سیاسی منظر نامہ

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب کے فرمودات عالی شان کا پست ذہنیت رکھنے والوں پر سوا اثر ہوتا دکھائی دیتا ہے، اس لیے وہ ٹارگٹ آڈینس کے حساب سے ٹھیک چل رہے ہیں۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب کے فرمودات عالی شان کا پست ذہنیت رکھنے والوں پر سوا اثر ہوتا دکھائی دیتا ہے، اس لیے وہ ٹارگٹ آڈینس کے حساب سے ٹھیک چل رہے ہیں۔۔۔! :)
عموما مہذب جمہوریتوں میں حکومت حزب اختلاف کو اعتماد میں لے کر چلتی ہے۔ ادھر پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں الٹا حکومت اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔
اس میں زیادہ تر قصور بھی اپوزیشن کا ہی ہے جس نے پچھلے دس سال لگاتا قومی خزانے میں رج کر ہاتھ صاف کئے ہیں۔ ملک کا قرضہ ۵ گنا بڑھا دیا ہے۔
اس کا حساب مانگا جا رہا ہے تو بجائے جواب دینے کے سب لٹھ پکڑ کر سلیکٹڈ وزیر اعظم کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ پہلے اپنے دس سالہ کرتوت تو نیب سے بخشوا لیں۔ پانچ سال بعد عمران خان سے بھی نبٹ لیں گے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
عموما مہذب جمہوریتوں میں حکومت حزب اختلاف کو اعتماد میں لے کر چلتی ہے۔ ادھر پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں الٹا حکومت اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔
اس میں زیادہ تر قصور بھی اپوزیشن کا ہی ہے جس نے پچھلے دس سال لگاتا قومی خزانے میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ ملک کا قرضہ ۵ گنا بڑھایا ہے۔ اس کا حساب مانگا جا رہا ہے بجائے اس کا جواب دینے کے سب لٹھ پکڑ کر سلیکٹڈ وزیر اعظم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پہلے اپنے دس سالہ کرتوت تو بخشوا لیں۔ پانچ سال بعد عمران خان سے بھی نبٹ لیں گے۔ :)
علیمہ خانم زندہ باد ۔۔۔! :)
 

فرقان احمد

محفلین
پہلے اپنے دس سالہ کرتوت تو نیب سے بخشوا لیں۔ پانچ سال بعد عمران خان سے بھی نبٹ لیں گے۔ :)
ازراہ تفنن عرض ہے کہ تحریک انصاف محض ایک صوبے میں پانچ برس اقتدار میں رہی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا وزیر ہو جس پر بدعنوانی کا کیس نیب میں نہ چل رہا ہو۔ موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان ہو یا سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع محترم پرویز خٹک، شوکت یوسف زئی ہوں، عاطف خان ہوں یا خود عمران خان صاحب! یاد رکھیں کہ اُن پر بھی ہیلی کاپٹر کیس چل رہا ہے۔ اس لیے، پہلے آپ بھی تو کلیئر ہو جائیں ۔۔۔! :)
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ڈیموکریٹس کو ٹرمپ سے وہی تکلیف ہے جو جیالوں اور لیگیوں کو عمران خان سے ہے یعنی کہ وہ ان کی کرپٹ لیڈرشپ کی عزت کیوں نہیں کرتا :)
تاہم، خان صاحب جہانگیر ترین، علیمہ خانم اور نیب زدہ قیادت صوبہ خیبر پختون خواہ کی تو دل و جان سے عزت و احترام کرتے ہیں ۔۔۔! :) نیز، خاکیان کا احترام الگ مع چیری بلاسم ڈبیا ۔۔۔! :)
 

