امن وسیم

محفلین
السلام علیکم !

اس لڑی میں روزانہ کی بنیاد پر سوال و جواب پوسٹ کیے جائیں گے۔ سوال عام مسلمانوں کی طرف سے ہیں جن کا مقصد اسلامی عقائد اور تعلیمات کو سمجھنا ہے۔ اور ان سوالوں کے جواب علما کرام کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ فی الحال دو علما کے سوال و جواب میسر ہیں جناب طالب محسن اور جناب مفتی محمد رفیع۔ اگر مزید علما کے سوال و جواب میسر آ گئے تو ان کی بھی شراکت کروں گا۔ انشاءاللہ

معذرت کے ساتھ : اس لڑی میں آپ کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب نہیں دیے جائیں گے۔ ( سوائے ذاتی مکالمے کے )
بہتر ہو گا کہ تبصرے سے بھی گریز کیا جائے۔
( سوائے ضروری وضاحت کے )

والسلام
 

امن وسیم

محفلین
اللہ تعالیٰ کا درود

سوال: قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمت بھیجتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خالق ہیں اور بے نیاز ہیں۔ ایک نبی پر، یعنی اپنی ہی ایک مخلوق پررحمت بھیجنے سے کیا مراد ہے؟ (محمد عارف جان)

جواب: عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔’ صلی‘ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک، اللہ تعالیٰ خالق اور بے نیاز ہیں، لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماویٰ بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورۂ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں: ’ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ‘ وہ اللہ یکتا ہے، یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ’اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘ اللہ سب کا سہارا ہے، یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

____________
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
❓ خدا کے اٹل قوانین

سوال : اللہ کے قوانین اٹل ہیں جیسے آگ ہر انسان کو جلاتی ہے خواہ وہ غلطی سے آگ میں ہاتھ ڈالے یا جان بوجھ کر ۔ اسی طرح شرک ایک ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ یہ خدا کا قانون ہے ۔ لہٰذا شرک خواہ کوئی سوچ سمجھ کر کرے یا غلط فہمی کی بنیاد پر اسے سزا ملنی چاہیے ۔ یعنی خدا کا قانون اٹل ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی نجات کی امید رکھنا ، کیا اس قانون کے خلاف نہیں ؟

جواب : جس طرح آگ کے لیے جلانے کا قانون ہے، اُس سے زیادہ بڑی حقیقت کے طور پر مشرک کے جہنم میں پڑنے کا قانون ہے۔ کوئی آدمی جب فی الواقع مشرک قرار پا جائے گا، تو اب اُس کا جہنم کی آگ میں جلنا لازمی ہے، لیکن جس طرح دنیا میں ہم یہ بات کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی فی الواقع آگ میں ہاتھ ڈالے گا تو اُس کا ہاتھ جلے گا، اِسی طرح اگر کوئی آدمی فی الواقع شرک کرے گا اور پھر مشرک ہی کی حیثیت سے مرے گا، تو وہ لازماً جہنم میں ڈالا جائے گا۔ لیکن وہ آدمی جو ہمیں کسی شرکیہ عمل میں پڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، اُس کا معاملہ کیا ہے ، کیا اُسے ہم ایک حقیقی مشرک اور جہنمی آدمی سمجھیں اور اُسے ہم اُسی نگاہ سے دیکھیں، جس نگاہ سے اہلِ جنت اہلِ جہنم کو دیکھیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اِس یقین سے معاملہ کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ ہم کسی دوسرے کے بارے میں خدا کے حتمی فیصلے کو نہیں جانتے اور جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، وہ سب کچھ ظاہری طور پر دیکھا ہے۔ چنانچہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ فلاں آدمی مشرکانہ عمل کر رہا ہے، کیونکہ یہ تو اُس کا ظاہر ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آدمی دل سے پکا مشرک ہے، کیونکہ یہ اُس کا باطن ہے۔
بہرحال، اگر وہ خدا کے ہاں مشرک ہی شمار کیا گیا تو آپ تسلی رکھیں کہ پھر یہ بات آگ کے لیے جلانے کے قانون سے بھی زیادہ یقینی ہے کہ وہ مشرک آگ میں جھونکا جائے گا۔
جو مثال آپ نے دی ہے اس میں اور شرک کرنے میں فرق ہے ۔ جب کوئی آدمی آگ میں ہاتھ ڈالتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے تو اب یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اس نے ہاتھ ڈالا بھی ہے یا نہیں جبکہ شرک چونکہ اصلاً دل کا عمل ہے اور وہ ہمیں کسی حسی چیز کی طرح دکھائی نہیں دیتا لہٰذا اس کے بارے میں حسی چیز کی طرح حکم بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔
_______
 

امن وسیم

محفلین
ایک سے زائد شادیاں

سوال:

صحابۂ کرام نے جس بے تکلفی سے شادیاں کی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا عورت کا مقصد تخلیق صرف مرد کو آسودہ کرنا ہی ہے؟

جواب:

اس معاملے میں ایک بات اصول کے لحاظ سے سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صحیح گھر اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک مرد و عورت کے فیصلے سے بنتا ہے۔ اور یہ بات اس طرح بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے لیے جب جوڑا بنایا تو ایک ہی عورت بنائی، ایک سے زیادہ نہیں بنائیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی دے دی کہ انسانی فطرت اگر صحیح گھر بنانا چاہتی ہے تو اس کے لیے یہی طریقہ ہوگا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانی تمدن کی ضروریات کا مسئلہ ہے۔ یعنی انسان جس طرح اب زندگی بسر کر رہا ہے، ہمیشہ سے ایسے زندگی بسر نہیں کرتا رہا۔ ہم اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر بعض اوقات ماضی کی صورت حال کا صحیح تصور نہیں کر پاتے۔ شہری زندگی میں ہم کو جو سہولتیں میسر ہوگئی ہیں، تمدن میں جو تبدیلیاں آگئی ہیں، جس طرح منظم حکومتیں وجود میں آگئی ہیں، یہ چیز پہلے نہیں تھی۔

