سہ ماہی "کارواں‘‘ بہاول پور ۔۔۔۔۔اپریل مئی جون 2009ء

نوید صادق

محفلین
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ

سہ ماہی ’’کارواں‘‘ بہاول پور
بانی: سید آلِ احمد

جلد: 38 شمارہ: 18

رجسٹرڈ نمبر: Bm/94


مدیر مسئول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صائمہ پروین
مدیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق


قیمت: 50 روپے
سالانہ: 200 روپے

احمد نگر، شاہی بازار، بہاول پور
برائے خط و کتابت: 843-رضا بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
فون: 8481418 0301
 

نوید صادق

محفلین
فہرس

اداریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدیر

نعت

نعتیہ مثنوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالد علیم


مضامین


جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر
برگِ آوارہ کی تمثیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی
محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن


غزلیں

خالداحمد
نجیب احمد
غلام حسین ساجد
قاضی حبیب الرحمن
احمد فاروق
ارشد شاہین
کنور امتیاز احمد
ذوالفقار عادل
عطاء الرحمن قاضی
شمشیر حیدر


افسانے

گولڈ فِش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرحت پروین
ایک کہانی نئی پرانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالد علیم
اچھے لوگ بُرے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جواد


نظمیں

اے تصویر انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہین عباس
کوکھ جلا سیّارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعید دوشی

بازگشت

نہ حریفانہ مرے سامنے آ! میں کیا ہوں ۔۔۔۔۔۔ راجندرمنچندا بانی


آخری صفحہ

نگارِ غم! تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد آلِ احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پبلشر قیصر جہاں نے پرنٹر طارق زماں ، دستور پرنٹنگ پریس، زنانہ ہسپتال روڈ، بہاول پور سے چھپوا کر محلہ احمد نگر، شاہی بازار ، بہاول پور سے شائع کیا
ای میل:quarterlycaravan@gmail.com فون: 03018481418
 

نوید صادق

محفلین
اداریہ

میزان​

’’کارواں ‘‘ کا اجرا 1946ء میں ہوا۔ یہ بنیادی طور پر ادبی ماہنامہ تھا جس نے علمی اور ادبی حلقوں میں مثالی پزیرائی حاصل کی۔ ’’کارواں ‘‘ میں مقالات، افسانے ، انشائیے ، طنز و مزاح پر مبنی مضامین، تنقیدی جائزے ، کتابوں پر تبصرے ، نظمیں ، غزلیں اور طرحی مشاعرے وغیرہ شایع ہوا کرتے تھے ۔

1952ء سے 1970ء تک کا اٹھارہ سالہ دور ’’کارواں ‘‘ کا زرّیں دور ہے ۔ اس کے بانی مدیر سیّد آلِ احمد بذاتِ خود ایک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ۔ ادب پر اُن کی وسعتِ نظر ، فکری گہرائی اور اعلیٰ درجے کے شاعرانہ ذوق نے ’’کارواں ‘‘ کو ایک کامیاب ادبی پرچے کے طور پر متعارف کروایا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کم و بیش تمام علاقوں اور حلقوں سے ادبا وشعرا کی تخلیقات ’’کارواں ‘‘ میں اشاعت پزیر ہوئیں ۔

اس کے نمایاں لکھنے والوں میں ناصر کاظمی، ڈاکٹر وزیر آغا، مجید امجد، قتیل شفائی، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، محی الدین شان، خلیل رام پوری، احمد عقیل روبی، مرتضیٰ برلاس، خواجہ عبدالحمید یزدانی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، حافظ لدھیانوی، اختر انصاری اکبر آبادی، ظہور نظر، شیر افضل جعفری، سید مقصود زاہدی، ڈاکٹر سلیم اختر، پیکر واسطی، شہاب دہلوی، ڈاکٹرخورشید رضوی، سہیل اختر، اختر علی منیر، خلیق ملتانی، امجد قریشی، علامہ عبدالحمید ارشد، درد اسعدی، عابدصدیق، سید محمود جعفری، اشفاق برنی، وزیری پانی پتی، تابش الوری، رفعت سلطان، اظہر جاوید، صغریٰ ناہید، سجاد بریلوی، انجم اعظمی، رحمان فراز، تاثیر نقوی ، ریاض زیدی، محمد احمدناظر، صدیق طاہر، ارشاد متین، نجم الحسن، شکور رانا، اقبال خالد، ادیب واثقی، فرخ درانی، حسن اکبر کمال، نکہت بریلوی، عزیز حاصل پوری، ارشد ملتانی، منور جمیل قریشی، نیاز حسین لکھویرا، منظور شاد، سید انور مقصود، انوار احمد زئی، اعتبار ساجد، دلشاد کلانچوی، تاثیر وجدان، احمد طاہر، ارمان عثمانی، اسلم یوسفی، علامہ عیش شاہ جہاں پوری، اختر بزمی، دلاور شمسی، نوشابہ نرگس، سید حیدر گردیزی، فہیم جوزی، کنول فیروز، صادق مصور، خالد صحرائی، شاہین غازی پوری اور متعدد دوسرے شعرا تھے ۔ ان میں کچھ تو وہ تھے جن کی ادبی اور شاعرانہ حیثیت متعین تھی اور کچھ وہ ، جنھوں نے ’’کارواں ‘‘ میں چھپنے کے بعد اپنا ادبی تشخص حاصل کیا، بالخصوص بہاول پور اور دیگر نواح کے وہ ادبا و شعرا جن کو آج شعر و ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔

1970ء میں سیّد آلِ احمد نے ’’کارواں ‘‘ کو ہفت روزہ کی شکل دے دی (جو تاحال برقرار ہے ) اور سیّد آلِ احمد نے رحمن پورہ لا ہور میں بھی اس کا ایک دفتر قائم کر دیا۔تاہم اس کے بعد ’’کارواں ‘‘میں سیاسی رنگ غالب آتا گیا۔

1999ء میں سیّد آلِ احمد کی وفات کے بعد ’’کارواں ‘‘ کی اشاعت کی ذمہ داری اُن کے اہلِ خانہ پر آ پڑ ی۔ نامساعد حالات کے باوجود بڑ ی مستقل مزاجی سے وہ اِس کارواں کو آگے بڑ ھاتے رہے ۔

2009ء کے آغاز میں بیگم سیّد آلِ احمد نے ’’کارواں ‘‘ کی ادبی حیثیت کی بحالی کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم السطور نے سید آلِ احمد سے تلمّذ اور دلی وابستگی کے باعث اس کی تنظیمِ نَوکا بیڑ ا اٹھا لیا۔

’’کارواں ‘‘ نے سال ہا سال اپنے قارئین میں ادبی، سیاسی اورسماجی شعور بیدار کرنے میں جو کردار ادا کیا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کو برقرار رکھنے بل کہ اس کی ممکنہ بہترین صورت تک لے جانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مدیر)
 

نوید صادق

محفلین
خالد علیم​

نعتیہ مثنوی

کیا ہماری یہ ہُنر مندی ہے
نعت توفیقِ خداوندی ہے

بات لفظوں ‘ نہ ریاضت کی ہے
آپ کے جذبۂ مدحت کی ہے

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ کا جمال
جس سے روشن ہیں جہاں کے خد و خال

میری تحریر و بیاں میں آ جائے
ایک تاثیر زباں میں آ جائے

اُسی فردوس کے زینے کی طرف
دل نکل جائے مدینے کی طرف

فکر، توصیف پہ آمادہ ہے
عقل و دانش کا ورق سادہ ہے

لفظ شرمندہ‘ قلم شرمندہ
حرف کا دامنِ کم شرمندہ

رُوحِ شاعر سخن اعجاز سہی
شاعری‘ وصفِ پیمبر سے تہی

آگہی کی‘ نہ قلم کی ہے مجال
لکھ سکے سیرتِ اطہر کا جمال

خد و خالِ شہِ والا لکھے
کیا تخیل کا ہمالہ لکھے

دست بستہ ہے تخیل کا وجود
وسعتِ ذوقِ نظر ہے محدود

سرنگوں ہے لغتِ لفظ گری
سر پٹختی ہے یہاں دیدہ وری

بے حقیقت ہے یہاں ذوقِ بیاں
خواہشِ نعت ہے سرمایۂ جاں

ایک اِمکاں کہ سخن ہو جائے
کرمِ شاہِ زمن ہو جائے

مسلکِ گریہ گزاری آ جائے
ہنرِ نعت نگاری آ جائے

آنکھ پُرنم ہو‘ کرم ہو اُن کا
وصف‘ جذبوں سے رقم ہو اُن کا

حُسنِ امکاں کا یہ دَر کھل جائے
دامنِ دیدہ اگر کھل جائے

ہاں یہ سرنامۂ مدحت ہے کہ بس
اک یہی رنگِ عبادت ہے کہ بس

آنکھ کو رُوحِ عبادت مِل جائے
یہ سعادت ہے ‘ سعادت مِل جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد علیم
 

نوید صادق

محفلین
مضامین

ڈاکٹر زاہد منیر عامر​

جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی


ایک ہندوستانی راہ نما کا بیٹا کسی پری پیکر کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔لڑ کی بابا کے دوست کی بیٹی تھی۔خواہش تھی کہ اس چاہت کو جیون بھر کے بندھن میں بدل دیا جائے ۔۔۔مطالبہ باپ کے سامنے رکھا گیا۔۔۔نام ور اور جہاں دیدہ باپ نے کہا:’بیٹا! اگر اگلے پانچ برس تک تمھاری یہ خواہش زندہ رہی تو اپنے ہاتھوں تمھارا یہ مطالبہ پورا کر وں گا‘۔۔۔اور بیٹے کو دور دراز آزادی کی جنگ لڑ نے بھیج دیا۔
یہ پانچ سال نہیں بل کہ اکیس سال پہلے کی بات ہے میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔ ان کی مہربانی کہ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں نے ان کے ساتھ ایک طویل نشست میں ان کی زندگی کے احوال و کوائف دریافت کر لیے لیکن پھر صاحبِ ہدایہ نے مجھے کچھ لکھنے سے روک دیاجن کا خیال ہے کہ کسی شخص کو جب تک چارموسموں تک نہ دیکھ لیا جائے اس کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہیے ۔/۲۳۲ڈی سٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں بیٹھا جب میں خورشید صاحب سے ان کے احوال و کوائف دریافت کر رہا تھا تو ابھی میری شناسائی نے چار موسم نہیں دیکھے تھے ۔اس کے بعد میں زندگی کی جنگ لڑ نے دور دراز کے اَسفار پر نکل گیا لیکن جس طرح اس نام ور ہندوستانی سیاست دان کا بیٹا پانچ برس بعد جنگ سے لوٹ کر بھی اپنی آرزو پر قائم رہا، اس طرح میں آج بھی اپنی آرزو پر قائم ہوں ۔۔گو اب لکھا جانے والا وہ نہیں ہو گا جو اب سے پہلے لکھا جا سکتا تھا۔
خورشید صاحب کو میں نے پہلی بار جناح ہال سرگودھا میں ایک شعری مجموعے کی تعارفی تقریب کے شرکا میں بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے میری دید ’’سرابوں کے صدف‘‘ تک محدود تھی، اس ملاقات میں (اگر اسے ملاقات کہا جا سکے ) خورشید صاحب کے لبوں پر کھیلتی ہوئی پان کی لالی اور خوش خلقی سے جنم لینے والی مسکراہٹ مجھے اب تک یاد ہے ؛اس تقریب کا حاصل یہی مسکراہٹ تھی، ورنہ وہ شعری مجموعہ تو مدتوں دیکھا تک نہیں ۔ کوئی بیس برس بعد ناصر باغ لا ہور کے بیرونی فٹ پاتھ سے یہی مجموعہ محض اس لیے خریدا کہ اس کی تقریب میں پہلی بار خورشید صاحب کو دیکھا تھا۔
خدا بھلا کرے پروفیسر نظیر صدیقی مرحوم کا جنھوں نے اسلام آباد میں میری اوّلین کتاب دیکھنے کے بعد مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں سرگودھا جاؤں تو خورشید صاحب سے ضرور ملوں ، چناں چہ میں نظیر صدیقی صاحب کی خواہش سمیت خورشید صاحب سے ملا۔ میری اوّلین کتاب کا ذکر بھی ملاقات میں آ گیا۔خورشید صاحب نے اس کتاب کے دیکھنے کی خواہش کی۔ اگلی ملاقات میں کتاب ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی جسے انھوں نے توجہ سے پڑ ھا۔ جلد کے سفید اوراق پر پنسل سے صفحات کے نمبر نوٹ کیے اور بعض امور کی طرف میری توجہ مبذول کروائی۔پھر ان سے باتوں اور ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ سالوں پر محیط ہوتا چلا گیا، یوں کہ اب میری گزشتہ زندگی کے تقریباً ہر مرحلے کے ساتھ خورشید صاحب کی کوئی نہ کوئی یاد ضرور وابستہ ہے ۔
میں نے جب خورشید صاحب کو دیکھا تو ان کے بالوں میں اماوس کی چمک تھی۔ وہ اپنے ڈی بلاک والے گھر سے نکلتے ، بائیسکل پر بیٹھتے اور سیٹلائٹ ٹاؤن چوک سے ہو کرایلیمنٹری کالج کے راستے سے نیم دائرہ بناتی ہوئی سرگودھا سٹیڈیم کی دیوار کے ساتھ ساتھ، منہ میں پان کی گلوری رکھے ، آہستہ آہستہ گورنمنٹ کالج سرگودھا جایا کرتے تھے ۔صرف یہی نہیں دن کے دوسرے اوقات میں بھی بائیسکل کے آگے پیچھے عاصم، عامر کو بٹھائے ، سبزی خریدتے ، ریلوے سٹیشن سے راولپنڈی جانے والی گاڑ ی کے اوقات کا پتا کرتے ، یہاں وہاں آتے جاتے انھیں دیکھا جا سکتا تھا۔ عصر کے بعد وہ کبھی کبھار جناح مارکیٹ میں عربی کتابوں کے ایک ظالم گراں فروش کے پاس جایا کرتے تھے اور مغرب کے وقت لوٹتے تھے ۔کبھی کبھار بائیسکل کے ہینڈل پر لٹکائی ہوئی ٹوکری میں عربی کی کوئی کتاب بھی ہوتی تھی۔ راستے میں مغرب یا عشا کا وقت ہو جاتا تو وہ ٹوکری اتار کر ہری پورے کی توکلی مسجد میں نماز ادا کرتے ۔ یہاں میرا ان کا آمنا سامنا ہو جاتا۔ ایسی ہی ایک شام کو میں انھیں اپنے گھر بھی لے گیا تھا۔
میرا خیال ہے یہ ان کی زندگی کے بہترین دن تھے ۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اکثر لوگ ان کے چاہنے والے تھے ۔ کالج کے پرنسپل بھی ان کے قدردان تھے اور انھیں شہر کے حلقوں میں ایک کالج کا پروفیسر نہیں بل کہ ایک خوش فکر عالم کے طور پر جانا جاتا تھا۔سواے محمد رفیق طوسی کی پرنسپلی کے زمانے کے ، جب وہ ایک سیاسی آویزش کا شکار ہو کر کچھ عرصہ کے لیے بوچھال کلاں ٹرانسفر کر دیے گئے ۔ انھوں نے بیس برس کا عرصہ نہایت سکون کے ساتھ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں گزارا۔گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا کا پرنسپل بن جانا ان کی زندگی کے پُرسکون سمندر میں پہلی لرزش ثابت ہوا۔ انتظامی مصروفیت اور کالج اساتذہ کی سیاست مداری کا پہلی بار سامنا ہوا۔گو پرنسپلی کے دوران وہ کسی افسر یا ماتحت کے دباؤ میں نہیں آئے مگر انتظامی ذمہ داری ان کے نزدیک بے مصرف مصروفیت تھی چناں چہ وہ اپنے استادِ گرامی ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب کی خواہش پر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد چلے گئے ۔اگرچہ اسلام آباد میں بھی ان کے قدردانوں اور چاہنے والوں کی کمی نہیں تھی لیکن ان کا قیامِ اسلام آباد کا تجربہ بہت خوش گوار نہیں رہا۔۱۴ِاکتوبر ۱۹۸۵ء کو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے وابستہ ہونے سے قبل بھی وہ ایک بار اسلام آباد گئے تھے ۔یہ وہ وقت تھا جب ابھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی(اس وقت پیپلز اوپن یونی ورسٹی) کا آغاز ہو رہا تھا لیکن اسلام آباد میں ان کا جی نہ لگا اور وہ سبز سے سفید میں آنے کا غم لے کر واپس سرگودھا آ گئے تھے لیکن اب کی بار اُن کے قیامِ اسلام آباد نے خاصا طول کھینچا اور وہ ’’بے دلی، پریشانی اور افسردگی‘‘ کے ساتھ ڈیپوٹیشن کی زیادہ سے زیادہ مدت گزار کر اپنے محکمے میں واپس آ گئے ۔
۷ِ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو انھوں نے گورنمنٹ کالج لا ہور میں صدرِ شعبۂ عربی کے طور پر جوائن کیا۔اس روز انھوں نے دو کلاسیں پڑ ھائیں اور پھر اورینٹل کالج لا ہور سے ہوتے ہوئے ۲۲۲۔لا کالج ہاسٹل میں میرے پاس تشریف لائے ۔ گورنمنٹ کالج لا ہورمیں آنا ان کی دیرینہ خواہش تھی۔چنانچہ وہ پریشان نہیں تھے اور چھے سات برس کے تعطل کے بعد تدریس کا سلسلہ وہیں سے جوڑ کر آ رہے تھے جہاں یہ منقطع ہوا تھا۔ میں نے اس روز انھیں آئرلینڈ کے ایک لیڈر کا قصہ سنایا جو ایک جلسے سے خطاب کے دوران گرفتار ہو گیا تھا۔ مدتوں بعد جب اُسے رہا کیا گیا تو استقبالیہ جلوس کے ساتھ وہ اسی جلسہ گاہ میں پہنچا جہاں سے اسے گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے سٹیج پر آ کر تقریر شروع کی: ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
سو خورشید صاحب نے بھی اس طویل تعطل کو یونہی بے معنی سمجھتے ہوئے ازسرِ نو تدریس کا شیوہ اختیار کر لیا۔ان کا خیال ہے کہ وہ ’’مدرس آدمی ہیں ‘‘ اور مدرس کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھوں پروان چڑ ھنے والی نسلیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں اور وہ خود وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے

تھے کتنے قافلے کہ ملے اور بچھڑ گئے
میں سنگِ میل ہوں کہ جہاں تھا، وہیں رہا


یہ خورشیدصاحب کا ابتدائی زمانۂ ملازمت کا شعر ہے ، کچھ زمانے اس سے پہلے بھی گزرے تھے جب وہ ’’پیارے لعل‘‘ اور ’’بے کس‘ ‘تھے ، غلط فہمی نہ ہو اس لیے وضاحت ضروری ہے کہ ’’پیارے لعل‘‘ کی اس کی سوا کچھ حقیقت نہیں کہ بچپن کے بعض ہم جولی انھیں پیار سے ’’پیارے لعل‘‘ کہتے تھے ۔ جب انھوں نے شعر گوئی شروع کی تو ’’بے کس‘‘ تخلص اختیار کیا، گویا ان کا لعل ہونا بچپن ہی سے معلوم دے گیا تھا۔ بعد کے زمانے میں وہ اپنے ملنے والوں کے پیارے بھی رہے لیکن کبھی بے کس یا سنگِ میل نہ ہوئے ۔۱۹ِ مئی ۱۹۴۲ء کو امروہہ کے رضوی سادات میں آنکھ کھولنے والے بچے اور ۱۲ِجنوری ۱۹۶۲ء کو بہاول پور انٹر کالج میں جوائن کرنے والے نوجوان لیکچر ر نے ترقی اور کمال کی جتنی منزلیں طے کیں اس کے ہاتھوں پروان چڑ ھنے والی نسلوں کا کوئی فرد اُن کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ امروہہ کے شاعر منشی عبدالرب شکیب کو سید حلیم الدین رضوی کے بیٹے کا نام محمد خورشید الحسن رکھتے ہوئے معلوم تھا یا نہیں لیکن وقت نے اس بچے کی طرح داری اور خورشید ہونا ثابت کر دیا۔وہ مدرس آدمی نہیں ہیں ۔ محتاط ہیں اس لیے خود کو معلم نہیں کہتے حالانکہ وہ معلم نہیں ، معلمِ اخلاق یا تعلیمی اصطلاح میں مربی ہیں اور یوں پیغمبری پیشے کے حقیقی مسند نشین کہلانے کے حق دار۔۔۔ایک ایسے دور میں جب لوگ ملازمت کی زیادہ سے زیادہ مدت پوری کر کے بھی اس میں توسیع کے خواہاں رہتے ہیں انھوں نے ۱۹۹۵ء میں جب ابھی ان کی ملازمت کے سات سال باقی تھے ، قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اس وقت میرے لیے حیرت کا باعث بنا۔ چوں کہ وہ اول تا آخر ایک استاد ہیں ، بے مثل استاد، اس لیے مجھے ہی نہیں ان کے دوسرے مخلصوں کو بھی اس فیصلے سے صدمہ پہنچا لیکن وہ بہت عملی آدمی ہیں ۔ تخیلات و تصورات کے ساتھ زندگی کے سخت حقائق کو سمجھتے اور ان کے مطالبوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔ وہ بہ زبانِ مجید امجد منٹو کی طرح یہ نہیں کہتے کہ دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے ۔ انھیں عزت کے ساتھ سر بھی عزیز ہے ۔ ان کی آموزش یہ ہے کہ زندگی کو اس کی تمام بدصورتیوں کے باوصف کامیابی سے گزارا جائے ۔
۷ِدسمبر ۱۹۹۵ء کو جب وہ گورنمنٹ کالج لا ہور سے سبک دوش ہو کر آ رہے تھے ، میں نے یونی ورسٹی وین میں بیٹھے ہوئے اس موقع پر ان کے احساسات دریافت کیے تو انھوں نے کہا کہ اس دور میں یہی بات بہت ہے کہ عزت آبرو کے ساتھ ریٹائر ہوئے ۔۔۔ شاید وہ بھی تلوک چند محروم کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ

سی و پنچ سال عمرم بہ ملازمت بسر شد
سحرِ شبابِ خود را ہمہ تیرہ شام کر دم
شرفم بہ عہدِ پیری چہ بود کہ در جوانی
بہ سگاں ادب نمودم، بہ خراں سلام کر دم


وہ سنہ پچانوے میں ریٹائرمنٹ نہ لیتے تو بھی سات برس بعد انھیں ریٹائر ہو جانا تھا، یوں بھی بہرحال اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے تاہم میری اور ان کے دوسرے مخلصوں کی راے تھی کہ وہ ایک باقاعدہ استاد کے طور پر تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں ۔
حافظ محمود شیرانی جب اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو رہے تھے تو علامہ اقبال نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مسٹر ایم ۔ایل۔ ڈارلنگ کو ایک خط لکھا تھا کہ شیرانی کے علم و فضل سے استفادے کا یہ بہترین وقت ہے ، اس مرحلے پر یونیورسٹی انھیں ضائع نہ کرے ۔۔۔ میں ڈاکٹراقبال نہیں لیکن بعینہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ خورشید صاحب عمر کی جس منزل میں ہیں یہ ان کے فضل و کمال سے استفادے کا بہترین وقت ہے اور وہ جس ادارے سے بھی وابستہ ہوں ، ان کی وابستگی اس ادارے کے لیے اعزاز و افتخار سے کم نہیں ۔
خورشید صاحب ایک کہربا شخصیت کے مالک ہیں ۔ ان سے جو ملتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے ۔ ان کے پاس ایک ایسا سِحر ہے ’’جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں ‘‘ لیکن زندگی کی اس سفاکی کا کیا کیجیے کہ مدعا طلبی میں یہ سحر غالب کی طرح خورشید صاحب کے بھی کام نہ آئے ، اس وقت وہ نصف نہارِ شباب پر تھے اس حادثے سے پلک جھپکنے میں (بقول خود) برجِ کہولت میں آ گئے ۔نتیجتاً اردو شاعری کو ’’شاخِ تنہا‘‘ کی غزلوں کا تحفہ مل گیا۔
ان کے چہرے پر حسن، حیا اور فراست کا نور ہے ، ان کے لہجے میں نرمی اور گھلاوٹ ہے ، وہ ایک سنجیدہ انسان ہیں لیکن ان کی سنجیدگی جتنی پُرخلوص ہے وہ اتنا ہی پُر خلوص قہقہہ لگانا بھی جانتے ہیں ، علم و فضل کے کمال نے ان کے مزاج کو گراں بار نہیں کیا ہے ۔ وہ قاسم العلوم و الخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی کی علمی اور ابوالفتح شیخ کرمانی اور مولانا احمد احسن امروہوی کی نسبی وراثت کا افتخار رکھتے ہیں ۔ مولانا احمد حسن امروہوی ان کے نانا کے حقیقی نانا تھے ۔ وہ مولانا قاسم نانوتوی کے براہِ راست شاگرد اور اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن کے ہم درس تھے ، ڈاکٹر مختارالدین احمد کی تحقیق کے مطابق مولانا عبدالعزیز میمن بھی کچھ عرصہ مولانا احمد حسن امروہوی کے شاگرد رہے ۔ ابن المقفع اور خلیل بن احمد کی پہلی ملاقات جو ’’شاید‘‘ کے احتیاطی ہتھیار کے ساتھ خورشید صاحب نے ایک جگہ نقل کی ہے خود خورشید صاحب کی یاد بھی دلاتی ہے ۔وہ یوں کہ دونوں عبقریوں سے جب ایک دوسرے کے بارے میں ان کا تاثر دریافت کیا گیا تو خلیل نے ابن المقفع کے علم کو اس کی عقل سے اور ابن المقفع نے خلیل کی عقل کو اس کے علم سے بڑ ا قرار دیا، میں خورشید صاحب کو ان دونوں صورتوں سے ممیز کرتا ہوں یوں کہ ان کی عقل بھی بڑ ی ہے اور علم بھی۔
خورشید صاحب ابھی چار برس کے تھے جب ان کے والدِ گرامی کا انتقال ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنی والدہ اور چند عزیزوں کے ہمراہ پاکستان آئے اور اسلامیہ ہائی ا سکول منٹگمری(حال ساہی وال) میں پانچویں درجے میں داخل ہوئے ۔اس کے بعد کے تعلیمی مراحل گورنمنٹ ہائی ا سکول منٹگمری اور گورنمنٹ کالج ساہیوال میں طے پائے ۔ نارتھ ویسٹرن ریلوے ساہیوال کے چھوٹے سے کوارٹر، یتیمی اور لالٹین کی روشنی میں بچپن گزرا۔ مستقبل میں مطلعِ سخن پر خورشید بن کر چمکنے والے نے بی اے تک حصولِ علم کا سفر چندا کی چاندنی میں طے کیا لیکن اسی اثنا میں اس کی ملاقات علومِ عربیہ کے آفتاب اور مولانا اصغر علی روحی کے فرزند ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق سے ہو گئی۔خورشید صاحب کی پرورش ان کے بڑ ے ماموں نے کی جو ریلوے میں ٹرین کلرک تھے ، جن کی محبت نے خود خورشید صاحب کے بقول سب کچھ بھلا دیا لیکن ان کی حقیقی تربیت ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے فرمائی جو انھیں گورنمنٹ کالج ساہیوال کی طالب علمی کے زمانے میں ملے اور پھر اپنے آخری دم تک خورشید صاحب کے لیے فکر مند اور سراپا شفقت بنے رہے ۔صوفی صاحب نے خورشید صاحب کو اپنا حقیقی شاگرد قرار دیا اور واقعہ یہ ہے کہ شاگرد نے استاد کی نام وری میں اضافہ کیا مگر اب اسے کیا کہا جائے کہ خورشید صاحب کے ہاں یہ سلسلہ جاری نہیں ہوا۔ صرف یہی نہیں کہ ان کے ہاں بابِ تلمذ جاری نہیں ہوا بل کہ صورتِ تصنیف میں بھی ان کے کمال کا اظہار نہیں ہوا۔تُرک سکالر ڈاکٹر فواد سیزگین کے خطبات کا ترجمہ’’ تاریخِ علوم میں تہذیبِ اسلامی کا مقام‘‘ (۱۹۹۴ء)، ابن الشعار کمال الدین ابی البرکات المبارک (م۱۲۵۶ء) کے تذکرۃ الشعرا ’’قلائد الجمان فی فرائدِ شعرائِ ھذا الزمان‘‘ کی تدوین(۲۰۰۱ء) اور مجموعۂ مضامین ’’تالیف‘‘ (۱۹۹۵ء) و ’’اطراف‘‘ (۲۰۰۳ء) خورشید صاحب کے علم و فضل کی جھلکیاں ہیں ، ان کے کمال کے نمایندہ کام نہیں ، البتہ صورتِ شعر میں ان کی صلاحیت کا اظہار ہوا ہے ۔ انھوں نے زندگی سے متعلق جو کچھ سمجھا اور محسوس کیا اسے اپنے شعری مجموعوں ’’شاخِ تنہا‘‘ (۱۹۷۴ء)، ’’سرابوں کے صدف‘‘ (۱۹۸۱ء)، ’’رایگاں ‘‘(۱۹۹۶ء) اور ’’امکان‘‘ (۲۰۰۴ء) میں محفوظ کر دیا ہے ۔
’’شاخِ تنہا‘‘ میں وہ ایک رومانی مگر نیم فلسفیانہ شاعر کے طور پر ابھرے ، جسے اداسی عزیز ہے اور وہ زندگی کے ہجوم سے الگ ہو کر چلنے کا خواہاں ہے ۔ اُس کے ہاں دنیا کی بے ثباتی کا احساس اس قدر غالب ہے کہ اُسے یہاں کچھ کر گزرنے کی امنگ لغو دکھائی دیتی ہے ، اس لیے وہ اپنی چُپ کی گُپھا میں بخود گزیدہ اور مست رہنا پسند کرتا ہے ۔شاعر کا ماضی کسی رومانی تجربے سے عبارت ہے جس کی یاد البتہ اس کے لیے بہارِ گزشتہ کا درجہ رکھتی ہے اور یہی مضمون اس کی شاعری کو فکری وحدت عطا کرتا ہے ۔
’’سرابوں کے صدف‘‘ کی غزلوں میں بھی دل کے گنجِ شایگاں کے رایگاں چلے جانے کا اندیشہ غالب ہے ۔ شاعر کو لب کھولنے کے مقابلے میں ہنسنا بولنا ترک کر دینا زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے اور اسے پتھروں کے ڈھلانوں پر سنبھلنے کی کوشش میں اپنی زندگی کا عکس نظر آتا ہے ۔اس مجموعے میں شاعر نے اپنے اظہار کے لیے آزاد نظم کی ہیئت کو بھی دریافت کر لیا ہے اور اس کتاب کے ذریعے پہلی بار یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ شاعر کے مزاج کو کلاسیکی غزل ہی سے نہیں ، آزاد نظم سے بھی خاص مناسبت ہے ۔
’’شاخِ تنہا‘‘ میں شاعر رومانی تجربے کے کُل سے جڑ ا ہوا تھا، ’’سرابوں کے صدف‘‘ اسی تجربے کے پس و پیش کی تخلیقات پر مشتمل تھی۔ ’’رایگاں ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے زندگی کی سفاکی کا احساس بہت گہرا ہو چکا تھا۔ سابقہ تجربے کے رنگ و روغن کی جگہ زندگی کے کھردرے اور تلخ روپ نے لے لی تھی یوں کہ شاعر بہارِ گزشتہ کے التفات کو بھی بے فائدہ تکرار پر محمول کرنے لگا۔ آتے ہوئے وقت کے قدموں کی صدا گزری ہوئی عمر کی یادوں کے فسوں پر غالب آ گئی، اُسے اپنے باطن کی اکائی کے بکھر جانے کا احساس شدید دُکھ میں مبتلا کر گیا اور وہ سمجھنے لگا کہ زمانے نے اسے پراگندہ روزی و پراگندہ دل رکھا ہے اور روزمرہ کے ریزہ ریزہ کام اس کے باطن کی اکائی کے جڑ نے میں حائل رہے ہیں ، یوں اس کی زندگی عام زاویوں میں بسر ہو کر رہ گئی ہے ۔ہر طلوع ہونے والی صبح اس کے کندھوں میں مسائلِ نو کی میلی اجلی چھوٹی موٹی گٹھریاں رکھ دیتی ہے جن میں کارِ دنیا کے وبال بندھے ہوتے ہیں اور دن قباے زندگی کی ان الجھی دھجیوں کو سلجھانے میں گزر جاتا ہے ، دل میں بند اطلس و کمخواب جیسے خوابوں کی تعبیر کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔ یہ صورتِ حال اسے غم سے دوچار کر دیتی ہے ، وہ جو وسعتِ ویراں میں کِھلتے ہوئے رایگاں پھولوں کو دیکھ کر سہارا پانے اور شاخچوں پر جھولتی ننھی چڑ یوں کو دیکھ کر زندگی کے روشن پہلو دریافت کر لینے والا شاعر تھا، خاک پر گہری نظر ڈال کر سبھی کچھ خاک قرار دینے لگتا ہے اور اسے صف بہ صف کِھلتے پھول بھی صفِ ماتم کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
’’رایگاں ‘‘ اور ’’امکان‘‘ میں آٹھ برس کا فاصلہ ہے لیکن اس کم زمانی وقفے میں شاعر کے رویے نے ارتقا کے بہت سے مراحل طے کر لیے ہیں ، اب بدحالی میں بھی اس کی نظر شہزادگی پر اور پائمالی میں بھی پائداری پر ہے ۔رایگانی کے احساس پر آزادی کا احساس غالب آنے لگاہے اور وہ بکھرتے لمحوں پر نظر کرنے کی جگہ بھرے سمندر میں حصارِ تنہائی کھینچ کر بیٹھے حباب کے اعتماد کو دیکھنے لگتا ہے ۔ طراز عنوان اگرچہ ’’امکان‘‘ کا غم ہے جس کا ماتم شاعر کے دل میں بپا ہے اور اسے عرصۂ حیات کی تکمیل قریب دکھائی دینے لگی ہے لیکن اس نے گردشِ دہر کے مسلسل مطالبوں پر خود کو پابندِ رواج کر لیا ہے جس کے نتیجے میں اب اُس کا سفر انتشار سے ارتکاز کی طرف ہے ۔ وہ افلاطون کی طرح شاعری کو ہستیِ موہوم کا عکسِ مزید قرار دینے کے باوجود تصویر کی تصویر بنانے کے عمل کو جاری رکھنا پسند کرتا ہے

پھیل جاتی ہے بہر گام مری حدِ سفر
سخت مشکل ہے کہ تا حدِ نظر جانا ہے

چاروں شعری مجموعوں کے نام بھی شاعر کی زندگی کے مرحلوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ آغاز ’’شاخِ تنہا‘‘ سے ہوا، جس میں شعرکی رگوں میں خون اتار کر گل بن و گلشن بن جانے کا امکان تھا۔ شاعر کی فلسفیانہ طبیعت نے اس نوع کے امکانات کو اپنی مثال پسندی کے باعث ’’سرابوں کے صدف‘‘ قرار دیا اوروہ رفتہ رفتہ حکیم سنائی غزنوی کا ہم آواز ہو گیا

