سیاسی منظر نامہ

جان

محفلین
ملک کا سب سے بڑا جمہوریہ میرٹ پر چلنے والی بیروکریسی سمیت ایوب دور کا صنعتی انقلاب بھی ہڑپ کر گیا :)
Impact of Nationalization on Pakistan'
Bhutto’s economic policies were disastrous for Pakistan
Impact Of Nationalization On BECO And Pakistan Economic Development
‘Bhutto’s nationalisation policy was not for workers’ benefit’ - Pakistan - DAWN.COM

اوپر روابط میں پڑھ لیں۔ بھٹوجمہوریہ ملک کی صنعتی جڑیں تک کھا گیا لیکن ڈھیٹ قوم کو یہ ابھی تک زندہ نظر آتا ہے، اور ڈکٹیٹر اصل دشمن :)
بھٹو کی معاشی پالیسیاں یقیناً درست نہیں تھیں لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس وقت جو بھٹو نے "سوشلسٹ مینیفسٹو" کا نعرہ لگایا تھا ان کے محرکات کیا تھے؟ اس الیکشن میں سوائے ایک پارٹی کے سب پارٹیوں کا مینیفسٹو سوشلزم پر ہی تھا۔ امریکہ اس وقت پاگل نہیں تھا جو ایک خطیر رقم کمیونزم کو روکنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ یعنی اگر بھٹو نہ بھی آتا تو یہ سوشلزم کا گھن چکر چلنا ہی چلنا تھا اور دوم اس گھن چکر کی بنیاد ایوب دور میں ہی رکھ دی گئی تھی جب معیشت تقریباً بائیس خاندانوں کی کٹھ پتلی بن کے رہ گئی تھی اور اسی کو بھٹو نے کیش کروایا۔
Socialism in Pakistan - Wikipedia
http://hrmars.com/hrmars_papers/A_CRITICAL_ASSESSMENT_OF_Z._A_._BHUTTO’S_POLICIES_(1973–1977)_.pdf
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جب معیشت تقریباً بائیس خاندانوں کی کٹھ پتلی بن کے رہ گئی تھی اور اسی کو بھٹو نے کیش کروایا۔
ایسا ہر پسماندہ ملک کی اقتصادی ترقی کے وقت ہوتا ہے کہ مشترکہ قومی دولت چند ہاتھوں یا خاندانوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ خاندان آپس میں سرمایہ کاری کیلئے مقابلہ کرتے ہیں جس سے عام عوام کو روز گار کے مواقع ملتے ہیں اور ملک میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتیں سوشل ریفارمز کرتی ہیں جس سے یہ معاشی ترقی ٹرکل ڈاؤن ایفیکٹ کے تحت نیچے عوام میں منتقل ہوجاتی ہے۔ جنوبی کوریا، جاپان، امریکہ کی اقتصادی تاریخ پڑھیں تو وہاں یہی تاریخ دہرائی گئی تھی۔ آج وہ قومیں کہاں کھڑی ہیں اور پاکستان کہاں ہے؟
Trickle-Down Effect