انسان نے ایک بڑا زمانہ قبائلی تمدن میں گزارا ہے۔ اور عرب میں قبائلی تمدن ہی تھا، وہاں پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نہیں تھی۔ بعض قبیلوں کو ایک نوعیت کا پدر سرانہ اختیار تھا اور قبیلوں کے شیوخ مل کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تھی، اس کا کوئی سربراہ تھا، اس کی کوئی پولیس یا فوج تھی۔ لوگوں کو اپنے تحفظ کے لیے قبائلی زندگی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کے زیادہ سے زیادہ اولاد ہو۔ جس آدمی کے پندرہ بیس بیٹے نہیں ہوتے تھے، اس کے لیے اس معاشرے میں جینا آسان نہیں ہوتا تھا۔ آدمی بالکل سقیم ہو کر رہ جاتا تھا۔ مختلف موقعوں کے اوپر اپنی، اپنے ناموس کی اور اپنے جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو امن کا زمانہ آیا ہے، اس سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں تو یہ ہوتا تھا کہ وہ جو حالی نے کہا ہے کہ ''کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا''، اُس میں آدمی اپنی حفاظت کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ معمولی سی بات پر کئی سالوں پر محیط جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ کوئی پولیس اور کوئی تھانہ نہیں کہ جہاں سے مدد حاصل کی جا سکتی۔ اپنی حفاظت کا خود بندو بست کرنا ہوتا تھا۔ سکیورٹی ایجنسیز نہیں تھیں کہ گارڈ لا کے کھڑے کر دیئے جاتے، آدمی کے بیٹے اور اعزہ و اقربا ہی اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ چیز اصل میں عرب میں بے پناہ شادیوں کا باعث بنی۔ اور پھر جب ایک چیز روایت اور رسم بن جائے تو پھر ضرورت کے بغیر بھی عام طور پر یہ بات ہوتی رہی۔ ہر چیز کو اس کے تمدن کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔

ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ اُن معاملات کو نہیں چھیڑتا جو تمدنی ضروریات سے پیدا ہوتے ہیں، اگر تو ان میں کوئی بڑا مسئلہ ہے تو اس کو چھیڑنا چاہیے، ورنہ وقت کے ساتھ آپ جب عوامل تبدیل کرتے ہیں تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ حال کو ماضی میں داخل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آدمی کی بڑی غیر معمولی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، مثال کے طور پر اولاد ایک بہت بڑی ضرورت ہے، تب بھی ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا کوئی بے اولاد آدمی دوسری شادی کر کے دیکھے، اس کی پگڑی پونجی غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روایات ہی یہ بن چکی ہوئی ہیں۔ یعنی عورت کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ اس کو گوارا ہی نہیں کرتی۔ لیکن عرب کے معاشرے میں یہ چیز نہیں تھی۔ عرب عورتیں تو اس بات پر بڑا فخر کرتی تھیں۔ عرب عورتوں کی شاعری پڑھیں تو آپ کو اس کا اندازہ ہوگا۔ وہ تو کہتیں ہیں کہ تمھارا مرد کیا ہے جس نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہے، مجھے دیکھو نو سوکنوں کے ساتھ رہتی ہوں، مرد ہو تو ایسا ہو۔ ہمارے ہاں کی خواتین اس طرح کے جذبات نہیں رکھتیں۔ اس وجہ سے ہر تمدن اور تہذیبی روایت کو اس کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔

اُس موقع کے اوپر اگر اسلام آکر کوئی ایسی اصلاح کر دیتا کہ جس کے نتیجے میں سارا تمدن ہی درہم برہم ہو جاتا تو یہ اصلاح کرنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال دیکھیے اور یہ مثال بڑی عبرت ناک ہے اور تورات میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے اور اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کو توفیق دی اور انھوں نے بالکل ویسا ہی خلافت کا نظام قائم کیا جس طرح کے حضور کے بعد قائم ہوا، کسی ملوکیت یا بادشاہت کی بنیاد پر نہیں۔ یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے پیوند لگے کپڑے پہننے والے حضرت موسیٰ کے خلیفہ تھے۔

لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں تو بادشاہ چاہیے۔ اس وقت چونکہ نبوت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی کی وساطت سے بات چیت ہو جاتی تھی۔ تو تورات میں اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ احمقو! دیکھو میں نے تمھیں ایک بادشاہ کی غلامی سے نکالا اور تم پھر اسی طرح کی غلامی اپنے لیے مانگ رہے ہو۔ اگر تم نے بادشاہ بنا لیا تو وہ تمہیں ذلیل کرے گا اور تمہاری بہو بیٹوں کی عزت پامال کرے گا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو؟ لیکن وہ اس بات پر بضد رہے کہ ہمیں تو بس بادشاہت چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصلاح کرنی تھی وہ تو کر دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح تنبیہ کی اور پھر یہودیوں کی بات مان لی۔ آخر میں یہ کہا کہ ٹھیک ہے میں پھر طالوت کو بادشاہ بنا رہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سموئیل نبی نے طالوت کے سر کا مسح کیا اور ان کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس طرح ان کے ہاں بادشاہت قائم ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے بادشاہوں میں سے دو بادشاہوں، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت دی۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ یعنی خلفائے راشدین نے ایسی حکومت قائم کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اخلاقی لحاظ سے وہ گویا اعلیٰ تصورات کے مجسم ہوگئے۔ لیکن اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا اور ملوکیت قائم ہوگئی۔ کیونکہ دنیا کا ضمیر ابھی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا تھا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا ضمیر اس کو اتنا قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ انسانی تمدن میں یہ جو تبدیلیاں آتی ہیں، ان کے بغیر اس معاملے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عربوں کی شادیوں کو آپ ان کے تمدن میں رکھ کر سمجھئے۔
________________
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
قرآن کی نقل