با ز گشتم ہر چہ گفتم زاں کہ نیست
در سخن معنی و در معنی سخن

یہ رایگاں کا مرحلہ تھا جس کے بعد ایک بار پھر جڑ نے اور مرتکز ہونے کا دور آیا جس نے امکان کا نام پا لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’رایگاں ‘‘ اور’’ امکان‘‘ کے جن رویوں کی طرف ہم نے سطورِ ماقبل میں اشارہ کیا ہے ان دونوں کتابوں پر شائع ہونے والی شاعر کی تصویریں بھی انھی کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
شعر کی قدیم اور جدید روایت سے شاعر کا رشتہ مضبوط ہے ، تجربہ منفرد اور اظہار مکمل ہے اور نہایت دلکش۔شاعر صاحبِ علم و فضل ہو تو بعض اوقات شاعری علم و فضل کے بوجھ تلے دب جاتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے ۔ علم و فضل نے شاعری میں راہ توپائی ہے لیکن یوں کہ شعریت مجروح نہیں ہوئی۔جدید نظم کے اکثر شاعروں کے ہاں آزاد نظم کے حوالے سے یہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آزاد نظم اُن کے نزدیک محض ایک ہیئت ہے ، وہ غزل کے رنگا رنگ مزاج سے جدا ہوتے ہیں تو نظم کو معنوی یک رنگی کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں ۔شاید وہ اسے غزل کے ایک شعر کی توضیح سمجھتے ہیں ، چنانچہ ان کے ہاں نظم ایک قاش کے روپ میں ابھرتی ہے اور معانی کی قوسِ قزح تشکیل نہیں دیتی، بہت کم شاعر ایسے ہیں جن کی نظمیں ہیئتِ محض کی سطح سے بلند ہو کر پرت در پرت معنویت کا جادو جگا سکتی ہیں ۔ ’’سرابوں کے صدف‘‘ کی نظموں میں یہ بات موجود ہے ۔ اس کے بعد شائع ہونے والے مجموعوں میں بھی ’’حمد‘‘، ’’مدینے میں ‘‘، ’’نابینائی میں ایک خواب‘‘، ’’ایک خیال‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ ایسی نظمیں موجود ہیں جنھیں جدید دور کی نمایندہ نظمیں کہا جا سکتا ہے ۔ابتدائی نظموں پر مجید امجد کا عکس دکھائی دیتا تھا لیکن اب نظم میں بھی شاعر کا اپنا رنگ واضح ہو چکا ہے ۔
ان کے کاموں میں شاعری کے علاوہ اگر کوئی چیز ان کے کمالات کا تعارف ہو سکتی ہے تو وہ سطورِ ما قبل میں مذکور عربی تذکرے کی متنی تدوین ہے ۔ ’’قلائد الجمان فی فوائد شعرائِ ہذا الزمان‘‘سے ان کا تعارف، جسے پہلے ’’عقود الجمان فی الشعرائِ ھذا الزمان‘‘ کہا جاتا تھا، پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے موضوع کی تلاش کے دوران میں ہوا، اس مقصد کے لیے انھوں نے اس مخطوطے کے ابتدائی ساٹھ اوراق کی تدوین کی، جس کے بارے میں ان کے استادِ گرامی اور مقالے کے ایک ممتحن ڈاکٹر ایس ایم زمان نے لکھا:
"It is a fine specimen of good critical editing and the candidate appears to be well-versed in the mechanics of the discipline. He shows a fairly high degree of command over the Arabic language."
انھوں نے اس موضوع پر تحقیق کا آغاز ۷۶۔۱۹۷۵ء میں کیا تھا، ۱۹۸۱ء میں انھیں اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی، اس کے بعد جب وہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے وابستہ ہوئے تو موضوع سے تعارف کے دس برس بعد ان کا رابطہ عراق کے ڈاکٹر قاسم مصطفی سے ہوا، جو موصل یونیورسٹی کے اہتمام میں ’’ابن الشعار‘‘ کے مخطوطے کی دس جلدوں میں سے تمام دست یاب یعنی آٹھ جلدیں مدون کروا کر شائع کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے ۔انھوں نے جب خورشید صاحب کا کام دیکھا تو ان سے ’’قلائدالجمان ‘‘ کی چھٹی جلد مدون کرنے کی فرمائش کی، جو مخطوطے کی کیفیت کے اعتبار سے اس کتاب کا سب سے مشکل جزو تھا، ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی تو اس کے دو برس بعد ۶۵۶ھ/۱۲۵۸ء میں ہلاکو خان نے سلطنتِ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ بیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب خورشید صاحب نے اس کتاب کی چھٹی جلد کی تدوین مکمل کی تو خلیج کی جنگ نے ایک بار پھر سلطنتِ عراق کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑ ا کیا جو بالآخر اکیسویں صدی کے ہلاکو کے ہاتھوں مکمل ہوئی اور یوں ڈاکٹر قاسم مصطفی، موصل یونیورسٹی اور وہاں کا اشاعتی منصوبہ سب کچھ ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘ کا مصداق بن گیا۔علمی دنیا کو شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر جمیلہ شوکت کا ممنون ہونا چاہیے جن کی دلچسپی اور توجہ سے ۲۰۰۱ء میں یہ ارمغانِ علمی چَھپ کر شائع ہو سکا۔ابن الشعار اپنے عہد کا ایک شاعر اور تذکرہ نگار تھا جس نے معاصر شعراکے حالات اور نمونہ کلام پرمشتمل یہ دستاویز کم ازکم تیس سال کی محنت سے تیار کی، جسے خورشید صاحب نے آٹھ صدیوں کے بعد زندہ کیا۔یہ کتاب بعض حوالوں سے بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے ، ابنِ عربی، ابنِ خلکان اور ذہبی جیسی شخصیات سے متعلق نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ امام رازی، ابن الاثیر، ابن جبیر، یاقوت الحموی، ابن المستوفی اور ابنِ خلکان جیسے لوگ شاعر کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ شمس الدین المقدسی کے طویل نعتیہ قصیدہ کا متن، جسے امام بوصیری کے ’’ قصیدۂ بُردہ‘‘ پر زمانی تقدم حاصل ہے اور جسے خورشید صاحب نے ’’ قصیدۂ شمسیہ‘‘ کہا ہے ، پہلی بار سامنے آتا ہے ۔
خورشید صاحب نے اپنی تحقیقات میں ابنِ خلکان اور ابنِ عربی کے حوالے سے بالکل نئی معلومات پیش کی ہیں ۔ ابنِ خلکان کی یہ روش کہ وہ ’’وفیات الاعیان‘‘ کے تراجم میں معاصرین کی کمزوریوں پر نگاہ نہیں کرتا اور ہمہ را خوبی یاد کر دن کے طریقے پر عامل ہے ، خورشید صاحب نے متنی شواہد سے دریافت کی۔ ابنِ عربی کی زندگی میں آنے والے انقلاب کا سبب کیا تھا۔۔۔؟ جس کے نتیجے میں بیس سال کا نوجوان سپاہی عالمِ اسلام کا بہت بڑ ا صوفی بن گیا، پہلی بار خود ابنِ عربی کے الفاظ میں ، ’’قلائدالجمان‘‘ سے معلوم ہوا ہے ۔ خورشید صاحب کی روشِ تحقیق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اس دریافت پر بھی کسی ادعا کا اظہار نہیں کرتے اور اس موضوع پر آکسفورڈ سے شائع ہونے والے Gerald Elmore کے دو مضامین کا حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ یہ مضامین خورشید صاحب کی تحقیق شائع ہونے کے بعد سامنے آئے ، اس لیے خورشید صاحب بہ آسانی اس باب میں اولیت کا دعویٰ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے کمال دیانت داری کے ساتھ اپنے قاری کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ابنِ عربی کی زندگی میں آنے والے انقلاب کا سبب دریافت کرتے ہوئے میرا کام جیرلڈ ایلمورکے پیشِ نظر نہیں تھا۔ اسی طرح انھوں نے جب اپنی تحقیق فرانسیسی سکالر Claude Addas کو بھجوائی تو اس کا یہ ردِّ عمل بھی قاری کو بتانا ضروری سمجھا کہ یہ محقق خاتون پہلے سے ابن الشعار کا مخطوطہ دیکھ چکی تھی۔
آج کل وہ اپنے ایک چالیس برس سے پال میں لگائے ہوئے مسودے کو مبیضے میں بدل رہے ہیں جو ’’عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے عنوان سے بالاقساط شائع بھی ہو رہا ہے ۔ گو یہ مضمون نظرِ ثانی کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن تحقیقِ مزید تندیِ صہبا کی طرح آبگینے کو پگھلا کر کچھ سے کچھ بنائے دے رہی ہے ۔ امید ہے کہ یہ کام جلد مکمل ہو کر سامنے آ جائے گا اور کچھ عجب نہیں کہ یہی کام اُن کے کمالات کا نمایندہ بن جائے ۔گو اُن کے تراجم و مضامین ان کی شخصیت کا پورا تعارف نہیں لیکن اپنی جگہ یہ ’’پریشان نویسی‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے ۔انھوں نے عمرِ عزیز کا ایک حصہ تدوینِ متن کی شیشہ گری میں صرف کیا ہے ۔ تدوین ہو یا ترجمہ وہ متن کے ساتھ وفادار رہتے ہیں ۔ صحتِ متن کے حوالے سے ان کے حسّاس ہونے کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’قلائدالجمان‘‘ میں ایک مقام پر لفظ’ أعطیت‘ کے بجاے ’أوتیت‘ چھپ گیا تھا، دیر تک اس کے لیے پریشان رہے اور جب اس کے بعد ان کی کتاب ’’اطراف‘‘ چھپی تو اس میں ’’قلائد‘‘ کے اس تسامح کی نشان دہی کی۔ترجمے کی دنیا میں مشکل ترین گھاٹی منظومات کی ہوتی ہے ، خورشید صاحب یہاں سے زیادہ سہولت کے ساتھ گزرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسے تراجم میں زبانوں پر ان کی گرفت کے ساتھ متخیلہ کی قوت آمیز ہو کر ترجمے میں تخلیقی شان پیدا کر دیتی ہے ۔ ان کے مضامین جہاں محققانہ تجسس کی آئینہ داری کرتے ہیں وہاں لکھنے والے کی تہذیب یافتہ شخصیت کے بھی عکاس ہیں ۔ انھیں پڑ ھ کر اپنی بات کے ابلاغ اور دوسرے سے اختلاف کا سلیقہ سیکھا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب ان کی شعر گوئی سے ناخوش تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ شعر گوئی ان کے لائق شاگرد کے کمالات کے اظہار میں رکاوٹ بن جائے گی۔صوفی صاحب مرحوم نے خورشید صاحب میں ’’علماے سلف کے اوصافِ عالیہ کی کچھ جھلک‘‘ دیکھ لی تھی اس لیے انھوں نے اپنے ’’قابلِ فخر شاگرد‘‘ کے لیے ’’علم و عمل کی معراج‘‘ پر پہنچنے اور’’ دین و دنیا میں قابلِ رشک ہستی‘‘ بن جانے کی آرزو کی اور زمانہ شاہد ہے کہ صوفی صاحب کا اخلاص رنگ لایا۔اب اس صورتِ حال کو کیا کہا جائے کہ خورشید صاحب نے چونتیس برس کی باقاعدہ تدریس اور اس کے بعد کے عرصے میں اس امانت کاکوئی امین نہ پایا۔ وہ اپنی طبیعت کی وراثت کو اپنے پاس ہی رکھے رہے اور غالب کی طرح بو علی سینا کے علم کو اور نظیری کے شعر کو بے فایدہ ، رایگاں اور موہوم خیال فرمانے کی منزل پر پہنچ گئے ۔ اُن کی شخصیت کی وہ خوبیاں جن کا ابھی ذکر ہوا، اُن کی مقبولیت اور ہمہ رنگی جس سے ان کے تمام احباب واقف ہیں ، یہ توقع پیدا کرے تو جائز ہے کہ انھوں نے زندگی میں یقیناً بہت سے شاگرد تیار کیے ہوں گے جو ان کے علم و فضل کے وارث کہلا سکیں ، خورشید صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ اُس کو پَر لگ گئے جو شخص مرے پاس آیا‘‘ لیکن یہ پَر اس علم و فضل کے نہیں ہیں جو خدا نے خورشید صاحب کو ودیعت کیا اور جس کے نکھار میں ان کے استادِ محترم ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے نہایت محبت کے ساتھ محنت فرمائی۔ وہ غزل جس میں انھوں نے ’’مجھے کھا گئے ‘‘ کی ردیف کے ساتھ ریزہ ریزہ کاموں کے سبب سے اپنے باطن کی اکائی کے نہ جڑ پانے کا ذکر کیا ہے ، شاید اسی صورتِ حال کا جواز پیش کرتی ہے ۔
ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق صاحب مرحوم نے خورشید صاحب کی شخصیت اور ان کے علم و فضل کی صورت پزیری میں جو خدمت انجام دی اس کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے ۔ابھی تو ہم صوفی مرحوم پر لکھے جانے والے خورشید صاحب کے کسی مضمون سے بھی محروم ہیں ۔
خورشید صاحب کی شخصیت کی حدود سخت ہیں ۔ ان سے ملاقات اور بات کرنا جتنا آسان ہے ان کو پا لینا اتنا ہی دُشوار ہے ۔ انھوں نے خود کہہ رکھا ہے کہ:

تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہرگز کہ مرے گرد
دیوار ہی دیوار ہے ، دروازہ نہیں ہے

صرف یہی نہیں کہ دروازہ نہیں ہے بل کہ یہ دیوار بھی خاصی اونچی ہے اور خورشید صاحب کس و ناکس کو یہ دیوار سر کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ، ربط ضبط میں حساب برابر رکھتے ہیں ۔اُن کے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ سال ہا سال کے تعلق کے بعد بھی خورشید صاحب لیے دیے رہتے ہیں ۔شاید اس کا سبب انسانی تعلقات کی وہ ناپائیداری ہو جسے کم لوگ سمجھ پاتے ہیں ۔انسان معاشرتی حیوان ہونے کے باعث رہتا تو دوسرے انسانوں کے ساتھ ہی ہے لیکن حقیقت میں تنہا ہے اور اس کے اکثر رابطے صدموں پر منتج ہوتے ہیں ۔ خورشید صاحب چوں کہ صورت سے حقیقت تک کا سفر جلد طے کر لیتے ہیں ، اس لیے انھیں والہانہ رابطوں میں جبر کے پہلو دکھائی دینے لگتے ہیں اور وہ بیدلؔ سے متفق ہو جاتے ہیں

بہ دل گفتم کدامیں شیوہ دشوار است در عالم
نفس در خوں تپید و گفت پاسِ آشنائی ہا

اُن کی شخصیت میں جو کمالات ہیں ان میں ایک کمال حسنِ انکار کا بھی ہے ، لیکن ایسا نہیں کہ آپ ان کے انکار سے ناخوش ہو کر لوٹیں ۔ ان کے پاس اپنی بات کے حق میں اتنے دلائل ہوتے ہیں کہ آپ کا موقف خودبخود زائل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ان سے اتفاق کرتے کرتے بالآخر آپ خود ہی اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جاتے ہیں ۔
تمام لوگوں کے لیے تمام لوگوں کے مطالبات پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن میں نے خورشید صاحب کے سوا کسی میں یہ کمال نہیں دیکھا کہ مطالبہ بھی پورا نہ ہو اور مطالبہ کرنے والا خوش و خرم انکار کا بھی قائل ہو جائے ۔موافق یا مخالف فضا میں اپنی بات کا ابلاغ کرنا اور دوسروں کو ہم نوا بنا لینا ایک غیر معمولی وصف ہے ۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ حق بجانب ہونے کے باوجود اپنی بات نہیں منوا سکتے ۔ خود راقم السطور کا حال پروین شا کر کے مصرعے ۔۔۔ ’’میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی‘‘ سے مختلف نہیں ہے ۔بعض لوگ اپنے موقف کی صداقت کے باعث مغلوب الغضب ہو جاتے ہیں ، یوں ان کی شدتِ جذبات کے باعث میدان دوسرے کے ہاتھ جا رہتا ہے ۔سرسید احمد خان ایک بار چندے کے لیے لا ہور آئے ۔ ان کی آمد سے پہلے ہی مخالفوں نے ان کی نیچریت کا پرچار کر دیا تھا۔سرسید بادشاہی مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد اپیل کے لیے کھڑ ے ہوئے تو نمازی انھیں کافر اور نیچری کہتے ہوئے ایک ایک کر کے باہر نکل گئے ۔اگلی بار دہلی سے ڈپٹی نذیر احمد کو بلایا گیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ردِّ نیچریت سے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ لوگ شوق سے آئے تھے ، جم کر بیٹھے ۔ خیال تھا نیچریوں کی رسوائی کا تماشا ہو گا۔ نذیر احمد کا تردیدی لیکچر پہلو بدلتا بدلتا جہاں پہنچا، وہاں علی گڑ ھ کالج کے لیے چندے کی بارش ہو رہی تھی۔ گفتگو کا یہ کمال کہ بدترین مخالف بھی خاموش ہو جائے ، اپنے موقف کو ترک کر دے بل کہ آپ کا ہم نوا بن جائے ، بہت کمیاب ہے ۔ یوں تو ہم مختلف سربرآوردہ لوگوں کی گفتگوؤں سے حاضرین کو اتفاق کرتا پاتے ہیں لیکن ایسا وقتی ہوتا ہے اور عموماً قائل کے منصب کے باعث لیکن خورشید صاحب جیسا دنیاوی جاہ و جلال اور مناصب سے دور شخص جب اپنی بات منوا لیتا ہے تو اس کے پیچھے یقیناً کوئی اور قوت ہوتی ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں ۔
خورشید صاحب اور ڈپٹی صاحب میں کم ازکم ایک قدر اور مشترک ہے اور وہ عربی دانی کی ہے ۔ نذیر احمد بھی عربی کے بڑ ے عالم تھے اور خورشید صاحب کو بھی اس میں تبحر حاصل ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ اہلِ زبان اپنی زبان میں غیر اہلِ زبان کے کمالات کا کم ہی اعتراف کرتے ہیں لیکن خورشید صاحب کی عربی دانی کا اعتراف عربوں نے بھی کیا ہے ۔وہ جب اسلام آباد میں تھے تو انھوں نے افغانستان کے حوالے سے عربی میں ایک نظم ’’أ اِخوتنا الافغان‘‘ کے عنوان سے کہی، جو ایک ایسی محفل میں پڑ ھی گئی جس میں اہلِ عرب شامل تھے ، جنھوں نے دل کھول کر اس نظم کی داد دی۔ عراق کی موصل یونیورسٹی نے ابن الشعار کے مخطوطے کا مشکل ترین حصہ مدَّوَن کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا، اسلامی ترقیاتی بنک جدہ کو پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے ربا سے متعلق مشہور فیصلے (Federal Shariat Court Judgement on Riba) کے عربی میں ترجمے کی ضرورت پیش آئی تو یہ خدمت بھی خورشید صاحب کے سپرد کی گئی۔۵۱۹ صفحات پر مشتمل یہ ترجمہ ’’حکم المحکمۃ الشریعۃ الاتحادیۃ الباکستانیہ بشان الفائدہ(الربا)‘‘ کے نام سے ’’ المعہد الاسلامی للبحوث والتدریب البنک الاسلامی للتنمیہ جدہ‘‘کی طرف سے ’’سلسلۃ الترجماۃ الاقتصاد الاسلامی‘‘ کے تحت ۱۴۱۶ھ(۱۹۹۵ء) میں شائع بھی کیا گیا اور مترجم کو تحسین و اعتراف کا ایک سند نامہ بھی دیا گیا۔یہ مترجم ہی کے لیے نہیں اس کے ملک کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے ۔عربی تو خیر خورشید صاحب کا مضمون ہے ، جس پر انھوں نے عمر بھر محنت کی ہے وہ اس کے ساتھ اُردو، فارسی، انگریزی اور پنجابی پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔انھوں نے ان تمام زبانوں میں شاعری بھی کی ہے ۔ہندی میں بھی درک رکھتے ہیں مگر مزاولت نہ ہونے سے اب دُوری ہے ۔ ایک زمانے میں ستارہ شناسی سے بہت شغف رہا۔ اب بھی ہیلی کے دُم دار ستارے کی جستجو کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ان کے خیالات شعر میں ہوں یا نثر میں ، اوریجنل ہیں ۔ زندگی سے متعلق ان کا اپنا زاویۂ نظر ہے ۔ وہ پیش پا افتادہ راستوں کے مسافر نہیں ہیں ، وہ ایک ذمہ دار انسان ہیں ۔ ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ، انھیں رازدار بنایا جا سکتا ہے ۔ وہ دوسروں کی برائی نہیں کرتے ۔ ان کے سامنے کسی کی برائی کی جائے تو وہ اپنی بھوؤں کو ا چکاتے ہوئے موضوع تبدیل کر دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)
 

نوید صادق

محفلین
وہ خبریں نہیں سنتے ، اخبار نہیں پڑ ھتے ، سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتے ۔ ان کا مشغلہ پڑ ھنا پڑ ھانا ہے ۔مکالمہ ان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ وہ گھنٹوں بے تکان باتیں کر سکتے ہیں ۔۔۔با معنی باتیں ۔۔۔ایسی کہ ایک ایک جملہ بُنا ہوا، کسا ہوا، ان کی گفتگو لکھ لیں تو اچھا خاصا مضمون تیار ہو جائے ۔۔۔ وہ سبع معلقات، شاہ نامۂ فردوسی اور شیکسپیئر جیسے عالمی کلاسیک سے لے کر امام دین گجراتی جیسے شاعر تک کا مطالعہ رکھتے ہیں اور ان پر یکساں مہارت اور فصاحت کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں ۔ یوں کہ جابجا ان کے متن کے اقتباسات بھی گفتگو کے زور اور حسن میں اضافہ کرتے ہوں ۔کاش ان کی تمام تقریریں اور ٹیلی ویژن پروگرام محفوظ کر لیے جائیں ۔ وہ ربع صدی سے زیادہ عرصے سے ٹیلی ویژن پر جلوہ نما ہو رہے ہیں ۔زیادہ تر دینی پروگراموں میں شرکت کے باعث ناظرین انھیں اسلامیات کا استاد سمجھتے ہیں اور وہ دینی مصادر پر براہِ راست نظر ہونے کے باعث بہت سے علماے دین کے مقابلے میں دین کا زیادہ فہم رکھتے ہیں لیکن انھیں اپنے تعارف کے لیے ادب کا حوالہ زیادہ پسند ہے ۔
خط کا جواب فوراًدیتے ہیں ۔ تقریبات میں شرکت گوارا ہے ۔ مشاعروں کے لیے دور دراز بل کہ بیرونِ ملک تک کا سفر کر لیتے ہیں ۔غم میں زیادہ اور خوشی میں کم شرکت کرتے ہیں ، البتہ جہاں جانا آسان ہو، وہ اپنے الفاظ کے استعمال میں محتاط ہیں ۔متنازع موضوع پر بھی یوں رائے دیتے ہیں کہ کوئی اس پر حرف زنی نہیں کر سکتا۔ وہ چیزوں کو ان کے اصل روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ، تحقیق کی زبان میں بات کی جائے تو وہ بنیادی مآخذ (Primary Source) دیکھے بغیر راے قائم نہیں کرتے ۔ آپ ان سے رواروی میں بھی کوئی علمی سوال پوچھیں تو وہ نہایت ذمہ داری اور پوری تحقیق کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں ، خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی دِقت کیوں نہ اٹھانی پڑ ے یا بے جھجھک اپنی لاعلمی کا اظہار کر دیتے ہیں ۔ اس سے ان کی علمی اور شخصی دیانت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ شخصی دیانت ہی ہے جو فرد کے باطن کو صلابت اور طمانیت عطا کرتی ہے ۔ خورشید صاحب میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں ۔ آپ ان سے جب اور جس موضوع پر بات کریں یوں لگتا ہے کہ اب انھیں اس موضوع پر گفتگو کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے ، حالانکہ وہ چند در چند علمی اور تدریسی مشغولیتوں میں الجھے رہتے ہیں ، گھریلو ذمہ داریوں کا بار ان پر مستزاد ہے جو گھر کے تنہا ذمہ دار ہونے کے ناتے معمول سے کچھ کم نہیں ہیں ۔
اپنے معاشرتی رویوں پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم ایک جھوٹی تہذیب کی تشکیل کر رہے ہیں ۔ہم یا ہم میں سے اکثر جو کچھ کہتے ہیں اس کے معانی سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔اسی لیے تو دل کجا، کہنے والوں کی آنکھیں بھی زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ خوب صورت لفظوں کے پیچھے جھانکا جائے تو تو ایک اور ہی دنیا دکھائی دے جاتی ہے ۔دوسروں کے بارے میں راے بالعموم ان کی سماجی حیثیتوں اور مناصب سے متاثر ہو کر قائم کی جاتی ہے ۔رُوبہ رُو پیش کی جانی والی آراپسِ پردہ ظاہر کیے جانے والے خیالات سے اور پسِ پردہ ظاہر کیے گئے خیالات، ظاہر میں بیان کیے گئے نظریات سے مختلف ہوتے ہیں اور طرزِ عمل بالعموم الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہو تا۔ ایک شخص دوسرے کے سامنے اس سے متفق ہوتا ہے مگر تیسرے کے ساتھ ملاقات پر پہلا، دوسرے کی ہر بات سے اختلاف اور تیسرے سے اتفاق کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ہم نے اپنی عقل کی اساس پر جو معاشرتی معیار مقرر کر رکھے ہیں ان کی پیچیدگی، زندگی کی پیچیدگیوں سے بھی بڑ ھ چکی ہے اور ہم ایک ایسے راہبر کی متابعت کر رہے ہیں جو خود گم کر دۂ راہ ہے ۔ صائب اصفہانی