بھٹو کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 22 سرمایہ دار خاندان ختم کرنے کے چکر میں ملک میں جاری صنعتی انقلاب ہی ختم کروا دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
گوروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بہرصورت جمود کا شکار نہیں ہیں اور وہ اپنے ذہن کو زنگ نہیں لگنے دیتے ہیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کے چکر میں بہت سے ملکوں کا سوا ستیاناس ہوا تاہم گوروں نے سوشل ریفارمز وغیرہ کر کے اپنے نظام میں مزید گنجائشیں پیدا کر دیں جس کے باعث معاملات آگے بڑھے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ان کے سامنے متبادل معاشی نظام کے نمو پا جانے کے چیلنجز وغیرہ نہ ہوتے تو شاید سرمایہ دارانہ نظام اس سے کہیں زیادہ قباحتوں کے ساتھ رائج ہوتا ۔۔۔! یہی عملیت پسندی مغربی ممالک کو زوال کی طرف لے جانے سے روکے ہوئے ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
گوروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بہرصورت جمود کا شکار نہیں ہیں
گوروں سے زیادہ یہ خوبی مشرقی ایشیائی اقوام میں پائی جاتی ہے۔ مغرب میں تو کبھی بھی کمیونزم ، سوشل ازم کا غلبہ نہیں رہا۔ البتہ چین جیسا ملک کئی دہائیاں اور کروڑوں چینی کمیونسٹ سوشلزم میں مروا کر بالآخر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھا۔ اورآج دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ چین نے معاشی اصلاحات 1978 میں شروع کی تھی۔ جبکہ پاکستان ایوب دور میں یہ سب کر چکا تھا۔
The charts that show how Deng Xiaoping unleashed China’s pent-up capitalist energy in 1978
1200px-GDP_per_capita_of_China_and_India.svg.png
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
گوروں سے زیادہ یہ خوبی مشرقی ایشیائی اقوام میں پائی جاتی ہے۔ مغرب میں تو کبھی بھی کمیونزم ، سوشل ازم کا غلبہ نہیں رہا۔ البتہ چین جیسا ملک کئی دہائیاں اور کروڑوں چینی کمیونسٹ سوشلزم میں مروا کر بالآخر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھا۔ اورآج دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ چین نے معاشی اصلاحات 1978 میں شروع کی تھی۔ جبکہ پاکستان ایوب دور میں یہ سب کر چکا تھا۔
The charts that show how Deng Xiaoping unleashed China’s pent-up capitalist energy in 1978
1200px-GDP_per_capita_of_China_and_India.svg.png
پوری دنیا میں اس وقت معیشت کے اس امتزاجی ماڈل کی بازگشت نمایاں ہے۔ مغرب اس طرف نہیں بڑھا تاہم اسے اس متبادل معیشتی نظام سے سب سے زیادہ خطرات تھے اور ان کی جانب سے معیشت کے نظام میں کی گئی بروقت تبدیلیوں کو دیگر ممالک نے بھی اپنانے کی کوشش کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پوری دنیا میں اس وقت معیشت کے اس امتزاجی ماڈل کی بازگشت نمایاں ہے۔ مغرب اس طرف نہیں بڑھا تاہم اسے اس متبادل معیشتی نظام سے سب سے زیادہ خطرات تھے اور ان کی جانب سے معیشت کے نظام میں کی گئی بروقت تبدیلیوں کو دیگر ممالک نے بھی اپنانے کی کوشش کی۔
ممالک کی معاشی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی نظام عقل کل نہیں ہے:
  • امریکہ نے صدارتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے ملاپ سے ترقی حاصل کی۔
  • برطانیہ اور دیگر مغربی یورپ کے ممالک نے پارلیمانی جمہوریت ، سرمایہ دارانہ نظام اور تھوڑی بہت سوشل ازم کے ملاپ سے ترقی پالی۔
  • جاپان امریکہ کے تعاون سے ایشیا کا پہلا صنعتی ملک بنا۔ اس وقت وہاں ایک بادشاہ کی آمریت تھی جسے جاپانی قوم خدا کا رُوپ مانتی تھی۔
  • چین آج دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایک پارٹی کی آمریت اور اسٹیٹ سرمایہ دارانہ نظام کا کارنامہ ہے۔
  • جنوبی کوریا کا معاشی ڈھانچہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں تیار ہوا۔ بہت بعد میں پارلیمانی نظام نافذ ہوا۔
  • سنگاپور میں کئی دہائیاں ایک پارٹی کی جمہوری آمریت رہی۔ اور اسی دور میں مضبوط معاشی قوت بنا۔
  • جن خلیجی ریاستوں میں تیل نکلتا ہے وہ موروثی آمریت میں بھی خوشحال ہیں۔ یہی کام تیل والے جمہوری ممالک نائیجریا اور وینزویلا نہ کر سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح پرچی پر نہیں آیا، وزیر اعظم
ویب ڈیسک بدھ 24 اپريل 2019
1644329-imrankhaninturbun-1556103100-450-640x480.jpg

ماضی میں جو چیزیں قبائلی علاقے کو نہیں ملی فراہم کریں گے، وزیراعظم۔ فوٹو:فائل

وانا: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں لمبی جدو جہد کے بعد یہاں تک پہنچا ہوں بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح پرچی پر نہیں آیا میں نہ ان کو این آر او دوں گا نہ معاف کروں گا۔

وانا میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے اکثر سیاستدانوں کو پختوانخوا اور قبائلی علاقوں میں فرق نہیں پتا، میں قبائلی علاقوں کو مکمل طور پر سمجھتا ہوں، میں نے قبائلی علاقے کے رہن سہن اور روایات پر کتاب لکھی ہے، وزیرستان کےعوام نے1947 تک آزادی کی جنگ لڑی، انگریزوں کے سب سے زیادہ فوجی وزیرستان میں مارے گئے تھے، کشمیر کے مسلمانوں پرجب ظلم ہوا تو قبائلی لوگ کشمیرمیں جنگ لڑنے گئے، قبائلی لوگوں نے 1965 میں فوج کے شانہ بشانہ جنگ لڑی۔

