سفر پاکستان

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ ایک عزیزہ کو لینے ہوائی مستقر جانا پڑا۔ کسی سے گاڑی مستعار لی۔ وہاں 99 فیصد گاڑیاں گیس سے چلتی ہیں۔ دینے والے گاڑی تو دی لیکن اس میں گیس نہیں تھی، وہ تو خیریت گزری کہ گیس سٹیشن نزدیک ہی تھا۔ 200 روپے کی گیس ڈلوائی۔ گیس ڈالنے والے نے گیس کے پیسوں کے علاوہ عیدی بھی طلب کی۔

ہوائی مستقر پر سول ایوی ایشن نے الگ سے اندھی مچائی ہوئی ہے کہ ہر آنے والے سے 20 روپے وصول کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے انہوں نے اس بات کی حوصلہ شکنی کی ہوئی ہے کہ ہوائی مستقر پر کم سے کم لوگ آئیں۔ لیکن میرپور کے رہنے والوں کو کون سمجھائے کہ ایک بندہ پاکستان آ رہا ہو یا پاکستان سے جا رہا ہو، پورا پورا گاؤں وہاں موجود ہوتا ہے۔ کہ بیرون ملک سے آنے والے کو گزرنے کا راستہ ہی نہیں ملتا۔
 

فہیم

لائبریرین
شمشاد بھائی ایک بات۔
آپ نے پہلا روزہ تو سعودیہ کے حساب سے رکھا ہوگا یعنی پاکستان سے ایک دن پہلے۔
اور آپ کی عید پاکستان میں گزری اور پاکستان میں اس بار 30 روزے ہوئے۔
پھر تو آپ کے 31 روزے ہوگئے ہونگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فہیم بھائی بات یہ ہے کہ میرا ایک روزہ قضا ہو گیا تھا، سو وہ پاکستان پہنچ کر پورا ہو گیا۔
خاتون اول کے البتہ 31 روزے ہوئے۔ 30 تو فرضی روزے اور ایک نفلی روزہ ہو گیا۔
 

arifkarim

معطل
غالبا افراط زر اور مہنگائی ہی یہ وجہ ہے کہ بظاہر خوشحال لوگ بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
میرے ایک دوست کسی کمپنی میں انجینیر تھے۔ تنخواہ غالبا پچیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ لیکن مہینے کے آخر میں شکایت کرتے نظر آتے کہ موٹرسائیکل میں پٹرول ڈالنے کے لئے پیسے کم پڑ گئے ہیں۔ اور میں حیران ہوا جاتا کہ یاالہیٰ یہ کیا اصراف کرتے ہونگے کہ اتنے میں پورا خاندان پل جاتا ہے لیکن ان کی موٹر سائیکل نہیں چلتی۔ افراط زر کا اندازہ کرانے کے لئے انھوں نے مجھ فارمولا دیا کہ بھائی۔۔۔ آج جو تنخوہ سنتے ہو اسے دو پر تقسیم کرلو۔ اور اشیاء کی جو قیمتیں تمھارے زمانے میں تھیں اسے دو سے ضرب دے لو۔ :eek:
خاموش! یہودیوں کے قائم کردہ “فلاحی“ معاشی نظام جسمیں قرض، سود اور افراط زر بنیادی جز ہیں، آپ جیسے ذہین انسان کو اسپر “تنقید“ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ :)
ویسے اوپر جو قیمتیں بیان کی گئی ہیں کہ فلاں فلاں اتنا “مہنگا“ ہو گیا، تو میرا سوال ہے کہ آپ لوگ اسے مہنگا ہونا کیوں کہتے ہیں؟
اگر میں اپنے کمپیوٹر میں موجود ڈیجیٹل اعداد کو کسی ملک کی کرنسی بنا دوں۔ اور اپنی مرضی سے جب چاہے انکی ترسیل یا سپلائی زیادہ کر دوں، تو کیا آپ پھر بھی اچانک بڑھتی قیمتوں پر فریبی اصول:مانگ زیادہ ہے کا الزام لگائیں گے؟
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ قیمتیں مزید بڑھنی چاہئیں تاکہ اس منی سپلائی کی عکاسی ہو سکے جو کہ ہمارا مرکزی بینک سیاست دانوں کے آرڈر پر ہر سال بے لگام بڑھا دیتے ہیں۔ اور جسکے نتیجہ میں غریب اپنے آپ مر جاتے ہیں۔
چلیں آپ پاکستانی روپے کو چھوڑ دیں۔ امریکی ڈالر ہی کو لے لیں۔ ۱۹۱۴ سے ۲۰۱۰ تک اسکی قوت خرید 2105.2% گر چکی ہے۔ یعنی ۱۹۱۴ میں جو ایک ڈالر کا آتا تھا۔ آج وہ ۲۲ ڈالر کا ہو چکا ہے! :) ہم اس مصنوعی غربت اور دولت پیدا کرنے والے معاشی نظام کے خالقین کو خراج تحسین پیش کر تے ہیں۔ نیز ان سیاست دانوں کا بھی جنہوں نے اسکو گلوبلائز کرنے میں ہر ممکن غداری کی پیشکش کی۔
http://www.usinflationcalculator.com/
 

