تھا۔ حالیہ سالوں میں شیخ رشید کی خدمات سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ نون نے طلال چودھری، دانیال عزیز اور رانا ثنا اللہ جیسے چہروں کو استعال کیا۔ شنید ہے کہ میاں صاحب اپنے ان حواریوں کی کارکردگی سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ اگرچہ خود انہوں نے اپنے بد ترین مخالفین جیسے جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے لئے بھی مشرف صاحب اور عمران خان صاحب کے الفاظ اسعتمال کیے۔

گزشتہ چند ماہ سے شیخ رشید احمد مسلسل بلاول بھٹو کے بارے میں اشاروں کنایوں میں فحش گفتگو کر رہے تھے، ان کے تبصرے ہمیشہ ذُو معنی رہے۔ بلاول کو بلو رانی کہہ کر پکارتے رہے، لال حویلی آنے کی دعوت دیتے رہے اور جانے کیا کچھ۔ یہ سب کچھ بھی غلط تھا۔ لیکن بلاول نے کبھی ان باتوں کا جواب نہیں دیا۔ اگر چہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے، لیکن بہر حال بلاول پیپلز پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کے شیخ رشید کی باتوں کو اگنور کرنے سے اس موضوع نے زیادہ اڑان نہیں پکڑی، وگرنہ بلاول شیخ رشید کی سطح پر آ جاتے تو شیخ جی کو زیادہ اہمیت ملتی۔

مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد مسلم لیگ کی حکومت پر شدید تنقید کیا کرتے۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعروں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف یلغار کی جاتی تو لاہور میں جماعت کے خلاف آپریشن ہوتے۔ اس پورے قضیے میں کبھی میاں صاحب نے قاضی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اگر ایسا کرتے تو ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کے منصب سے ایک چھوٹی جماعت کی سطح پر آ جاتے۔ بلاول نے بھی ایسا ہی کیا اور شیخ رشید کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

وزیر اعظم عمران خان کے ریمارکس اگر چہ اس نوعیت کے نہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ رشید، رانا ثنا اور طلال چودھری استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا بلاول کو صاحبہ کہنا بھی ناگوار گزرا۔ اس پورے معاملے میں ایک پہلو جس پر زیادہ بات نہیں ہوئی اور خاکسار کو معاشرتی بے حسی پر خاصا ملال ہوا، وہ یہ کہ آج بھی یہ معاشرہ عورت کو کم تر سمجھتا ہے، کسی کو گالی دینی ہو تو اسے عورت کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور سننے والے محظوظ ہوتے ہیں۔

یہ عورت کا مقام ہرگز نہ تھا۔ خیر وزیر اعظم کے الفاظ پر خوب لے دے ہوئی۔ خاکسار نے بھی تنقید کی، بس اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس عاجز پر اتنی تنقید ہوئی کہ اللٰہ دے اور بندہ لے۔ بار ہا عرض کیا کہ ایک قومی رہنما کے طور پر عمران خان کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ان کی کنٹینر کی بہت سی تقریریں ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا نہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان کا دفاع کر سکتا ہے۔ اب تو بہر حال وہ وزیر اعظم ہیں اور کسی ایک جماعت کے نہیں، پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ تو اب ایسی اوچھی حرکتیں انہیں زیب نہیں دیتیں۔

اگلے روز بلاول بھٹو نے جوابی حملہ کر کے کسر پوری کر دی۔ اب اس کی اس بد اخلاقی کے بعد خاکسار کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر چہ کھل کر بلاول کے الفاظ پر بھی تنقید کی۔ بد کلامی اور فحش گوئی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ سب ایک وزیر اعظم اور ایک بڑی پارٹی کے چئیرمین کے درمیان ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس پورے تماشے سے بلاول عمران خان کو اپنی سطح پر لانے میں کام یاب ہو گئے، جو بہر طور وزیر اعظم کے شایانِ شان نہیں۔

یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ بلاول نے اسمبلی میں جو حالیہ تقریریں کی ہیں، انہوں نے عمران خان کو کافی مضطرب کیا ہے۔ وگرنہ ایسے کاموں کے لئے فیاض چوہان، اور واڈا جیسے کئی چہرے پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں۔ پی ٹی آٗی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ حکومت میں ہے۔ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہے۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو کیا کیا ہتھکنڈے نہیں آزمائے؟ کنٹیر پر کی گئی اخلاق سے عاری تقاریر، دکھاوے کے استعفے، سول نا فرمانی، دھرنے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب حکومت میں آئے ہیں تو یہ سب برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ حکومت کو جب نعروں کی ضرور پڑ جائے تو اس کا مطلب ہوتا کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔

جب سے پی ٹی آئی مقبول جماعتوں کی صف میں شامل ہوئی ہے تو سوشل میڈیا پر فدائین کا ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے۔ جو کسی کے پیچھے پڑیں تو گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ مخالفین تو ٹھہرے مخالفین، شیریں مزاری نے پارٹی چھوڑی تو انہیں اور ان کی دختر کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا۔ مریم نواز کو قطری خط کے حوالے سے رگیدا گیا اور جانے کیا کچھ۔ اہم قلم کار عتاب کے خصوصی حقدار ٹھہرے۔ مخالف نقطہ نظر کے صحافیوں کی تو با قاعدہ زندگی مشکل کر دی گئی۔ اپنے حامی صحافیوں نے بھی کبھی کسی بات پر جائز تنقید کی تو گالیوں کی بوچھاڑ سے نوازا گیا۔ پھر وہ بھلے ہارون الرشید جیسے سینئیر صحافی ہی کیوں نہ ہوں، جنہوں نے بیس سال تن تنہا کپتان کے لئے لکھا۔

اب سوال یہ ہے کہ سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کسی رہنما نے خواتین رہنماؤں کی موجودگی میں ذو معنی گفتگو کی۔ یہ ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل متصادم ہے۔ آج جب بلاول بھٹو نے امپائر کی انگلی کا ذکر کیا تو شیری رحمان سمیت متعدد خواتین رہنما موجود تھیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد کس شریف آدمی کا جی چاہے گا کہ میدانِ سیاست میں قدم رکھے؟ یہ ہمارے قومی رہنما نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اور یہ طوفانِ بد تمیزی جو چلا ہے، یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ اغلب گمان ہے کہ بد کلامی کا یہ سونامی یہاں رکے گا نہیں۔ کپتان بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ کاش ان بائیس سالوں میں انہوں نے اپنے ورکرز کی تربیت پر توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان کی سیاست کم از کم ایک درجہ بہتر ہوتی۔

ہمارے سیاسی کارکن خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، اپنی جماعت اور لیڈر کی غلطی کا جواز دوسری جماعت کی غلطی سے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ والوں سے لندن فلیٹس کا پوچھو تو جواب آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سرے محل کا پہلے پتا کریں۔ پی ٹی آئی کی کارکردگی، بد اخلاقی یا کسی اور چیز پر تنقید کرو تو جواب میں مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا کوئی مماثلت رکھتا کارنامہ سننے کو ملتا ہے۔ خاکسار یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک جرم دوسرے جرم کی تاویل کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سپورٹرز کو بھی چاہیے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کی حمایت کر کے ذہنی غلامی کا ثبوت دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی غلط بات پر تنقید کر کے لیڈر کو درست راستہ اپنانے کے لئے مجبور کریں۔

اس کے لیے تو آپ ایک علیحدہ لڑی کھولتے تو اچھا تھا۔ بہت لوگوں کو اپنے انداز بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ شاید کچھ لوگ اسے پڑھ کے خود میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے۔
بہرحال بہت اچھی تحریر ہے۔ زبردست تجزیہ ہے۔ یہ مزاج سیاست دانوں سے لے کے ہر سطح پہ ہی بنتا جا رہا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔
اللہ ہمارے اخلاق بہترین بنائے۔ آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کا رانا تنویر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ماننے سے انکار

ویب ڈیسک

03 مئی ، 2019

199583_276205_updates.jpg

فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے رانا تنویر کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس نامزدگی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پارلیمنٹ کی سب سے اہم کمیٹی ہے، ایوان میں پارلیمانی رہنما کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، پارلیمانی لیڈرکی اچانک تبدیلی سے پارلیمنٹ کی کارروائی متاثرہوتی ہے، شہباز شریف قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کابینہ میں تبدیلی پر طوفان برپا کیاگیا جب کہ یہ تبدیلی معمول کا عمل ہے مگر (ن) لیگ کے رہنما تذبذب کا شکار ہیں، (ن) لیگ میں بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں، قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ کیا یہ کوئی ڈیل ہے، ماضی میں بھی ڈیل کے ذریعے (ن) لیگ کی قیادت ملک سے باہر گئی، کیا (ن) لیگ ان تبدیلیوں کی وجوہات سے آگاہ کرےگی۔