فرقان احمد

محفلین
ہیلی کاپٹر کیس میں کلین چٹ مل چکی ہے :) چیری بلاسم کا کمال ہے شاید :)
NAB gives Imran clean chit in helicopter case
اس طرح کے بہت سے کیسز ان دنوں بند کیے جا رہے ہیں ۔۔۔! ایک اور مثال، موجودہ سپیکر اسد قیصر صاحب کی ہے؛ ان کے خلاف انکوائری بھی نیب نے بند کر دی ہے ۔۔۔! :) تاہم، خان صاحب نے پہلی بار عوامی عہدہ سنبھالا ہے، جب وہ جائیں گے تو ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکے گی۔ ماضی کا ریکارڈ ایسا بھی شاندار نہ ہے۔ کہیں تکنیکی گراؤنڈ پر بچ نکلے تو کہیں انکوائری نہ ہو سکی۔ تاہم، اصل امتحان تو تب ہو گا جب تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد ریکارڈ 'پھرولے' جاویں گے ۔۔۔!
 

فرقان احمد

محفلین
کچھ کیس جرنیلوں یا ان کے بھائی بندوں کے خلاف بھی کھلنے تھے؛ اُن کا کیا ہوا۔ خان صاحب اس حوالے سے نیب کے چیئرمین سے ایک ملاقات رکھ لیں تو مناسب رہے گا ۔ اس طرح سول سوسائٹی کے حوصلے بھی بلند ہوں گے اور انصاف کی دعوے دار جماعت کا اصل رنگ روپ بھی سامنے آ جائے گا۔ مثال کے طور پر، ایک بڑا کیس جنرل کیانی کے بھائی کے خلاف نیب میں تھا غالباََ ۔۔۔! :) اُس کے حوالے سے کسی اپ ڈیٹ کا انتظار ہے ۔۔۔!
 
وسیم اکرم پلس کو ایسے ہی اتار دیا تو دنیا کیا کہے گی؟ پہلے دو چار کیس بنائیں جائے گے، پھر خان صاحب ایکشن لیں گے اور خوب بلے بلے ہو گی۔
 
دنیا کی تحریری تاریخ میں جس پہلی جنگ کی حقیقی، تمثیلی اور دیومالائی کہانیاں تفصیل سے ملتی ہیں وہ ”ٹروجن جنگ“ ہے۔ اِسی جنگ کے حوالے سے مقولہ مشہور ہے کہ ”مجھے یونانیوں سے خاص طور پر اُس وقت ڈر لگتا ہے جب وہ کوئی تحفہ دیں“۔ جب سے ہمیں گھگو گھوڑے کا تحفہ ملا ہے، اُس وقت سے ہی بے چینی، خوف اور غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے۔ گھگو گھوڑا نگرنگر گھومنے والے خانہ بدوش بناتے ہیں۔ مقامی روایات کا حامل یہ گھگو گھوڑا پرانے کاغذ اور سرکنڈے کے ٹکڑوں سے بنتا ہے۔ جب پرانے کاغذ کو رنگ دے کر گھوڑا بنایا جاتا ہے تو اُس کے رنگوں کی بہار اور شان و شوکت قابل دید ہوتی ہے۔

گھگو گھوڑا نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے۔ خانہ بدوشوں کی مرضی ہے کہ وہ اِس گھوڑے میں کیا رنگ بھرتے ہیں اور وہ لوگوں کو کیسا نظر آتا ہے۔ ہمارے ثقافتی ماہرین گھگو گھوڑے کو ”ثقافتی علامت“ قرار دیتے ہیں۔ یہ اس خطے کی صدیوں کی صناعی، سوچ اور روایتوں سے بھرپور استعارہ ہے۔ آج کا گھگو گھوڑا بھی انتہائی تراش خراش سے بنایا گیا ہے۔ اُس میں مڈل کلاس کی پسندیدگی کے سارے رنگ شاملکیے گئے ہیں۔

