سیاسی منظر نامہ

میڈیا کی ترقی کے بعد اور بار بار ڈسے جانے کے بعد پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی ارتقا کی طرف ایک قدم ہے کہ مزاحمت چاہے ہلکی پھلکی ہی سہی، لاکھ قدغن لگانے کے باوجود ہی سہی سامنے ضرور آ رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر اختلاف رائے رکھنے والوں پہ قدغن لگانے کی بجائے ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ ان کے لیے بہت اچھا وقت ہے سیاست سے علیحدگی کا ورنہ انقلاب بصورت ٹکراؤ کا کبھی نہ کبھی سامنا کرنا پڑے گا (اور ہونا بھی یہی ہے کیونکہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی)۔
یہ نہیں سدھرنے والے اتنی جلدی۔
دو دہائیوں سے قبائلی ایجنسیوں میں پنگے لے رہے ہیں، اب پی ٹی ایم کھڑی ہوئی اور بڑے بڑے جلسے کرنا شروع کیے تو کٹھ پتلی کو آگے کر دیا کہ لے ھن توں سانبھ۔ کہ کل کلاں اگر کچھ الٹا سیدھا ہو گیا تو ہم بری الذمہ ہو جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دو دہائیوں سے قبائلی ایجنسیوں میں پنگے لے رہے ہیں، اب پی ٹی ایم کھڑی ہوئی
قبائیلی جب اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کو پناہ دیں گے تو فوج پنگے تو لے گی۔ ویسے پی ٹی ایم کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں موجود ہیں۔ اور تحریک انصاف ان سے ہمدردی رکھتی ہے۔
 

جان

محفلین
قبائیلی جب اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کو پناہ دیں گے تو فوج پنگے تو لے گی۔ ویسے پی ٹی ایم کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں موجود ہیں۔ اور تحریک انصاف ان سے ہمدردی رکھتی ہے۔
اول یہ "دہشت گرد" بنائے کس نے؟
دوم مسئلہ صرف دہشتگردوں کو پناہ دینے کا نہیں بلکہ معاشرتی دخل اندازی کا ہے۔ جب آپ جگہ جگہ چیک پوسٹیں لگائیں گے، ہر فرد کو مشکوک نظروں سے دیکھیں گے، غیر علاقائی فوجی تعینات کریں گے، ان کے کلچر کے ساتھ کھلواڑ کریں گے، اور بے جا، بے پناہ اور غیر ضروری طاقت کا استعمال کریں گے تو یہ قدرتی امر ہے کہ وہاں مزاحمت پیدا ہو گی۔ یہ کوئی آج کے دور یا صرف پاکستان کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور میں اور ہر علاقہ میں معاشرتی دخل اندازی کے خلاف آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔ زیادہ دور نہیں بلکہ جنگ آزادی اور برِ صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے درمیان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے یہ سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ جب جب انگریز نے معاشرتی معاملات میں دخل اندازی کی انہیں مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ ہم تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق نہ سیکھے تو اس سے کیا سیکھیں گے۔ ہم ہمیشہ سبق سیکھنے کی بجائے پرانی تاریخ کی سلیٹ صاف کر کے یا اس کو طلسماتی یا سازشی رنگ دے کر نئی تجرباتی تاریخ لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوم مسئلہ صرف دہشتگردوں کو پناہ دینے کا نہیں بلکہ معاشرتی دخل اندازی کا ہے۔ جب آپ جگہ جگہ چیک پوسٹیں لگائیں گے، ہر فرد کو مشکوک نظروں سے دیکھیں گے، غیر علاقائی فوجی تعینات کریں گے، ان کے کلچر کے ساتھ کھلواڑ کریں گے، اور بے جا، بے پناہ اور غیر ضروری طاقت کا استعمال کریں گے تو یہ قدرتی امر ہے کہ وہاں مزاحمت پیدا ہو گی۔
9،11 حملوں اور امریکہ کی افغانستان میں جوابی کاروائی کےبعد ان آزاد قبائیلی علاقہ جات میں دہشت گرد جا کر چھپ گئے تھے۔ فوج ان کو وہاں سے نکالنے کیلئے گئی تھی جس کے نتیجہ میں بڑی سخت تباہی آئی اور آئی ڈی پیز کا سارا معاملہ شروع ہوا۔ پی ٹی ایم ان آئی ڈی پیز کے حقوق کی تحریک ہے۔ اور اس معاملہ میں تحریک انصاف کی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر قبائلی دہشت گردوں کو اپنے علاقوں میں پناہ نہ دیتے تو فوج کو وہاں کوئی آپریشن کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
 

