سفر پاکستان

شمشاد

لائبریرین
یوں تو تقریباً ہر سال ہی پاکستان جانا ہوتا ہے لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ گزشتہ دو سال نہ جا سکا اور عید الفطر تو کئی سالوں کے بعد اس دفعہ پاکستان میں منائی تھی۔

وہ 3 ستمبر کی رات تھی کہ ہم بمع اہل خانہ بذریعہ پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد کو عازم سفر ہوئے۔ ریاض کے ہوائی مستقر پر پی آئی اے کا عملہ بڑے اچھے طریقے سے پیش آیا۔ سیٹیں بھی اچھی مل گئیں۔ پرواز کی روانگی بھی بروقت ہوئی۔ جہاز میں داخل ہوتے ہی ایک آنٹی نما ائیر ہوسٹس سے واسطہ پڑا۔ ایک اور ائیر ہوسٹس بھی نظر آئی، اللہ معاف فرمائے، وہ تو بیچاری ٹی بی کی مریضہ لگ رہی تھی۔ اس معاملے میں پی آئی اے کاتوازن خاصا بگڑ گیا ہے۔

جہاز کی اڑان میں جب باقاعدگی آ گئی تو ایک اور قبول صورت ائیر ہوسٹس نے کھانے کا ایک ایک ڈبہ پکڑا دیا۔ کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس دن پی آئی اے بھابھی نے آلو قیمہ پکایا ہوا تھا۔ ساتھ میں انہوں نے فی کس دو عدد ٹیڈی پراٹھے دیئے۔ اس کے بعد وہی محترمہ ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل اور ایک ہاتھ گلاس لیے آ گئیں۔ مسافر زیادہ اور خادمہ ایک، بڑی ہی بھاگ دوڑ کرنی پڑی بیچاری کو۔

کھانا تقسیم ہو چکا تو وہ بڑا سا پلاسٹک کا بیگ لے کر آ گئیں کہ کھانے کے خالی ڈبے اس میں ڈالتے جائیں۔ اسطرح کھانا تقسیم ہوتے اور کچرا اکٹھا کرتے پہلی دفعہ دیکھا۔

ہوائی جہاز جب اسلام آباد کے ہوائی مستقر سے تقریباً 100 کلو میڑ رہ گیا تو خبر آئی کہ وہاں کا موسم بہت خراب ہے اس لیے ہم لاہور جا رہے ہیں۔ واللہ اعلم موسم واقعی اتنا زیادہ خراب تھا یا ائیر بلیو کے حادثے سے ڈرے ہوئے تھے کہ لاہور پہنچ گئے۔ وہاں تین گھنٹے ہوائی جہاز میں ہی بیٹھے رہے۔ روزہ ہونے کی وجہ سے کچھ کھا پی بھی نہیں سکتے تھے۔ اللہ اللہ کر کے تین گھنٹے بعد وہاں سے اڑان بھری اور اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے۔

دوسرے ممالک کے ہوائی اڈوں پر سب پاکستانی بڑے منظم ہوتے ہیں، لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی پاکستان کے کسی ہوائی اڈے پر اترتے ہیں تو سب اخلاقیات بالائے طاق رکھ کر دھکم پیل شروع، سو یہی کچھ یہاں بھی ہوا۔ خیر جیسے ہی پاسپورٹ پر مہر لگوا کر ہال میں پہنچے تو پہلی لوڈ شیڈنگ سے واسطہ پڑا جو کہ چند منٹ کی تھی۔

اس کے بعد سامان کا انتظار کرتے ہوئے ایسے کئی ایک واسطے پڑے لیکن تھے وہ بھی ہر بار چند منٹوں کے ہی۔

سامان آ گیا۔ ٹرالیوں پر رکھ لیا۔ اب 4 سو مسافروں کے لیے ایک ایکسرے مشین چل رہی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیا حال ہوا ہو گا۔ یہ مرحلہ بھی حل ہو گیا۔ باہر آئے تو معلوم ہوا کہ جو گاڑی پہلے گھر تک جانے تین سو لیتی تھی اس دفعہ ایک ہزار روپے دے کر گھر گئے۔ بس یہیں سے مہنگائی کا اندازہ ہو گیا۔

باقی اگلی قسط میں ۔۔۔۔
 

خوشی

محفلین
سفر تو آپ کا اچھا گزرا مگرررررررررررر مجھے سفر میں روزہ رکھنے کی تک سمجھ نہیں آئی وہ میں ایک ملک سے دوسرےملک جاتے جہاں ٹائمنگ کا فرق بھی ہوتا ھے:confused:
 

شمشاد

لائبریرین
رمضان میں سفر کریں تو اگر اللہ ہمت اور توفیق دے اور روزے کا وقت بھی ہو تو روزہ ضرور رکھنا چاہیے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا وقت وہی ہو گا جہاں روزہ دار موجود ہو گا۔ اسی طرح اگر کہیں روزہ زیادہ ہو جائے تو وہ نفلی ہو جائے گا اور اگر کم ہو گیا ہے تو عید کے بعد روزہ رکھ کر روزے پورے کیئے جا سکتے ہیں۔
 
