سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
رحوم بھٹو کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ فوجی نرسری میں تیار ہوئے، غلط ہے۔ بھٹو خاندان طویل عرصے سے سیاست میں تھا۔ دراصل، بھٹو خاندان سیاست میں تھا مگر جب فوجی براہ راست اقتدار میں آ گئے تو پھر سیاست کے چلن بھی بدل گئے۔ مرحوم بھٹو نے یہ زینہ ضرور استعمال کیا ہو گا تاہم انہوں نے فوج کو للکارا بھی تھا
۱۹۷۰ کے جنرل الیکشن مکمل طور پر صاف شفاف ہوئے تھے۔ فوج نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ نتائج عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھے۔ اب وقت تھا کہ جمہوری اسٹیٹس مین بھٹو اور مجیب الرحمان مل کر ملک و قوم کو متحد کرتے۔ اس کے مستقبل کی راہ متعین کرتے۔ مگر اس وقت موصوف فوج کے ایجنٹ بن گئے اور عوامی لیگ کا مینڈیٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے ممبران کو دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ اگر کسی نے قومی اسمبلی کے اجلاس شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ جب حالات بغاوت اور خانہ جنگی تک آ پہنچے تو ڈیل کر لی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور مشرقی پاکستان عملا ٹوٹ چکا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
۱۹۷۰ کے جنرل الیکشن مکمل طور پر صاف شفاف ہوئے تھے۔ فوج نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ نتائج عوام کے امنگوں کے مطابق تھے۔ اب وقت تھا کہ جمہوری بھٹو اور مجیب الرحمان مل کر ملک کو متحد کرتے۔ مگر اس وقت موصوف فوج کے ایجنٹ بن گئے اور عوامی لیگ کا مینڈیٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے ممبران کو دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ اگر کسی نے قومی اسمبلی کے اجلاس شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ جب حالات بغاوت اور خانہ جنگی تک آ پہنچے تو ڈیل کر لی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور مشرقی پاکستان عملا ٹوٹ چکا تھا۔
جب فوج اقتدار میں آ گئی تو سمجھیں برائی بھی آ گئی ۔۔۔! تو دوش صرف بھٹو کو کیوں دیا جاوے؟ یہ بھٹو کی غلطی ہو گی تاہم پانی جہاں سے گدلا آ رہا ہے، اس پر ہی زیادہ تر توجہ مرکوز رکھیے۔۔۔! پہلے مرض کو جڑ سے پکڑیے ۔۔۔! آپ نے تو بس نتائج پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔۔۔! :) مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ایک دن میں نہیں بنا تھا ۔۔۔! آپ تاریخ کو پھر سے پڑھیے ۔۔۔! پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جو کچھ ہوا، اس کے باعث مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا تھا ۔۔۔ بھٹو صاحب تیزی سے لڑھکتے پتھر کو کیونکر روک پاتے ۔۔۔! حسین شہید سہروردی کے ساتھ آپ نے کیا کیا تھا؟ محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کس نے کہا تھا؟ بنگالیوں کو سائیڈ لائن کیوں کیا گیا؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جب فوجی آ گئے تو برائی بھی آ گئی ۔۔۔!
فوجی بہت بعد میں بغاوت کو لگام دینے آئے تھے۔ سب سے پہلے بھٹو نے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کیا تھا کیونکہ یہ گھگو گھوڑا انتخابات ہار چکا تھا۔ اور عوامی لیگ کی جمہوری حکومت اس نام نہاد جمہوریے کو قبول نہ تھی۔
یوں صدر یحیی خان نے اپوزیشن لیڈر بھٹو کی پوزیشن دیکھتے ہوئے اقتدار مجیب الرحمان کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت پھوٹی اور فوج کو حالات کنٹرول کرنے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔ اگر جمہوریہ بھٹو اپنی انا توڑ کر اس وقت الیکشن کے نتائج تسلیم کر لیتا تو تو مشرقی پاکستان میں بغاوت نہ ہوتی، فوجی ایکشن کی ضرورت نہ پڑتی اور ملک آج بھی متحد ہوتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
فوجی بہت بعد میں بغاوت کو لگام دینے آئے تھے۔ سب سے پہلے بھٹو نے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کیا تھا کیونکہ یہ گھگو گھوڑا انتخابات ہار چکا تھا۔ اور عوامی لیگ کی جمہوری حکومت اس نام نہاد جمہوریے کو قبول نہ تھی۔ صدر یحیی خان نے اپوزیشن لیڈر بھٹو کی پوزیشن دیکھتے ہوئے اقتدار مجیب الرحمان کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں مشرقی پاکستان میں بغاوت پھوٹی اور فوج کو حالات کنٹرول کرنے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔ اگر جمہوریہ بھٹو اپنی انا توڑ کر اس وقت الیکشن کے نتائج کر لیتا تو تو مشرقی پاکستان میں بغاوت نہ ہوتی، فوجی ایکشن کی ضرورت نہ پڑتی اور ملک آج بھی متحد ہوتا۔
بات پچاس کی دہائی کی ہو رہی ہے اور بنگالیوں کی محرومی کی ہو رہی ہے۔ آپ نے تو بس نتائج پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔۔۔! :) ایک بار پھر، ہمارا پچھلا مراسلہ دیکھیے ۔۔۔! :) اگر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھٹو کا کردار کلیدی تھا، تو آپ کی بات درست ہو گی تاہم ذرا بنگلہ دیش کی تاریخ کو بغور پڑھیے گا ۔۔۔! یہ آگ تو وہاں پچاس کی دہائی سے بھڑک رہی تھی ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
بات پچاس کی دہائی کی ہو رہی ہے اور بنگالیوں کی محرومی کی ہو رہی ہے۔
متفق۔ ایوب نے ۱۹۵۶ کا متفقہ آئین اپنے گھگو گھوڑے سکندر مرزا سے تڑوا کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ مگر یہ کوئی ایسا گناہ نہیں تھا کہ جس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔ ۱۹۷۰ کے عام انتخابات صاف شفاف ہونا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ فوج نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ جو لیگل فریم ورک انتخابات سے قبل طے کیا گیا تھا، اس کے مطابق حکومت مجیب الرحمان کی بننی چاہیے تھی۔ بھٹو کو یہ الیکشن نتائج قبول کرنے چاہیے تھے۔ مگر وہ روندو بن گئے اور ملک تڑوا کر دم لیا۔ کم از کم بھٹو جیسے تجربہ رکھنے والے جمہوری اسٹیٹس مین سے اس کی توقع نہیں تھی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بچے ملک سے باہر، اثاثے ملک سے باہر، علاج ملک سے باہر، لیکن حکومت پاکستان میں کرنی ہے۔ ایک ایسا شخص جس کو کئی سال قید کی سزا ہے پہلے عدالت کو دباؤ میں لا کر جیل سے باہر آتا ہے اور پھر درخواست دیتا ہے اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی دی جائے۔
ایسے انصاف کے نظام پر فاتحہ خوانی کر لینی چاہیے۔