جان

محفلین
9،11 حملوں اور امریکہ کی افغانستان میں جوابی کاروائی کےبعد ان آزاد قبائیلی علاقہ جات میں دہشت گرد جا کر چھپ گئے تھے۔ فوج ان کو وہاں سے نکالنے کیلئے گئی تھی جس کے نتیجہ میں بڑی سخت تباہی آئی اور آئی ڈی پیز کا سارا معاملہ شروع ہوا۔ پی ٹی ایم ان آئی ڈی پیز کے حقوق کی تحریک ہے۔ اور اس معاملہ میں تحریک انصاف کی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر قبائلی دہشت گردوں کو اپنے علاقوں میں پناہ نہ دیتے تو فوج کو وہاں کوئی آپریشن کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
آپ نے شاید کنفیشس کا یہ قول نہیں پڑھا۔۔۔۔"It is only when a mosquito lands۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔
 
9،11 حملوں اور امریکہ کی افغانستان میں جوابی کاروائی کےبعد ان آزاد قبائیلی علاقہ جات میں دہشت گرد جا کر چھپ گئے تھے۔ فوج ان کو وہاں سے نکالنے کیلئے گئی تھی جس کے نتیجہ میں بڑی سخت تباہی آئی اور آئی ڈی پیز کا سارا معاملہ شروع ہوا۔ پی ٹی ایم ان آئی ڈی پیز کے حقوق کی تحریک ہے۔ اور اس معاملہ میں تحریک انصاف کی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر قبائلی دہشت گردوں کو اپنے علاقوں میں پناہ نہ دیتے تو فوج کو وہاں کوئی آپریشن کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
کون سے دہشت گرد؟ 9/11 سے پہلے انھی لوگوں کو بھوٹان کے سب براس بٹنوں والے عظیم مجاہدین کہا کرتے تھے اور انھیں حربی تربیت و ساز وسامان مہیا کرنا ریاست کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا اہم جزو تھا۔

ٹاور گرے یا گرائے گئے تو نکے بش نے ایک بیان جاری کیا ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف، پھر اس کے وارئیر پاول نے ایک ہی ٹلی کھڑکائی تو کُل جہان نے دیکھا کہ ریاست کے بھوٹانی تھموں نے صبح کے تخت نشین شام کے مجرم ٹھہرا دئیے۔

آپ نے شاید کنفیشس کا یہ قول نہیں پڑھا۔۔۔۔"It is only when a mosquito lands۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔
لولز۔
 

جاسم محمد

محفلین
کون سے دہشت گرد؟ 9/11 سے پہلے انھی لوگوں کو بھوٹان کے سب براس بٹنوں والے عظیم مجاہدین کہا کرتے تھے اور انھیں حربی تربیت و ساز وسامان مہیا کرنا ریاست کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا اہم جزو تھا۔
ٹاور گرے یا گرائے گئے تو نکے بش نے ایک بیان جاری کیا ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف، پھر اس کے وارئیر پاول نے ایک ہی ٹلی کھڑکائی تو کُل جہان نے دیکھا کہ ریاست کے بھوٹانی تھموں نے صبح کے تخت نشین شام کے مجرم ٹھہرا دئیے۔
یہ پہلی پالیسی بھی ضیا دور میں ڈھول سپاہیا کو امریکہ بہادر نے ہی دی تھی۔ جو پالیسی دے سکتا ہے وہ اسے تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ ڈھول سپاہیا کا کام صرف یس سر کے بدلے ڈالر اینٹھنا ہے :)
reagan-taliban.jpg
 

فاخر رضا

محفلین
تقریباً چھ صفحات پڑھنے تھے اس لڑی کے، مگر چونکہ جاسم کے مراسلے پڑھنے پر پابندی ہے لہٰذا پانچ منٹ میں فارغ ہو گیا
جو لوگ اس ٹرول کے ٹریپ میں اسکے ساتھ بھڑتے رہتے ہیں وہ بھی یہ نسخہ آزما سکتے ہیں
 
تقریباً چھ صفحات پڑھنے تھے اس لڑی کے، مگر چونکہ جاسم کے مراسلے پڑھنے پر پابندی ہے لہٰذا پانچ منٹ میں فارغ ہو گیا
جو لوگ اس ٹرول کے ٹریپ میں اسکے ساتھ بھڑتے رہتے ہیں وہ بھی یہ نسخہ آزما سکتے ہیں
اکثر لوگ یہی کچھ کر رہے ہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی بل پر ہنگامہ، (ن) لیگ کے 3 ارکان کی رکنیت معطل
199394_4569583_updates.jpg

فائل فوٹو: اشرف رسول، عظمیٰ بخاری

لاہور: بلدیاتی بل کے معاملے پر اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ کھڑا کردیا جب کہ ڈپٹی اسپیکر نے (ن) لیگ کے 3 ارکان کی رکنیت معطل کردی۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے اپوزیشن ارکان کی ممبر شپ معطل کیے جانے پر اپوزیشن نے ایوان میں شدید احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا۔