شمشاد بھائی یہ تو خیر اپنے اپنے اعتقاد کی بات ہے۔ میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا "افضل" ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلا دن تو خیرگھر پہنچ کر ملنے ملانے میں گزر گیا، دوسرے دن باہر جانے کا اتفاق ہوا تو ہر چیز بدلی ہوئی۔ لوگوں کا اتنا رش کہ پہلے اتنا کبھی محسوس ہی نہیں ہوا تھا۔ یا پھر یہ کہ عید کی وجہ سے تھا۔ بازاروں میں لوگ ہی لوگ لیکن دکانیں خالی خالی سے نظر آئیں۔ شاید لوگوں میں قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ البتہ کھانے پینے کی دکانوں میں گاہک ضرور نظر آئے کہ کھانا تو پکانا ہے ناں۔ یہاں بھی کوئی دال سو روپے کلو سے کم نہیں، گوشت ہے تو 420 روپے کلو، مرغی کا گوشت 240 روپے کلو۔ ڈبل روٹی 40 روپے کی، انڈے ابھی سستے تھے یہ 78 روپے درجن، دکاندار کہنے لگا کہ یہ 120 روپے درجن تک جائیں گے۔ دودھ دہی 50 روپے لیٹر۔ پھلوں میں سیب 50 سے 70 روپے، انگور البتہ مہنگا تھا کہ 240 روپے کلو تھا۔ ایک اور چیز مشاہدے میں آئی، آپ کسی بھی چیز کا بھاؤ پوچھیں تو دکاندار کلو کی بجائے “پاؤ “ کا بھاؤ بتاتا ہے۔ انگور کیا بھاؤ ہیں، بولا 60 روپے پاؤ، ٹماٹر کیسے ہیں؟ 20 روپے پاؤ، نمبو کیسے ہیں تو 30 روپے پاؤ، وغیرہ وغیرہ۔

باقی اگلی قسط میں
 

عثمان

محفلین
یہاں بھی کوئی دال سو روپے کلو سے کم نہیں، گوشت ہے تو 420 روپے کلو، مرغی کا گوشت 240 روپے کلو۔ ڈبل روٹی 40 روپے کی، انڈے ابھی سستے تھے یہ 78 روپے درجن، دکاندار کہنے لگا کہ یہ 120 روپے درجن تک جائیں گے۔ دودھ دہی 50 روپے لیٹر۔ پھلوں میں سیب 50 سے 70 روپے، انگور البتہ مہنگا تھا کہ 240 روپے کلو تھا۔

:eek::eek::eek:

یہ تو لگتا ہے کہ دنیا ہی بدل چکی ہے۔
میں نے جب پاکستان سے کوچ کیا تھا تو جہاں تک مجھے یاد ہے کہ انڈے شائد 24 روپے درجن کے قریب تھے۔ ڈبل روٹی غالبا 14 روپے کی ہوگی۔ دودھ 17 روپے لٹر مل جاتا تھا۔ گوشت سو روپے کے لگ بھگ ہی ہو گا۔
اور اب تو۔۔۔ :skull:
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بھائی یہ سفرنامہ راولپنڈی کا ہے۔ اسلام آباد تو اور مہنگا ہو گا۔ اور آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں، بچوں کو مت بتائیے گا ورنہ آپ پر ہنسیں گے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
قیمتوں پر حکومت کا کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں۔ دکاندار منہ مانگی قیمت مانگتے ہیں۔ ایک ہی چیز ایک دکان پر 25 روپے، ساتھ والی دکان پر 30 روپے اور اس سے اگلی دکان پر 32 روپے ہے۔

چینی بازار میں 85 روپے اور Utility Store پر 55 روپے، آٹا 20 کلو بازار میں 580 روپے، عید کے بعد وہ بھی مہنگا ہو گیا اور مہنگا ہونے سے پہلے بازار سے غائب ہو گیا تھا۔ کھانے کا تیل Utility Store پر تین لیٹر والی بوتل 486 روپے کی تھی۔

ایک دن راجہ بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ جوتوں کی ایک دکان نظر پڑی، سوچا گھر میں استعمال کے لیے ایک عام سی چپل خریدی جائے۔ ایک چپل کی قیمت پوچھی تو دکاندار کہنے لگا۔ 490 روپے۔ میں نے کہا یہ تو مہنگی ہے، میں کہیں اور دیکھتا ہوں تو فوراً بولا 300 روپے لگا لوں گا۔ ارے 490 سے ایکدم 300 پر آ گیا۔ 300 روپے میں تو بُری نہیں تھی۔ میں نے دو عدد چپلیں خرید لیں اور 500 روپے دیئے۔ وہ بھی اس نے ہنسی خوشی لے لیے۔