عثمان

محفلین
عارف کریم۔۔۔
قیمتیں اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی جس تیزی سے پاکستان میں بڑھتی ہیں۔ "یہودیوں کا نظام" کینیڈا میں بھی ہے۔ لیکن بنیادی اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں بہت ہی معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ چند ہی سالوں میں دو تین گنا ہوجائے۔ یہاں معمولی تنخواہ والا بھی پرسکون زندگی گذار لیتا ہے۔
کم از کم اس دھاگے پر میرا آپ سے الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ دھاگہ شمشاد بھائی کا سفرنامہ ہے۔ اسے وہیں تک محدود رکھیں۔ شکریہ!
 

ابو کاشان

محفلین
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پنڈی میں ابھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی۔ پیاز البتہ ایک دن میں 50 روپے کلو لایا تھا، دوسرے دن محلے میں 100 روپے کلو تھی اور منڈی میں 80 روپے۔
پیاز کی قیمتیں کراچی میں بھی یہی ہیں۔ البتہ پاکستانی پیداوار کے مقابلے میں درآمد شدہ (چینی یا بھارتی) سبزیاں سستی ملتی ہیں۔ پاکستانی کسان شاید اپنی فصلوں میں سونے کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
موضوع کہیں کا کہیں چلا جائے گا۔ آپ کی اگلی قسط کا انتظار ہے۔
 

طالوت

محفلین
آپ نے پی آئی کا جو تفصیلا حال بیان کر دیا تو میری خواہش ہی مر گئی ہے کہ اس میں کم از کم ایک بار سفر کر گزروں ۔ ورنہ میرا تو ارادہ تھا کہ اگلی بار پی آئی سے سفر کرتا مگر میرے خیال میں امارات ، اتحاد یا سعودی ائیر لائن ہی ٹھیک ہے اگرچہ برصغیر کے “بھولے بھالے“ عوام نے ان کو بھی ڈکٹیٹر بنا دیا ہے ۔
میر پور کی کیا بات کرتے ہیں دور دراز کے گاؤں دیہات والوں کا بھی یہی حال ہے۔ میرے چند عزیز سن 2000 میں کینیڈا روانہ ہوئے تو مسافروں کی تعداد 4 تھی جبکہ الوداع کہنے والے کم و بیش 25 افراد تھے جن میں ، میں نالائق بھی بطور “سمجھدار مددگار“ شامل تھا۔ اس وقت تک یہ “پارک فیس“ 20 روپے نافذ نہیں تھی ۔ اور یہ اتفاق کئی بار ہوا ہے۔
مہنگائی میں خاصا قصور ہمارا اپنا بھی ہے ، بھیڑوں کی طرح سر ہلاتے گزرتے چلے جانا ہماری عادت بن گئی ہے کوئی اعتراض نہیں کرتا کوئی بات نہیں کرتا ، کبھی کبھی حمیت کی رگ پھڑکتی ہے تو اپنے جیسوں پر اور پھر “موب جسٹس“ کے بے ہودہ مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
ہر شریف آدمی اس بات سے ڈرتا ہے کہ کبھی اس کا واسطہ پولیس سے پڑے۔ اور خاص کر پاکستانی پولیس سے۔ پاکستان سے باہر رہنے والوں کے ذہن میں اپنی پاکستانی پولیس کا بہت ہی بُرا امیج ہے۔