نواز شریف نے بیرون ملک علاج کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی
ویب ڈیسک
جمعرات 25 اپريل 2019
1645886-nawazsharif-1556185687.jpg

پاکستان میں نواز شریف کو علاج کے لیے پابند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، درخواست میں موقف

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیرون ملک علاج کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 15 صفحات پر مشتمل نظر ثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمٰی نے 26 مارچ کو 6 ہفتوں کے لیے مشروط ضمانت دی تھی، ضمانت طبی بنیادوں پر دی گئی، 26 مارچ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ نوازشریف 6 ہفتوں کے دوران ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نواز شریف کے پاکستان میں علاج کرانے کی پابندی پر نظر ثانی کی جائے، نواز شریف کا علاج اسی ڈاکٹر سے ممکن ہے جس نے برطانیہ میں ان کا علاج کیا تھا سپریم کورٹ نے لکھوائے گئے حکم نامے میں کہا ہے کہ نواز شریف ضمانت میں توسیع کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں تاہم تحریری حکم نامے میں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کاحصہ شامل نہیں ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نواز شریف کی مکمل صحتیابی 6 ہفتوں میں ناممکن ہے جب کہ پاکستان، برطانیہ، امریکا اور سوئٹزرلینڈ کے طبی ماہرین کے مطابق نواز شریف کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو دل اور گردوں کے امراض لاحق ہیں، اس کے علاوہ سابق وزیراعظم ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے تیسرے درجے کی بیماری میں مبتلا ہیں لہذا صرف پاکستان کے اندر نواز شریف کو علاج کے لیے پابند کرنے کے 26 مارچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ ایوب نے ۱۹۵۶ کا متفقہ آئین اپنے گھگو گھوڑے سکندر مرزا سے تڑوا کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ مگر یہ کوئی ایسا گناہ نہیں تھا کہ جس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔ ۱۹۷۰ کے عام انتخابات صاف شفاف ہونا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ فوج نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ جو لیگل فریم ورک انتخابات سے قبل طے کیا گیا تھا، اس کے مطابق حکومت مجیب الرحمان کی بننی چاہیے تھی۔ بھٹو کو یہ الیکشن نتائج قبول کرنے چاہیے تھے۔ مگر وہ روندو بن گئے اور ملک تڑوا کر دم لیا۔ کم از کم بھٹو جیسے تجربہ رکھنے والے جمہوری اسٹیٹس مین سے اس کی توقع نہیں تھی۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ۔۔۔ ایک دم نہیں ہوتا
 