اِس گھوڑے کی تاریخ میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کئی میچ جیت کر ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر چکا ہے۔ اِسی لئے جب اِس گھگو گھوڑے کو میدان میں اتارا گیا تو ہر طرف سے واہ واہ کے ڈونگرے برسے، خریدار بھی بہت ہیں مگر گھگو گھوڑا بت کی طرح خاموش، کاٹھ کے گھوڑے کی طرح بے حس وبے حرکت اور ڈونکی راجہ کی طرح ماورائے عقل ہے۔ وہ صرف لگام کے ذریعے چل سکتا ہے، جدھر کو لگام کھینچی جائے وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور جدھر جانے سے روکا جائے، گھگو گھوڑا فوراًرک جاتا ہے۔

گھگو گھوڑا بنانے والے اپنا سارا زور اُس کی ظاہری بناوٹ پر لگاتے ہیں، اُسے ایسا خوشنما بناتے ہیں کہ وہ دِلوں کو بھاتا ہے لیکن گھگو گھوڑے کے اندر بھوسہ اور پرانا کاغذ ڈال دیتے ہیں۔ اگر کوئی گھگو گھوڑے کے اندر دیکھ لے تو وہ اُس کی ظاہری آب وتاب کے باوجود اُس کے قریب تک نہ پھٹکے، مگر گھگو گھوڑے کو کسی کے اتنا قریب جانے ہی نہیں دیا جاتا کہ کوئی اُس کے اندر جھانک سکے۔ ظاہری شو شا سے ہی اُسے قابل، بہادر اور محنتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُس کی بے وقوفیوں، نالائقیوں اور غلطیوں پر کسی کی نظر جانے ہی نہیں دی جاتی، تا آنکہ وہ امتحان میں اتر کر ناکام ہوتا ہے۔

گزشتہ 70 برس میں گھگو گھوڑوں کے نئے نئے تجربے کیے گئے۔ گھگو گھوڑوں کو ہمیشہ مقامی مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ اُن میں مٹی کی محبت اور وفاداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ گھگو گھوڑے اِسی لئے دوسروں کی حب الوطنی پر شک کرتے رہتے ہیں۔ گھگو گھوڑے کی تیاری میں جو خاص سرکنڈا استعمال کیا جاتا ہے اُس میں لچک رکھی جاتی ہے تاکہ جب جی چاہے اُسے جھکا لیا جائے، اُس کی ٹیم میں تبدیلی کردی جائے یا کہ اُسے اُس کے بنیادی نظریات ہی سے توبہ کروا دی جائے۔

پہلا گھگو گھوڑا اسکندر مرزا تھا، خاندانی طور پر میرجعفر آف بنگال سے تعلق رکھتا تھا۔ سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں سے مل کر سازش کی اور پھر قبائلی علاقوں کے جھگڑوں اور سازشوں سے نمٹتے نمٹتے گھگو گھوڑے سے اصلی گھوڑا بننے کی کوشش کی۔ لگام موڑنے پر پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو منسوخ کردیا حالانکہ وہ اُسی کے باعث صدر بنا تھا۔ بس اُس کے بعد کیا تھا، دس ہی دنوں میں گھگو گھوڑے کو ایسا کھینچا گیا کہ لاش ہی جلاوطنی کے بعد واپس آئی اور وہ بھی ایران میں، جہاں اُسے اُس کی وصیت کے مطابق ریاستی پروٹوکول کے ساتھ دفنایا گیا۔ یہ گھگو گھوڑا وقت پر کام آیا، کام نکل گیا تو اُسے دیس نکالا دے دیا گیا۔

اسکندر مرزا کے تجربے سے بہت سیکھا گیا، وہ چونکہ بہت چالاک اور عیار تھا، چنانچہ گھگو گھوڑے بنانے کے مسالے سے عقل اور عیاری نکال لی گئی۔ لیبارٹری تجربات کرتے کرتے قوم کے محسنِ عظیم اور عالمِ اسلام کے ہیرو جناب ضیاءالحق کا زمانہ آگیا۔ اُنہیں گھگو گھوڑے بہت ہی اچھے لگتے تھے، اُن کی خواہش تھی کہ وہ ہر وقت گھگو گھوڑوں میں گھرے رہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسے گھگو گھوڑے اقتدار میں لائیں جو اسکندر مرزا کی طرح چالاک نہ ہوں بلکہ مالک کی مرضی سے چلیں۔