وزیر اعظم نے وانا کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں پارلیمنٹ میں ہمیشہ قبائلی عوام کی آواز بنا، میں نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی کیونکہ قبائلی عوام ہماری فوج ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قبائلی عوام کےنقصان سےآگاہ ہوں، قبائلی عوام کو اپنی روایات کے برعکس گھر بار چھوڑنے پڑے، یہاں سے لوگ گھر چھوڑ کر کراچی اور پختونخوا گئے اور واپسی میں انہیں تباہ گھر ملے، میں آپ کے دکھ اور درد کو سمجھتا ہوں، میرے ہوتے ہوئے آپ کو انصاف ملے گا۔

آصف زرداری اور اس کا بیٹا، شریف برادران اور ان کے بچے سن لیں کہ میں یہاں لمبی جدو جہد کے بعد یہاں تک پہنچا ہوں، میری زندگی مقابلہ کرتے گزری ہے، جو لمبی جدوجہد کرکے اوپر آتا ہے اس کو کوئی خوف نہیں ہوتا، میں بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح پرچی پر نہیں آیا، یہ سب چاہتے ہیں کہ عمران خان پر زور ڈال کر این آراو لیا جائے، میرا اقتدار میں آنے کا مقصد صرف ان کرپٹ عناصر کو شکست دینا تھا، میں نہ ان کو این آر او دوں گا اور نہ معاف کروں گا۔

مولانا فضل الرحمان پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی بہت سستی قیمت ہے، انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادو اور ڈیزل کا پرمٹ دے دو۔