جاسم محمد

محفلین
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ۔۔۔ ایک دم نہیں ہوتا
اب یہ پیپلز پارٹی والے اپنی کرپشن بچانے کیلئے دوبارہ ملک توڑیں گے۔ پہلے الیکشن ہارنے پر ملک توڑا تھا۔

خبردار کرتا ہوں، ون یونٹ یا صدارتی نظام نافذ کیا تو ملک ٹوٹے گا: بلاول

ویب ڈیسک

25 اپریل ، 2019

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہےکہ وہ خبردار کرتے ہیں اگر ون یونٹ یا صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک ٹوٹے گا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں، مہنگائی کی وجہ سے پاکستانیوں کی زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے، یہ کیسی حکومت ہے جس کا وزیرخزانہ کہتاہے ہماری پالیسیوں سے عوام کی چیخیں نکلیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی اور ریلیف امیر ترین لوگوں کے لیے ہے، کیا غریب عوام کو ریلیف مل سکتا ہے؟کیسی حکومت ہےجو کہتی ہے مہنگائی ایشو نہیں، یہ ظالم حکمران ہیں ان کے دل میں غریب کے لیے کوئی درد نہیں، اب یہ لوگ کٹوتی پر سوچ رہے ہیں ،سبسڈیز ختم کریں گے تاکہ امیروں کو ریلیف پہنچادیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عوام کا خیال رکھیں ورنہ ری ایکشن آئے گا، اس بجٹ میں ریلیف نہ ہوا تو عوام خود نکلیں گے، عوام ایک حد تک برداشت کرسکتے ہیں، آپ عوام پر جو بوجھ ڈالنے والے ہیں ہم اسے برداشت نہیں کریں گے، آپ کہتے تھے آئی ایم ایف سے ڈیل لینے سے پہلے خود کشی کرلوں گا لیکن آپ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔

ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ’اگر ون یونٹ یا صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو خبردار کرتا ہوں ملک ٹوٹے گا‘۔

وزیراعظم کہہ رہے ہیں عورت ہونا ایک گالی ہیے: بلاول


وزیراعظم کے بیان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اس قسم کا بیان دینے سے آپ اپنا قد چھوٹا کرتے ہیں، کسی اور کا قد چھوٹا نہیں ہوا، یہ کہنے سے مردوں کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا لیکن یہ پاکستان کی بیٹیوں، بچیوں اور عورتوں کے کیا پیغام ہے، وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ عورت ہونا ایک گالی ہے، یہ انتہائی قدم ہے، آپ مدینہ کی ریاست کی باتیں کرتے ہیں اگر اسلام میں عورتوں کا کردار نہ ہوتا تو کیا ہمیں کربلا یاد ہوتا، یہاں ہماری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ تھیں، اگر فاطمہ جناح نہ ہوتیں تو کیا پاکستان بنتا، اگر وہ نہ ہوتیں تو کون ایوب خان کے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہوتا‘۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پوری اسلامی دنیا میں سب سےپہلے خاتون کو وزیراعظم بنایا، ہماری ملالہ جیسی بچیاں ہیں، پاکستان کی عورتیں بہادر ہیں، پاکستان کی عورتوں کا باقی دنیا کی عورتوں سے موازنہ کریں، ہم اپنے ملک کی خواتین پر فخر کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں ملک کی خواتین کو سیاست، معیشت اور معاشرے میں جگہ دینی چاہیے‘۔

بلاول کا عمران خان کیلئے مذکر کی بجائے مؤنث کا استعمال

پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے وزیراعظم کے لیے مذکر کی بجائے مؤنث کا استعمال کیا اور کہا کہ ’اگر عمران خان ’سمجھتی‘ ہیں اس قسم کا بیان دے کر وہ کسی کی تضحیک کررہے ہیں توہ اپنے آپ کی تضحیک کررہے ہیں، ہم سب جانتے ہیں وہ کیسے وزیراعظم بنے، اب اگر بن ہی گئے ہیں تو اس کرسی کا احترام کریں اور اپنا کام کریں‘۔