خاتون رکن عظمیٰ بخاری کے ریمارکس پر وزیر قانون پنجاب برہم ہوگئے جب کہ ڈپٹی اسپیکر نے بھی اپوزیشن پر برہمی کا اظہار کیا۔

وزیر قانون راجہ بشارت نے عظمیٰ بخاری کے ریمارکس پر کہا کہ خاتون کے ناطے عزت کرتے ہیں یہ بات کرنے کا کیا طریقہ ہے؟۔

بعد ازاں کورم پورا نہ ہونے پر اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب صمصام بخاری نے بتایا کہ ڈپٹی اسیپکر نے تین ارکان کو معطل کیا ہے جن میں مسلم لیگ (ن) کی عظمیٰ بخاری، عبدالرؤف اور اشرف رسول شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام کا بل کمیٹی نے پاس کیا، کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی شامل تھے، (ن) لیگ کےارکان توقیر کی بات کرتے ہیں، مسلم لیگ (ن) اپنے ان اراکین کی تربیت کرے، اسمبلی میں شور شرابہ اصل میں کرپشن کیسز سےتوجہ ہٹانے کے لیے ہے، نیب خود مختار ادارہ ہے، اس سےحکومت کا کوئی تعلق نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اصطبلیہ کو اگر واقعتا تپانا ہے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی آپس میں ضم ہو کر میثاق جمہوریت پر دوٹوک عمل درآمد شروع کر دے ۔ نہیں تو یہ ڈھول سپاہیا کا کھیل جاری رہے گا :)
پیپلزپارٹی، ن لیگ کے متبادل کے طور پر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ
میثاق جمہوریت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ۔۔۔! کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی ۔۔۔! اب یہ ملیں گے تو اس کا واحد مطلب یہی لیا جائے گا کہ اپنی بدعنوانی کو کور دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔! معیشت کے میدان میں حکومت کی سبکی اسی طرح ہوتی رہی تو ان کو کچھ بھی مزید کرنے کی کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔ اس لیے حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دے تو مناسب رہے گا۔ محض احتساب کے نعرے سے کام نہیں چلے گا اور اس حقیقت کا ادراک حکومتی صفوں میں موجود افراد کو جس قدر جلد ہو جائے، بہتر ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
غلیظ سے غلیظ تر ہوتی سیاست
27/04/2019 یوسف رشید



کار زارِ سیاست سے اگرچہ کچھ زیادہ خوش فہمیاں وابستہ نہیں، لیکن حالیہ چند سالوں میں دشنام طرازی، بہتان تراشی، فحش و لغو گفتگو اور بد اخلاقی کے جس معیار پر ہماری سیاست پہنچ چکی ہے، اس کے بعد کسی شریف خاندانی آدمی کے لئے سیاست میں قدم رکھنا خاصا دشوار ہو چکا ہے۔ یہ موضوع ایک بار پھر زیربحث اس لئے ہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو بلاول صاحبہ کہا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ چہرے پر مخصوص تمسخرانہ تاثرات کے ساتھ کپتان عوام کے ردِ عمل سے خوب محظوظ ہوئے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ غلطی سے کہہ دیا، دروغ گوئی ہے۔

سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یاد نہیں پڑتا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لئے اخلاق سے عاری القابات اور فحش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایوب خان کی فاطمہ جناح سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قائد اعظم کی ہم شِیر واضح طور پر فیلڈ مارشل کے اقتدار کے لئے خطرہ تھیں۔ ایوب خان نے انہیں امریکی اور انڈین ایجنٹ تک کہا لیکن کبھی بد زبانی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اور تو اور جب سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے تو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کے چلتے بنے۔

اسی کی دہائی تک سیاست مجموعی طور شایستگی کے لبادے میں رہی۔ اس عرصے میں واحد استثنیٰ ذوالفقار علی بھٹو ہیں، جنہوں نے اپنے مخالفین کو گالیوں اور بد تمیزی پر مبنی القابات سے پکارا۔ بھٹو کو اپنی مقبولیت کا زعم بہت تھا۔ اس زعم میں وہ مخالفین کے لئے نا مناسب الفاظ استعمال کر بیٹھتے تھے۔ مثلاً بھٹو، ائیر مارشل اصغر خان کو آلو کہا کرتے تھے، مولانا مودودی کو اچھرے کا پوپ کہا کرتے تھے، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتے تھے، اور تو اور اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کو مولانا وہسکی کہہ کر پکارتے، ایک بار ایک رپورٹر نے احمد سعید کرمانی کے بارے میں سوال کیا تو ’ہو از شی‘ کہہ کر استفسار کیا۔ اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ان الفاظ کی ہے جو بھٹو نے پاکستانی سیاست میں متعارف کروائے۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے بد گوئی کے اس سلسلے کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔ اگر چہ میاں نواز شریف خود شایستگی کے لبادے میں رہتے، لیکن سب کچھ انہی کے ایما پر ہو رہا ہوتا تھا۔ شیخ رشید ان دنوں نواز شریف کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے ایک سے ایک اوچھی حرکت کرتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جعلی فحش تصاویر کے پمفلٹ ہیلی کاپٹر سے پھینکوائے جاتے، شیخ رشید نے ایک سے زیادہ مرتبہ بے نظیر بھٹو کو ییلو کیب کہا۔