اس سے قبل جنوبی وزیرستان کے قبائلی عمائدین سےخطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیرستان کی تکلیفوں اور روایات سے باخبر ہوں، محسود قبیلے اور وزیرستان کی تاریخ جانتا ہوں، قبائل نے ملک کے لیے جو قربانیاں دی سب جانتاہوں، میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے مسائل حل کیے جائیں، قبائلی علاقوں کی تمام تاریخ جانتا ہوں اور قبائلی علاقے جب ضم ہو جائیں گے مجھے علم ہے کیا مسائل درپیش ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ماضی میں جو چیزیں قبائلی علاقے کو نہیں ملی فراہم کریں گے، قبائلی لوگ روزگار کیلئے ملک سے باہر اور دیگر صوبوں میں جاتے ہیں، جب تک ملک کے تمام علاقوں کو اوپر نہ اٹھایا جائے ملک ترقی نہیں کرسکتا، قبائلی عوام نے ہمیشہ پاکستان کیلئے قربانیاں دیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہرسال قبائلی علاقے پر اتنا پیسہ خرچ کیاجائے گا جو ماضی میں نہیں ہوا، قبائلی علاقے پر ہرسال 100ارب خرچ کرِیں گے، ہمارے قبائلی علاقوں کے بچوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع چاہئیں، غریب طبقے کو اٹھانے والا ملک کبھی شکست نہیں کھاتا۔ وزیر اعظم نے قبائلی علاقے میں صحت کارڈ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صحت کارڈ پر قبائلی عوام 7 لاکھ 20 ہزار روپے خرچ کرسکیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں امیر امیر اور غریب غریب ہوگیا جب کہ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور قبائلی علاقے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک چلانے کیلئے ہمارے پاس پیسہ کم ہے تاہم عوام فکر نہ کریں یہ ملک بہت امیر ہے، ہم اس کو اٹھالیں گے اور پیسہ بھی آرہا ہے، بس تھوڑا سا صبر کرنا ہوگا اور تبدیلی نظر آنا شروع ہوجائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آصف زرداری اور اس کا بیٹا، شریف برادران اور ان کے بچے سن لیں کہ میں یہاں لمبی جدو جہد کے بعد یہاں تک پہنچا ہوں، میری زندگی مقابلہ کرتے گزری ہے، جو لمبی جدوجہد کرکے اوپر آتا ہے اس کو کوئی خوف نہیں ہوتا، میں بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح پرچی پر نہیں آیا، یہ سب چاہتے ہیں کہ عمران خان پر زور ڈال کر این آراو لیا جائے، میرا اقتدار میں آنے کا مقصد صرف ان کرپٹ عناصر کو شکست دینا تھا، میں نہ ان کو این آر او دوں گا اور نہ معاف کروں گا۔
وہی غیر مربوط بیانیہ اور رٹی رٹائی تقریر ۔۔۔!
1996 میں بھی قوم کرپشن تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ 2019 یعنی 23 سال بعد حکومت میں آکر بھی قوم کرپشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دس سالوں میں ملک کا کل قرضہ 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ یہ پیسا کدھر گیا؟ لیکن کرپشن نہیں ہوئی۔ تمام مقدمات سیاسی انتقام کیلئے بنائے جاتے ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
1996 میں بھی قوم کرپشن تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ 2019 یعنی 23 سال بعد حکومت میں آکر بھی قوم کرپشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دس سالوں میں ملک کا کل قرضہ دس سالوں میں 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ یہ پیسا کدھر گیا؟ لیکن کرپشن نہیں ہوئی۔ تمام مقدمات سیاسی انتقام کیلئے بنائے جاتے ہیں :)
اس دوران علیمہ خانم صاحبہ نے بہت سے کار ہائے نمایاں دکھائے۔ یہ تو جب اقتدار سے انسان ہٹتا ہے، تب راز کھلتے ہیں۔ اس وقت تک اس بیانیے سے لطف اندوز ہونے میں حرج نہ ہے ۔۔۔! کیپ اٹ اپ ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
خواتین وحضرات، کنٹینیر زدہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
بہت معصوم قوم ہے ویسے۔ سمجھتی تھی کنٹینر سے اتر کر عمران خان نواز شریف بن جائیں گے۔ :)
عمران خان کنٹینر پر بھی وہی انسان تھے جیسا کہ اقتدار میں ہیں۔ وہ نواز شریف کی طرح مصلحت پسند نہیں ہیں۔ جو کنٹینر پر بینظیر کو "ٹیکسی" کہتے تھے۔ اور اقتدار میں آکر "محترمہ"۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
خواتین وحضرات، کنٹینیر زدہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
بہت معصوم قوم ہے ویسے۔ سمجھتی تھی کنٹینر سے اتر کر عمران خان نواز شریف بن جائیں گے۔ :)
عمران خان کنٹینر پر بھی وہی انسان تھے جیسا کہ اقتدار میں ہیں۔ وہ نواز شریف کی طرح مصلحت پسند نہیں ہیں۔ جو کنٹینر پر بینظیر کو "ٹیکسی" کہتے تھے۔ اور اقتدار میں آکر "محترمہ"۔ :)
تاریخ کا کوڑا دان ایسے تمام نام نہاد رہنماؤں کا منتظر ہے، بصد معذرت عرض ہے ۔۔۔! :)
 
عمران خان کنٹینر پر بھی وہی انسان تھے جیسا کہ اقتدار میں ہیں۔ وہ نواز شریف کی طرح مصلحت پسند نہیں ہیں۔ جو کنٹینر پر بینظیر کو "ٹیکسی" کہتے تھے۔ اور اقتدار میں آکر "محترمہ"۔ :)
آپ کا مطلب ہے جو کچھ نصب شدہ نے کہا وہ بالکل مناسب ہے؟ آپ اس کا دفاع کر رہے ہیں ؟
 

جان

محفلین
وہ نواز شریف کی طرح مصلحت پسند نہیں ہیں۔
مصلحت پسندی اور اخلاقیات دونوں کی سمت اپنی اپنی ہے۔ اگر بندہ اپنے موقف سے ہٹ کر مصلحت پہ آ جائے تو مصلحت پسندی کہلائے گا اور اگر انسان "کنٹینر والی زبان" سے اتر کر "سٹیٹ پریمیئر" والی زبان پہ آ جائے تو اخلاقیات کہلائے گا۔ اس میں اول الذکر اپنانے کو خامی تو کہہ سکتے ہیں لیکن موخر الذکر اپنانا یقیناً خوبی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

جان

محفلین
بالکل غیر مناسب ہے۔ لیکن مجھے حیرت اس توقع پر تھی کہ وزیر اعظم بن کر خان صاحب نواز شریف بن جائیں گے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے :)
نواز شریف نہ بنیں اس سے بہتر بن کر دکھائیں اور کنٹینر سے اتر آئیں اب اپوزیشن میں نہیں ہیں، سٹیٹ پریمیئر ہیں۔
 
Top