محمداحمد

لائبریرین
بہت بہترین تحریر ہے ۔
شکریہ!
ہمارے یہاں اسی کا زور ہے ۔ساری بات ہے کہ پھر دیدہ دلیری بھی دیدنی ہے ۔۔۔
واقعی!
انداز دیدنی ہے مرے دلنواز کا😊😊😊😊
:) :) :)
 

علی وقار

محفلین
ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔
عمدہ تحریر! یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ شاعری زیادہ اچھی کرتے ہیں یا نثر میں زیادہ طاق ہیں۔ :)

ویسے جہاں تک جیو کا تعلق ہے احمد بھائی، تو اس حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافہ کر دوں کہ جیو کے نام سے جو بے تحاشا پراڈکٹس اور آئٹمز سامنے آئی تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جیو نے اس کی خود آزادی دے رکھی تھی کہ ان کا نام جو چاہے، استعمال کر لے اور اس حوالے سے غالباََجنگ اخبار میں ایک اشتہار (یا اسے کچھ بھی نام دے لیں) بھی دیا گیا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عمدہ تحریر! یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ شاعری زیادہ اچھی کرتے ہیں یا نثر میں زیادہ طاق ہیں۔ :)
جزاک اللہ !

محبت ہے آپ کی۔
ویسے جہاں تک جیو کا تعلق ہے احمد بھائی، تو اس حوالے سے آپ کی معلومات میں اضافہ کر دوں کہ جیو کے نام سے جو بے تحاشا پراڈکٹس اور آئٹمز سامنے آئی تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جیو نے اس کی خود آزادی دے رکھی تھی کہ ان کا نام جو چاہے، استعمال کر لے اور اس حوالے سے غالباََجنگ اخبار میں ایک اشتہار (یا اسے کچھ بھی نام دے لیں) بھی دیا گیا تھا۔
بہت شکریہ! یہ بات واقعی مجھے نہیں معلوم تھی۔

شاید جیو والے اس طرح جلد اپنے نئے برانڈ کی تشہیر چاہ رہے ہوں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
احمد بھائی ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر اچھا موضوع اور مثالیں بہت موزوں اچھی نشاندہی کی ہے شاید اسی قسم کی چیز کو حمیت سے عاری احساس کہا جاتا ہے بس فائدہ ہونا چاہیے یا شاید وہ مثال کی محبت اور جنگ میں سب جائز والی جیسی مثال جو ہمارے یہاں مشہور ہے شاید اس قانون کے تحت وہ کاروبار کسی نے محبت سے شروع کیا ہو یا ایک جنگ کے طور پر کہ اس پر یہ قانون لاگو ہو جائے گا اور اپنا کام بھی بن جائے گا ۔
ایک متعلقہ واقعہ ہمار ا بھی سن لیں۔۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہم نمک کی تھیلی لے کر آئے تو کھانوں میں کچھ حساب کتاب گڑ بڑ ہو گیا۔۔ نمک کا بیگم سے جان کی امان پاکر نشاندہی کی تو انہوں نے فرمایا تو انہوں نے دریا دلی سے حامی بھری اور کہاکے میرا حساب تو وہی ہے آپ شاید کوئی اور نمک لائے ہوں میں نے کہا نہیں وہی نیشنل ہی لایا تھا بات آئی گئی ہو گئی مگر ہم اٹک چکے تھے چیک کرنے کی غرض سے ہم اسی دکان پر گئے اور کہا ذرا ایک تھیلی نمک کی دینا انہوں نے ہمیں وہی نیشنل کی تھیلی تھما دی مگر جو غور کیا تو سب کچھ ویسا ہی تھا مگر نام پر جو غور کیا تو وہ نیشن لکھا ہوا تھا جو پہلی نگاہ میں نیشنل ہی سمجھ آرہا تھا۔۔ پہلے تو دکان والے کو سنائیں سامنے سامنے اور پھر چھپی چھپی جن کی پروڈکٹ تھی ان کو اب اسے چھپی ہر رہنے دیں ۔۔۔
مطلب حد ہے لوگو تک وہی ہوتا ہے کے پہلی نظر میں وہی لگے۔۔۔
 
آخری تدوین:
سرقہ مارکہ ذہنیت
ازمحمد احمد

چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں، چکاری کو کیا کہتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم ابھی تک مناسب لغت کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت میں صبر نہیں ہے تو آپ لغت کے ملنے تک سرقہ سراقی سے گزارا چلا سکتے ہیں۔

مارکہ کا لفظ غالباً مارک یا نشان سے اخذکیا گیا ہے اور مارکہ کا مطلب ہے نشان زدہ۔ اگرآپ نے اپنے بچپن میں بلی مارکہ اگربتی کا اشتہار دیکھا ہے تو آپ اسے با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایسی اگربتی جس کے ڈبے پر بلی کانشان یاتصویر ہو۔

ذہنیت کا مطلب ذہنی معیار ہے جو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن کچھ ذہنی معیار پوری قوم کے بھی بن جاتے ہیں ۔ پوری قوم میں بہرکیف ملت کا ہر شخص شامل نہیں ہے لیکن سوادِاعظم کی سوچ اُسی قسم کی ہو جاتی ہے۔

ابھی کچھ دنوں سے ہم اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ کو کھول کھول کر بیان کرنے لگے ہیں اورہمیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظ کی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہ بند کر لیتے ہیں ویسے ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تحریریں قارئین کی لسانی قابلیت کے لئے دعوتِ مبارزت کا کام کررہی ہیں۔ تاہم ہمارا حال اُس بچے سے سوا نہیں ہے کہ جو پانی کاگلاس ہاتھ میں لیتے ہوئےاپنے بڑوں کو ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مم مم نہیں بلکہ پانی کہتے ہیں۔بہرکیف، اس بارہمیں جلد سے جلداپنے موضوع کی طرف لوٹنا ہے، سو فی الحال فرہنگ کو داخل دفترکیے دیتے ہیں۔