شاہ محمود اپنے وزیراعظم کو ایسے اکیلا نہ چھوڑیں: بلاول
انہوں نے کہا کہ ’سلپ آف ٹنگ جتنا اس وزیراعظم سے ہوتا ہے یہ اسپیڈ لائٹ سے زیادہ ہے، اگر انہیں کچھ نہیں پتا تو بات نہ کریں، اگر اچھی بات نہیں کرنا تو بات نہ کریں، شاہ محمود قریشی سے اپیل کرتا ہوں اپنے وزیراعظم کو کسی ملک میں اکیلا نہ چھوڑیں تاکہ ان کی سلپ آف ٹنگ نہ ہو اور پورا ملک شرمندہ نہ ہو، ہمارے وزیراعظم نے جرمنی جاپان کو ہمسایہ قرار دیا، یہ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں، وزیرخارجہ نے کہا کہ ایران سے پاکستان میں حملے ہوتے ہیں لیکن وزیراعظم ایران جاکر کہتے ہیں کہ حملے پاکستان سے ایران پر ہوتے ہیں، جب سلیکٹڈ نالائق اور نااہل کو ملک پر مسلط کردیا ہے تو سینئر وزیر اور مشیر وزیراعظم کو کنٹرول کریں‘۔

سلیکٹر سے سوال کرتا ہوں آپ کو تبدیلی پسند آئی: چیئرمین پیپلزپارٹی
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’جنہوں نے سلیکٹ کیا اور جو سلیکٹڈ ہیں ان سے کہتا ہوں، جو سلیکٹڈ ہیں ان سے کہوں گا کہ امپائر کی انگلی پسند آئی، جنہوں نے سلیکٹ کیا ان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کو تبدیلی پسند آئی‘۔
 

فرقان احمد

محفلین
اب یہ پیپلز پارٹی والے اپنی کرپشن بچانے کیلئے دوبارہ ملک توڑیں گے۔ پہلے الیکشن ہارنے پر ملک توڑا تھا۔
ملک توڑنے کا ذمہ دار صرف بھٹو کو ٹھہرانا یقینی طور پر ایک بڑا تاریخی مغالطہ ہے۔ آپ کو ایک بار پھر غیر جانب داری سے تاریخ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ آپ اس طرح کے سطحی بیانیے پیش کرنے والوں کی آواز میں آواز ملا کر سچ کو کبھی سامنے آنے نہ دیں گے ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
ملک توڑنے کا ذمہ دار صرف بھٹو کو ٹھہرانا یقینی طور پر ایک بڑا تاریخی مغالطہ ہے۔
ارے بھئ ہم نے ایسا کہیں نہیں کہا۔ ملک توڑنے میں خاکیان نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جمہوری نظام کے خلاف خاکیان جو “سازشیں” کرتے آئے ہیں اس کا سدباب فوج پر تنقید نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محض تنقید پر سدھرنے والی قبیل سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ بھی الحمدللّٰہ دیگر قوم کی طرح لاتوں کی بھوت ہے اور انتہا درجہ کی ڈھیٹ مخلوق ہے۔
اسی لیے اگر جمہوری نظام میں فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو جمہوری قوتوں کو میثاق جمہوریت پر من و عن بغیر کسی مصلحت کے عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو تاریخ نے موقع دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاکیان کی چھٹی کرا دیتے۔ مگر چونکہ یہ نقلی جمہوریے خود بدنیت تھے اس لیے آج پھر وہی فوج کی حکومت ہے۔ اور آیندہ بھی رہے گی جب تک میثاق جمہوریت پر صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ارے بھئ ہم نے ایسا کہیں نہیں کہا۔ ملک توڑنے میں خاکیان نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جمہوری نظام کے خلاف خاکیان جو “سازشیں” کرتے آئے ہیں اس کا سدباب فوج پر تنقید نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محض تنقید پر سدھرنے والی قبیل سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ بھی الحمدللّٰہ دیگر قوم کی طرح لاتوں کی بھوت ہے اور انتہا درجہ کی ڈھیٹ مخلوق ہے۔
اسی لیے اگر جمہوری نظام میں فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو جمہوری قوتوں کو میثاق جمہوریت پر من و عن بغیر کسی مصلحت کے عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو تاریخ نے موقع دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاکیان کی چھٹی کرا دیتے۔ مگر چونکہ یہ نقلی جمہوریے خود بدنیت تھے اس لیے آج پھر وہی فوج کی حکومت ہے۔ اور آیندہ بھی رہے گی جب تک میثاق جمہوریت پر صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوتا۔
میثاقِ جمہوریت پر چلنے کے لیے ایسے رہنما درکار ہیں جن کا دامن صاف ہو یا دوسری صورت یہی ہے کہ بڑی سیاسی قوتیں اس حوالے سے یک زبان و یک آواز ہوں۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت ملک میں پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تقسیم کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں چاہے وہ سیاسی میدان ہو، میڈیا کا بازار ہو یا کورٹ کچہری ہو ۔۔۔! وغیرہ وغیرہ ۔۔۔! :) دراصل، مستقبل قریب میں ڈھول سپاہیا سے جان چھڑانا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔۔۔! ممکن ہے کہ بالغ النظر سیاسی قیادت سامنے آ ہی جائے وقت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔! امید پر دنیا قائم ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
ڈرتے ہیں تبدیلی والے ایک نہتی لڑکی سے، بلاول بھٹو زرداری