اندرون سندھ سے محمد خان جونیجو اُنہیں ایسا بندہ نظر آیا جو مسکین اور شریف تھا۔ ضیاء الحق نے فخریہ انداز میں یہ گھگو گھوڑا وزیراعظم بنوا دیا مگر جناب ضیاءالحق اُس وقت حیران ہو گئے جب اُنہیں پتہ چلا کہ یہ گھگو گھوڑا پر پُرزے نکال رہا ہے پھر یہی مسکین گھوڑا چیلنج بن گیا اور اُسے نکالنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔

نواز شریف بھی انداز واطوار سے شروع شروع میں گھگو گھوڑا لگتا تھا۔ کم بولنا، زیادہ سننا اور ہاں میں ہاں ملانا۔ یہ ساری خوبیاں اُن میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ گھوڑا سازوں کو معصوم شکل سے دھوکا ہوا، اُنہوں نے بیس سال اپنا وزن اُسی کے پلڑے میں ڈالے رکھا لیکن 1999 میں جب اُسے نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنے اگلے سموں پر کھڑا ہو گیا۔ گھوڑا ساز پریشان تھے، مسالا بھی ٹھیک تھا، 20 سال کا آزمودہ تھا پھر آخر ایسا کیوں ہوا؟ خیر اُس تجربے نے بہت کچھ مزید سکھا دیا اور طے کیا گیا کہ جس طرح گھگو گھوڑے کو بناتے وقت ردی کاغذ اور بھوسے کا استعمال کیا جاتا ہے، اُسی طرح اُس کی ٹیم بھی اُسی مٹیریل سے تیار کی جائے کیونکہ ٹیم کے مشورے ہی گھگو گھوڑے کے بت کو زندہ کر دیتے ہیں اور وہ اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔

بس گھگو گھوڑے کی تازہ پیشکش ماضی کی ساری خرابیوں سے مبرا ہے، خوبصورت ہے، حسین ہے، دلکش ہے، اُسے انتہائی دلآویز رنگوں سے بنایا گیا ہے۔ نئے برانڈ کو خوبصورت بنانے کے لئے 1992 کے کئی میڈل بھی بطور آرائش لگا دیے گئے ہیں، جس سے اُس گھگو گھوڑے کی وجاہت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسکندر مرزا، جونیجو اور نواز شریف کی افزائش کے وقت گھگو فیکٹری میں عقل ماپنے کا آلہ نصب نہیں ہوا تھا، اِس لئے صرف اُن کے چہروں سے اندازہ لگا لیا گیا کہ اِس طرح کی کوئی خطرناک اور باغیانہ چیز کہیں اُن میں موجود تو نہیں۔

ماضی میں مشین نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط گھگو گھوڑے بن گئے تھے مگر اب تو مشین یہ یقینی بناتی ہے کہ گھگو گھوڑے میں نہ تو باغیانہ جین ہوں اور نہ عقل کا خانہ۔ اگر تھوڑی بہت عقل نظر بھی آئے تو اُسے لانگ کورس کے ذریعے نئے ورلڈ آرڈر کا سوپ پلا دیا جاتا ہے۔ اِس سوپ سے جرمنی اور جاپان ہمسائے بن جاتے ہیں، یوٹرن اچھی سیاست کا نشان نظر آتے ہیں، اسد عمر وزیر ہو تو سب سے قابل ہوتا ہے نکالنا ہو تو وہ پاکستان کے حق میں فائدہ مند نہیں رہتا۔ تازہ ماڈل کا گھگو گھوڑا ماضی کے تمام ماڈلوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ صنعت اِسی طرح ترقی کرتی رہی تو امید ہے کہ ہم اِنہیں برآمد کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے، اگر ایسا ہوا تو بے شمار فارن ایکسچینج بھی آئے گا۔