از ہم رہیِ عقل بہ جاے نہ رسیدیم
پیچیدہ تر از راہ بود راہ برِ ما

ایسے دور اور خستہ و شکستہ معاشرے میں کسی مضبوط اور توانا کردار کا ابھرنا اور اپنے باطن کی صداقت کے ساتھ سرگرمِ عمل رہنا بہت دشوار بات ہے اور خورشید صاحب ایک ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں جنھیں اپنے الفاظ کے مطالب کا پورا شعور ہے اور جن کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف نہیں ہے ۔ ان کے شاگرد خوش نصیب ہیں جنھوں نے ایک عبقری ذہن اور دل کش شخصیت کا تلمذ پایا۔ ان کے احباب اور نیازمند فخر کر سکتے ہیں کہ انھیں خورشید صاحب جیسی نادرِ روزگار اور دل نواز شخصیت سے صحبت رہی، ان کا عہد خوش قسمت ہے جو ان کی موجودگی سے سرفراز ہے ۔
وہ نہایت لطیف احساس کے مالک ہیں ۔ بقول خود ان کے لہو پر صبا بھی لہریں بنا جاتی ہے ، شاید بجا طور پر اُن کا خیال ہے کہ

مجھ سے محروم رہا میرا زمانہ خورشید
مجھ کو دیکھا ، نہ کسی نے مجھے جانا خورشید

آئینہ بھی مکمل عکس نہیں دکھاتا۔ اس کے زاویے بھی کرنوں کا مزاج بدل دیتے ہیں لیکن اس ٹوٹی پھوٹی نامکمل دنیا میں کچھ لوگ بہرحال ایسے ہیں جو خورشید صاحب کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا جانا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر
 

نوید صادق

محفلین
محمد یعقوب آسی

برگِ آوارہ کی تمثیل

(۱)

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

نہ جانے کون سا لمحہ تھا جب میں نے خود کو امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ علی مطہر اشعر کی شاعری پر بات کرنا برگِ آوارہ کی تمثیل سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ بہاروں کے سودائی تو بہت ہیں کہ برگ و گل سب کو اچھے لگتے ہیں ۔ خزاں سے پیار کرنے کا سلیقہ کم کم لوگوں کو آتا ہے ۔ اشعر صاحب کا نام ایسے ہی چیدہ چیدہ لوگوں میں شامل ہے ۔ زندگی خزاں اور بہار کا امتزاج ہے ، اسے قبول کرنا ہے تو کلی طور پر قبول کرنا ہے

جوان ہاتھ میں اشعر تھا اک ضعیف کا ہاتھ
خزاں بدست خرامِ بہار اچھا لگا

اشعر صاحب کی شاعری پر بات کرنا دراصل اپنا قد بڑ ھانے کی کوشش ہے ، جیسے لوہا پارس کو چھونے کی کوشش کرے کہ سونا ہو جائے ۔ میں نے اُن کے کلام کا مطالعہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ میرا فیصلہ (کہ اُن کی شاعری پربات کی جائے ) چاند کو گودلینے کا فیصلہ ہے ۔ سو، میں نے اُن کی ذات اور چند واقعات کو اِس تحریر میں شامل کر دیا ہے تا کہ میرے لیے بات کرنا کسی قدر آسان ہو سکے ۔
اشعر صاحب کی شاعری کا سب سے بڑ ا وصف راست گوئی ہے ۔ شوکتِ الفاظ ا ور شانِ معانی جو اُن کے کلام میں پائی جاتی ہے ، اُس کے پیچھے اُن کی پوری شخصیت پوری قوت کے ساتھ موجود ہے ۔ مناسب ہو گا اگر اُن کے فن کے ساتھ ساتھ اُن کی ذات اور زندگی کی باتیں بھی چلتی رہیں ۔ اشعر صاحب کا تعلق خانوادۂ سادات سے ہے اور فکر و عقیدت کا محور سبطِ رسول کی ذات ہے ۔ ان کے بزرگ ہندوستان کے علاقہ روہتک کے ایک قصبہ شکارپور میں رہتے تھے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں اشعر صاحب نے مہاجرت اختیار کی اور پاکستان آ گئے ۔ بعد ازاں اُن کے والد ۱۹۵۸ء میں یہاں آئے ، وہ عربی فارسی انگریزی اور اردو کے معروف عالم تھے ۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی اور جون ایلیا اشعر صاحب کے سسرالی عزیزوں میں سے ہیں ۔ اشعر صاحب کو بچپن ہی سے شعر کا چسکا تھا، طبع موزوں تھی، سکول کے زمانے سے شعر کہنا شروع کیا۔ ایک گفتگو میں انھوں نے بتایا: ’ایک ہندو لڑ کا میرا ساتھی تھا، ایک مصرع وہ کہتا دوسرا میں کہتا اور یوں ہم شعر موزوں کیا کرتے تھے

عجیب بات ہے دورِ شباب میں اشعر
مصیبتوں کا زمانہ شباب پر آیا

یہ شعر انھوں نے ۱۹۵۵ء میں کہا (راقم کی تاریخ پیدائش ۱۹۵۳ء ہے )۔اپنے اس دور کے ہم جلیسوں کے نام یاد کرتے ہوئے اشعر صاحب نے بتایا: ’’ایک صفدر خان تھا، وہ پٹھان تھا، اس کا تعلق لکھنؤ سے تھا، اور ایک میں ۔ ہم اکٹھے رہتے ، گھنٹوں بحثیں ہوتیں ، موضوع کی کوئی قید نہ ہوتی، خوب خوب نکتہ آفرینیاں ہوتیں ، شعر کہے جاتے اور ایک دوسرے کے کلام پر ناقدانہ گفتگو ہوتی۔ تپش برنی، کمال کاسگنجوی اور شاہد نصیر کے ساتھ نشستیں ہوتیں ‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ شاہد نصیر سے کسبِ فیض کرنے والوں میں احمد فراز، محسن احسان اور ناصر کاظمی شامل ہیں ۔
واہ چھاؤنی کا صنعتی ماحول اپنی نوعیت کا منفرد ماحول ہے ۔ یہاں تعلیمی سہولتیں کسی قدر بہتر ہونے کی وجہ سے شعور اور آگہی، جذبات اور احساسات کو جلا ملتی ہے ۔ بارش کا پانی تو ہر جگہ برستا ہے ، اب یہ مٹی پر منحصر ہے کہ وہ پھول اگاتی ہے یا جھاڑ جھنکاڑ۔ علی مطہر اشعر پر جب آگہی کی بارش ہوئی تو وہ رنگ برنگ پھول کھلے اور وہ خوشبو پھیلی کہ ایک زمانہ انھیں جان گیا۔ کلام کی در و بست، الفاظ کی نشست و برخاست، محاورے کا استعمال، تلمیح کی علامتی اور محسوساتی سطح، خیال کی گہرائی اور گیرائی، زیرک نگاہی، وقار اور تمکنت، شوکتِ لفظی، لہجے کی گھن گرج اور اعتماد، اور بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جو قاری کو پہلی خواندگی میں اسیر بنالیتی ہیں ۔ علی مطہر اشعر کا لہجہ اور اسلوب بہت نمایاں ، بہت منفرد ہے ۔ ایک حمد میں ، مَیں چونک اٹھا ، مندرجہ ذیل دو شعرذوبحرین ہیں

چند لفظوں کے توسط سے بھلا کیسے لکھوں
میرے مالک میں تری حمد و ثنا کیسے لکھوں

وسعتِ ارض و سما کیا ہے بجز وہم و خیال
اور کچھ بھی ہے یہاں تیرے سوا کیسے لکھوں

یہ اشعار بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) پر بھی پورے اترتے ہیں اور بحر نمبر ۰ء۷۱۴ (فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن) پر بھی۔[حوالہ: ’’فاعلات‘‘ از محمد یعقوب آسی، مطبوعہ دوست ایسوسی ایٹس لا ہور ۱۹۹۳: صفحہ ۸۸]

نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ اس میں جہاں ادب، احترام، خود سپردگی اور خلوص ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ اُس ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ کو بھی سب سے عزیز ہے ، اللہ کے مصداق نہ بنا دیا جائے اور

جب اُن کی ذاتِ گرامی پہ گفتگو کیجے
ادب ادب کی طرح ہو، یقیں یقیں کی طرح

علی مطہر اشعر کی نعت گوئی میں حُسنِ بیان بھی ہے اور وقار بھی، مگر اس خواہش کو کیا کہیے کہ جس ذاتِ بے مثال کی مدحت بیان کی جا رہی ہے اُس کی نسبت سے طرزِ بیان بھی اُتنا ہی بے مثال ہو، اشعر صاحب کو یوں بے چین کر دیتی ہے کہ وہ کہہ اٹھتے ہیں

کرتے تو رہے مدحتِ سرکارِ رسالت
ہم وضع نہ کر پائے مگر طرزِ بیاں اور

بیٹھے ہیں سرِ رہ گزرِ شہرِ مدینہ
منتظرِ اِذنِ سفر غم زدگاں اور

ملاحظہ فرمائیے کہ ترکیب سازی، الفاظ کی نشست اور معنویت کیا بر محل ہے ! محسوس ہوتا ہے کہ دل کے تار چھیڑ ے جا رہے ہیں اور فن کار کی ضرب ہے کہ وجود کا تار و پو جھنجھنا اٹھتا ہے ۔ اشعر صاحب کا تعلق خانوادۂ شبیر سے ہے اور اظہار کی دولت جو انھیں عطا ہوئی ہے ، خوب ہوئی ہے ۔ سانحۂ کربلا پر انھوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔ اشعر صاحب کے بقول انیس اور دبیر اُن پر ’’وارد‘‘ ہوئے ہیں ۔ میں نے اُن کے ہاں خاص طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ اِس عظیم سانحے کی تفہیم زندگی کی اطلاقی سطح پر کرتے ہیں

دستورِ آگہی ہے ، وفا کا نصاب ہے
شبیر ایک لفظ نہیں ہے ، کتاب ہے

پھر سر اٹھا رہے ہیں یزیدانِ عصرِ نو
محسوس ہو رہی ہے ضرورت حسین کی

الغرض، حوالہ فکری ہو یا فنی، اشعر صاحب کے ہاں دونوں حوالوں سے خوبصورت شاعری ملتی ہے ۔ انھوں نے نظمیں بھی کہیں ، افسانے بھی لکھے مگر اُن کی شناخت میرے نزدیک ان کی غزل ہے ۔ اشعر صاحب کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے ۔ وہ ایک عمر واہ کی اسلحہ ساز فیکٹری میں گزار آئے ۔ ایک تو صنعتی ماحول جس میں انسان بھی کل پرزہ بن جاتا ہے اور پھر اسلحہ سازی اور بارود سازی کا۔ ایسے میں ایک حساس شخص جو جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے اُس کے محسوسات کیا ہوں گے ، اور اگر اسے قدرتِ اظہار بھی عطا ہوئی ہو تو اس کے الفاظ کس قدر فسوں سازی کریں گے ، یہ تب کھلتا ہے جب ہم ان کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
انھوں نے بتایا: ’’میں شعر کہا کرتا تھا۔ راز مراد آبادی یہاں آئے اور ’واہ کاریگر‘ جاری کیا تو مجھے افسانوں پر لگا دیا۔ میں نے کئی افسانے لکھے جو سب ’واہ کاریگر‘ میں شائع ہوئے ۔ میرے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ میں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے جو’نیرنگِ خیال‘ اور’ادبیات‘ میں شائع ہوئے ۔
واہ اور ٹیکسلا کے ادبی منظر نامے میں اشعر صاحب بہر طور نمایاں نظر آتے رہے ہیں ۔ فانوس، بزمِ رنگ و آہنگ، مجلسِ ادب، صریرِ خامہ (واہ چھاؤنی) اور حلقہ تخلیقِ ادب (ٹیکسلا) ، اِن سب تنظیموں سے منسلک رہے مگر انتظامی امور سے گریز اپنائے رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے حلقہ تخلیقِ ادب نے اُن کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا۔ انھیں گھر (لالہ زار کالونی)سے لانے لے جانے کی ذمہ داری جاوید اقبال نے لی۔ گاڑ ی لے کر اُن کے ہاں پہنچے توپتہ چلا اشعر صاحب کسی کام سے ٹیکسلا گئے ہیں ۔ اجلاس کے میزبانوں نے انھیں پا پیادہ ایچ ایم سی بس سٹاپ سے ایچ ایم سی سکول (مقامِ اجلاس) کو آتے دیکھا تو حیران ہوئے ۔ پوچھا آپ پیدل آ رہے ہیں ، آپ کو لینے تو گاڑ ی گئی ہوئی ہے ۔ کمال بے نیازی سے کہا: ’’بس، میں تو چلا آیا!‘‘

(۲)

دورانِ گفتگو اشعر صاحب نے کہا: ’’مشاعرہ ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن ہے ۔ اور طرحی مشاعرے نے روایت کو زندہ رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ‘‘۔ اشعر صاحب خود بھی جب سے شعر سے وابستہ ہوئے ، مشاعروں میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آج کے شعراء کیسا لکھ رہے ہیں (اشارہ گرو و نواح کے موجود شاعروں کی طرف تھا)۔ انھوں نے سب سے پہلے اختر عثمان کا نام لیا اور کہا: ’’اختر نے جدید شاعری کی ہے اور جدت اور روایت کو ساتھ ساتھ رکھا ہے ، رؤف امیر اپنے حوالے کی صحیح شاعری کر رہا ہے اور اپنی تاریخ بنا رہا ہے ۔ عرب میں مشاعرے کی ابتدا جنگ سے ہوئی۔ لوگ جمع ہوتے اور اپنے اپنے قبیلے کے جوانوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں بیان کرتے ۔ دوسرے فریق کی ہجو کہتے ۔ بسا اوقات تلواریں کھنچ جاتیں ۔ شاید ہی کوئی عرب ہو جو سخن گو نہ ہو۔یونان اس میدان میں عرب سے بہت پیچھے تھا۔ غنائیہ یونان کی نہیں عرب کی سرزمین سے اٹھا ہے ۔ عرب کے لغوی معنی ہیں : بات کرنے والا، بولنے والا۔ اس طرح وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے ۔ ایران نے البتہ عرب تہذیب کو متاثر کیا ہے اور عربوں نے فارس کی زبان کو قبول بھی کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیب سازی میں عربی اور فارسی الفاظ باہم مستعمل ہیں ‘‘۔ اشعر صاحب ایسی قیمتی باتیں اکثر بتایا کرتے ہیں اور جدید تراکیب اس روانی سے استعمال کرتے ہیں کہ قاری کو حیران ہونے کا موقع بھی نہیں دیتے

وہ سال خوردہ صداؤں کی بازگشت میں تھی
سو ہم نے لوحِ سماعت کو پھر سے سادہ کیا

عجیب نقش بنائے تھے ریگِ صحرا نے
ہوا نے راہ نوردوں کو خوش لبادہ کیا


ہر ایک لفظ ہے تمثیلِ برگِ آوارہ
خزاں پسندیِ جاں ہے غزل سرائی میں بھی

اسیرِ خواہشِ تکمیلِ فن تو ہم بھی ہیں
مگر سلیقۂ کسبِ ہنر نہیں رکھتے

اُس کی ہر جنبشِ ابرو کی ضیافت کے لیے
اک طرف سلسلۂ شیشۂ پندار بھی ہو

جو کشتی کو ڈبونا چاہتے تھے
وہ خوش بختانِ ساحل ہو گئے ہیں

پھر ایک سلسلۂ فصلِ گل ہویدا ہوا
جب اُس نے خونِ کفِ پا سپردِ جادہ کیا

اشعر صاحب نے برصغیر میں اردو شاعری کے ارتقا کا مختصر جائزہ یوں بیان کیا ہے : ’’برصغیر کی موجودہ شاعری ان سلاطین کی مرہونِ منت ہے جو قصیدے لکھوایا کرتے تھے ۔ اَوَدھ کے نوابوں نے شعرا کی باقاعدہ کفالت کی اور وظائف مقرر کیے ۔ رثائی ادب پروان چڑ ھا۔ ہندوستان میں فارسی کے نفوذ کے ساتھ غزل بھی اردو شاعری میں داخل ہوئی۔ مشاعرہ وجود میں آیا۔ طرحی مشاعرہ نے ذوق کو جلا بخشی اور مسابقت کو ہوا دی۔ نتیجہ کے طور پر زبان و بیان، مضمون آفرینی، معاملہ بندی اور ہیئت کے نئے نئے تجربات سامنے آئے ۔ صرف غزل کی بات کریں تو بھی مشاہیر کے ہاں ایک ہی زمین میں بہت سی غزلیں ملتی ہیں ۔اور نئے ذائقے طرحی مشاعرے کی دین ہیں ۔‘‘ انھی تجربات کے تسلسل میں اشعر صاحب نے معروف زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے

میرے پندارِ محبت نے سکھایا ہے مجھے
اپنی آنکھوں کے دریچوں میں سجانا دل کا

بدن تو تیرگی میں جذب ہو جانے کے عادی ہیں
مگر مانوس ہوتی ہے نظر آہستہ آہستہ

ہم سر گزشتِ دستِ تمنا لکھیں اگر
آسودگانِ کوے بُتاں کی خبر ملے

وہ سنگِ در بھی حلقۂ اہلِ ہَوَس میں ہے
ٹکرائیں صاحبانِ وفا اپنے سر کہاں

حالات ذاتی ہوں ، مقامی، ملکی یا بین الاقوامی، انسان کے افکار پر اثر انداز ہوا کرتے ہیں اور کسی حد تک تبدیلی بھی لاتے ہیں ۔ اہلِ قلم نے ہر زمانے میں اپنے منصب کا پاس رکھا ہے اور کڑ ے وقتوں میں بھی اپنے دور کی صحیح صحیح تصویر کشی کی ہے ۔ اشعر صاحب کے الفاظ میں ’’اگر آپ کسی دور کی تاریخ دیکھنا چاہیں تو اُس دور کی شاعری میں دیکھیں ‘‘۔ معاشرہ تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ پورے برصغیر کے باشندوں کو یوں بھگتنا پڑ ا کہ انگریز، جو یہاں تاجر کے روپ میں آیا تھا حاکم بن بیٹھا۔ اہل قلم نے نئے حالات میں قوم کو نئی سوچ دی۔ موضوعات تبدیل ہوئے ، استعاروں اور علامات کی معنویت کو نئے زاویے ملے ۔ غلامی اور آزادی، انسان کی تذلیل و توقیر، عمل اور ردِ عمل کی شاعری ہونے لگی۔ گل و بلبل اور عارض و لب کی جگہ زندگی کے دیگر مسائل نے لے لی۔ نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی، علامہ محمد اقبال اور الطاف حسین حالی کی شاعری میں اُس دور کے واقعات کا رد عمل نمایاں ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بھی یہی صادق آتا ہے ۔ پہلے پہل چند لوگ ہوا کرتے ہیں جو افکار کو نئی راہیں دکھاتے ہیں ۔ جیسے فیض نے ایک بار کہا کہ منفی سیاسی رویوں نے مثبت شاعری کو جنم دیا ہے ۔‘‘
۱شعر صاحب نے اقبال کے حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بھی سنایا: لکھنؤ میں مشاعرہ تھا۔ اقبال کو دعوت دی گئی اور ان کا ٹرین سے لکھنؤ جانا قرار پایا۔ منتظمین نے جن لوگوں کو استقبال کے لیے ریلوے سٹیشن بھیجا وہ اقبال کے صورت آشنا نہیں تھے ۔ انھوں نے اقبال کو شناخت تو کر لیا تاہم تصدیق کی غرض سے پوچھا: ’آپ ہی علامہ محمد اقبال ہیں ؟‘۔ اقبال نے کہا ’ہاں جی۔‘ ایک صاحب فوراً بولے :’جی ہاں ، آپ اقبال ہی ہیں ‘۔ اقبال چنداں حیران ہوئے ، پوچھا :’یہ کیا ماجرا ہے ؟ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب دیتے ہیں !‘۔ کہا گیا: ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ ہاں جی کہیں گے ، جی ہاں نہیں کہیں گے ‘۔
علی مطہر اشعر کے اشعار میں تاریخ کی جھلکیاں دیکھیے