آج کے اس بیان حلفی کے بعد بھی عمران خان کا بلاول صاحبہ والا بیان اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی؟
 
ڈرتے ہیں تبدیلی والے ایک نہتی لڑکی سے، بلاول بھٹو زرداری

آج کے اس بیان حلفی کے بعد بھی عمران خان کا بلاول صاحبہ والا بیان اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی؟
اگر آپ کو نہیں معلوم تو عرض یہ ہے کہ یہ نعرہ مریم نواز شریف کے لیے لگایا جاتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ڈرتے ہیں تبدیلی والے ایک نہتی لڑکی سے، بلاول بھٹو زرداری

آج کے اس بیان حلفی کے بعد بھی عمران خان کا بلاول صاحبہ والا بیان اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی؟
اگر آپ کو نہیں معلوم تو عرض یہ ہے کہ یہ نعرہ مریم نواز شریف کے لیے لگایا جاتا ہے۔

دراصل یہ نعرہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے مختص تھا جو انیس سو اسی کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف ایک توانا آواز بن کر سیاسی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آئی تھیں۔ بعدازاں، اسے مریم نواز صاحبہ نے بھی اپنایا۔ بلاول اکثر و بیشتر یہ نعرے اپنے جلسوں میں لگواتے رہے ہیں۔
 
دراصل یہ نعرہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے مختص تھا جو انیس سو اسی کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف ایک توانا آواز بن کر سیاسی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آئی تھیں۔ بعدازاں، اسے مریم نواز صاحبہ نے بھی اپنایا۔ بلاول اکثر و بیشتر یہ نعرے اپنے جلسوں میں لگواتے رہے ہیں۔
میں نے بے نظیر بھٹو کا تذکرہ دانستہ نہیں کیا تھا۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
میثاقِ جمہوریت پر چلنے کے لیے ایسے رہنما درکار ہیں جن کا دامن صاف ہو یا دوسری صورت یہی ہے کہ بڑی سیاسی قوتیں اس حوالے سے یک زبان و یک آواز ہوں۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت ملک میں پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تقسیم کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں چاہے وہ سیاسی میدان ہو، میڈیا کا بازار ہو یا کورٹ کچہری ہو ۔۔۔! وغیرہ وغیرہ ۔۔۔! :) دراصل، مستقبل قریب میں ڈھول سپاہیا سے جان چھڑانا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔۔۔! ممکن ہے کہ بالغ النظر سیاسی قیادت سامنے آ ہی جائے وقت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔! امید پر دنیا قائم ہے ۔۔۔!
میڈیا کی ترقی کے بعد اور بار بار ڈسے جانے کے بعد پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی ارتقا کی طرف ایک قدم ہے کہ مزاحمت چاہے ہلکی پھلکی ہی سہی، لاکھ قدغن لگانے کے باوجود ہی سہی سامنے ضرور آ رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر اختلاف رائے رکھنے والوں پہ قدغن لگانے کی بجائے ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ ان کے لیے بہت اچھا وقت ہے سیاست سے علیحدگی کا ورنہ انقلاب بصورت ٹکراؤ کا کبھی نہ کبھی سامنا کرنا پڑے گا (اور ہونا بھی یہی ہے کیونکہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی)۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو کیا بلاول مریم کے لیے لگایا جانے والا نعرہ لگا کر اصطبلیہ کو نہیں تپا سکتا ؟
اصطبلیہ کو اگر واقعتا تپانا ہے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی آپس میں ضم ہو کر میثاق جمہوریت پر دوٹوک عمل درآمد شروع کر دے ۔ نہیں تو یہ ڈھول سپاہیا کا کھیل جاری رہے گا :)
پیپلزپارٹی، ن لیگ کے متبادل کے طور پر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ
 
Top