نوٹ:گھگو گھوڑا ایک غیر سیاسی مضمون ہے، کسی شخص سے مشابہت غیرحقیقی ہو گی۔

۔۔۔
از سہیل وڑائچ
 
دنیا کی تحریری تاریخ میں جس پہلی جنگ کی حقیقی، تمثیلی اور دیومالائی کہانیاں تفصیل سے ملتی ہیں وہ ”ٹروجن جنگ“ ہے۔ اِسی جنگ کے حوالے سے مقولہ مشہور ہے کہ ”مجھے یونانیوں سے خاص طور پر اُس وقت ڈر لگتا ہے جب وہ کوئی تحفہ دیں“۔ جب سے ہمیں گھگو گھوڑے کا تحفہ ملا ہے، اُس وقت سے ہی بے چینی، خوف اور غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے۔ گھگو گھوڑا نگرنگر گھومنے والے خانہ بدوش بناتے ہیں۔ مقامی روایات کا حامل یہ گھگو گھوڑا پرانے کاغذ اور سرکنڈے کے ٹکڑوں سے بنتا ہے۔ جب پرانے کاغذ کو رنگ دے کر گھوڑا بنایا جاتا ہے تو اُس کے رنگوں کی بہار اور شان و شوکت قابل دید ہوتی ہے۔

گھگو گھوڑا نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے۔ خانہ بدوشوں کی مرضی ہے کہ وہ اِس گھوڑے میں کیا رنگ بھرتے ہیں اور وہ لوگوں کو کیسا نظر آتا ہے۔ ہمارے ثقافتی ماہرین گھگو گھوڑے کو ”ثقافتی علامت“ قرار دیتے ہیں۔ یہ اس خطے کی صدیوں کی صناعی، سوچ اور روایتوں سے بھرپور استعارہ ہے۔ آج کا گھگو گھوڑا بھی انتہائی تراش خراش سے بنایا گیا ہے۔ اُس میں مڈل کلاس کی پسندیدگی کے سارے رنگ شاملکیے گئے ہیں۔

اِس گھوڑے کی تاریخ میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ کئی میچ جیت کر ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر چکا ہے۔ اِسی لئے جب اِس گھگو گھوڑے کو میدان میں اتارا گیا تو ہر طرف سے واہ واہ کے ڈونگرے برسے، خریدار بھی بہت ہیں مگر گھگو گھوڑا بت کی طرح خاموش، کاٹھ کے گھوڑے کی طرح بے حس وبے حرکت اور ڈونکی راجہ کی طرح ماورائے عقل ہے۔ وہ صرف لگام کے ذریعے چل سکتا ہے، جدھر کو لگام کھینچی جائے وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور جدھر جانے سے روکا جائے، گھگو گھوڑا فوراًرک جاتا ہے۔

گھگو گھوڑا بنانے والے اپنا سارا زور اُس کی ظاہری بناوٹ پر لگاتے ہیں، اُسے ایسا خوشنما بناتے ہیں کہ وہ دِلوں کو بھاتا ہے لیکن گھگو گھوڑے کے اندر بھوسہ اور پرانا کاغذ ڈال دیتے ہیں۔ اگر کوئی گھگو گھوڑے کے اندر دیکھ لے تو وہ اُس کی ظاہری آب وتاب کے باوجود اُس کے قریب تک نہ پھٹکے، مگر گھگو گھوڑے کو کسی کے اتنا قریب جانے ہی نہیں دیا جاتا کہ کوئی اُس کے اندر جھانک سکے۔ ظاہری شو شا سے ہی اُسے قابل، بہادر اور محنتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُس کی بے وقوفیوں، نالائقیوں اور غلطیوں پر کسی کی نظر جانے ہی نہیں دی جاتی، تا آنکہ وہ امتحان میں اتر کر ناکام ہوتا ہے۔