پھر حلیفوں میں نہ گھِر جائے کہ نادان ہے وہ
اس نے حالات کو سمجھا کہ نہیں دیکھ تو لیں

میرا اک بچہ بھی مزدوری کے قابل ہو گیا
اس حوالے سے مرے حالات کچھ بہتر بھی ہیں

میرے اوقات بھی پابندِ سلاسل ہیں کہ اب
وقف رکھتا ہے انھیں شعبدہ گر اپنے لیے

تاریخ میں تو قوموں کے حالات ہوتے ہیں ۔ اشعر صاحب تو ایک انفرادی واقعے کو دیکھتے ہیں اور اسے شعر میں یوں ڈھالتے ہیں کہ ان کے جملہ محسوسات قاری تک پہنچ جاتے ہیں ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں

مقامِ فکر ہے سوزن بدست ماں کے لیے
رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ

گھر کے سب لوگ گراں گوش سمجھتے ہیں مجھے
سنتا رہتا ہوں بڑ ے غور سے سب کی باتیں

اپنے ماں باپ کی ہر بات بتاتا ہے مجھے
میرے کانوں میں وہ کرتا ہے غضب کی باتیں

وہ مری بات کبھی غور سے سنتا ہی نہیں
کیسے سمجھاؤں اُسے حدِّ ادب کی باتیں

علی مطہر اشعر کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ ایک عمر کانٹوں کی سیج پر گزار آئے ہیں ۔ کار زارِ حیات میں پیٹ بھرنے ، تن ڈھانپنے ، سر چھپانے کی کٹھن گھاٹیوں کے علاوہ عزتِ نفس اور احترامِ آدمیت کا حساس مسئلہ بھی ہے ۔ روپے کی چمک دمک اور مصنوعی زندگی کی چکا چوند کے اس دَور میں جہاں چہرے کی سلوٹوں سے زیادہ لباس کی سلوٹوں اور دلوں کی وسعتوں سے زیادہ طباقوں کی وسعت کو دیکھا جاتا ہے ، وہاں دلِ درد مند کا تڑ پ اٹھنا ناگزیر ہے ۔مثال کے طور پر اشعر صاحب کے یہ شعر دیکھیے

اک چھوٹے سے سیب کو کتنی قاشوں میں تقسیم کروں
کچھ بچوں کا باپ ہوں اشعر، کچھ بچوں کا تایا ہوں

اسے سمجھنے کی خواہش ہے سعیِ لا حاصل
وہ ایک غم جو مری ہر خوشی میں در آیا

پیرہن تبدیل کر لینا تو ممکن ہے مگر
اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں

ذرا سی بات تھی گھر سے دکان تک جانا
بڑ ا طویل سفر تھا کہ گھر تک آئے ہیں

کہا جاتا ہے کہ غربت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ یہ خیال کہاں تک درست ہے ، یہ ضرور ہے کہ جب دولت کو شرافت کا اورقوت کو اعتبار کا معیار سمجھا جانے لگے تو سوچیں بھٹک جایا کرتی ہیں ۔ انسان کے اندر فطرت کا قائم کردہ نیکی اور بدی، حق اور ناحق کو پرکھنے کا نظام خلفشار اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اعتبار واہمہ بن جاتا ہے اور شرافت خود ایک سوالیہ نشان میں ڈھل جاتی ہے ۔ معاشرے کے حالات اور عمومی رویے جیسے بھی ہوں اقدار کا شہرِ آرزو بسا رہتا ہے اور معاشرے کا حقیقی نباض کچھ اس طرح کی باتیں کرتا ہے

مژدۂ خوبیِ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہوا کب دیکھتے ہیں

پہلے وہ بہاروں کے کچھ آثار بنا لے
پھر دام تہِ دامنِ آثار بنے گا

اب اس زمین کو نسبت ہے ایسی بیوہ سے
کہ جس غریب کے سارے پسر ہوں آوارہ

اے تیرگی ہم سے تو ترا عقد ہوا ہے
ظاہر ہے ہمیں چھوڑ کے تو کیسے چلی جائے

بات کرنے کی اجازت بھی ہے اِس شرط کے ساتھ
قصۂ تلخیِ حالات نہیں کہہ سکتے

ہم بھی ہجومِ بے بصراں میں شریک تھے
دستار اُس کے ہاتھ میں دی جس کا سر نہ تھا

تعمیرِ نو کی بات تھی توسیعِ قصر تک
موضوعِ گفتگو کسی مفلس کا گھر نہ تھا

میں نے پوچھا: ’آپ نے اتنی شاعری کی مگر ابھی تک کوئی کتاب نہیں لائے ۔ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ مسکرا کر خاموش ہو گئے ۔ [’’تصویر بنا دی جائے ‘‘کے نام سے ان کا شعری مجموعہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آیا]۔ پھر کہنے لگے : ’’میری شاعری میں فرق واقع ہوا ہے ۔ شاعر کا اپنا ایک پس منظر اور پیش منظر ہوتا ہے ، جس کے سحر سے وہ نکل نہیں پاتا۔ رؤف امیر اور اختر عثمان منفرد لہجہ رکھتے ہیں ‘‘۔ مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آپ نے عروض پر کام کیا ہے ۔ ’فاعلات‘ مجھے اس لیے اچھی لگی کہ جس طرح شاعری میں جدت آئی ہے ، اسی طرح علم عروض میں بھی ایک نیا پن آیا ہے ۔ ویسے عام مشاہدہ ہے کہ جو شخص عروضی شاعر ہو وہ موضوعات کے اعتبار سے اتنا مستحکم نہیں ہوتا۔ سرِ نوکِ خیال جو آئے کہہ ڈالیں ، بعد میں اس کی نوک پلک درست کرتے رہیں ۔ شاعری انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ ہر شخص شاعری کرتا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کی سطح کیا ہے ۔‘‘ اشعر صاحب کے بقول امان اللہ نے افسانوں میں شاعری کی ہے ۔ شاعری کی مقصدیت اور منصب کے حوالے سے انھوں نے کہا: ’’شاعری میں غم کا عنصر اسے چاشنی دیتا ہے اور فکری تحریک اسے آگے بڑ ھاتی ہے ۔ غم کے ساتھ اس کے تدارک کی فکر شاعری کو ایک مقصد دیتی ہے ‘‘

اس کوزۂ جاں کو سرِ مژگاں نہ تہی کر
کچھ خون کے قطرے کسی طوفاں کے لیے رکھ

اشعر جو فشارِ غمِ فردا سے بچا لے
ایسا کوئی نشتر بھی رگِ جاں کے لیے رکھ

(۳)

پھر کہیں اس کی جسامت کا تعین ہو گا
پہلے قطرے کو سمندر میں اترنے دیجے

شاعری میں دو باتیں بہت اہم ہوتی ہیں : (۱) شاعر نے کہا کیا ہے اور (۲) کس طرح کہا ہے ۔ پہلی بات شاعری کے موضوعات اور شاعر کی طرزِ فکر کو احاطہ کرتی ہے اور دوسری بات شاعر کے سلیقے اور اندازِ اظہار کو۔ سلیقہ اور انداز، جیسا کہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے ، لگے بندھے الفاظ کی میکانکی نشست یا محاورات کے استعمالِ محض کا نام نہیں ہے بل کہ اس میں زبان کے جملہ عناصرِ ترکیبی اور علمِ بیان کی تمام جہتوں کا رچاؤ سامنے رکھتے ہوئے شاعری کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ شاعر نے زبان و بیان کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے موعودہ مضامین کو کس قدر حسن و خوبی سے شعر بند کیا ہے ۔اصنافِ شعر اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کا لفظاً ذکر کیے بغیر ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قلم کار کی علمی استعداد نے اسے کس قدر چابک دستی عطا کی ہے ، معنی آفرینی کے لیے وہ کون سے حربے استعمال کرتا ہے اور کس قدر سلیقے کے ساتھ۔ یہ سارا معاملہ چوں کہ ذوقِ لطیف سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اسے کسی لگے بندھے جملے میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں ۔ احساسات، ضروری نہیں کہ لفظوں کی صورت میں بعینہ ادا ہو جائیں ۔ تاہم ترسیلِ احساس کی ممکنہ بلند سطح کو چھوتے ہوئے شاعرکیسی زبان استعمال کرتا ہے اور لطیف احساسات کو زبان کی لطافتوں سے کس طرح اور کس حد تک ہم آہنگ رکھتا ہے ، یہ اسلوب ہے ۔ عام زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب کے کچھ عناصر ترکیبی ہیں مثلاً زبان دانی اور لفظیات، ترکیب سازی، استعارے اور علامات، سوالیہ یا بیانیہ انداز، لف و نشر اور مراعات النظیر کی بندش، معنی آفرینی کے حربے ، صنائع اور بدائع کا برتاؤ، اور دیگر فنیات۔ مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک اسلوب کا نام نہیں پا سکتے جب تک ہم شاعر کی ذات، اس کی پسندیدہ لفظیات اور ان کی نشست و برخاست کو شامل نہ کر لیں ۔ اس پورے پس منظر اور پیش منظر میں شاعر کی اپنی ترجیحات بھی شامل ہوتی ہیں اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے لسانی تقاضے بھی۔ اب یہ شاعر پر منحصر ہے کہ وہ اس پوری صورتِ حال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ علی مطہر اشعر کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات بڑ ی اچھی طرح سامنے آئی کہ وہ شعری حسن اور سلیقے کے محض قائل ہی نہیں بل کہ انھوں نے اس کو بڑ ی خوبی سے نبھایا ہے اور ساتھ ساتھ خود تنقیدی کے عمل کو بھی ہر سطح پر قائم رکھا ہے

یہ شغلِ شعر و سخن بھی عذاب ہے اشعر
خود اپنے خون میں اپنا قلم ڈبونا ہے

رنگوں سے نہ رکھیے کسی صورت کی توقع
وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا

کج کلا ہوں کو یہ توفیق کہاں ہے اشعر
جتنے اخلاص سے ہم اہل ہنر سوچتے ہیں

اشعر صاحب کے ہاں کچھ الفاظ اور تراکیب بڑ ے تواتر سے آئی ہیں اور بہت خوب آئی ہیں ۔ اس لیے ہم انھیں اشعر صاحب کے اسلوب کا حصہ کہہ سکتے ہیں

اشعر کہو بہشتِ بریں کتنی دور ہے
اس شہر آرزو کے ہیں دیوار و در کہاں

یہی بہت ہے سکونِ دل و نظر کے لیے
پسِ خیال سرِ شہرِ آرزو رہنا

کیا قباحت ہے جو ویران دریچوں میں چلیں
کیا یہی کوے بتاں ہے ، ذرا دیکھیں تو سہی

کیا قباحت ہے اگر شہر میں دریافت کریں
ہے کوئی اور بھی ہم سا کہ نہیں ، دیکھ تو لیں

یہ بات باعثِ حیرت بھی ہے فرشتوں میں
کہ آدمی نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا

یہ بات باعثِ حیرت ہے ہم سفر کے لیے
کہ ہم ارادۂ ترکِ سفر نہیں رکھتے

اشعر صاحب نے خوب صورت فارسی تراکیب وضع کی ہیں اور انھیں اس چابک دستی ہے استعمال کیا ہے کہ ثقالت کا ذرا سا تاثر بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ دریدہ حال، زندہ دلانِ شب، غریبِرہ گزر، اندیشہ پسند، قصۂ تلخیِ اوقات، بامِ ہوس، اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں ، غبارِ دشتِ طلب، اکتفا پسندیِ جاں ، ترتیبِ رسمِ غم، داستانِ عرصۂ جاں ، محوِ یاس، رہینِ خوے قناعت، ہجومِ نقشِ کفِ پا، عرصۂ گُل، گماں سرشت، حجلۂ شب۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے اشعار میں عربی اور فارسی کے ایسے مفرد الفاظ بھی باندھے ہیں جو بالعموم کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ متذکرہ بالا تراکیب کو اشعار میں سلاست کے ساتھ باندھنا، ظاہر ہے ، بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ آج کے سہل پسند دور میں یہ نعرہ بڑ ی شد و مد کے ساتھ لگایا جا رہا ہے کہ اردو کو ’’فارسیت سے پاک‘‘ کیا جائے ، بھلے اس کے لیے ہندی اور انگریزی کے الفاظ ہی کیوں نہ لانے پڑ یں ۔ اس نعرے کے پیچھے کار فرما سیاسی مقاصد اور سازشوں سے قطع نظر اس وقت ہمارے پیش نظر حقیقت یہ ہے کہ اردو کا خمیر فارسی اور عربی سے اٹھا ہے ۔ یہ کل کی بات ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اردو کو مسلمانوں کی زبان ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ منطقی طور پر یہ بات بالکل بجا ٹھہرتی ہے کہ جس حسن و خوبی سے فارسی اور عربی تراکیب اردو میں سما جاتی ہیں ، ہندی انگریزی بل کہ بعض علاقائی زبانوں کی تراکیب بھی اتنی نفاست سے نہیں آ سکتیں ۔ اشعر صاحب کے ہاں ایسی بظاہر بھاری بھرکم اور مشکل تراکیب اس قدر نرمی سے شاملِ کلام ہوتی ہیں کہ پڑ ھنے اور سننے والے کو لطف آ جاتا ہے

اک نقص یہ بھی تھا کہ سرِ جادۂ طلب
جتنے بھی رہ نورد تھے سب محوِ یاس تھے

میں اس کی دوسری دستک نہ سن سکا اشعر
رہینِ خوے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

وابستہ در و بام کی تعمیر سے اشعر
اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں بھی بہت ہے

ساری شکایتوں کا ہدف میری ذات ہے
وہ محوِ گفتگو ہے بظاہر پسر کے ساتھ

پدر کی سوچ میں حائل ہوا تھا بے چارہ
کہ سرخ ہو گیا بچے کا زرد رخسارہ

ابھی نہ جاؤ خرابوں میں روشنی لے کر
دریدہ حال و پریشاں ہیں ، بے لباس ہیں لوگ

سہل ممتنع یا کلامِ بے ساختہ ایسے اشعار کو کہا جاتا ہے جو شعر کی جملہ پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے نثر بل کہ ’بے ساختہ نثر‘ کے بہت قریب ہوں ۔ ایسے اشعار کی زبان سادہ، سہل اور رواں ہوتی ہے ۔ اشعر صاحب کے ہاں بھی ایسے اشعار بہت ملتے ہیں جن کو نثر کی صورت میں بھی یوں لکھا اور ادا کیا جا سکتا ہے کہ مفاہیم ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوتے

ہم اپنا قد بڑ ھا کر کیا کریں گے
غنیمت ہے کہ پاؤں پر کھڑ ے ہیں

ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں
سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں ، سب سوچتے ہیں

شبِ غم کی سحر ہونے سے پہلے
کوئی آنسو سرِ مژگاں نہ رکھنا

یہ بھی اک طرفہ تماشا ہے کہ اُس کی چاہ میں
اپنے کچھ بے لوث یاروں کو عدو کہنا پڑ ا

مجھ پہ اکثر خواب کا عالم بھی گزرا ہے
طوفانوں میں ساحل میرے ساتھ رہے ہیں

صرف اسی پر بس نہیں ۔ میری نظر میں اُ ن کے کتنے ہی ایسے مصرعے بھی آئے جو ادائی میں تو بے ساختہ پن رکھتے ہی ہیں ، معنوی سطح پر بھی اپنی جگہ مکمل مفہوم دیتے ہیں اور زبردست فکری گہرائی اور گیرائی کے حامل ہیں ۔ چند مصرعے نقل کرتا ہوں

ع خدا جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے
ع اس کو یہ گماں تھا کہ مرے یار بہت ہیں
ع مسافر خواب میں گھر دیکھتا ہے
ع سمجھ لیجے سویرا ہو گیا ہے
ع مری اپنی کوئی حالت نہیں ہے
ع ہم برے سارا زمانہ اچھا
ع آنکھ یوں ہی تو نم نہیں ہوتی
ع یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

انکسار اور خود سپردگی کا عنصر رومانی شاعری کا خاصہ ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ایسے عالم میں شاعر عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے مضامین خلط ملط کر بیٹھتا ہے ۔ بعض مقامات پر وہ یا تو اپنی ذات کی مکمل نفی تک پہنچ جاتا ہے یا اظہار کا وقار مجروح کر بیٹھتا ہے ۔ اس سے شعر کی فکری سطح تو گرتی ہی ہے ، فنی طور پر بھی کمزوری در آتی ہے ۔ اشعر صاحب کے ہاں خود سپردگی اور انکسار میں بھی اپنی ذات کا ادراک اور عزتِ نفس کا احساس برابر قائم رہتا ہے اور عاشقی میں خود سپردگی اورخودداری کا ایسا حسین امتزاج بنتا ہے ، جس کا وصفِ خاص اعتدال ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے

ہوا کی تاب کہاں لا سکیں گے ایسے پر
جو مل بھی جائیں کہیں سے بنے بنائے پر

کاسہ بدست گھر سے نکلتے ہی دفعتاً
اشعر خیالِ عزتِ سادات آ گیا

قد بڑ ھانے کے طریقے ہمیں تعلیم نہ کر
تو اگر حد سے گزرتا ہے گزر اپنے لیے

دیکھ اے قریۂ نو میری سلیقہ مندی
ایسے آباد ہوں جیسے کبھی اجڑ ا ہی نہ تھا

ہمیں کسی سے تغافل کا ڈر نہیں اشعر
کہ ہم قدم کسی دہلیز پر نہیں رکھتے

(۴)