سوال: سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۳ میں قرآن جیسی ایک سورہ بنا لانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ کیا نعوذ باللہ، اللہ مجھے معاف کرے (آمین) کسی کے لیے ممکن نہیں کہ قرآن مجید کی کوئی نقل تیار کر سکے؟ (عائشہ خان)

جواب: ہم پندرہویں صدی ہجری میں جی رہے ہیں۔ قرآن کے اس چیلنج کو پندرہ صدیاں بیتنے کو ہیں، لیکن کسی بھی زمانے میں قرآن کے اس چیلنج کو قبول کرکے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جا سکی جو کسی بھی پہلو سے قابل لحاظ ہو۔اس عرصے میں کئی لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور ان میں سے بعض پر اترنے والی جھوٹی وحی کے نمونے بھی موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اورقرآن کی عبارت کا اتنا فرق ہے کہ ٹاٹ اور ریشم کے تقابل کی مثال بھی بات کو ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ عربی کے بڑے بڑے ادیب پیدا ہوئے ہیں، ان کی تحریریں اپنی سطح پر ادب وانشا کا اعلیٰ نمونہ ہیں، لیکن ان کی تحریر کے درمیان میں جب قرآن مجید کا کوئی اقتباس آجاتا ہے تو اس میں اور ادیب کی تحریر میں غیر معمولی فرق بلاتامل محسوس ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن تحریر کا ایک ایسا نمونہ ہے جس کی نہ عربی میں اس سے پہلے کوئی مثال تھی اور نہ بعد میں پیدا ہو سکی۔ قرآن کے اعلیٰ اسلوب نے بڑے بڑے لکھنے والوں کو متاثر کیا، لیکن کسی کے بس میں نہیں ہو سکا کہ اس کی گرد کو بھی پاسکے۔

____________
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
قرآن اور سائنس

سوال: بہت سے علما قرآن مجید کی آیات کی سائنسی تفسیر کرتے ہیں۔ آپ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ یہ دین کی رہنمائی کی کتاب ہے اور اس کی طرف رجوع اسی غرض سے کرنا چاہیے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ آیات جن میں وہ چیزیں بیان ہوئی ہیں جو سائنسی موضوعات سے متعلق ہیں، ان کی تفسیر سائنسی طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے؟ (راشد محمود)

جواب: اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید پیغمبرانہ انذار کی کتاب ہے اور اس کا اصل موضوع خدا کی اسکیم سے آگاہی اور اس کی بندگی کے اصول و ضوابط کی تلقین ہے۔ اس میں اس کائنات اور انسان کے وجود میں خدا کی تخلیق کے بعض پہلوؤں کا ذکر ضرور ہے، لیکن اس کا ہدف بھی اصل میں بندوں کو ان کے پروردگار کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا ادراک پیدا کرنا ہے۔ کوئی سائنسی اکتشافات قرآن کا موضوع نہیں ہیں۔

سائنسی اکتشافات کے حوالے سے دو رویے پیدا ہوئے ہیں: ایک رویہ یہ ہے کہ سائنس دان جو کچھ بھی دریافت کریں، اس کا کوئی نہ کوئی سراغ قرآن مجید سے نکال لیا جائے۔ اس کے لیے بعض لوگ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے من مانی تاویل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، یہ رویہ صریح طور پر غلط ہے، اس لیے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کل سائنس کا کوئی قانون یا نظریہ کسی نئی دریافت کے نتیجے میں تبدیل ہو کر رہ جائے اور ہم نے جس بات کو اپنی نادانی سے خدا کی بات بنا دیا تھا، وہ غلط ثابت ہو جائے۔دوسرا رویہ وہ ہے جسے آپ نے بھی بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں زمین وآسمان اور انسان کی تخلیق یا ساخت کے بارے میں کچھ بیانات ہیں ۔ یہ بیانات انھی الفاظ اور تعبیرات میں ہیں جن میں نزول قرآن کے زمانے کا عرب انھیں سمجھ سکتا تھا اور اس کا کچھ نہ کچھ شعور بھی رکھتا تھا۔ یہ درست ہے کہ یہ بیانات کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور نئی سائنسی دریافتیں اگر ان کی تائید کرتی ہیں تو اس سے ان کے خدا کا کلام ہونے کا پہلو مزید نمایاں ہوتا ہے، لیکن یہاں بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ میں وہ معنی داخل کر دیں جو ان کا حصہ نہیں تھے اور کل کی کوئی نئی دریافت ہمیں اپنی بات واپس لینے پر مجبور کر دے۔
اصل یہ ہے کہ سائنس کی دریافتیں قرآن کی تائید کریں یا نہ کریں، قرآن اپنی جگہ پر اٹل ہے۔ ہمیں اس کی حقانیت انھی دلائل سے ثابت کرنی چاہیے جو ہمیشہ کار آمد ہیں اور جن پر بوسیدگی طاری نہیں ہوتی۔ ہاں، محتاط طریقے سے اگر سائنسی دریافتوں کو قرآن کے مقدمات کے حق میں استعمال کیا جائے تو اس کے مفید ہونے میں شبہ نہیں۔