اس کے معنی ظاہر ہے انتہائی گھٹیا تھے۔ محترمہ عموماً شایستگی اپناتیں اور اس طرح کی باتوں کا جواب نہیں دیتی تھیں۔ ایک موقع پر اگر چہ احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھیں، اور میاں نواز شریف کے شیر کہلانے پر تبصرہ کیا کہ امی جنگل گئی تھیں یا شیر گھر آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بد اخلاقی کا مظاہرہ تھا۔ حالیہ سالوں میں شیخ رشید کی خدمات سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ نون نے طلال چودھری، دانیال عزیز اور رانا ثنا اللہ جیسے چہروں کو استعال کیا۔ شنید ہے کہ میاں صاحب اپنے ان حواریوں کی کارکردگی سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ اگرچہ خود انہوں نے اپنے بد ترین مخالفین جیسے جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے لئے بھی مشرف صاحب اور عمران خان صاحب کے الفاظ اسعتمال کیے۔

گزشتہ چند ماہ سے شیخ رشید احمد مسلسل بلاول بھٹو کے بارے میں اشاروں کنایوں میں فحش گفتگو کر رہے تھے، ان کے تبصرے ہمیشہ ذُو معنی رہے۔ بلاول کو بلو رانی کہہ کر پکارتے رہے، لال حویلی آنے کی دعوت دیتے رہے اور جانے کیا کچھ۔ یہ سب کچھ بھی غلط تھا۔ لیکن بلاول نے کبھی ان باتوں کا جواب نہیں دیا۔ اگر چہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے، لیکن بہر حال بلاول پیپلز پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کے شیخ رشید کی باتوں کو اگنور کرنے سے اس موضوع نے زیادہ اڑان نہیں پکڑی، وگرنہ بلاول شیخ رشید کی سطح پر آ جاتے تو شیخ جی کو زیادہ اہمیت ملتی۔

مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد مسلم لیگ کی حکومت پر شدید تنقید کیا کرتے۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعروں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف یلغار کی جاتی تو لاہور میں جماعت کے خلاف آپریشن ہوتے۔ اس پورے قضیے میں کبھی میاں صاحب نے قاضی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اگر ایسا کرتے تو ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کے منصب سے ایک چھوٹی جماعت کی سطح پر آ جاتے۔ بلاول نے بھی ایسا ہی کیا اور شیخ رشید کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

وزیر اعظم عمران خان کے ریمارکس اگر چہ اس نوعیت کے نہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ رشید، رانا ثنا اور طلال چودھری استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا بلاول کو صاحبہ کہنا بھی ناگوار گزرا۔ اس پورے معاملے میں ایک پہلو جس پر زیادہ بات نہیں ہوئی اور خاکسار کو معاشرتی بے حسی پر خاصا ملال ہوا، وہ یہ کہ آج بھی یہ معاشرہ عورت کو کم تر سمجھتا ہے، کسی کو گالی دینی ہو تو اسے عورت کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور سننے والے محظوظ ہوتے ہیں۔

یہ عورت کا مقام ہرگز نہ تھا۔ خیر وزیر اعظم کے الفاظ پر خوب لے دے ہوئی۔ خاکسار نے بھی تنقید کی، بس اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس عاجز پر اتنی تنقید ہوئی کہ اللٰہ دے اور بندہ لے۔ بار ہا عرض کیا کہ ایک قومی رہنما کے طور پر عمران خان کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ان کی کنٹینر کی بہت سی تقریریں ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا نہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان کا دفاع کر سکتا ہے۔ اب تو بہر حال وہ وزیر اعظم ہیں اور کسی ایک جماعت کے نہیں، پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ تو اب ایسی اوچھی حرکتیں انہیں زیب نہیں دیتیں۔

اگلے روز بلاول بھٹو نے جوابی حملہ کر کے کسر پوری کر دی۔ اب اس کی اس بد اخلاقی کے بعد خاکسار کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر چہ کھل کر بلاول کے الفاظ پر بھی تنقید کی۔ بد کلامی اور فحش گوئی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ سب ایک وزیر اعظم اور ایک بڑی پارٹی کے چئیرمین کے درمیان ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس پورے تماشے سے بلاول عمران خان کو اپنی سطح پر لانے میں کام یاب ہو گئے، جو بہر طور وزیر اعظم کے شایانِ شان نہیں۔

یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ بلاول نے اسمبلی میں جو حالیہ تقریریں کی ہیں، انہوں نے عمران خان کو کافی مضطرب کیا ہے۔ وگرنہ ایسے کاموں کے لئے فیاض چوہان، اور واڈا جیسے کئی چہرے پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں۔ پی ٹی آٗی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ حکومت میں ہے۔ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہے۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو کیا کیا ہتھکنڈے نہیں آزمائے؟ کنٹیر پر کی گئی اخلاق سے عاری تقاریر، دکھاوے کے استعفے، سول نا فرمانی، دھرنے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب حکومت میں آئے ہیں تو یہ سب برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ حکومت کو جب نعروں کی ضرور پڑ جائے تو اس کا مطلب ہوتا کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔

جب سے پی ٹی آئی مقبول جماعتوں کی صف میں شامل ہوئی ہے تو سوشل میڈیا پر فدائین کا ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے۔ جو کسی کے پیچھے پڑیں تو گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ مخالفین تو ٹھہرے مخالفین، شیریں مزاری نے پارٹی چھوڑی تو انہیں اور ان کی دختر کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا۔ مریم نواز کو قطری خط کے حوالے سے رگیدا گیا اور جانے کیا کچھ۔ اہم قلم کار عتاب کے خصوصی حقدار ٹھہرے۔ مخالف نقطہ نظر کے صحافیوں کی تو با قاعدہ زندگی مشکل کر دی گئی۔ اپنے حامی صحافیوں نے بھی کبھی کسی بات پر جائز تنقید کی تو گالیوں کی بوچھاڑ سے نوازا گیا۔ پھر وہ بھلے ہارون الرشید جیسے سینئیر صحافی ہی کیوں نہ ہوں، جنہوں نے بیس سال تن تنہا کپتان کے لئے لکھا۔

اب سوال یہ ہے کہ سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کسی رہنما نے خواتین رہنماؤں کی موجودگی میں ذو معنی گفتگو کی۔ یہ ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل متصادم ہے۔ آج جب بلاول بھٹو نے امپائر کی انگلی کا ذکر کیا تو شیری رحمان سمیت متعدد خواتین رہنما موجود تھیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد کس شریف آدمی کا جی چاہے گا کہ میدانِ سیاست میں قدم رکھے؟ یہ ہمارے قومی رہنما نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اور یہ طوفانِ بد تمیزی جو چلا ہے، یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ اغلب گمان ہے کہ بد کلامی کا یہ سونامی یہاں رکے گا نہیں۔ کپتان بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ کاش ان بائیس سالوں میں انہوں نے اپنے ورکرز کی تربیت پر توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان کی سیاست کم از کم ایک درجہ بہتر ہوتی۔

ہمارے سیاسی کارکن خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، اپنی جماعت اور لیڈر کی غلطی کا جواز دوسری جماعت کی غلطی سے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ والوں سے لندن فلیٹس کا پوچھو تو جواب آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سرے محل کا پہلے پتا کریں۔ پی ٹی آئی کی کارکردگی، بد اخلاقی یا کسی اور چیز پر تنقید کرو تو جواب میں مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا کوئی مماثلت رکھتا کارنامہ سننے کو ملتا ہے۔ خاکسار یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک جرم دوسرے جرم کی تاویل کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سپورٹرز کو بھی چاہیے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کی حمایت کر کے ذہنی غلامی کا ثبوت دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی غلط بات پر تنقید کر کے لیڈر کو درست راستہ اپنانے کے لئے مجبور کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
غلیظ سے غلیظ تر ہوتی سیاست
27/04/2019 یوسف رشید



کار زارِ سیاست سے اگرچہ کچھ زیادہ خوش فہمیاں وابستہ نہیں، لیکن حالیہ چند سالوں میں دشنام طرازی، بہتان تراشی، فحش و لغو گفتگو اور بد اخلاقی کے جس معیار پر ہماری سیاست پہنچ چکی ہے، اس کے بعد کسی شریف خاندانی آدمی کے لئے سیاست میں قدم رکھنا خاصا دشوار ہو چکا ہے۔ یہ موضوع ایک بار پھر زیربحث اس لئے ہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو بلاول صاحبہ کہا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ چہرے پر مخصوص تمسخرانہ تاثرات کے ساتھ کپتان عوام کے ردِ عمل سے خوب محظوظ ہوئے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ غلطی سے کہہ دیا، دروغ گوئی ہے۔

سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یاد نہیں پڑتا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لئے اخلاق سے عاری القابات اور فحش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایوب خان کی فاطمہ جناح سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قائد اعظم کی ہم شِیر واضح طور پر فیلڈ مارشل کے اقتدار کے لئے خطرہ تھیں۔ ایوب خان نے انہیں امریکی اور انڈین ایجنٹ تک کہا لیکن کبھی بد زبانی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اور تو اور جب سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے تو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کے چلتے بنے۔

اسی کی دہائی تک سیاست مجموعی طور شایستگی کے لبادے میں رہی۔ اس عرصے میں واحد استثنیٰ ذوالفقار علی بھٹو ہیں، جنہوں نے اپنے مخالفین کو گالیوں اور بد تمیزی پر مبنی القابات سے پکارا۔ بھٹو کو اپنی مقبولیت کا زعم بہت تھا۔ اس زعم میں وہ مخالفین کے لئے نا مناسب الفاظ استعمال کر بیٹھتے تھے۔ مثلاً بھٹو، ائیر مارشل اصغر خان کو آلو کہا کرتے تھے، مولانا مودودی کو اچھرے کا پوپ کہا کرتے تھے، خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتے تھے، اور تو اور اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کو مولانا وہسکی کہہ کر پکارتے، ایک بار ایک رپورٹر نے احمد سعید کرمانی کے بارے میں سوال کیا تو ’ہو از شی‘ کہہ کر استفسار کیا۔ اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ان الفاظ کی ہے جو بھٹو نے پاکستانی سیاست میں متعارف کروائے۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے بد گوئی کے اس سلسلے کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔ اگر چہ میاں نواز شریف خود شایستگی کے لبادے میں رہتے، لیکن سب کچھ انہی کے ایما پر ہو رہا ہوتا تھا۔ شیخ رشید ان دنوں نواز شریف کی گڈ بکس میں رہنے کے لئے ایک سے ایک اوچھی حرکت کرتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جعلی فحش تصاویر کے پمفلٹ ہیلی کاپٹر سے پھینکوائے جاتے، شیخ رشید نے ایک سے زیادہ مرتبہ بے نظیر بھٹو کو ییلو کیب کہا۔

اس کے معنی ظاہر ہے انتہائی گھٹیا تھے۔ محترمہ عموماً شایستگی اپناتیں اور اس طرح کی باتوں کا جواب نہیں دیتی تھیں۔ ایک موقع پر اگر چہ احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھیں، اور میاں نواز شریف کے شیر کہلانے پر تبصرہ کیا کہ امی جنگل گئی تھیں یا شیر گھر آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بد اخلاقی کا مظاہرہ تھا۔ حالیہ سالوں میں شیخ رشید کی خدمات سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ نون نے طلال چودھری، دانیال عزیز اور رانا ثنا اللہ جیسے چہروں کو استعال کیا۔ شنید ہے کہ میاں صاحب اپنے ان حواریوں کی کارکردگی سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ اگرچہ خود انہوں نے اپنے بد ترین مخالفین جیسے جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے لئے بھی مشرف صاحب اور عمران خان صاحب کے الفاظ اسعتمال کیے۔

گزشتہ چند ماہ سے شیخ رشید احمد مسلسل بلاول بھٹو کے بارے میں اشاروں کنایوں میں فحش گفتگو کر رہے تھے، ان کے تبصرے ہمیشہ ذُو معنی رہے۔ بلاول کو بلو رانی کہہ کر پکارتے رہے، لال حویلی آنے کی دعوت دیتے رہے اور جانے کیا کچھ۔ یہ سب کچھ بھی غلط تھا۔ لیکن بلاول نے کبھی ان باتوں کا جواب نہیں دیا۔ اگر چہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے، لیکن بہر حال بلاول پیپلز پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کے شیخ رشید کی باتوں کو اگنور کرنے سے اس موضوع نے زیادہ اڑان نہیں پکڑی، وگرنہ بلاول شیخ رشید کی سطح پر آ جاتے تو شیخ جی کو زیادہ اہمیت ملتی۔

مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد مسلم لیگ کی حکومت پر شدید تنقید کیا کرتے۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعروں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف یلغار کی جاتی تو لاہور میں جماعت کے خلاف آپریشن ہوتے۔ اس پورے قضیے میں کبھی میاں صاحب نے قاضی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اگر ایسا کرتے تو ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کے منصب سے ایک چھوٹی جماعت کی سطح پر آ جاتے۔ بلاول نے بھی ایسا ہی کیا اور شیخ رشید کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