اردو اور فارسی شاعری میں غزل کی اہمیت اور مقام کی بدولت اسے شاعری کا عطر بھی کہا جاتا ہے ۔ میرے نزدیک اس کی بڑ ی وجہ غزل میں اختصار کا عنصر ہے ۔ شاعر کو دو مصرعوں میں ایک مکمل مفہوم بیان کرنا ہوتا ہے ۔ دوسری بڑ ی وجہ غزل کا دھیماپن ہے ۔ وسیلۂ اظہار کے طور پر الفاظ کے چناؤ اور برتاؤمیں صوتی اور معنوی دونوں سطحوں پر زبان کی لطافت کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے ۔ یہاں یہ بیان کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بعض نقاد اب بھی غزل کے مستقبل کو مخدوش قرار دے رہے ہیں ۔ اُن کے نزدیک آج کے دور کے مسائل اس وقت سے کہیں مختلف ہیں جب غزل کو رواج ملا۔ انسانی زندگی کے عملی مسائل میں غم جاناں کے سوا اور بھی بے شمار غم ہیں ۔ آج کے دور کی بے چینی، عدم تحفظ، بھوک اور افلاس، خوف اور گھٹن، جنگ اور قحط، معاشرتی جبر وغیرہ کے سامنے لب و عارض اور گل و بلبل کی حکایات میں چنداں کشش نہیں رہی۔ منکرینِ غزل دوسری وجہ غزل کی ہیئت کو گردانتے ہیں کہ اس میں اوزان، ردائف، قوافی اور دیگر لوازمات کی پابندیاں اظہار کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر صحت مند رویہ ہے اور اس کا محرک سہل پسندی کے سوا کچھ نہیں ۔
اردو شاعری اپنا فطری سفرطے کرتے ہوئے جب ولی دکنی تک پہنچی تو اُس وقت تک غزل ایک مضبوط شعری صنف کے طور پر تسلیم کی جا چکی تھی۔ یاد رہے کہ بعض تحقیقاتی اختلافات کے باوجود قلی قطب شاہ، شاہ مراد اورولی دکنی کا دور اردو شاعری کی فنیات کا پہلا دور کہلاتا ہے ۔ تب سے اب تک غزل کی ہیئت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بہ ایں ہمہ، غزل ہر دور میں مستحکم رہی ہے ۔ نظم کی دیگر اصناف میں کتنی ہی نئی چیزیں آئیں ۔آزاد نظم کا تجربہ بڑ ی حد تک کامیاب رہا تو بات آزاد نظم سے بڑ ھتی ہوئی نام نہاد نثری نظم تک جا پہنچی جسے آج کل ’’نثم‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ غزل میں بھی ’آزاد غزل‘ کی اصطلاح کے پردے میں ابیات اور فردات کو غزل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عین ممکن ہے اگلے چند سالوں میں کوئی ’’نثری غزل‘‘ بھی سامنے آ جائے ۔بدیسی زبانوں کی بعض اصناف کو بعینہ ان کے اصل ناموں سے اردو میں رائج کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں ۔ ان میں ہائیکو اور سانیٹ نمایاں ہیں ۔ زمانہ شاہد ہے کہ ایسے تجربات اگرچہ وقتی طور پر بہت مقبول ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی ثقافتی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے دیرپا اور حقیقی قبولِ عام کبھی حاصل نہیں کر پاتے ۔ جیسے نثر لکھ کر شاعر کہلوانے کے شوق نے ’’نثری نظم‘‘ یا ’’نثم‘‘ کو جنم دیا، ویسے ہی غزل کہے بغیر غزل گو کہلوانے کی دُھن میں ابیات اور فردات کو ’’آزاد غزل‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ فنی اور فکری سطح پر ایسے انحطاط زدہ رویوں کے باوجود غزل نے اپنی اصلی روایتی صورت میں رہتے ہوئے ہر بدلتے زمانے کا نہ صرف ساتھ دیا ہے بل کہ خود کو تسلیم بھی کروایا ہے ۔ ہر دور کے مسائل کو غزل میں بڑ ی خوبصورتی سے نبھایا جا رہا ہے ۔ اور تو اور، جسے اینٹی غزل کا نام دیا گیا، وہ بھی تو غزل ہی کی مسخ شدہ صورت تھی۔
اصل میں فرق جدت اور جدیدیت کا ہے ۔ میرے نزدیک جدت روایت سے جنم لیتی ہے اور روایت کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے اسے آگے بڑ ھاتی ہے ۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کا ایک عظیم ثبوت خود ہماری اردو زبان ہے جو در حقیقت جدت کی پیداوار ہے ۔ واضح رہے کہ روایت اور جمود میں فرق ہے ۔ جب ہم روایت کو بیک جنبشِ قلم رد کر دیں اور اس کے باوجود مصر رہیں کہ یہی روایت ہے تو بات بگڑ جاتی ہے ۔ مختصراً ہمیں یہ کہنا ہے کہ غزل اردو شاعری میں جدتوں کی روایت کا ایک خوب صورت مظہر ہے ۔ میں علی مطہر اشعر کا شمار ایسے شعرا میں کرتا ہوں جنھوں نے اپنی زریں روایات سے مضبوط تعلق قائم رکھتے ہوئے جدید تقاضوں کو نبھایا ہے اور تلخیِ ایام کی حکایت بیان کرتے ہوئے بھی غزل کی لطافت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے افلاس اور غربت، غیر یقینی صورتِ حالات، خوف اور واہموں کی بہتات، انسانی اقدار کے انحطاط، معاشرتی سیاسی اور معاشی جبر، اور ایسے ہی بہت سارے مسائل کو غزل میں بیان کیا ہے جہاں لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو جایا کرتا ہے ۔ بہ ایں ہمہ اُن کی غزل میں چاشنی کم نہیں ہوئی۔
انسان بیک وقت دو قسم کی کیفیات سے دو چار ہے ؛ خارجی اور داخلی۔ خارجی کیفیات ایسے عوامل کی پیدا کردہ ہیں جو انسان کے ارد گرد پائے جاتے ہیں اور داخلی کیفیات انسان کے طرزِ فکر اور طرزِ احساس کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ دونوں عالم در اصل ایک دوسرے کا ردِ عمل بھی ہیں اور تکملہ بھی، اور دونوں کے باہمی تعلق میں انسان کی ذات اپنی پوری جزئیات کے ساتھ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ اس طرح انسان کا داخل اس کے خارج پر اور خارج اس کے داخل پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اشعر صاحب کی غزلوں میں مضامین کے تنوع کے ساتھ ساتھ یہ بات بہت اہم ہے کہ انھوں نے انسان کے داخل اور خارج کے مابین ایک توازن کو ملحوظ رکھا ہے اور یہی حفظِ مراتب ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے جسے ہم نے اعتدال کا نام دیا ہے ۔
سانحۂ کربلا انسانی تاریخ کا فقیدالمثال واقعہ ہے اور اس کی جس قدر تعبیرات کی گئی ہیں وہ سب انسانی زندگی کو احاطہ کرتی ہیں ۔ ایک طرف یہ حق اور باطل کی جنگ ہے تو دوسری طرف تسلیم و رضا اور جبر و استبداد کی چشمک ہے ۔ ایک طرف جان نثاری کی روشن مثالیں ہیں تو دوسری طرف پچھتاوے ہیں ۔ انسانی فطرت کی بو قلمونیوں کے علاوہ اس عظیم تاریخی واقعے میں جو سب سے نمایاں بات نظر آتی ہے وہ حق پر قربان ہو جانے کا جذبہ ہے ۔ ظلم کو بطور اصول کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح دریاے فرات کے کنارے لڑ ی جانے والی اس عدیم المثال جنگ میں بہنے والا لہو رہتی دنیا تک حق کی سرخ روئی کی دلیل رہے گا۔ اشعر صاحب کے خاندانی پس منظر میں بتایا جا چکا کہ ان کا تعلق اسی گھرانے سے ہے جس کے شیرخوار بچوں کے خون کی سرخی بھی اس سعیِ حاصل میں شامل ہے ۔ پھر، بچپن میں انیس اور دبیر کا مطالعہ ان کا معمول رہا۔ جون ایلیا اور رئیس امروہوی جیسے بزرگ ان کے اقربا میں شامل ہیں ۔ خود اشعرصاحب کو ادراک و اظہار کی جو دولت ملی اور لفظوں پر جو تصرف انھیں حاصل ہے ان تمام عوامل کو سامنے رکھیں تو بجا طور پر اُن سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ انھوں نے سانحۂ کربلا کو انتہائی گہرائی میں نہ صرف محسوس کیا ہو گا بل کہ اپنے قاری اور سامع کو بھی اس میں شامل رکھا ہو گا۔ میرے پاس ان کا جو نمونۂ کلام موجود ہے اس میں حمد و نعت کے بعد یہ سب سے بڑ ا موضوع ہے ۔ اشعر صاحب نے اس سانحے کو محسوساتی اور اطلاقی دونوں سطحوں پر بھرپور عقیدت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ صرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں

اصطلاحاً یہی اک نام مناسب ہو گا
کربلا کیا ہے ، گلستانِ ابو طالب ہے

جا بجا دشتِ بلا خیز میں سادات کا خون
منتشر خونِ رگِ جانِ ابو طالب ہے

ہنوز طفل کھڑ ے ہیں اس اعتماد کے ساتھ
جو مَشک لے کے گیا ہے وہ آب لائے گا

اس کے لہو سے دینِ نبی سرخ رو ہوا
وہ اک دلیلِ عظمتِ خطمی مآب ہے

ممکن نہیں ہے ترکِ عزاداریِ حسین
ہم قرض جانتے ہیں محبت حسین کی

یہ کس کے نقشِ پا ہیں صبحِ عاشورہ سے محشر تک
ذرا سی دیر میں طے کر لیا یہ فاصلہ کس نے

یہ کس حق آشنا کی بازگشتِ سجدہ ریزی ہے
جنوں کو کر دیا پابندِ تسلیم و رضا کس نے

ابھی ممکن نہیں اشعر یہ امرِ مستند لکھنا
کہ کی ہے کربلا کے سانحے کی ابتدا کس نے

اشعر صاحب کو فطرت نے سوزِ فکر کے ساتھ سوزِ گلو سے بھی نوازا ہے اور کلامِ اشعر بہ زبانِ اشعر کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ انھوں نے مرثیے ، سوز، سلام، منقبت لکھے بھی خوب ہیں اور پڑ ھے بھی خوب ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں جا بجا کربلا کے حوالے کہیں جلی اور کہیں خفی انداز میں بھرپور توانائی اور اطلاقی روح کے ساتھ موجود ہیں

اشعر وہی جو آج ستم گر کے ساتھ ہیں
کل حسنِ اتفاق سے سب میرے پاس تھے

مرے لبوں کی نمی تھی کہ سعیِ لا حاصل
وہ ریگ زار سا چہرہ بہت ہی پیاسا تھا

مرنے کے باوجود جو زندہ دکھائی دے
مقتل میں کوئی ایسا بھی لاشہ دکھائی دے

ہر قطرۂ خوں منتظرِ اذنِ فغاں ہے
یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

وہ بھی مجرم ہے کہ فریاد نہیں کی جس نے
اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے

منزل شناس تھے جو گئے قتل گاہ تک
ہر مستقر پہ گھٹتے رہے کارواں کے لوگ
 

نوید صادق

محفلین
(۵)

کیفیت ایسی نہ گزری تھی سو گزری مجھ پر
ہنستے ہنستے کبھی گریاں نہ ہوا تھا، سو ہوا

زندگی کی رنگا رنگی اور ہر دم بدلتے حالات میں ایسا ہو جاتا ہے ۔ اظہار کے بھی ہزاروں رنگ ہیں ، زندگی کی طرح۔ کبھی کچھ نہ کہنے میں سب کچھ کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی لفظ بھی گونگے ہو جاتے ہیں ۔ احساس کو اظہار تک آنے میں طویل اور کڑ ا سفر کرنا پڑ تا ہے اور لفظ کا روپ دھارنے کے لیے تہذیب کے ساتھ رچاؤ کرنا پڑ تا ہے تب کہیں جا کر تاثیر کی دولت ملتی ہے ۔ زندگی اپنے تمام زاویوں اور تمام رنگوں کے ساتھ احساس کی تہ میں موجود رہتی ہے اور اظہار کے لیے ایک سلیقہ اور طریقہ مقرر کرتی ہے جو کبھی خود کلامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی غیر مبہم اعلانیہ انداز میں

کوئی سُنے نہ سُنے داستانِ عرصۂ جاں
تم اپنے آپ سے مصروفِ گفتگو رہنا

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

زندگی نہ محض پھولوں کی سیج ہے اور نہ محض کانٹوں کا بستر۔ اس میں خوشیاں بھی ہیں غم بھی، قہقہے بھی ہیں نوحے بھی۔ چھوٹی بڑ ی بے شمار مسرتیں بھی ہیں اور لذتیں بھی اور چھوٹے بڑ ے ہزاروں تفکرات اور وسوسے بھی۔ ان سب کو قبول کرنا ہے اور ان سب کے ساتھ رہنا ہے کہ یہی زندگی ہے اور یہی اعتدالِ فکر ہے ۔ اس کے باوجود کہ خوشی عارضی ہوتی ہے اور غم دیرپا۔ اشعرؔ صاحب کہتے ہیں

یہ تو لازم ہے کہ چاہت کے سفر میں اشعر
ارضِ گل پوش بھی ہو وادیِ پُرخار بھی ہو

غم اور احساسِ غم اگر ذاتی حوالے تک محدود رہے تو انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اس کا حوالہ ذات کے زنداں سے نکل کر معاشرے کا احاطہ کرنے لگے تو پھر لازم ہو جاتا ہے کہ غم کا ادراک بھی بامقصد ہو اور اس کا اظہار بھی۔ ادب براے ادب اور ادب براے زندگی کی بحث پرانی ہو چکی! سچ یہی ہے کہ ادب زندگی کا حصہ ہے ، اسے زندگی کا حصہ رہنا ہو گا اور زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، یہی ادیب اور شاعر کا فرضِ منصبی ہے ۔ اپنے اردگرد بستے انسانوں کے مسائل کا حل ڈھونڈنے سے پہلے ضروری ہے کہ مسائل کا ادراک بھی ہو۔ یہ ادراک بجاے خود ایک نعمت ہے اور اشعر صاحب نے اسی نعمت کو عام کیا ہے ۔
ہمارے المیوں اور مسئلوں کی بہت سی سطحیں ہیں جن کا حلقۂ اثر ایک فرد سے لے کر پوری کائنات تک محیط ہو سکتا ہے ۔انسان اپنے خارج کو اپنے داخل کی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ داخل میں اگر سکون ہی سکون ہے ، چاہے وہ بے حسی کی دین ہی کیوں نہ ہو، تو خارج کی بلاخیز موجوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ داخل میں سکون ہی سکون نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو گا۔ خارج میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اسی داخل کا کرشمہ ہے ۔ داخل کی تشکیل میں ایک دو نسلوں کا نہیں صدیوں کی بود و باش اور فکری ورثوں کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ انسان روایات تشکیل دیتا ہے ، روایات کو توڑ تا ہے اور نئی روایات بنتی ہیں ۔ یہ فطرت کے اس عمل سے بہت مشابہ ہے کہ سمندر کی سطح پر لاکھوں کروڑ وں حباب بنتے ہیں ، ٹوٹتے ہیں ، پھر بنتے ہیں ۔ جب تک داخل کا سمندر اور خارج کی ہوا موجود ہے یہ عمل جاری رہے گا۔ اور، جب تک احساس اور اظہار زندہ ہیں ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ اقدار کے سیپ بھرتے رہیں گے اور غوّاصانِ بحرِ حیات کے لیے فکرِ جدید کے موتی بہم ہوتے رہیں گے ۔
اشعر صاحب نے اس سارے عمل میں اپنے قاری کو ساتھ رکھا ہے ۔ ان کے احساس کا کینوس جس قدر وسیع ہے رنگ بھی اسی قدر ہمہ گیر ہیں اور نقشہ کش اس حد تک ملوث ہے کہ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کے رنگوں میں اس کا خونِ جگر جھلکتا ہے

رنگوں سے نہ رکھیے کسی صورت کی توقع
وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا

زندگی کی وہ تصویر جو آئینے میں دکھائی دیتی ہے ایک سچے فنکار کو تڑ پا دیتی ہے ۔ اشعر صاحب نے اپنی شخصیت کے استعارے میں کیسے کیسے نقش ابھارے ہیں ، ملاحظہ ہوں

ہر اک شکن کسی افتاد کی علامت ہے
بہت سے کرب منقش ہیں ایک چہرے میں

ہر روز انقلاب ہے چہرے کے عکس میں
ہر صبح اک شکن کا اضافہ دکھائی دے

نئی سلوٹ درونِ آئنہ ہے
نئے چہرے کا عنواں دیکھتا ہوں

یہاں معاشرے کی شکست و ریخت کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے ۔ اخلاقی اقدار اور ان کی پاسداری کی طرف سے بے توجہی بدترین معاشرتی منافقت کو جنم دیتی ہے اور پھر خود غرضی اور خود فریبی کی وہ ہوا چلتی ہے کہ بڑ ے بڑ ے زاہد اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں ۔ دو رُخی کا دور دورہ ہوتا ہے اور نفسا نفسی کا وہ عالم جس کے گوا ہوں میں ہماری پوری دو نسلیں شامل ہیں ۔ ایسے کردار و عمل کی مضبوط علامت اشعر صاحب کے شعروں کا ’وہ شخص‘ ہے جو دراصل ایک فرد نہیں ایک معاشرتی رویے کا نام ہے ۔ اس ’شخص‘ کے بھی دو پہلو ہیں ؛ ایک داخلی اور ایک خارجی۔ اس کی ذات کے مختلف پہلو جو اشعر صاحب نے بیان کیے ہیں پورے معاشرے میں پائے جانے والے مختلف رویوں کے عکاس ہیں

جس کی خواہش تھی کہ وہ بامِ ہوس تک پہنچے
اب وہی شخص کہاں ہے ، ذرا دیکھیں تو سہی

میرے بارے میں پریشان نہیں ہے وہ شخص
فکر لاحق ہے اسے شام و سحر، اپنے لیے

ان دنوں وہ بھی اسی شخص کی تحویل میں ہے
ہم نے رکھا تھا جو اِک کاسۂ سر اپنے لیے

آمادۂ فساد رہا بات بات پر
وہ سنگِ رہ گزر تھا، مرا ہم سفر نہ تھا

حسرت رہی کہ کارگہِ ہست و بود میں
جیسا بھی کوئی شخص ہو ویسا دکھائی دے

الغرض اشعر صاحب کا ’وہ شخص‘ نفاق، جبر، خود غرضی اور دو رُخی کا استعارہ ہے ۔ اس تسلسل میں اشعر صاحب مزید کہتے ہیں

قد بڑ ھانے کے طریقے ہمیں تعلیم نہ کر
تو اگر حد سے گزرتا ہے گزر اپنے لیے

نشاط ان کے تصرف میں ہے پسِ پردہ
غموں سے چور ہیں اشعر مگر وہ پردے پر

ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں
سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں ، سب سوچتے ہیں

اُن کے ’اس شخص‘ کی دل فریبیاں بھی ملاحظہ کرتے چلیے جو اس کا دوسرا پہلو ہے

کبھی چراغِ توقع بجھا گیا وہ شخص
کبھی کرن کی طرح تیرگی میں در آیا

کچھ اس لیے بھی بہت دل فریب ہے وہ شخص
وفا کا شائبہ رکھتا ہے بے وفائی میں بھی

یا یہ کہ رہ و رسم کی تحریک بھی وہ تھا
یا یہ کہ وہی ہم سے گریزاں بھی بہت ہے

(۶)

اشعر صاحب کی عماقتِ نظر کا اندازہ لگانے کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ انھوں نے اپنے ارد گرد رونما ہونے والے ان واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جن کو عام آدمی اکثر نظر انداز کر دیتا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے قلم سے نکل کر یہ واقعہ ایک انفرادی منظر نہیں رہتا بل کہ اجتماعیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ایک فٹ پاتھ پر ایک گداگر عورت بیٹھی ہے ، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور وہ بچے کا پھٹا ہوا قمیص سی رہی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اشعر صاحب نے اِسے کیا بنا دیا

مقامِ فکر ہے سوزن بدست ماں کے لیے
رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ

یہ ایک گدا گر ماں کا معاملہ نہیں رہا، معاشرے کے لاکھوں محروم انسانوں کی محرومیوں کا نقشہ بن جاتا ہے ۔ بایں ہمہ انسان اور انسانیت کا احترام ہمیشہ اشعر صاحب کے پیشِ نظر رہا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی محرومی اور مجبوری کو تماشا بنایا جائے یا کسی طور بھی یہ احساسِ محرومی سزا بن جائے ۔ بعض اوقات تو عطا بھی سزا محسوس ہوتی ہے

پوچھیں نہ کسی شخص سے حالاتِ پسِ در
توہین نہ کی جائے کبھی غم زدگاں کی

اس کی عطا میں طنز کا کچھ شائبہ بھی تھا
لرزش سی آ گئی مرے دستِ سوال میں

اشعر صاحب نے آگہی کا عذاب جھیلا ہے ۔ یہ آگہی جو بلاشبہ ایک نعمت ہے ، کبھی کبھی زحمت بھی بن جایا کرتی ہے ۔ قوموں کی زندگی میں پچاس ساٹھ سال کا عرصہ اگرچہ کوئی بڑ ا عرصہ نہیں ہوتا، تاہم اس عرصے میں قومی مزاج کی جو تشکیل ہوتی ہے اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ اشعر صاحب ہمارے قومی مزاج کی کجی کو دیکھتے ہیں تو تڑ پ اٹھتے ہیں