____________
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
انکارِ رسول پر عذاب

سوال : آپ کہتے ہیں کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب میں قیامتِ صغریٰ بپا کرکے دکھا دی گئی ۔ حالانکہ سابقہ ادوار میں رسولوں کی دعوت کے نتیجے میں کافروں پر عذاب نازل ہوتے رہے ،کیا وہ بھی اسی قسم کی قیامتیں تھیں اور بار بار واقع ہوئیں ؟ کیا آیندہ بھی واقع ہوں گی ، نہیں تو کیوں ؟

*جواب*
رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں جتنے عذاب بھی آئے ہیں، اُن کی نوعیت ہمارے خیال میں یہی ہے کہ وہ قیامتِ کبریٰ کا انکار کرنے والوں پر اس سے پہلے آنے والی قیامتِ صغریٰ ہوتی ہے جو آیندہ قوموں کے لیے ایک آیت بنتی ہے۔ اب چونکہ قرآنِ مجید کی شکل میں، اُس دینونت کی سرگزشت ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئی ہے، خدا کی طرف سے دین اپنی مکمل شکل میں محفوظ ہو گیا ہے اور اب کسی نئی نبوت یا رسالت کی ضرورت نہیں رہی، لہٰذانبوت و رسالت کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے، اب نہ کسی رسول نے آنا ہے اور نہ براہِ راست مخاطبین کی طرف سے کسی رسول کی تکذیب کا امکان ہے۔ نتیجۃً رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا بھی اب کوئی امکان نہیں ہے
_______
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
انسان کا اپنی مرضی سے پیدا ہونا

*سوال* : اللہ نے انسان کو خود ہی پیدا فرمایا۔ وہ خود اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا ۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی کے امتحان کے بدلے (اگر وہ فیل ہو گیا) تو آیندہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا کیا انصاف کے خلاف نہیں ہے ؟ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اگر اتنی لا محدود سزا دینا تھی تو اس سے بہتر تھا کہ پیدا ہی نہ کیا ہوتا ۔ میں نے کب پیدا ہونے کا مطالبہ کیا تھا ؟

*جواب* ۔ (محمد رفیع مفتی):

جرم کی سزا دراصل، اُس کی شناعت اور اُس کی سنگینی کی بنا پر ہوا کرتی ہے، نہ کہ مدتِ جرم کی بنا پر۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مدتِ جرم بھی جرم کی سنگینی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، لیکن جرم کی سنگینی کی واحد وجہ اُس کی مدت نہیں ہوتی ۔ بعض جرم چند لمحوں کے ہوتے ہیں ،لیکن وہ اپنے بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کسی کو قتل کرنے کا جرم۔ چنانچہ اصل مسئلہ جرم کی شناعت کا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شفیق اور مہربان والدین کو قتل کر دیتا ہے، تو آپ بتائیے کہ اُس کے جرم کی سنگینی کس درجے کی ہے۔

ایک دوسرے پہلو پر غور کریں۔ نیکی کے بدلے میں نیکی کی جائے تو یہ خوبی ہے، لیکن اگر وفاکے بدلے میں بے وفائی کی جائے، ایثار کے بدلے میں لُوٹ لیا جائے،خدمت کرنے کے بدلے میں بے گار لی جائے، محبت کرنے کے بدلے میں دشمنی کی جائے تو یہ سراسر ظلم ہو گا ، بہت بڑا ظلم۔

خدا انسان کا خالق بھی ہے اور رب بھی، اُس کا منعم بھی ہے اور محسن بھی۔ انسان محض اور محض خدا کے ترس پر کھڑا ہے، انسان کے ساتھ خدا کا رویہ انتہائی احسان کرنے والے کا ہے۔ اُس کے ساتھ انسان کا معاملہ برابر کانہیں ہے۔ انسان خدا کے بل بوتے پر قائم ہے اور ہر لحاظ سے اس کا محتاج ہے ۔ چنانچہ پھر انسان کی طرف سے اُس کے اتنے اچھے اور اُس کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھنے والے خدا کے ساتھ، ایک لمحے کی سرکشی بھی اپنے اندر لا محدود سنگینی رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ یہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سر کشی ہے۔ یہ بندے کی اپنے رب کے ساتھ سر کشی ہے، یہ عبد کی اپنے معبود کے ساتھ سرکشی ہے۔ یہ انسان کی رحمن کے ساتھ سر کشی ہے۔ اِس جرم کی شناعت ماپی ہی نہیں جا سکتی۔ اور پھر مزید یہ کہ انسان جب فی الواقع مجرم بن کر جرم کرتا ہے تو اُس کی اپنی جانب سے جرم زماں و مکاں کی حدوں میں محدود نہیں ہوا کرتا۔ فرعون نے اپنے ارادے اور اپنی نیت کے اعتبار سے کسی محدود وقت تک کے لیے فرعونیت اختیار نہیں کی تھی اور اپنی طرف سے اُس نے اپنی فرعونیت کا دائرہ صرف ملکِ مصر تک محدود نہیں کیا تھا ۔ اُسے خدا نے جتنا موقع دیا تھا، اُس میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا اور جتنا علاقہ دیا، اُس سب میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا تھا۔ خدا اگر اُس کے لیے مواقع اور علاقے کو لامحدود کر دیتا تو کیا خیال ہے کہ ہم اُسے آج ایک مہربان بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے، نہیں بالکل نہیں۔

