ناصر کاظمی سو گئی شہر کی ہر ایک گلی ۔ ناصر کاظمی

فرخ منظور

لائبریرین
یہ غزل مجھے بہت عجیب اور پراسرار لگی ہے۔ پڑھ کر دل پر عجیب سا اثر ہوا ہے۔

سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی

کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی

کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں‌ دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی

تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی

مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی

میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے کبھی

میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جائے گا تو بھی

ایسی جلدی بھی کیا ، چلے جانا
مجھے اک بات پوچھنی ہے ابھی

آبھی جامیرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی

میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی


از ناصر کاظمی
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی بہت خوبصورت غزل ہے، شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے!

مطلعے کے قوافی اور مابعد قوافی پر شاید کہیں سے اعتراض وارد ہوا ہو کہ بہت سے اساتذہ اسے روا نہیں سمجھتے (بشمول استادِ محفل جناب الف عین صاحب) لیکن کچھ جائز بھی قرار دیتے ہیں! مطلعے سے معلوم پڑتا ہے کہ قافیہ 'آلی' ہے یعنی گلی اور چلی سو اس کے قافیے کلی، پلی، ڈھلی ہونے چاہیں یعنی اگر مطلع میں 'ل' کی قید ہے تو باقی اشعار میں بھی لازم ہے، ناصر نے اس اصول کو یہاں 'فالو' نہیں کیا یقیناً انکی اپنی 'لاجک' ہوگی!

خیر، ایک بار پھر شکریہ شیئر کرنے کیلیے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
واقعی بہت خوبصورت غزل ہے، شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے!

مطلعے کے قوافی اور مابعد قوافی پر شاید کہیں سے اعتراض وارد ہوا ہو کہ بہت سے اساتذہ اسے روا نہیں سمجھتے (بشمول استادِ محفل جناب الف عین صاحب) لیکن کچھ جائز بھی قرار دیتے ہیں! مطلعے سے معلوم پڑتا ہے کہ قافیہ 'آلی' ہے یعنی گلی اور چلی سو اس کے قافیے کلی، پلی، ڈھلی ہونے چاہیں یعنی اگر مطلع میں 'ل' کی قید ہے تو باقی اشعار میں بھی لازم ہے، ناصر نے اس اصول کو یہاں 'فالو' نہیں کیا یقیناً انکی اپنی 'لاجک' ہوگی!

خیر، ایک بار پھر شکریہ شیئر کرنے کیلیے!

شکریہ وارث صاحب۔ تکنیکی باتیں تو آپ ہی جانیں۔ مجھے تو غزل نے مار دیا۔ :)
 
Top