ہم سے اندیشہ پسندوں کی تو عادت ہے یہی
درد محسوس کیا کرتے ہیں ، ڈر سوچتے ہیں

تجھ پہ کھل جائے تو سرنامۂ محشر ٹھہرے
تیرے بارے میں جو ہم شام و سحر سوچتے ہیں

روشنی ہو گی تو دیکھیں گے تباہی کے نشاں
یہ اندھیرے کبھی حالات نہیں کہہ سکتے

انھیں پسند ہے شہرِ خیال میں رہنا
گماں سرشت ہیں ، پروردۂ قیاس ہیں لوگ

ہم جس زمیں پہ آئے تھے صدقے اتار کے
اب تک ہمارے واسطے گھر کیوں نہیں ہوئی

یہ بات بھی طے ہو گئی دہشت زدگاں میں
جو سنگ بدست آئے گا سردار بنے گا

اب فیصلہ ہوا ہے کہ بے سمت ہی چلو
شاید اسی طرح کوئی رستہ دکھائی دے

اس کے باوجود اشعر صاحب کی تڑ پ مایوسی پر ختم نہیں ہوتی بل کہ وہ حالات کی بہتری کے لیے ایک مسلسل کاوش کا درس دیتے ہیں ۔ ان کے الفاظ سے ان کا عزم جھلکتا ہے ، وہ جہدِ مسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور حالات کی تلخی کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی۔ یہ عزم اور حوصلہ وہ آئندہ نسلوں تک کچھ اس انداز میں پہنچاتے ہیں

قریہ قریہ دے رہے ہیں لوگ سورج کی خبر
لیکن اے زندہ دلانِ شب دیے بجھنے نہ پائیں

یہ سفر عرصۂ محشر میں بھی ساقط نہ ہوا
زندگی راہ بناتی رہی تلواروں پر

اشعر علاجِ زخمِ جگر کی سبیل کر
کچھ وقت تو لگے گا مگر اندمال میں

میرے بچے گر مری تحریک پر چلتے رہے
اُن کے حق میں خوبیِ تقدیر ہو جاؤں گا میں

اشعر صاحب کے کلام کی ایک نمایاں خوبی، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا، یہ ہے کہ انھوں نے تلمیحات کا اطلاقی سطح پر انطباق کیا ہے ۔ کچھ مثالیں دیکھیے

پھر پلٹ کر وہ مرے گھر بہ چشمِ تر جائیں
مجھے کنویں میں گرا لیں تو ہم سفر جائیں

ہم کو سوالِ آب پر قتل نہیں کیا گیا
ہم سے یہ کہہ دیا گیا پانی نہیں فرات میں

دبنگ اور باوقار لہجہ جس میں ایک شاہانہ طمطراق پایا جاتا ہے اشعر صاحب کے بہت سے اشعار میں ملتا ہے ۔ ان کی کئی ردیفوں کا انداز ’غیر شخصی حکمیہ انداز‘ ہے اور بعض مقامات پر ایک لا اُبالی مگر طنزیہ لہجہ سامنے آتا ہے

کوئی تحریک تو ہو حفظِ رگِ جاں کے لیے
خلقتِ شہر کو حالات سے ڈرنے دیجے

اس کی ہر جنبشِ ابرو کی ضیافت کے لیے
اک طرف سلسلۂ شیشۂ پندار بھی ہو

دم بھی گھٹ جائے تو پندار کی تذلیل نہ ہو
روزنِ در سے کسی کو نہ صدا دی جائے

میری آواز بھی اب اُس پہ گراں ہے اشعر
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا دی جائے

پھر کوئی نیا قافلہ ترتیب دیا جائے
ہم آبلہ پا کب سے دورا ہے پہ کھڑ ے ہیں

اشعر صاحب کے ہاں جہاں موضوعات کی رنگا رنگی ملتی ہے وہیں ان کا جداگانہ اسلوب ان موضوعات کو ایک نیا اور جاذبِ نظر رنگ عطا کرتا ہے ۔ زبان پر انھیں گرفت حاصل ہے ، فارسی عربی کی بھاری بھرکم تراکیب ان کے اشعار میں یوں پرو دی گئی ہیں کہ ان کی ثقالت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ یوں غزل اپنی زندہ اور متحرک روایت سے مسلسل مربوط رہ کر نئے لہجے سے آشنا ہوتی ہے ۔ اشعر صاحب کے خونِ جگر کی سرخی زبان کو عجیب طرح کی رعنائی عطا کرتی ہے اور اشعر صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا قرار پاتا ہے کہ

جو بات بھی کرتا ہوں وہ مبہم نہیں ہوتی
اشعر یہی خوبی ہے مرے طرزِ بیاں میں

دکھا رہا ہے تماثیلِ برگِ آوارہ
ہجومِ نقشِ کفِ پا کا رہنما ہونا

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(محمد یعقوب آسی)
 

نوید صادق

محفلین
ڈاکٹر ضیاء الحسن
محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب

جس طرح ہر کہانی افسانہ نہیں ہوتی، اسی طرح ہر افسانے میں کہانی کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔کہانی اور افسانے میں ایک نامعلوم سا لطیف تعلق ہو تا ہے جو ٹوٹ جائے تو لفظوں کا گورکھ دھندہ رہ جاتا ہے اور اگر صرف یہی تعلق رہ جائے تو حاصل جمع کہانی کی صورت میں بچتا ہے ۔افسانہ نگار کہانی بیان نہیں کر تا بل کہ کہانیوں کے باطن میں پوشیدہ کسی ایسے عنصر کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے جس پر ہر شخص کی نگاہ نہیں پڑ تی۔ہر کہانی میں ایسے بیسیوں عناصر تہ نشیں ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر کہا نی سے بیسیوں افسانے تخلیق کیے جا سکتے ہیں ۔افسانہ نگاری بنیادی طور پر دریافت کا عمل ہے ۔اور تمام اعلیٰ کارناموں کی طرح وجدان کے ذریعے نا معلوم سے معلوم تک رسائی کا سفر ہے ۔بیشتر علوم انسان کے با ہرپھیلی کا ئنات میں نا معلوم تک پہنچنے کی طلب سے پیدا ہوئے ہیں ۔ادب ان معدودے چند علوم میں سب سے موثر علم ہے جو انسان کے باطن میں پھیلی کائنات کے پوشیدہ گوشوں کو وا کرتا ہے ۔ ادب ، شاعری اور فکشن کے ذریعے دریافت کا یہ کارنامہ انجام دیتا ہے ۔ اسی لیے شاعری اور فکشن کو تخلیقی اصناف کہا گیا ہے اور ادب کی دیگر تمام اصنا ف پر انھیں فوقیت حاصل ہے ۔ افسانے اور کہانی میں ایک بنیادی فرق دریافت کا یہ تخلیقی عمل بھی ہے ۔کہانی ہمارے لیے ایک جانا پہچانا عمل ہے ۔ جو ہر وقت ہمارے اِردگردوقوع پذیر ہو رہا ہے اور افسانہ اس میں پوشیدہ امکانات کی دریافت کا نام ہے ۔کہانی میں وقوعہ بیان ہوتا ہے جب کہ افسانہ اس و قوعے کے باطن سے تخلیقی عناصر کی تلاش سے بنتا ہے ۔ گو یاکہانی بیان ہے اور افسانہ کشف ہے ۔ افسانہ نگار اس کشف کے لیے ایک خاص فضا تخلیق کرتا ہے ۔ قاری جب اس فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کشف سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ بند دروازے اس پر کھلنے لگتے ہیں اور وہ اپنے رُو بہ رُو آن کھڑ ا ہوتا ہے ۔ جس طرح اعلیٰ درجے کا شاعر اپنی شاعری میں ایک خاص فضا تخلیق کرتا ہے اور ان گنت اظہارات کو ممکن بناتا ہے ، اسی طرح فکشن نگار بھی اپنے بنیادی مسئلے کے حوالے سے یہ فضا تشکیل کرتا ہے ۔ تخلیقی فن کار یہ کام اپنے اسلوب کے بنیادی عناصر سے انجام دیتا ہے اور فن کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار دراصل اسی خاص فضا یا اسلوب پر ہوتا ہے ۔ ہم اعلیٰ درجے کا فن کار اسی کو قرار دیتے ہیں جو اپنے موضوع کی مناسبت سے یہ فضا تخلیق کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔اس فضا کی تشکیل میں وہ اپنے عہد، اپنی ذات اور روحِ عصر سے ایسے عناصر کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے موضوع کو بہترین انداز میں پیش کرنے پر قادر ہوتے ہیں ۔فن کار کی ریاضت فی الاصل ان اسلوبیاتی عناصر کی بہترین ترکیب کی تلاش ہے ۔جب وہ اس ہم آہنگی کو دریافت کر لیتا ہے تو اعلیٰ تخلیقی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے اور شاہکار تخلیق پاتے ہیں ۔
محمد حمید شاہد کی افسانہ نگاری بھی اسی تخلیقی توازن کی دریافت کا سفر ہے ۔ اس سفر میں وہ ’’مرگ زار‘‘ تک پہنچے ہیں ۔’’مرگ زار‘‘ کے مختصر افسانوں میں بہت طویل کہانیوں کے منتخب عناصر سے انھوں نے وہ فضا تخلیق کی ہے جسے محمد حمید شاہد کا اسلوب کہنا چاہیے ۔ان کا افسانہ ’’موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ‘‘ کل چھ صفحات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے دو کہانیوں کے مختلف عناصر کو ہم آہنگ کیا ہے ۔ایک کہانی گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اخبارات میں لکھی جا رہی ہے ۔ برسوں پر محیط اس کہانی کی تفصیلات آج بھی ہمارے روزناموں میں ریکارڈ ہو رہی ہیں ۔ دوسری کہانی ’’اُس‘‘ کی ہے ۔ وہ کون تھا؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ اس کے معاشی اور معاشرتی حالات کیا تھے ؟ کیا کام کرتا تھا؟ شادی کیوں نہیں کی؟ کیا پڑ ھتا رہا؟ لکھتا کیا تھا؟ اس کی زندگی کے اہم واقعات جنھوں نے اس کی شخصیت کی تشکیل کی، کیا تھے ؟ واحد متکلم سے اس کے تعلقات کیسے آغاز ہوئے ؟ کن اشتراکات نے انھیں دوستی کے بندھن میں باندھا؟ کیا کیا واقعات ان کے تعلق کے حوالے سے رونما ہوئے ؟ اور اس کے علاوہ بیسیوں دیگرتفصیلات جو اس کہانی میں موجود ہو سکتی تھیں ، افسانہ نگار کے لیے فاضل ہیں ۔انھوں نے دونوں کہانیوں میں سے جو عناصر منتخب کیے ہیں اور جس طرح انھیں مربوط کیا ہے ، اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے :
۔۔’’وہ مر گیا۔ جب نخوت کا مارا امریکہ اپنے پالتواتحادیوں کے ساتھ ساری انسانیت پر چڑ ھ دوڑ ا اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کے بوتے پر سب کو بدترین اجتماعی موت کی باڑ ھ پر رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں چپکے سے اکیلا ہی مر گیا۔‘‘
اب ذرا کسی ایک دن کے کسی بھی اخبار کی دو خبریں اپنے ذہن میں تازہ کیجیے :
’’عراق پر اتحادی طیاروں کی بمباری، ۳۰۰ شہری شہید، ہزاروں زخمی، بے شمار عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ‘‘
اور
’’حلقہ تصنیفِ ادب کے بانی غضنفر علی ندیم میو ہسپتال کے ساؤتھ میڈیکل وارڈ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے ‘‘
محمد حمید شاہد نے ان دونوں خبروں کو ایک نئی ترکیب سے اس طرح مربوط کیا ہے کہ خبریت تخلیقیت میں ڈھل گئی ہے ۔آپ اِن خبروں کو دوبارہ پڑ ھنے کی خواہش نہیں کرتے لیکن ان کی اس نئی تخلیقی تشکیل کو بار بار پڑ ھنے اور پڑ ھ کر لطف اندوز ہونے کی خواہش کرتے ہیں ۔یہ مضمون لکھنے کے لیے میں نے اس کتاب کا تین مختلف اوقات میں مطالعہ کیا ہے اور کچھ افسانوں کو تین سے بھی زیادہ مرتبہ پڑ ھا ہے لیکن ہر بار لطفِ مطالعہ اور حاصلِ مطالعہ اور تھا۔ہر بار ان افسانوں میں ایک نیا احساس اور ایک نئی معنویت اضافہ ہوئی۔افسانے اور کہانی ، خبریاوقوعے میں یہی بنیادی فرق ہے ۔خبر، کہانی یاوقوعہ ایک اطلاع ہے جب کہ افسانہ میں وہ احساس ہے جو کہانی میں مفقود ہے ۔ اس ایک فقرے ہی کودیکھیے ۔یہ فقرہ بظاہر ایک معروضیت کا اظہارلیے ہوئے ہے لیکن اس معروضیت کی تہ میں اجتماعی بے حسی کاٹھاٹھیں مارتا ہوا احساس کروٹیں لے رہا ہے ۔اگرافسانہ نگار ۔۔’’وہ مرگیا‘‘ جیسے سفاک اوربظاہر سپاٹ جملے سے آغا ز کرنے کے بجاے اُس کی موت پر جذبات میں بھیگے ہوئے جملوں سے آغاز کرتاتو اس شدیدبے حسی کوپیش کرنے سے معذور رہتا۔اس نے ایک مختصراورسیدھے سادے جملے سے وہ کام لیا ہے جوکسی مرصع جملے سے ممکن نہیں تھا۔پورا افسانہ اجتماعی موت اور اکیلی موت کے ارتباط اور اس سے پیدا ہونے والی بے حسی اور زندگی سے لاتعلقی کے اجتماعی اورانفرادی المیے کواسی زندگی سے لاتعلقی اوربے حسی سے مزین اسلوب میں بیان کرتا ہے ۔افسانہ نگارنے ایک ایسی فضا کامیابی سے تخلیق کی ہے جو قاری کو موت کی یخ بستگی کے فوری احساس کی گرفت میں لے لیتی ہے ۔جب وہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔ ’’میں قلم کوکاغذپریوں نچاتا ہوں جیسے زنخا ہوامیں ہاتھ نچاتا ہے ‘‘۔۔۔ تومحسوس ہوتا ہے کہ وہ بزدل حکمرانوں کوہی زنخاکہنے کی ہمت نہیں رکھتابل کہ خود کوبھی زنخاکہہ سکتا ہے اور انسانوں کے اس انبوہ کو بھی جویہ سب کچھ بے حسی سے دیکھ رہا ہے اورخاموش ہے ۔کہانی کے سپاٹ پن کودور کرنے کے لیے وہ تخلیقی رویوں اورغیر تخلیقی زندگی کی کشمکش کوذریعہ بناتا ہے ۔باطن چھلنی ہے اور بغاوت پرآمادہ ہے ۔ظاہر بے حس اورخاموش ہے ۔نعرہ بازی کہیں نہیں ہے ۔افسانہ نگار جانتا ہے کہ بے حسی کی برف بے حسی کے شدید احساس سے ہی ٹوٹ سکے گی۔وہ علاج بالمثل کاقائل ہے ۔اسی لیے اس کے اسلوب میں انتہادرجے کی معروضیت ہے ۔حمید شاہد نے اس کہانی سے اپنے امکانات دریافت کیے ۔اسی کہانی سے کچھ دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی افسانے تخلیق کیے ہیں اور اس کہانی کی دیگر تفصیلات سے اپنی اپنی معنویت اخذکی ہے ۔امجد طفیل کا افسانہ ’’مسلسل شہرِ افسوس میں ‘‘موجود کوتاریخ سے ملاتے ہوئے ظلم اور بے حمیتی کے کچھ دوسرے علاقوں کی جستجو سے تخلیق ہوا ہے ۔مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’الفتح لنا۔۔۔۔الفتح لنا‘‘اس کہانی میں پوشیدہ انسانی الیمہ کے ان پہلوؤں سے تخلیق ہوا ہے جس کے اثرات ہندوستان کے ماحول میں اُن تک پہنچے ہیں ۔اس کہانی میں ان کے علاوہ بھی بیسیوں امکانات دریافت ہونے کے منتظرہیں ۔اس کہانی سے افسانے تخلیق ہورہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب یہی ہے ۔ان کی کتاب میں ’’برشور ‘‘سے ’’مرگ زار ‘‘تک بیش تر افسانوں کی یہی بنت نظر آتی ہے ۔ان کے پہلے افسانے ’’برشور ‘‘میں بھی دوکہانیوں سے افسانہ تخلیق کیا گیا ہے ۔پہلی کہانی بلوچستان کے قحط کے اجتماعی منظر پرمشتمل ہے جب کہ دوسری کہانی تاج محمد ترین کی ہے ۔وہ فرد سے اجتماع اوراجتماع سے فرد کے المیے تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں ۔یہاں بھی انھوں نے کہانی کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف انھی چند مناظر کومنتخب کیا ہے ، جواس المیے کو واضح کرنے کے لیے ناگزیر تھے ۔پورا افسانہ اس منظر کوپیش کرنے کے لیے فضابندی کاکام کرتا ہے جوانھوں نے آخرمیں دکھا کراپنی بات مکمل کی ہے ۔رودینی باربار برشور جانے کی بات کرتا ہے لیکن کمیٹی کے دیگر ارکان اس سے متفق نہیں ہوتے ۔ قحط کی اجتماعی تباہ کاروں میں انھیں ترین کا المیہ کم تر محسوس ہوتا ہے ۔ حمید شاہد نے قحط کی منظر نگاری نہیں کی ، کوئی ڈیٹاہمارے سامنے نہیں رکھالیکن چھوٹے چھوٹے فقروں سے اس المیے کی شدت کوہم تک پہنچادیا ہے ۔آخر ی منظر میں جب وہ ترین تک پہنچتے ہیں تو اجتماعی المیہ فرد میں منتقل ہوکر اپنی ساری شدتوں کو عیاں کر دیتا ہے ۔محمد حمید شاہد کاموضوع بہت مشکل ہے ۔وہ اپنے عصر کے مسائل پراپنے افسانوں کی عمارت تعمیرکرتے ہیں ۔ایسی صورت میں بیانیہ سپاٹ پن کاپورا احتمال رہتا ہے ۔اگروہ کہانیاں لکھتے تویقیناً اس عیب کاشکار ہوجاتے لیکن وہ کہانی کے انھی اجزا سے سروکار رکھتے ہیں جو ان کے مسئلے کوپیش کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔پھروہ ان کو ایک ایسے تخلیقی ربط سے ہم آہنگ کرتے ہیں کہ کہانی کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے اورپیش منظر پر وہ کیفیت رہ جاتی ہے جوقاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کا افسانہ ’’سوَرگ میں سُور ‘‘ ان کے اسلوب کابہترین عکاس ہے ۔یہاں بھی وہ براہ راست تفصیلات سے گریزکرتے ہیں ۔جانور ، ان کی مختلف اقسام، متنوع بیماریاں ، کھیت ، مونگ پھلیاں ، بیوپاری، خرید و فروخت ، اس کے اثرات ، سب ہی بیان کرتے ہیں لیکن اصل تفصیلات چھپا جاتے ہیں ۔پوری کہانی ایک استعارے میں بیان ہوئی ہے ۔یہ استعارہ چوں کہ ہمارے اجتماعی المیے کازائیدہ ہے ۔اس لیے ہمارے لیے مبہم نہیں ہے ۔ایک سوَرگ ہے جس میں سُور گھس آئے ہیں اور چوکیدار کتے اتنے قوی ہیں کہ سوَرگ والوں کے حصے کارزق بھی کھا جاتے ہیں ۔وہ سُوروں کے عادی ہوگئے ہیں یا ان سے خوفزدہ ہیں ۔بہرحال تھوتھنی والے ان کی غراہٹوں کی اوٹ میں کھیت اجاڑ نے کے درپے ہیں ۔ہمارے نوجوان فکشن لکھنے والوں پرجدید دورکے جس فکشن نگار کے اثرات سب سے نمایاں ہیں ، وہ مارکیز ہے ۔خود مارکیز پردوستوفسکی کے اثرات بہت واضح ہیں ۔مارکیز سے ہم نے دوباتیں سیکھی ہیں ۔ایک ، کہانی بھول کراپنے استعارے وضع کرنے کے لیے پوری توجہ صرف کرنے کارویہ اوردوسرے ، فقرے کی مخصوص بنت جومارکیز سے منسوب ہے ۔پہلا اثربالواسطہ ہے اور دوسرابراہ راست۔حمید شاہد کے افسانے پڑ ھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بھی مارکیز سے روحانی ربط ہے ۔یہ ربط نقالی نہیں ہے بل کہ ایک باطنی ہم آہنگی ہے ۔موضوعاتی حوالے سے ان کا اور مارکیز کا اشتراک وہی ہے جودنیاکے تمام اوریجنل لکھنے والوں کا آپس میں ہے ، یعنی انسانی المیے پردردمندی، لیکن اس دردمندی کا اظہار ہرفن کار نے اپنے باطن سے مربوط کر کے کیا ہے ۔حمید شاہد کے افسانوی اسلوب پربھی ان کے باطن کے گہرے رنگ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس اجتماعیت کا احساس بھی ہوتا ہے جوتمام جینوئن فن کاروں کوبلاتخصیص ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے ۔اب مارکیز کے چند عنوان ملاحظہ فرمائیے :
محبت کے اس پارمنتظر موت
گم گشتہ وقت کاسمندر
دنیابھر کاحسین ترین ڈوبنے والا
ایک پیش گفتہ موت کی روداد
محمد حمیدشاہد کے عنوان دیکھیے :
رُکی ہوئی زندگی
پارینہ لمحے کانزول
دُکھ کیسے مرتا ہے
موت منڈی میں اکیلی موت کاقصہ
حمید شاہد جملہ بنانے میں جن ساختوں کو بروے کار لاتے ہیں ، ان میں سے ایک ساخت مارکیز کے جملوں کے بہت قریب ہے ۔یہ ایک پیچیدہ ساخت کاجملہ ہے جواپنی پیچیدگی کے باوصف بہت خوبصورت اوردل موہ لینے والا ہے ۔ مارکیز کاقاری اس کے اس جملے پرفدا ہے ۔ جملے کی یہ ساخت افسانوی ادب میں مارکیز کی دین ہے اور اس کے اثرات بھی دنیابھرکے لکھنے والوں پرپڑ ے ۔اردومیں یہ ساخت نوجوان لکھنے والوں کی من پسند ہے ۔اس سے پہلے یہ ساخت محمد عاصم بٹ اور زاہد حسن کی افسانوی تحریروں میں اپنی جھلک دکھاتی رہی ہے ، لیکن حمید شاہد نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے :
’’سولہ برس ، سات ماہ ، پانچ دن ، دوگھنٹے ، اکیس منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہوچلے تھے ، اپنے لیے اس کے ہونٹوں سے پہلی بار وہ جملہ سنے ، جوسماعت میں جل ترنگ بجا گیا تھامگر دل کے عین بیچ یقین کاشائبہ تک نہ اتارسکا تھا‘‘۔
حمید شاہد کادوسراجملہ تشبیہاتی ہے ۔یہ اس تشبیہاتی جملے سے مختلف ہے جوساٹھ کی دہائی میں علامتی یاتجریدی کہہ کرپیش کیا گیا اور نہ ہی ان کے افسانوں میں یہ اس تواترسے ہے جس تواتر سے اس زمانے کی کہانیوں میں ہے ۔یہ جملہ اس قدر مبہم بھی نہیں ہے جس قدر ان کہانیوں میں نظر آتا ہے ۔ یہ جملہ اس تشبیہاتی جملے کی تخلیقی پیش کش ہے ۔یوں کہناچاہیے کہ ساٹھ کی دہائی میں جو تجربہ تھا، اب حمید شاہد کے ہاں تخلیقی لبادے میں جلوہ گرہوا ہے ۔حمید شاہد نے اپنی زبان میں مقامی الفاظ کوتخلیقی تناسب سے پیش کیا ہے ۔وہ مقامی زبانوں کے الفاظ محض شمولیت کی غرض سے منتخب نہیں کرتے بل کہ اپنے اسلوب اور موضوع دونوں سے ہم آہنگ کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم انھیں محسوس توکرتے ہیں لیکن یہ لفظ ہمیں اوپر ے اوپرے نہیں لگتے ۔اگرچہ زبان و بیان ، دونوں حوالوں سے انھوں نے فکشن کی روایت کافایدہ اٹھایا ہے لیکن اس میں اپنے اضافوں سے ایسی گل کاری کی ہے کہ ان کے افسانوں کی فضابالکل الگ نظرآتی ہے ۔محمد حمید شاہد افسانہ نگاروں کی موجودہ نسل کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔’’مرگ زار ‘‘میں شامل افسانے اپنی تخلیقی فضاکے حوالے سے قاری کواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔خام کہانیوں کے اس ماحول میں ان کے افسانے اردو افسانے کے درخشندہ مستقبل کا اشارہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن
 