دین ہمیں بتاتا ہے کہ جہنم میں صرف اور صرف سرکش لوگ ہی ڈالے جائیں گئے اور یہ بات واضح رہے کہ خدا سے سرکشی اپنی اصل ہی میں زماں و مکاں سے بالا ایک لا محدود جرم ہوتا ہے۔

اب میں آپ کے سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں کہ خود انسان نے تو خدا سے اِس آزمایش میں ڈالے جانے کی التجا نہیں کی تھی۔پھر اُسے اتنی بڑی آزمایش میں کیوں ڈالا گیا۔

اِس حوالے سے آپ سورۂ احزاب کی آیات ۷۲، ۷۳ دیکھیں۔ اُن میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اختیار و ارادہ کے ہوتے ہوئے اپنی اطاعت کے عہد کو ایک امانت کی حیثیت سے آسمانوں اور زمین پر پیش کیا ، لیکن وہ اِسے اٹھانے سے ڈر گئے۔یہ ڈر اِس بات کا تھا کہ کہیں ہم اِس امانت کی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نہ ہو جائیں۔اِن آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین نے تو اِس امانت کو نہ اٹھایا ،لیکن انسان نے اِس امانت کو اٹھا لیا۔چنانچہ یہ کہنا درست نہیں کہ ہم اِس آزمایش میں اپنے مرضی کے بغیر ڈالے گئے ہیں۔آج گو ہم کو اس امانت کا اٹھانے کا شعور نہیں لیکن ہر آدمی اچھی طرح یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس امانت کو قبول کرنا اس کی فطرت کا اقتضا ہے
__________________
 

امن وسیم

محفلین
سنت کو جاننے کا معیار

*سوال* : آج ہمارے پاس کون سا ایسا معیار ہے جس پر پرکھ کر ہم یہ معلوم کر سکیں کہ کون سا عمل سنتِ جاریہ ہے اور کون سا نہیں ہے۔ کیونکہ امت کے اندر بہت سے اعمال ایسے رائج ہیں جن کو سنت کے خلاف کہا جاتا ہے ۔ عام آدمی کس طرح پہچان سکتا ہے جب کہ وہ رہنمائی بھی اپنے ملک کے علما سے حاصل کرے گا جو کسی نہ کسی طرح ایک غیرمسنون عمل کو مسنون ثابت کر دیں گے ۔

*جواب* ۔(محمد رفیع مفتی ):

سننِ جاریہ وہ سنن ہیں جن کے سنن ہونے پر اِس امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا اِن سنن پر عمل تو ہر خاص و عام آدمی کرتا رہتا ہے، لیکن عام آدمی مجموعی دینی اعمال میں سے سننِ جاریہ کو الگ نہیں کر سکتا۔ یہ اُسے علما ہی سے دریافت کرنا ہو گا۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنے مسلک کے علما سے سننِ جاریہ کے بارے سوال کرے گا ، تو وہ اُسے اپنے نقطہ ء نظر ہی کے مطابق جواب دیں گے، ظاہر ہے اُنہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اِس صورت میں آپ کا اشکال غالباً یہ ہے کہ ہو سکتا ہے وہ علما ایک ایسی چیز کو سنت قرار دے دیں، جو سننِ جاریہ کا نقطہء نظر پیش کرنے والوں کے نزدیک سنت نہ ہو۔ اِس معاملہ میں مَیں تو یہی کہوں گا کہ پوچھنے والے کو چاہیے کہ وہ خود جس نقطہء نظر کا قائل ہے، اُسی نقطہ ء نظر کے علما سے معلومات حاصل کرے۔
___________________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن اور نماز کے اوقات

سوال: کیا یہ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں تو ایک بات بیان کریں، مگر احادیث، روایات اور تواتر سے دوسری بات، مثلاً قرآن میں تو دو نمازوں کے فرض کابیان ہو (سورۂ بنی اسر ائیل میں صبح ، دلوک شمس اور تہجدکا بیان ہے اور ساتھ یہ بتایا ہے کہ تہجد نفل ہے، یعنی دونمازوں کا حکم ہے۔اسی طرح سورۂ ہود میں طرفی النہار اور سورۂ طٰہٰ میں اناے لیل کا ذکر ہے)، مگر حضور نے پانچ نمازیں رائج کیں۔ (پرویز قادر)

جواب: اس سوال میں غلطی یہ ہے کہ اس میں صرف قرآن کو دین کا ماخذ قرار دے کر نماز کے اوقات اور اس کی تعداد کو قرآن سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نماز سرتاسر سنت سے ماخوذ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر بطور یاد دہانی ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نماز کے طریقے اور اوقات کے بارے میں وضو کی طرح کا کوئی جامع بیان موجود نہیں ہے ۔ وضو کی مثال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کی تیاری کے طریقے میں تو تصریح کی ضرورت تھی، لیکن نماز کا طریقہ اور اوقات اس طرح واضح تھے کہ قرآن مجید میں اس کی تصریح کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ باقی رہا دلوک شمس تو اس کا اطلاق ظہر، عصر اور مغرب ،تینوں اوقات کے لیے ممکن ہے۔