باقی اگلی قسط میں کہ عثمان بھائی کوئی تبصرہ کر لیں۔
 

عثمان

محفلین
جو قیمتیں میں نے بیان کی ہیں وہ عراق جنگ سے پہلے کی ہیں۔
آپ کی بتائی گئی قیمتوں سے تو لگتا ہے کہ کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ :)
اور قیمتوں کا جو طریقہ لین دین آپ نے بتایا ہے اس میں بھی بڑی حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ آدھی قیمت پر تو میں نے قالین بیچنے والے اور صدقے کے بکرے فروخت کرنے والے ہی دیکھے تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ ہر کریانہ اور بیکری والا بھی اسی روش پر ہے۔
 

ابو کاشان

محفلین
یہاں قیمتیں روزانہ ہی بنیاد پر مقرر ہوتی ہیں۔
دودھ 56 اور دہی 72 روپے کلو ہے۔ کھیرا جو 20 روپے کلو ملتا تھا، کراچی میں 120 تک چلا گیا ہے۔ مونگ کی دال 200 روپےکلو ہے۔ چھوٹا گوشت (بکرا) 480 سے 500 روپے کلو ہے۔
اس مہنگائی میں اضافے کے کئی عوامل ہیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ جب سے یہ کوکنگ چینل فروغ پائے ہیں دال سبزی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جس چیز کو کوئی پوچھتا نہیں تھا، اس کی مانگ میں اضافہ ہوا تو چیز بھی مہنگی ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جو قیمتیں میں نے بیان کی ہیں وہ عراق جنگ سے پہلے کی ہیں۔
آپ کی بتائی گئی قیمتوں سے تو لگتا ہے کہ کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ :)
اور قیمتوں کا جو طریقہ لین دین آپ نے بتایا ہے اس میں بھی بڑی حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ آدھی قیمت پر تو میں نے قالین بیچنے والے اور صدقے کے بکرے فروخت کرنے والے ہی دیکھے تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ ہر کریانہ اور بیکری والا بھی اسی روش پر ہے۔

عراق کی جنگ غالباً 1991 میں ہوئی تھی تو دو دہائیاں تو گزر ہی گئی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں قیمتیں روزانہ ہی بنیاد پر مقرر ہوتی ہیں۔
دودھ 56 اور دہی 72 روپے کلو ہے۔ کھیرا جو 20 روپے کلو ملتا تھا، کراچی میں 120 تک چلا گیا ہے۔ مونگ کی دال 200 روپےکلو ہے۔ چھوٹا گوشت (بکرا) 480 سے 500 روپے کلو ہے۔
اس مہنگائی میں اضافے کے کئی عوامل ہیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ جب سے یہ کوکنگ چینل فروغ پائے ہیں دال سبزی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جس چیز کو کوئی پوچھتا نہیں تھا، اس کی مانگ میں اضافہ ہوا تو چیز بھی مہنگی ہو گئی۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پنڈی میں ابھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی۔ پیاز البتہ ایک دن میں 50 روپے کلو لایا تھا، دوسرے دن محلے میں 100 روپے کلو تھی اور منڈی میں 80 روپے۔
 

عثمان

محفلین
عراق کی جنگ غالباً 1991 میں ہوئی تھی تو دو دہائیاں تو گزر ہی گئی ہیں۔
میں نے 2003 میں ہونے والے امریکہ کے عراق پر حملے کا ذکر کیا تھا۔
جو قیمتیں میں نے بتائی ہیں وہ 2003 کے اوائل کی ہیں۔ سات آٹھ سال میں قیمتوں میں اس قدر فرق ناقابل یقین ہے۔ افراط زر اور مہنگائی میں شائد صرف زمبابوے ہی آگے رہ گیا ہے۔ کہ گھر سے نکل کر دکان پر پہنچو تو قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
غالبا افراط زر اور مہنگائی ہی یہ وجہ ہے کہ بظاہر خوشحال لوگ بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
میرے ایک دوست کسی کمپنی میں انجینیر تھے۔ تنخواہ غالبا پچیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ لیکن مہینے کے آخر میں شکایت کرتے نظر آتے کہ موٹرسائیکل میں پٹرول ڈالنے کے لئے پیسے کم پڑ گئے ہیں۔ اور میں حیران ہوا جاتا کہ یاالہیٰ یہ کیا اصراف کرتے ہونگے کہ اتنے میں پورا خاندان پل جاتا ہے لیکن ان کی موٹر سائیکل نہیں چلتی۔ افراط زر کا اندازہ کرانے کے لئے انھوں نے مجھ فارمولا دیا کہ بھائی۔۔۔ آج جو تنخوہ سنتے ہو اسے دو پر تقسیم کرلو۔ اور اشیاء کی جو قیمتیں تمھارے زمانے میں تھیں اسے دو سے ضرب دے لو۔ :eek:
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے ابھی وہی قیمتیں پڑھی ہیں جو میں نے لکھی ہیں۔ ذرا ابو کاشان کے مراسلے پر نظر ڈالیں پھر مزید حیران ہوں گے۔
 
Top