وزیر اعظم عمران خان کے ریمارکس اگر چہ اس نوعیت کے نہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، شیخ رشید، رانا ثنا اور طلال چودھری استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایک قومی رہنما اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا بلاول کو صاحبہ کہنا بھی ناگوار گزرا۔ اس پورے معاملے میں ایک پہلو جس پر زیادہ بات نہیں ہوئی اور خاکسار کو معاشرتی بے حسی پر خاصا ملال ہوا، وہ یہ کہ آج بھی یہ معاشرہ عورت کو کم تر سمجھتا ہے، کسی کو گالی دینی ہو تو اسے عورت کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور سننے والے محظوظ ہوتے ہیں۔

یہ عورت کا مقام ہرگز نہ تھا۔ خیر وزیر اعظم کے الفاظ پر خوب لے دے ہوئی۔ خاکسار نے بھی تنقید کی، بس اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس عاجز پر اتنی تنقید ہوئی کہ اللٰہ دے اور بندہ لے۔ بار ہا عرض کیا کہ ایک قومی رہنما کے طور پر عمران خان کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ان کی کنٹینر کی بہت سی تقریریں ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا نہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان کا دفاع کر سکتا ہے۔ اب تو بہر حال وہ وزیر اعظم ہیں اور کسی ایک جماعت کے نہیں، پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ تو اب ایسی اوچھی حرکتیں انہیں زیب نہیں دیتیں۔

اگلے روز بلاول بھٹو نے جوابی حملہ کر کے کسر پوری کر دی۔ اب اس کی اس بد اخلاقی کے بعد خاکسار کو مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر چہ کھل کر بلاول کے الفاظ پر بھی تنقید کی۔ بد کلامی اور فحش گوئی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ سب ایک وزیر اعظم اور ایک بڑی پارٹی کے چئیرمین کے درمیان ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس پورے تماشے سے بلاول عمران خان کو اپنی سطح پر لانے میں کام یاب ہو گئے، جو بہر طور وزیر اعظم کے شایانِ شان نہیں۔

یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ بلاول نے اسمبلی میں جو حالیہ تقریریں کی ہیں، انہوں نے عمران خان کو کافی مضطرب کیا ہے۔ وگرنہ ایسے کاموں کے لئے فیاض چوہان، اور واڈا جیسے کئی چہرے پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں۔ پی ٹی آٗی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ حکومت میں ہے۔ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہے۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو کیا کیا ہتھکنڈے نہیں آزمائے؟ کنٹیر پر کی گئی اخلاق سے عاری تقاریر، دکھاوے کے استعفے، سول نا فرمانی، دھرنے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب حکومت میں آئے ہیں تو یہ سب برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ حکومت کو جب نعروں کی ضرور پڑ جائے تو اس کا مطلب ہوتا کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔

جب سے پی ٹی آئی مقبول جماعتوں کی صف میں شامل ہوئی ہے تو سوشل میڈیا پر فدائین کا ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے۔ جو کسی کے پیچھے پڑیں تو گھر پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ مخالفین تو ٹھہرے مخالفین، شیریں مزاری نے پارٹی چھوڑی تو انہیں اور ان کی دختر کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا۔ مریم نواز کو قطری خط کے حوالے سے رگیدا گیا اور جانے کیا کچھ۔ اہم قلم کار عتاب کے خصوصی حقدار ٹھہرے۔ مخالف نقطہ نظر کے صحافیوں کی تو با قاعدہ زندگی مشکل کر دی گئی۔ اپنے حامی صحافیوں نے بھی کبھی کسی بات پر جائز تنقید کی تو گالیوں کی بوچھاڑ سے نوازا گیا۔ پھر وہ بھلے ہارون الرشید جیسے سینئیر صحافی ہی کیوں نہ ہوں، جنہوں نے بیس سال تن تنہا کپتان کے لئے لکھا۔

اب سوال یہ ہے کہ سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کسی رہنما نے خواتین رہنماؤں کی موجودگی میں ذو معنی گفتگو کی۔ یہ ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل متصادم ہے۔ آج جب بلاول بھٹو نے امپائر کی انگلی کا ذکر کیا تو شیری رحمان سمیت متعدد خواتین رہنما موجود تھیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد کس شریف آدمی کا جی چاہے گا کہ میدانِ سیاست میں قدم رکھے؟ یہ ہمارے قومی رہنما نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اور یہ طوفانِ بد تمیزی جو چلا ہے، یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ اغلب گمان ہے کہ بد کلامی کا یہ سونامی یہاں رکے گا نہیں۔ کپتان بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ کاش ان بائیس سالوں میں انہوں نے اپنے ورکرز کی تربیت پر توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان کی سیاست کم از کم ایک درجہ بہتر ہوتی۔