’’’دُلُوْک‘ کے معنی زوال کے ہیں۔ سورج کے زوال کے تین درجے ہیں۔ ایک وہ جب وہ سمت راس سے ڈھلتا ہے، دوسرا جب وہ مرأی العین سے نیچے کی طرف جھکتا ہے، تیسرا جب وہ افق سے غائب ہوتا ہے۔ یہ تینوں اوقات ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۵۲۹۔۵۳۰)


’دلوک‘ کے بعد ’غسق‘ کا لفظ آیا ہے۔

’’’غَسَقُ اللَّیْلِ‘ اول شب کی تاریکی جب کہ وہ گاڑھی ہوجائے۔ یہ نماز عشا کا وقت ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۵۳۰)

اس کے بعد اس آیت میں ’قُرْاٰنَ الْفَجْرِ‘ کے الفاظ آئے ہیں : اس سے نماز فجر میں قرآن کی تلاوت مراد ہے۔

یہ نمازپڑھنے کا حکم ضرور ہے، لیکن اس میں اوقات کا ذکر تعین کے لیے نہیں ہے ،بلکہ نمازوں کے اوقات کے صبح و شام کے اوقات میں پھیلے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان الفاظ سے نہ نمازوں کی تعداد معین ہو سکتی ہے اور نہ اوقات ہی معین صورت میں سامنے آتے ہیں۔ البتہ جو نماز سنت سے معلوم و معروف ہے، اس کے حوالے سے ان الفاظ کو دیکھیں تو یہ اس کا ایک اجمالی بیان ضرور ہیں۔

یہی معاملہ سورۂ ہود(۱۱: ۱۱۴) کے ’طَرَفَیِ النَّہَارِ‘ اور سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۳۰) کے ’اٰنَآیئ الَّیْلِ‘ کے الفاظ کا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
شہید کی زندگی

سوال: کیا شہید زندہ ہے؟ (محمد عقیل)

جواب: شہدا کے زندہ ہونے کا تصور براہ راست قرآن مجید کی نصوص پر مبنی ہے۔
سورۂ بقرہ میں ہے:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ.(۲: ۱۵۴)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘

اسی طرح سورۂ آل عمران میں ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ.(۳: ۱۶۹)
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، ان کو مردہ ہرگز گمان نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انھیں روزی مل رہی ہے۔‘‘

سورۂ بقرہ کی آیت میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ اس زندگی کا شعور ہمیں نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ یہ زندگی ہماری اس موجودہ زندگی سے مختلف ہے۔ ہم اپنی موجودہ زندگی پر قیاس کرکے اس زندگی کے احوال سمجھ نہیں سکتے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
محتاجی سے بچنے کی دعا

سوال: میں نے کہیں پڑھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے یہ نظام اس طرح قائم کیا ہے کہ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کے محتاج اور محتاج الیہ کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں ‘‘۔ میں ہی نہیں سب لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم غلط دعا کرتے ہیں۔ (برکت علی)

جواب: آپ کی دعا بالکل درست ہے۔ ہماری بھی دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی کا محتاج نہ کرے (آمین)۔ محولہ عبارت میں جو محتاجی بیان ہوئی ہے، اس میں اور ہماری دعا کی محتاجی میں فرق ہے۔ ہم تو صحت اور اپنی کمائی کے جاری رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ صحت اس لیے کہ ہم موت تک اپنے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہوئے رخصت ہوں۔ کسی بہو، بیٹے یا بیٹی کی ذمہ داری نہ بن جائیں۔ اپنی کمائی اس لیے کہ ہمیں اولاد ہی کیوں نہ ہو، اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ محولہ عبارت میں محتاجی سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے دونوں طرح کے لوگوں کی ضرورت ہے، ایک وہ جو سرمایہ فراہم کریں اور انتظام کریں اور دوسرے وہ جو ان کے لیے کام کریں۔ اس طرح لوگ مختلف خدمات انجام دیتے ہیں اور معیشت کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔ غرض یہ کہ اس عبارت میں اس نوعیت کی خدمات کے لیے محتاج اور محتاج الیہ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
حدیث ، قرآن اور فتوے بازی

*سوال*

آجکل دینی حوالے سے کسی سے بات کریں تو وہ آگے سے حدیث پیش کرتے ہیں۔ جب یہ توجہ دلائی جائے کہ یہ حدیث تو قرآن مجید سے متضاد ہے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور کفر کا فتوی لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

*جواب*

یہ ہمارے ہاں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہم اس بات کے عادی ہی نہیں رہے کہ دوسروں کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔ اختلاف کو سلیقے سے حل کر نا ہمارا شیوہ نہیں۔ مذہب کی جزیات اور علما آئمہ کی آرا کو بھی ہم نے عین دین بنا لیا ہے۔ ہم سمجھنے سمجھانے، ڈائیلاگ کرنے ، بات سننے سنانے کے بجائے اس میں سے فتوی بر آمد کرتے ہیں ۔ اور فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ تربیت کا فقدان ہے ۔ اس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسلام اور دین نے ہمیں جو تربیت دی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے مختلف بات کرے ، اختلاف کرے یا آپ کی کسی بات پہ تنقید کرے ۔ تو سب سے بڑھ کر اس کی بات سنئے۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی غلطی پر ہوں اور وہ آپ کا محسن ہو اور وہ آپ کو اس غلطی سے نکالنا چاہتا ہو۔
_________________
 

امن وسیم

محفلین
نبیۖ کا موئے مبارک

*سوال* :

نبیۖ سے منسوب موئے مبارک کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟

*جواب* :