ان کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے کل کے فیصلے نے بے شمار سوالوں کو جنم دیا ہے، یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ شہباز شریف مزید کتنے دن لندن میں رہیں گے، نفیسہ شاہ نےبتایا کہ چیئرمین پی اےسی کی تبدیلی پر پی پی کو اعتماد میں نہیں لیاگیا، اچانک تبدیلی پر کیا (ن) لیگ کی قیادت پارلیمان کو اعتماد میں لےگی؟

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اس ضد کی وجہ سے طویل عرصے تک کمیٹیوں کے سربراہاں کا انتخاب نہیں ہوسکتا، اگرخرابی صحت کے باعث پارلیمانی رہنما نہیں بن سکتے تو کیا اپوزیشن لیڈر بن سکتے ہیں، اگر یہ اصول طے ہے کہ پی اے سی چیئرمین اپوزیشن لیڈر ہوگا تو رانا تنویر کیسے؟ تحریک انصاف (ن) لیگ کے فیصلے سے متفق نہیں، تحریک انصاف نے واضح کیا ہےکہ نہ ڈیل ہوگی اور نہ ڈھیل۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اس ضد کی وجہ سے طویل عرصے تک کمیٹیوں کے سربراہاں کا انتخاب نہیں ہوسکتا، اگرخرابی صحت کے باعث پارلیمانی رہنما نہیں بن سکتے تو کیا اپوزیشن لیڈر بن سکتے ہیں، اگر یہ اصول طے ہے کہ پی اے سی چیئرمین اپوزیشن لیڈر ہوگا تو رانا تنویر کیسے؟ تحریک انصاف (ن) لیگ کے فیصلے سے متفق نہیں، تحریک انصاف نے واضح کیا ہےکہ نہ ڈیل ہوگی اور نہ ڈھیل۔
ن لیگ اپنے ہی جال میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ پہلے حکومت سے ضد کرکے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیر مین شہباز شریف کو بنوایا۔ اب جبکہ وہ نیب کیسز سے ڈر کر لندن فرار ہو چکا ہے تو اسکی جگہ کسی اور کو یہ عہدہ دے دیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے اسمبلی کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ ایسی ہوتی ہے ووٹ کی عزت؟
 

جاسم محمد

محفلین
گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا
Last Updated On 03 May,2019 11:04 pm
489933_71747094.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی حکومت نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف بی آر کے چیئرمین کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

دنیا نیوز ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین جہانزیب خان کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اہم اور بڑا فیصلہ اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کامیابی پر بیانیہ: میں نے ورلڈ کپ جیت لیا۔
آٹھ ماہ کی ناکامی پر بیانیہ: میری ٹیم ناکارہ تھی جنھیں میں تبدیل کررہا ہوں۔
ٹیم کے سارے کھلاڑی عمران خان نے نہیں لگائے تھے۔ بہت سے بڑے کھلاڑی پرانے لیگی دور سے چلے آرہے تھے جنہیں 8 ماہ کی ناقص کاکردگی پر اب ہٹایا گیا ہے۔ اگر وزیر اعظم بنتے ساتھ ہی ہٹا دیتے تو کہا جاتا بغض نواز میں ایسا کیا گیا ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
ٹیم کے سارے کھلاڑی عمران خان نے نہیں لگائے تھے۔ بہت سے بڑے کھلاڑی پرانے لیگی دور سے چلے آرہے تھے جنہیں 8 ماہ کی ناقص کاکردگی پر اب ہٹایا گیا ہے۔ اگر وزیر اعظم بنتے ساتھ ہی ہٹا دیتے تو کہا جاتا بغض نواز میں ایسا کیا گیا ہے۔ :)

عذر لنگ و عذر نامعقول یعنی کہ lame excuse
 

جاسم محمد

محفلین
ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے کہ نئی حکومت آتے ساتھ پرانی حکومت کے تمام بڑے کھلاڑیوں کو یکدم برطرف کر دے۔ پرانے اور نئے کھلاڑیوں کو 8 ماہ پورا موقع دیا گیا تھا کہ وہ کارکردگی دکھائیں۔ جو اس ٹیسٹ میں فیل ہوئے ان کو فارغ کر دیا گیا ہے۔
 
Top