ہمارے سیاسی کارکن خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، اپنی جماعت اور لیڈر کی غلطی کا جواز دوسری جماعت کی غلطی سے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ والوں سے لندن فلیٹس کا پوچھو تو جواب آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سرے محل کا پہلے پتا کریں۔ پی ٹی آئی کی کارکردگی، بد اخلاقی یا کسی اور چیز پر تنقید کرو تو جواب میں مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا کوئی مماثلت رکھتا کارنامہ سننے کو ملتا ہے۔ خاکسار یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک جرم دوسرے جرم کی تاویل کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سپورٹرز کو بھی چاہیے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کی حمایت کر کے ذہنی غلامی کا ثبوت دینے کی بجائے اپنے لیڈر کی غلط بات پر تنقید کر کے لیڈر کو درست راستہ اپنانے کے لئے مجبور کریں۔
بھٹو مرحوم اکثر بدتمیزی پر اُتر آتے تھے اور یہ اُن کی شخصیت کا منفی پہلو تھا۔ نواز شریف صاحب اور محترمہ بے نظیر اس حوالے سے ان سے کسی حد تک بہتر رہے۔ عمران خان صاحب صحیح معنوں میں بدتمیزی کی حدیں پار کر رہے ہیں۔ دراصل، کھیل کے میدان میں بھی اُن کا دیگر کھلاڑیوں سے یہی رویہ رہتا تھا جس کے باعث کئی کھلاڑیوں کے کیرئیر برباد ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پست ذہنیت اور سطحی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے خان صاحب کا دم غنیمت ہے ۔۔۔! :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف صاحب اور محترمہ بے نظیر اس حوالے سے ان سے کسی حد تک بہتر رہے۔
بےنظیر کے بارہ میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے والد کے مقابلہ میں بہتر تھی۔ البتہ نواز شریف نے بینظیر سے متعلق جو زبان استعمال کی ہے اس کا دفاع ممکن نہیں۔
نواز شریف چونکہ بنیادی طور پر ڈرپوک لیڈر ہیں۔ اس لئے وہ سامنے آکر کم ہی کھیلتے ہیں۔ زیادہ تر پگڑیاں اچھالنے کا کام ان کے کارندے کرتے ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
بےنظیر کے بارہ میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے والد کے مقابلہ میں بہتر تھی۔ البتہ نواز شریف نے بینظیر سے متعلق جو زبان استعمال کی ہے اس کا دفاع ممکن نہیں۔
نواز شریف چونکہ بنیادی طور پر ڈرپوک لیڈر ہیں۔ اس لئے وہ سامنے آکر کم ہی کھیلتے ہیں۔ زیادہ تر پگڑیاں اچھالنے کا کام ان کے کارندے کرتے ہیں :)
دولت، رتبہ اور اختیار ملنے سے انسان بدلتا نہیں، اُس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ خان صاحب ہو یا نواز شریف صاحب ہوں، انہیں اپنی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب نے بہت کچھ سیکھ لیا اور کچھ بہتر ہو گئے تاہم خان صاحب اس عمر میں بھی سدھر نہ سکے، افسوس!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سابق صدرپرویز مشرف یکم مئی کو پاکستان آئیں گے
ویب ڈیسک 27 اپریل 2019
Pervez-Musharraf-1-750x369.jpg

اسلام آباد : سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے کہا ہے کہ ان کے موکل 2 مئی کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پرعزم ہیں، خاندان کےمطابق وہ یکم مئی کو پاکستان آئیں گے۔

تفصیلات کے مطابق پرویز مشرف کے وکیل سلیمان صفدر نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا پرویزمشرف کے خاندان کےمطابق وہ یکم مئی کوپاکستان آئیں گے، وہ 2 مئی کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پرعزم ہیں۔

سلیمان صفدر کا کہنا تھا پرویزمشرف خود اوران کےاہل خانہ پاکستان آنے پر زور دے رہے ہیں، ان کی صحت کومدنظر رکھتے ہوئے معالج کی اجازت اہم ہے، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں،اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کے ٹرائل سےمتعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ 2 مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے، اور یہ بھی حکم دیا تھا کہ ٹرائل کورٹ ان کی غیرموجودگی میں ٹرائل مکمل کرکے حتمی فیصلہ جاری کردے۔

اس سے قبل 28 مارچ کوسابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کے وکیل نے خصوصی عدالت میں عندیہ دیا تھا کہ ان کے موکل 13 مئی کو وطن واپس آکر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں۔

ایک سماعت میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے سامنے تین آپشنز رکھے تھے، پہلا آپشن پرویز مشرف آئندہ سماعت پر ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، دوسرا آپشن اگر نہیں پیش ہوتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں اور تیسرا آپشن اگر وہ اسکائپ پر بھی بیان ریکارڈ نہیں کرواتے تو ان کے وکیل بیان ریکارڈ کروائیں۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست بھی مسترد کردی تھی، چیف جسٹس نے کہا تھا پرویزمشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے، یہ نہ ہو کہ عدالت کو مکے دکھانا شروع کردیں۔
 
Top