نبیۖ سے منسوب اشیا کے بارے میں امت کے دل میں تعظیم اور محبت کے جذبات کا ہونا بالکل ایک فطری امر ہے۔ لیکن خواہ مخواہ کسی چیز کو نبیۖ سے منسوب کر دینا ایسا ہی ہے ، جیسے اس چیز کا خواہ مخواہ انکار کر دینا ، جو آپ سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ منسوب ہو ۔ یہ دونوں رویے سنگین جرم ہیں۔ لہذا ، ان میں شدید احتیاط کرنی چاہیے۔ تاریخی طور پر سوائے ایک موئے مبارک کے جو استنبول میں موجود ہے ، کوئی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ موئے مبارک کے بارے میں وہ ساری کہانی جو آپ نے بیان کی ہے کہ یہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی شاخیں بھی نمودار ہوتی ہیں اور باقاعدہ خواب کے ذریعے سے امت کے اندر اسے پھیلایا جا رہا ہے، ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، یہ سب کچھ ایک من گھڑت افسانہ ہے ۔ مذہب کو بگاڑنے کے لیے شیاطین نے ہمیشہ اس طرح کے افسانے گھڑے ہیں۔ صحیح مذہب انسان کے اندر انتہائی علمی رویہ پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہر چیز کی دلیل اور اس کا ثبوت دیکھا جاتا ہے۔ مذہب چاہتا ہے کہ ہم ہر شئے کو دلیل اور اس کے ثبوت کے ساتھ مانیں ۔ اگر ہم مذہب کی اس ہدایت سے گریز کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، تو پھر شیطان جس چیز کو چاہے گا، ہمارے سامنے دین بنا کر پیش کر دے گا۔
_________________
 

امن وسیم

محفلین
مجبوراً رشوت لینا

*سوال*

کیا کوئی غریب ملازم اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے رشوت لے سکتا ہے؟ اسلام کی رہنمائی کے مطابق اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیجیے۔

*جواب*

رشوت کی اجازت دینا قانون کو بیچنے کی اجازت دینا ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ ہاں، اگر کسی مجبور شخص سے ایسی غلطی ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عذر کو قبول کر کے اسے معاف فرما دیں۔

اس رشوت لینے کو کسی جاں بلب بھوکے شخص کو حرام غذا کھانے کی اجازت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حرام جانور نہ کھانا خدا کا حق ہے جسے وہ (اللہ) بھوکے شخص کے لیے چھوڑ دیتا ہے،

جبکہ رشوت لینا لوگوں کے یا قوم کے حقوق بیچنا ہے۔ اس کی اجازت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ لوگ یا قوم اجازت نہ دے۔

انسان کو چاہیے کہ وہ آمدنی بڑھانے کے دوسرے ذرائع اختیار کرنے کی کوشش کرے اور خدا سے برکت کی دعا کرے۔
 

امن وسیم

محفلین
شلوار ٹخنوں سے اوپر

*سوال*

کیا نماز سے پہلے ٹخنوں سے اوپر شلوار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

*جواب*

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ لوگ اپنا ازار، یعنی تہ بند متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے لٹکائے زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں تو آپ نے اپنے صحابہ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنا تہ بند ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں اور یہ بتایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہ بند زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں اور اس کا جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو گا، وہ آگ میں ہو گا۔
چنانچہ صحابۂ کرام نے نہ صرف لباس کی اس متکبرانہ صورت کو بالکل ترک کیا، بلکہ تکبر کے ذہن کے بغیر بھی اس صورت کو اختیار کرنے سے مکمل گریز کیا، کیونکہ یہ بہرحال اظہار تکبر ہی کی ایک صورت ہے۔

آج بھی اگر کوئی شخص اپنا تہ بند متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے لٹکائے زمین پر گھسیٹتا ہوا چلتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی وعید کا مخاطب ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آج کل شلوار کا ٹخنوں سے ذرا نیچے رکھا جانا کیا متکبرانہ لباس کی شکل ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تہ بند کو نیچے لٹکانا اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلنا لباس کی واقعۃً متکبرانہ صورت اور علامت ہے، جبکہ شلوار کی عام رائج صورت کا معاملہ بالکل یہ نہیں۔

چنانچہ ہمارے خیال میں تہ بند لٹکا کر گھسیٹتے ہوئے چلنے سے متعلق حکم شلوار وغیرہ کی عام رائج صورت پر لا گو نہیں ہوتا۔
 

امن وسیم

محفلین
جمع قرآن کے متعلق آیات

سوال:

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ وَلاَ تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۴)

’’پس اللہ بادشاہ حقیقی بہت برتر ہے۔تم قرآن کے لیے اپنی طرف اس کی وحی پوری کیے جانے سے پہلے جلدی نہ کرو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب، میرے علم میں افزونی فرما۔‘‘


اس جامع آیت کے حوالے سے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ علوم میں کوئی آدمی کامل نہیں ہوتا۔ یہی راے رکھتے ہوئے میں کسی سے سوال کرتا ہوں۔ میں آپ سے جمع قرآن کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔

کیا قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت ہے جو یہ بات بیان کرتی ہو کہ جس ترتیب سے موجودہ قرآن مجید ہے، اسی ترتیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مدون ہوا تھا۔
مزید براں آپ ان روایات پر بھی اپنی قیمتی راے سے مستفیض فرمائیں جو قرآن مجید کے دو طرح سے مرتب ہونے کو بیان کرتی ہیں:ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ کمیٹی کی ترتیب جس پر اب یہ قرآن مروج ہے۔ دوسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ترتیب جس میں انھوں نے زمانۂ نزول کے حوالے سے تاریخی ترتیب سے قرآن مرتب کیا تھا۔
اب جب میں قرآن مجید سے استفادہ کرتا ہوں تو مجھے نزولی ترتیب کی معلومات بہت مفید لگتی ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی حکم کے فلاں موقع پر نازل ہونے کی حکمت کیا تھی اور اس میں تدریج کے کیا پہلو پیش نظر تھے؟
(عاطف ارشد)