نوید صادق

محفلین
غزلیں


خالد احمد​


اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں
کسی چشمِ تر میں تلاش کر اُسے میرے یار یہیں کہیں

یہ جو سمتِ عشق میں جھیل ہے ، یہ جو سمتِ غم میں پہاڑ ہیں
مری راہ دیکھ رہا نہ ہو مرا شہ سوار یہیں کہیں

مرے دل کے باب نہ کھولنا، مرے جان و تن نہ ٹٹولنا
کسی زاویے میں پڑ ا نہ ہو، وہ بتِ نگار یہیں کہیں

گلِ شام! اے گلِ سُرمگیں ! وہ خدنگِ ربطِ گُل آفریں
مری جان دیکھ ہوا نہ ہو، مرے آر پار یہیں کہیں

کسی سبز پیڑ کے سائے میں ، کسی کاروان سرائے میں
مری جان! رمز سرا نہ ہوں ، ترے رازدار یہیں کہیں

پرِ کاہ، سبز کچور سا، قدِ سر بلند کھجور سا
مرے جی میں تھا کہ سمیٹ لوں ، خط و خالِ یار یہیں کہیں

سرِ خیلِ اہلِ ہدیٰ نہ ہو، یہ فقیر مردِ خدا نہ ہو
سر اُٹھا کے دیکھ! دھرا نہ ہو، سرِ انکسار یہیں کہیں

فرسِ ہوا پہ سوار ہوں ، کہ غبارِ ناقۂ یار ہوں
مجھے راستے میں نہ چھوڑ دے مرا را ہوار یہیں کہیں

طلبِ طلب میں چلا تھا میں ، عجب اوجِ غم سے گرا تھا میں
دل و جاں شکستہ پڑ ا تھا میں ، تہِ آبشار یہیں کہیں

مرے ہم مزاج غم آشنا، دمِ احتیاج رَم آشنا
اسی کارزار میں کَھپ رہے ، مرے ہم دیار یہیں کہیں

مرے سامنے ، ترے روبرو، مرا حال تجھ کو سنا نہ دیں
مری کھوج میں تجھے آ نہ لیں ، مرے غم گسار یہیں کہیں

ترے سیلِ لمس میں بہہ گئے ، تنِ پا بہ گِل کھڑ ے رہ گئے
مرے آس پاس تلاش کر، مرے برگ و بار یہیں کہیں

مری جاں ! یہی وہ مقام ہے ، یہی مہبطِ گُلِ شام ہے
مجھے یاد ہے کہ کِھلا تھا وہ، گلِ نو بہار یہیں کہیں

یہ جو پنکھڑ ی ہے گلاب سی، یہ جو انکھڑ ی ہے شراب سی
انھیں چشم و لب میں تلاش کر، مجھے میرے یار یہیں کہیں

ترا ہاتھ دیکھتے دیکھتے مرے ہاتھ پر بھی نہ کھینچ دے
خطِ قلب و ذہن کے درمیاں ، وہ خطِ غبار یہیں کہیں

فقط ایک گام کی راہ پر، فقط ایک نام کی آہ پر
مری راہ دیکھ رہا نہ ہو، مرا انتشار یہیں کہیں

ترے سامنے ، ترے دیکھتے ، مری انگلیوں سے پھسل گئے
مرے ولولے ، مرے حوصلے ، مرا اختیار یہیں کہیں

اُسے کوچ کرنا تھا، کر گیا، مرے جسم و جاں سے گزر گیا
وہ غزالِ زاویۂ ختن، وہ گلِ غبار یہیں کہیں

ترے راستے میں ہوا ہوئیں ، مری خواہشیں ، مری کاہشیں
ہوسِ حواس بھی کھو نہ دے ، ترا بردبار یہیں کہیں

یہ جو محوِ کارِ تلاش ہیں ، یہ ترے جنونِ معاش ہیں
مجھے ڈر ہے ، اب نہ سمیٹ لیں وہ یہ کاروبار یہیں کہیں

وہ کڑ ک کہ تن میں دھمک اُٹھی، وہ تڑ ک کہ دل میں چمک اُٹھی
کوئی درد تھا، کوئی ٹیس تھی، دلِ بُردبار یہیں کہیں

یہ جو خاکِ ہجر نِژاد ہے ، یہ عروجِ اہلِ مراد ہے
اِسی جا، جنم ابھی لے نہ لیں کئی مَرغ زار یہیں کہیں

گُلِ شام! اے گُلِ سُرمگیں ! ترا ہم جمال دلِ حزیں !
مری آگ دیکھتے جل بجھا، وہ ستارہ وار یہیں کہیں

اسی تنگ و تار اُطاق میں ، اسی کنج کے کسی طاق میں
غمِ یار رکھ کے گیا تھا میں ، غمِ روزگار یہیں کہیں

یہ تہِ فصیل سراب سا، کبھی سیلِ بے ختن آب سا
مری جاں ! خیام پزیر تھے ، ترے جاں نثار یہیں کہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد احمد
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب اور شکریہ نوید۔
لیکن بانیی نرحوم اپنا نام کبھی راجندر لال منچندا نہیں لکھتے تھے۔ یہ ان کے قریبی دوستوں کو معلوم تھا یا انہوں نے ’حرفِ معتبر‘ میں ظاہر کیا تھا۔ معلوم نہیں پاکستان میں کیا بطور خاص ان کو اس طرح ہائی لائٹ کیا گیا تھا؟
 

نوید صادق

محفلین
بہت خوب اور شکریہ نوید۔
لیکن بانیی نرحوم اپنا نام کبھی راجندر لال منچندا نہیں لکھتے تھے۔ یہ ان کے قریبی دوستوں کو معلوم تھا یا انہوں نے ’حرفِ معتبر‘ میں ظاہر کیا تھا۔ معلوم نہیں پاکستان میں کیا بطور خاص ان کو اس طرح ہائی لائٹ کیا گیا تھا؟

اعجاز بھائی!
یہاں بھی صرف "بانی"" مشہور ہیں۔ یہ تو میری کوشش ہوتی ہے کہ پورا نام ایک بار لوگوں تک پہنچے۔
 

نوید صادق

محفلین
نجیب احمد​

غزل

ہونے کو اس دیار میں کیا کچھ ہوا نہیں
لیکن وہ ایک تو کہ دوبارہ ملا نہیں

تھوڑ ی سی مختلف یہ کہانی ضرور ہے
لیکن جو ہو رہا ہے تماشا نیا نہیں

کچھ ہو رہا ہے اس کی خبر تو ہوا کو تھی
کیا ہو رہا ہے اس کا کسی کو پتہ نہیں

کیوں کھیلتا ہوں آتش و آہن کا کھیل میں
انسان کے لہو کا اگر ذائقہ نہیں

کیا کیا رہِ سفر میں رکاوٹ کھڑ ی نہ کی
جھونکا مگر ہوا کا کہیں پر رُکا نہیں

سب جانتے ہیں شہر میں قاتل کے نام کو
مرنے کے خوف سے کوئی لب کھولتا نہیں

اب کیا کسی کے ساتھ چلے گفتگو نجیب
اس شہر میں تو کوئی بھی سچ بولتا نہیں


غزل

ایک موتی کے لیے جاں سے گزر سکتے ہو!
کیا مرے ساتھ سمندر میں اتر سکتے ہو؟

نیند کے شہر سے گزرو تو اجازت ہے تمھیں
خواب کی گلیوں میں کچھ دیر ٹھہر سکتے ہو

حسنِ توقیر سے رکھنا ہیں خد و خال تہی
رنگ رُسوائی کا تصویر میں بھر سکتے ہو

منصبِ عشق طلب کرتے ہو کس برتے پر
کیا کسی کے لیے جی سکتے ہو؟ مر سکتے ہو؟

کیا کہوں ، شہرِ قناعت میں ہے برکت کتنی
مختصر یہ کہ بسر چین سے کر سکتے ہو

دُکھ اسیری کے اٹھائے ہیں کہاں تم نے نجیب
تم پرندوں کے پر و بال کتر سکتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نجیب احمد)
 

نوید صادق

محفلین
غلام حسین ساجد

غزل​

جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی سے

روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ
رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے

کر کے دیکھوں گا کسی طرح لہو کی بارش
آتشِ ہجر بجھے گی نہ اگر پانی سے

اُن کو پانے کی تمنا نہیں جاتی دل سے
کیا منور ہیں ستارے مری تابانی سے ؟

کوئی مصروف ہے تزئین میں قصرِ دل کی
چوب کاری سے ، کہیں آئنہ سامانی سے

خاک زادوں سے تعلق نہیں رکھتے کچھ لوگ
میزبانی سے غرض اُن کو نہ مہمانی سے !

میں اُسی خاک پہ بیٹھا ہوں بڑ ے شوق کے ساتھ
کوئی نسبت نہیں اب تک مجھے سلطانی سے

بند ہو جائے اگر روزنِ امکانِ خیال
خواب کِھلتے ہیں مرے دل میں فراوانی سے

میری صورت سے جو بیزار ہیں اب بھی ساجد
کب وہ خوش ہوں گے مرے طرزِ مسلمانی سے

غزل


حاصل کسی سے نقدِ حمایت نہ کر سکا
میں اپنی سلطنت پہ حکومت نہ کر سکا

ہر رنگ میں رقیبِ زرِ نام و ننگ ہوں
اک میں ہوں جو کسی سے محبت نہ کر سکا

گھلتا رہا ہے میری رگوں میں بھی کوئی زہر
لیکن میں اِس دیار سے ہجرت نہ کر سکا

پڑ تا نہیں کسی کے بچھڑ نے سے کوئی فرق
میں اُس کو سچ بتانے کی زحمت نہ کر سکا

آیا جو اُس کا ذکر تو میں گنگ رہ گیا
اور آئنے سے اُس کی شکایت نہ کر سکا

باقی رکھی ہے میرے لہو نے متاعِ ہوش
میں نے وفا تو کی تھی، نہایت نہ کر سکا

اب بھی شگفتِ نور سے ہے اُس کو ربطِ خاص
وہ جو مرے چراغ کی عزت نہ کر سکا

ہر چند اُس گلاب پہ تشبیب کھل گئی
اس پر بھی میں گریز کی ہمت نہ کر سکا

ساجد قفس کی تیلیوں کو توڑ کر بھی میں
اک دشتِ بے کنار میں وحشت نہ کر سکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام حسین ساجد
 

نوید صادق

محفلین
قاضی حبیب الرحمن

غزل

ہر آن پھیلتا جاتا ہے غم کا صحرا بھی
بجھا سکا نہ مری پیاس ہفت دریا بھی

عجب زمانوں کا درپیش ہے سفر کوئی
کہ تھک کے بیٹھ گئی راہ میں تمنا بھی

گزرتی جاتی ہے ہر سانس زندگی اپنی
ٹھہر سکا کہیں دم بھر، ہوا کا جھونکا بھی

ہزار بار مری جاں ، اسے غنیمت جان!
نگاہ بھر کو جو ہے فرصتِ تماشا بھی

دوئی نہیں ہے محبت کے تجربے میں کوئی
مری طلب ہے تری آنکھ سے ہویدا بھی

اس اک امید پہ خود کو بھی تیاگ بیٹھے ہیں
دکھائی دے وہی صورت کہیں دوبارہ بھی

مقامِ عرش تھا یا پھر خدا خبر، کیا تھا؟
کہ ساتھ چھوڑ گیا آخری سہارا بھی

وہ ایک لمحہ کہ جب سامنا ہوا خود سے
ہزار صدیوں پہ بھاری تھا اک وہ لمحہ بھی

یہ چشمِ سر سے جو منظر دکھائی دیتا ہے
سمجھ اسی کو حقیقت بھی استعارہ بھی

یہ زندگی ہے کہ تجدیدِ زندگی، کیا ہے ؟
بدلتا جاتا ہے پہلو، ترا تقاضا بھی

یہ بات یاد رہے آج تیرے کوچے میں
کنارِ بحر سے لوٹا ہے کوئی پیاسا بھی

ملے جو فرصتِ یک لحظہ اپنی ہستی سے
تو دیدنی ہے پسِ دید، اک نظارا بھی

یہ کس کو ڈھونڈ رہے ہو خلا میں اب یارو!
غریقِ مہر ہوا، آخری ستارہ بھی

نہ جانے بات کہاں سے کہاں نکل جاتی
جو میں رکا تو رکا دوسرا کنارا بھی

پھر اس کے بعد خموشی بیاں کرے گی حبیب
یہیں تلک تھا مگر گفتگو کا یارا بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی حبیب الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
احمد فاروق


غزل

صفتِ سیل ہے تو، پرِ کا ہے میں ہوں
سرِ را ہے تو ہے ، سرِ را ہے میں ہوں

لبِ جو سوختۂ شبِ ما ہے میں ہوں
نظرے ! باہمہ حالِ تبا ہے میں ہوں

تری رفتار کا مارا ہوا تیرا اسیر
اُمڈ اے موجۂ زُلفِ سیا ہے ! میں ہوں

اُسی دیوار کے سائے تلے گریہ کناں
گہے گاہے تو ہے ، گہے گاہے میں ہوں

مجھے معلوم ہے کوئی نہیں آئے گا
مگر ایسا ہے کہ چشم برا ہے میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد فاروق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
ارشد شاہین

غزل

حرف حرف سطر سطر باب باب لکھ دیا
اُس کے نام زندگی کا انتساب لکھ دیا

پوچھتا تھا مجھ سے وہ حصولِ زندگی ہے کیا
اشک آنکھ سے گرے ، زمیں پہ خواب لکھ دیا

اُس کی جب مثال دی تو سامنے کی بات کی
چاند کہہ دیا کبھی، کبھی گلاب لکھ دیا

جس قدر وہ ہے اُسے بیاں کیا اُسی قدر
کب ہوا کہ میں نے اُس کو بے حساب لکھ دیا

یوں کرم کیا ہے مجھ پہ ربِ کائنات نے
سوچنے سے قبل مجھ کو کامیاب لکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد شاہین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
کنور امتیاز احمد


غزل

اشک کا جیسے ستارہ ہونا
میرا ، رونے سے ، تمھارا ہونا

اُس کی آنکھوں سے سمجھ آتا ہے
کسی دریا کا کنارہ ہونا

اب تو لگتا ہے کہ ممکن ہی نہیں
شہر میں دل کا گزارا ہونا

یعنی مٹنا ہی نہیں ہے ہم کو
طے ہے گر اپنا دوبارہ ہونا

اور انسان سمجھتا ہی نہیں !
فائدے میں بھی خسارہ ہونا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنور امتیاز احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
ذوالفقار عادل

غزل

وہ شہر کسی شہر میں محدود نہیں تھا
اُس میں وہ سبھی کچھ تھا جو موجود نہیں تھا

خاموش کچھ ایسا تھا کہ بس تھا ہی نہیں دل
آباد بس اتنا تھا کہ نابود نہیں تھا

گم ہو گئی زنجیر کی آواز میں آواز
افسوس کہ ہم میں کوئی داؤد نہیں تھا

مقبول نہیں گرچہ مرے دل کی معیشت
یاں کوئی خسارہ کبھی بے سُود نہیں تھا

چُھو کر اُسے دیکھا تھا مکرّر نہیں دیکھا
عادل وہ مرا خواب تھا، مقصود نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوالفقار عادل
 

نوید صادق

محفلین
عطاء الرحمٰن قاضی

غزل

ملا ہی دے گی کبھی موجِ التباس کہیں
بھٹک رہا ہوں میں اپنے ہی آس پاس کہیں

ہواے غم میں نہ ڈھل جائے ، یہ ہواے نشاط
کشید کرتے ہوئے ان گُلوں کی باس کہیں

بھروں سراب کے دریا میں رنگِ آبِ رواں
اتار لوں رگِ جاں میں اگر یہ پیاس کہیں

گریز کر مگر اتنا بھی کیا گریز، بھلا
کہ آ نہ جائے ترا ہجر ہم کو راس کہیں

دلِ شکستہ کے آثار دیدنی ہیں عطا
پڑ ے ہیں خواب کہیں تو اگی ہے گھاس کہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطاء الرحمٰن قاضی
 
Top