پاکستان میں میرا شناختی کارڈ گُم ہو گیا۔ پہلے تو میں نے کچھ خاص پرواہ نہیں کی۔پھر دوستوں نے بتایا کہ اس کی پولیس میں شکایت درج کرواؤ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی اس کو غلط کام کے لیے استعمال کر لے۔ اور نہیں تو اس پر چند ایک موبائیل فون کی سمیں نکلوا لے۔ فکر دامن گیر ہوئی کہ تھانے جانا پڑے گا۔ کئی سال پہلے کا تجربہ یاد تھاکہ تھانے میں گھسنے والے سے کیسا سلوک ہوتا ہے۔ کسی کو ساتھ لیکر جاؤں یا اکیلا جاؤں، کتنے پیسے ساتھ لیکر جاؤں۔ ان کو بتاؤں کہ نہ بتاؤں کہ پاکستان سے باہر رہتا ہوں۔ یہ سب سوچتا ہوا ایک صبح تھانے چلا ہی گیا۔ تھانے پہنچا، باہر ہی دو پولیس والے اسلحہ سمیت بیٹھے ہوئے تھے۔موٹر سائیکل کھڑی کی۔ تو ایک پولیس والے نے کہا “محترم، اس طرف کھڑی کریں۔“ ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ کہ پولیس والا اور اتنی مہذب گفتگو۔ پھر اس نے تھانے آنے کی وجہ دریافت کی اور بتایا کہ اندر کہاں رپورٹ درج کروانی ہے۔

اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں تین عدد میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک اے ایس آئی صاحب سامنے بیٹھے تھے۔ انہیں اپنی شکایت بتائی تو انہوں نےطریقہ کار بتایا کہ پہلے ایک اسٹامپ پیپر پر بیان حلفی لکھ کر اوتھ کمشنر سے مہر لگوا کر لائیں پھر شکایت درج ہو گی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تھانے سے اُلٹے ہاتھ چلے جائیں وہاں آپ کو اسٹامپ فروش کی دکان مل جائے گی۔ ان صاحب کا بھی لب و لہجہ بہت ہی دوستانہ تھا۔

موٹر سائیکل وہیں چھوڑ کر پیدل ہی اسٹامپ فروش کی دکان کی تلاش میں نکلا جو کہ نزدیک ہی مل گئی۔ صبح کا وقت تھا اور وہ صاحب ابھی دکان پر آئے ہی تھے۔ ان کو اپنا مسئلہ بتایا۔ انہوں نے20 روپے والا پہلے سے طبع شدہ ایک اسٹمپ پیپر نکالا، اس پر نام نمبر لکھا، خود ہی ایک مہر لگائی اور دستخط کر کے80 روپے ہتھیا لیئے۔ اپنی طرف سے انہوں نے ابھی بھی 20 روپے کم لیئے تھے۔ اسٹامپ پیپر لیکر واپس تھانے میں پہنچا۔ انہی اے آیس آئی صاحب کو اسٹامپ پیپر دیا تو انہوں نے کمال مہربانی سے تین گھنٹے بعد کسی بھی وقت آنے کو کہا۔ میں نے پوچھا ایسا نہ ہو کہ میں تین گھنٹے بعد آؤں اور آپ نہ ملیں، تو فرمانے لگے کہ رات بارہ بجے تک ادھر ہی ملوں گا۔ خیر تین گھنٹے بعد پھر گیا۔ اور گوہر مقصودبغیر کسی خرچہ پانی کے پایا۔

اب اگلا مرحلہ شناختی کارڈ بنوانے کا ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
شمشاد بھائی بہت مزا آرہے اپنے ہی ملک کا سفر نامہ پڑھ کے۔ بہت اچھا ہوا آپ ائیر پورٹ سے نکل آئے وہاں تو بہت پیسے لیتے ہیں خواہ مخواہ پاسپورٹ رکھ لیتے ہیں آئے دن اخبار میں خبر لگی ہوتی ہے۔ معمولی اہلکار کا طرز زندگی دیکھیں شاہانہ تو عام سی بات ہے۔ ٹریفک پولیس تو بہت مہذب ہے۔ البتہ دوسری پولیس موقع محل پہ کام دکھاتی ہے۔

مہنگائی بہت زیادہ ہے اور رہی سہی کسر سیلاب نے نکال دی ہے۔ ہر چیز نایاب ہو گئی ہے۔
 

مجاز

محفلین
گویا اسٹامپ فروش پولیس سے زیادہ بد معاش ہو گئے ہیں۔

اسٹام فروش کی بدمعاشی کی وجہ سے ہی شمشاد بھائی کو خود سے کوئی اوتھ کمشنر نہیں ڈھونڈنا پڑا ۔۔اور اسٹام فروش نے ہی اس پر مہر وغیرہ لگا کر کام ختم کر دیا۔۔50 روپے بنتے تھے : 30 روپے اسکی مزدوری :tongue: ۔۔ لیکن ناواقفیت کی بناء پر شمشاد بھائی تھوڑے زیادہ دے آئے ۔۔ :tongue:
 
Top