جواب: ہمارے نزدیک قرآن مجید جس ترتیب میں ہمارے ہاں موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اسے مرتب کر کے گئے تھے۔ یہ ترتیب اس انداز سے کی گئی ہے کہ اب اسے سمجھنے اور اس کی حکمتوں تک پہنچنے کے لیے کسی خارجی ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سَنُقْرِءُکَ فَلَا تَنْسآی، اِلَّا مَاشَآءَ اللّٰہُ، اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفٰی.(الاعلیٰ۸۷: ۶۔۷)

’’عنقریب (اِسے) ہم (پورا) تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے، مگر وہی جو اللہ چاہے گا۔ وہ بے شک، جانتا ہے اُس کو بھی جو اِس وقت (تمھارے) سامنے ہے اور اُسے بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے۔‘‘

لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ. (القیامہ۷۵: ۱۶۔۱۹)

’’اِس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے، (اے پیغمبر)، اپنی زبان کو اِس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اِس کو جمع کرنا اور سنانا، یہ سب ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اِس لیے جب ہم اِس کو پڑھ چکیں تو (ہماری) اُس قراء ت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اِس کی وضاحت کر دیں۔‘‘

اِن آیتوں میں قرآن کے نزول اور اُس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو اسکیم بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے:

اولاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے، اِس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے، لیکن اِس سے آپ کو اِس کی حفاظت اور جمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ اِس کی جو قراء ت اِس کے زمانۂ نزول میں اِس وقت کی جارہی ہے، اِس کے بعد اِس کی ایک دوسری قراء ت ہو گی۔ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اِس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں گے تو اُسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اِس طرح پڑھا دیں گے کہ اِس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ثانیاً، آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ دوسری قراء ت قرآن کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دینے کے بعد کی جائے گی اور اِس کے ساتھ ہی آپ اِس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ آیندہ اِسی قراء ت کی پیروی کریں۔ اِس کے بعد اِس سے پہلے کی قراء ت کے مطابق اِس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہو گا۔

ثالثاً، یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح و وضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی اِس موقع پر کر دی جائے گی اور اِس طرح یہ کتاب خود اِس کے نازل کرنے والے ہی کی طرف سے جمع و ترتیب اور تفہیم و تبیین کے بعد ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گی۔


لہذا یہ بات واضح ہے کہ قرآن مجید جس ترتیب میں ہمارے سامنے ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دی ہوئی ہے اور اب اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسرے یہ بات بھی اس میں بیان ہو گئی ہے کہ تدریج اور حکمت جو کچھ بھی ہم کسی حکم کے بارے میں جاننا چاہیں، وہ اس میں بیان کر دیا گیا ہے۔
باقی رہیں وہ روایات جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نزولی ترتیب سے قرآن مرتب کرنے کی نسبت کی گئی ہے، انھیں ہم قرآن کی محولہ بالا آیات کی روشنی میں رد کر سکتے ہیں۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ترتیب کا پابند کر دیا گیا ہے تو حضرت علی کی طرف اس کی خلاف ورزی کی نسبت کس طرح قبول کی جا سکتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
عقیدے کا ماخذ صرف قرآن

سوال: کیا قرآن صرف عقیدے کا ماخذ ہے۔ عمل کے لیے ہمیں کسی اور ماخذ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ (طارق ہاشمی)

جواب: ہمارا پورا دین قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید ہمارے عقیدہ و عمل، دونوں کی اصلاح کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں کئی اعمال بھی پوری وضاحت کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔ سنت دین کے اعمال کے منتقل ہونے کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کے طور پر اپنے ماننے والوں کو سکھائے۔ آپ کا سوال ان لوگوں سے بنتا ہے جو صرف قرآن مجید کو دین کا ماخذ مانتے ہیں۔ سنت کے ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، قرآن مجید اس کا ذکر ایک معلوم و معروف عمل کی حیثیت سے کرتا ہے، اس لیے اس کو اسے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، لیکن جہاں اسے کسی چیز کی اصلاح کرنا تھی، اس نے عملی حصے کو بھی واضح کیا ہے، اس کی نمایاں مثال وضو کرنے کا طریقہ ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
کاغذ پر قرآن

سوال: کہتے ہیں کہ قرآن سے پہلے بھی تورات اور انجیل وغیرہ کتابی شکل میں موجود تھیں۔ اگر کاغذ ایجاد ہو چکا تھا تو پھر قرآن کیوں کھجور کے پتوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھا جاتا تھا؟ (عارف جان)

جواب: اس میں شبہ نہیں کہ کاغذ بہت پہلے ایجاد ہو چکا تھا اور عربوں میں اس کے استعمال کے شواہد بھی ملتے ہیں، لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب میں بآسانی دستیاب نہیں تھا، اس کی وجہ واضح ہے کہ عرب میں لکھنا جاننے والے لوگ بہت کم تھے۔چنانچہ جو لوگ لکھنا چاہتے تھے، وہ اپنے ماحول میں دستیاب اشیا ہی پر لکھنے پر مجبور تھے۔ تاہم ،خلافت راشدہ میں پورا قرآن مجید کاغذ پر لکھنے کا کام بھی کر دیا گیا تھا۔

____________
 
Top