گزشتہ 70 برس میں گھگو گھوڑوں کے نئے نئے تجربے کیے گئے۔ گھگو گھوڑوں کو ہمیشہ مقامی مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ اُن میں مٹی کی محبت اور وفاداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ گھگو گھوڑے اِسی لئے دوسروں کی حب الوطنی پر شک کرتے رہتے ہیں۔ گھگو گھوڑے کی تیاری میں جو خاص سرکنڈا استعمال کیا جاتا ہے اُس میں لچک رکھی جاتی ہے تاکہ جب جی چاہے اُسے جھکا لیا جائے، اُس کی ٹیم میں تبدیلی کردی جائے یا کہ اُسے اُس کے بنیادی نظریات ہی سے توبہ کروا دی جائے۔

پہلا گھگو گھوڑا اسکندر مرزا تھا، خاندانی طور پر میرجعفر آف بنگال سے تعلق رکھتا تھا۔ سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں سے مل کر سازش کی اور پھر قبائلی علاقوں کے جھگڑوں اور سازشوں سے نمٹتے نمٹتے گھگو گھوڑے سے اصلی گھوڑا بننے کی کوشش کی۔ لگام موڑنے پر پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو منسوخ کردیا حالانکہ وہ اُسی کے باعث صدر بنا تھا۔ بس اُس کے بعد کیا تھا، دس ہی دنوں میں گھگو گھوڑے کو ایسا کھینچا گیا کہ لاش ہی جلاوطنی کے بعد واپس آئی اور وہ بھی ایران میں، جہاں اُسے اُس کی وصیت کے مطابق ریاستی پروٹوکول کے ساتھ دفنایا گیا۔ یہ گھگو گھوڑا وقت پر کام آیا، کام نکل گیا تو اُسے دیس نکالا دے دیا گیا۔

اسکندر مرزا کے تجربے سے بہت سیکھا گیا، وہ چونکہ بہت چالاک اور عیار تھا، چنانچہ گھگو گھوڑے بنانے کے مسالے سے عقل اور عیاری نکال لی گئی۔ لیبارٹری تجربات کرتے کرتے قوم کے محسنِ عظیم اور عالمِ اسلام کے ہیرو جناب ضیاءالحق کا زمانہ آگیا۔ اُنہیں گھگو گھوڑے بہت ہی اچھے لگتے تھے، اُن کی خواہش تھی کہ وہ ہر وقت گھگو گھوڑوں میں گھرے رہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسے گھگو گھوڑے اقتدار میں لائیں جو اسکندر مرزا کی طرح چالاک نہ ہوں بلکہ مالک کی مرضی سے چلیں۔

اندرون سندھ سے محمد خان جونیجو اُنہیں ایسا بندہ نظر آیا جو مسکین اور شریف تھا۔ ضیاء الحق نے فخریہ انداز میں یہ گھگو گھوڑا وزیراعظم بنوا دیا مگر جناب ضیاءالحق اُس وقت حیران ہو گئے جب اُنہیں پتہ چلا کہ یہ گھگو گھوڑا پر پُرزے نکال رہا ہے پھر یہی مسکین گھوڑا چیلنج بن گیا اور اُسے نکالنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔

نواز شریف بھی انداز واطوار سے شروع شروع میں گھگو گھوڑا لگتا تھا۔ کم بولنا، زیادہ سننا اور ہاں میں ہاں ملانا۔ یہ ساری خوبیاں اُن میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ گھوڑا سازوں کو معصوم شکل سے دھوکا ہوا، اُنہوں نے بیس سال اپنا وزن اُسی کے پلڑے میں ڈالے رکھا لیکن 1999 میں جب اُسے نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ اپنے اگلے سموں پر کھڑا ہو گیا۔ گھوڑا ساز پریشان تھے، مسالا بھی ٹھیک تھا، 20 سال کا آزمودہ تھا پھر آخر ایسا کیوں ہوا؟ خیر اُس تجربے نے بہت کچھ مزید سکھا دیا اور طے کیا گیا کہ جس طرح گھگو گھوڑے کو بناتے وقت ردی کاغذ اور بھوسے کا استعمال کیا جاتا ہے، اُسی طرح اُس کی ٹیم بھی اُسی مٹیریل سے تیار کی جائے کیونکہ ٹیم کے مشورے ہی گھگو گھوڑے کے بت کو زندہ کر دیتے ہیں اور وہ اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔

بس گھگو گھوڑے کی تازہ پیشکش ماضی کی ساری خرابیوں سے مبرا ہے، خوبصورت ہے، حسین ہے، دلکش ہے، اُسے انتہائی دلآویز رنگوں سے بنایا گیا ہے۔ نئے برانڈ کو خوبصورت بنانے کے لئے 1992 کے کئی میڈل بھی بطور آرائش لگا دیے گئے ہیں، جس سے اُس گھگو گھوڑے کی وجاہت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسکندر مرزا، جونیجو اور نواز شریف کی افزائش کے وقت گھگو فیکٹری میں عقل ماپنے کا آلہ نصب نہیں ہوا تھا، اِس لئے صرف اُن کے چہروں سے اندازہ لگا لیا گیا کہ اِس طرح کی کوئی خطرناک اور باغیانہ چیز کہیں اُن میں موجود تو نہیں۔

ماضی میں مشین نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط گھگو گھوڑے بن گئے تھے مگر اب تو مشین یہ یقینی بناتی ہے کہ گھگو گھوڑے میں نہ تو باغیانہ جین ہوں اور نہ عقل کا خانہ۔ اگر تھوڑی بہت عقل نظر بھی آئے تو اُسے لانگ کورس کے ذریعے نئے ورلڈ آرڈر کا سوپ پلا دیا جاتا ہے۔ اِس سوپ سے جرمنی اور جاپان ہمسائے بن جاتے ہیں، یوٹرن اچھی سیاست کا نشان نظر آتے ہیں، اسد عمر وزیر ہو تو سب سے قابل ہوتا ہے نکالنا ہو تو وہ پاکستان کے حق میں فائدہ مند نہیں رہتا۔ تازہ ماڈل کا گھگو گھوڑا ماضی کے تمام ماڈلوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ صنعت اِسی طرح ترقی کرتی رہی تو امید ہے کہ ہم اِنہیں برآمد کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے، اگر ایسا ہوا تو بے شمار فارن ایکسچینج بھی آئے گا۔

نوٹ:گھگو گھوڑا ایک غیر سیاسی مضمون ہے، کسی شخص سے مشابہت غیرحقیقی ہو گی۔

۔۔۔
از سہیل وڑائچ
اس کالم کے بعد وڑائچ صاحب کو قلم توڑ دینا چاہیے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس کالم کے بعد وڑائچ صاحب کو قلم توڑ دینا چاہیے۔ :)
جی ہاں! اس سے قبل کہ ان سے قلم چھین کر توڑ دیا جاوے ۔۔۔! وڑائچ صاحب کسی سے لکھوانے تو نہیں لگ گئے ۔۔۔! تحریر میں مزید نکھار آ گیا ہے ۔۔۔!
بلاشبہ حقائق پر مبنی تحریر ہے البتہ ملک کے سب سے بڑے گھگو گھوڑے ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر گول کر دیا گیا۔ مصنف قوم کو کیوں نہیں بتاتا کہ بھٹو کا گھگو گھوڑا جنرل ایوب کی نرسری میں تیار ہوا تھا۔ اور جب ۱۹۷۰ کے جنرل الیکشن کی ریس میں یہ گھگو گھوڑا ہار گیا تو جیتنے والے اصلی گھوڑے کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ نتیجہ مشرقی پاکستان میں بغاوت، بنگالیوں کا قتل عام اور بھارت کی مداخلت سے بنگلہ دیش کی آزادی۔ اس وقت گھگو گھوڑا اپنے خالقین کی ٹیونز پر ناچتا تھا۔ اگر وہ نام نہاد جمہوریہ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم کر کے حکومت بنا لیتا تو ملک نہ ٹوٹتا۔
فوج کا بنایا ہوا یہ گھگو گھوڑا ملک کو کرپٹ ترین پارلیمانی نظام، کمزور ترین اقتصادی نظام اور نااہل ترین بیروکریسی کا تحفہ دے کر دنیا سے رخصت کروا دیا گیا۔ لیکن یہ تاریخی گھگو گھوڑا کل بھی زندہ تھا۔ اور یہ گھگو گھوڑا آج بھی زندہ ہے۔ اور یقیناً آئندہ آنے والی نسلیں اس گھگو گھوڑے کی جمہوریت کے نام پر پوجا کریں گی۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
بلاشبہ حقائق پر مبنی تحریر ہے البتہ ملک کے سب سے بڑے گھگو گھوڑے ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر گول کر دیا گیا۔ مصنف قوم کیوں نہیں بتاتا کہ بھٹو کا گھگو گھوڑا جنرل ایوب کی نرسری میں تیار ہوا تھا۔ اور جب ۱۹۷۰ کے جنرل الیکشن کی ریس میں یہ گھگو گھوڑا ہار گیا تو جیتنے والے اصل گھوڑے کو پکڑ کر جیل میں ڈال گیا۔ نتیجہ مشرقی پاکستان میں بغاوت، بنگالیوں کا قتل عام اور بھارت کی مداخلت سے بنگلہ دیش کی آزادی۔ اس وقت گھگو گھوڑا اپنے خالقین کی ٹیونز پر ناچتا تھا۔ اگر وہ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم کر کے حکومت بنا لیتا تو ملک نہ ٹوٹتا۔
فوج کا بنایا ہوا یہ گھگو گھوڑا ملک کو کرپٹ ترین پارلیمانی نظام، کمزور ترین اقتصادی نظام اور نااہل ترین بیروکریسی کا تحفہ دے کر دنیا سے رخصت کروا دیا گیا۔
مرحوم بھٹو کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ فوجی نرسری میں تیار ہوئے، غلط ہے۔ دراصل، بھٹو خاندان طویل عرصے سے سیاست میں تھا مگر جب فوجی براہ راست اقتدار میں آ گئے تو پھر سیاست کے چلن بھی بدل گئے وگرنہ بھٹو خاندان نے بھلا فوج کے ساتھ تعلقات بڑھا کر کیا تیر مار لینا تھا۔ مرحوم بھٹو نے یہ زینہ ضرور استعمال کیا ہو گا تاہم انہوں نے فوج کو للکارا بھی تھا اور شاید یہ ان کی طویل مدتی سوچ کا حصہ ہو؛ اس حقیقت کو فراموش نہ کیا کیجیے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ سارے قرض بھٹو نے ہی اتارنے تھے؛ کچھ ذمہ داری ہماری اور آپ کی بھی بنتی ہو گی۔ آپ چاہتے ہیں کہ صحافی گولیاں کھائیں تو توپ کے آگے بھی وہی لیٹ جائیں۔ سیاست دان پھانسی چڑھ جائے تو بھی آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ اس نے کبھی جی ایچ کیو میں کیوں قدم رکھا تھا۔ یہ مبارک قدم تو آپ کے خان صاحب نے بھی 2014ء میں جی ایچ کیو میں رکھے تھے اور شاید اس سے قبل 1999ء میں بھی ۔۔۔! اس لیے، کوشش کیا کیجیے کہ کسی شخصیت کے کارناموں پر بھی نگاہ پڑ جائے ۔۔۔! صرف خامیاں تلاش کرنا کہاں کی شرافت ہے ۔۔۔! ارے بھئی، یہ تو اسی مولوی صاحب کا قصہ معلوم ہوتا ہے کہ جن سے ایک صاحب نے کہا کہ مولانا! گورے چاند پر پہنچ گئے تو وہ فرمانے لگے، یہ تو کوئی ایسی بات نہیں، مانوں تو تب جب وہ سورج پر پہنچ کر دکھائیں ۔۔۔! :)
 
آخری تدوین:
Top