آپ نے شاید بندر روڈ ، کراچی میں سعیدغنی عطرفروش کی دوکان دیکھی ہو۔ ہم نے یہ دوکان آج سے کئی سال پہلے دیکھی تھی اور ہمیں یہاں سے کچھ منگوانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سامنے ہی سعید غنی عطرفروش کی دوکان نظر آئی ۔ ہم جھٹ سے اندر گھس گئےاور دکاراشیاء کا مطالبہ کیا، جو اتفاق سے اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ ہم دوکان سے باہر آئے کہ اب کیا کیا جائے تودیکھا کہ برابر میں ایک اور سعید غنی کی دوکان ہے ۔ اس سے اگلی دوکان پر نظر دوڑائی تووہ بھی سعید غنی کی دوکان تھی۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد والی دُوکان بھی سعید غنی کی ہی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعید غنی عطر کے کامیاب اور مشہور و معروف تاجر ہیں اور اُن کے معروف برانڈ کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دیدہ دلیری سے عین اُن کے برابر دوکان کھول لی ہے اور نتیجتاً ایک ساتھ ایک ہی جیسی اور ایک ہی نام کی چار پانچ دوکانیں ہو گئی ہیں۔ یا حیرت ! اگر ان چوروں میں خدا خوفی نہیں ہے تو کیا آنکھوں میں مروت بھی نہیں ہے۔ بھلا کیسے لوگ عین برابر میں بیٹھ کرآپ کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈال لیتے ہیں۔

اگر آپ حیدرآباد کے شاہی بازار میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو یہی حال نظر آئے گا۔ اور ایک قطار میں آپ کو بے تحاشا "حاجی ربڑی" والے نظر آئیں گے۔اگر کوئی آپ کو بھیجے کہ جناب وہاں سے آپ"حاجی ربڑی" لے کر آئیں تو آپ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ ان میں سے وہ "حاجی" کون سا ہے جس کے پاس مجھے بھیجا گیا ہے۔کیا ربڑی بیچنا بھی اتنا مشکل کام ہے کہجس کےلئے دوسروں کے برانڈ چُرانا لازمی ہو جائے۔ یا ہم بطورِ قوم اس چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتے اور "حاجی" کو "ربڑی" کا جنرک نام سمجھنے لگے ہیں۔

اب ہمارے ہاں یہ بھی ہونے لگا ہے کہ پہلے لوگ کسی کاروباری شخص کو کوئی دوکان کرائے پر دیتے ہیں اور جب دوکان چل پڑتی ہے تو اُس شخص کوکرائے کی دُوکان سے چلتا کرکے خود اُسی جگہ ویسی ہی دوکان کھول لیتے ہیں اور کچھ بے شرم تو پچھلے کرائے دار کی دوکان کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک لودھی صاحب ہیں اُن کی آٹے کی چکی "خان آٹا چکی" کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب لودھی صاحب نے اپنی آٹا چکی کا نام لودھی کے بجائے خان صاحب کے نام پر کیوں رکھا یہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ اُن صاحب نے اپنی آٹا چکی سامنے جگہ خرید کر منتقل کر لی، تو کچھ ہی دنوں میں بالکل اُسی جگہ کم و بیش اُنہی کے نام سے ایک آٹا چکی کُھل گئی، بس نام میں اے کا اضافہ کیا اور چکی کا نام اے خان آٹا چکی ہو گیا۔یعنی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی سے اصلی دُوکان کے سامنے جعلی دوکان کھل گئی۔

کیوں سارق و مسروق میں حائل رہیں پردے
تم شرم و مُروّت کے جنازے کو اُٹھا دو​

یعنی اگر کوئی گاہک سال چھے ماہ بعد آئے تو اُسے پتہ بھی نہ چلے کہ جس دوکان سے وہ خریداری کرنا چاہتا تھا وہ سامنے منتقل ہو گئی ہے اور یہ جعلی دوکان ہے۔ ردِ عمل میں اصلی خان آٹا چکی والوں نے بڑا بڑا لکھ کر لگایا جو ہمارے ہاں اکثر لکھا نظر آتا ہے ۔ یعنی "نقالوں سے ہُشیار" اور یہ کہ اصلی خان آٹا چکی کی دوکان یہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک میڈیکل اسٹور جو بہت چلنے والا تھا ۔ اُس نے دوکان تبدیل کی یا اُسے دوکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اصل دوکان سے کچھ فاصلے پر منتقل ہو گیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں پہلی دوکان میں پھر میڈیکل اسٹور کھل گیا اور نئے مالک نے دوکان کا نام تک بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یا بددیانتی سے پرانا نام ہی چلنے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی بھیڑ اصلی دوکان پر ہی رہتی ہے۔ یعنی چُرانے والے نے اُن کا نام تو چُرا لیا لیکن اُن کا برسوں کا تجربہ اور کاروباری لیاقت نہیں چُرا سکا۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہیں۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔ یعنی ایک مشہور نام کے سہارے پر لوگ اپنے نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن محنت اورلگن سے اپنا نام بنانے کو عار سمجھتے رہے تھے۔

ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ دھڑلے سے دوسروں کا نام چرا لیتے ہیں اور کسی کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ محنت کرکےاپنا نام بنانے کا اعتماد ایسے لوگوں میں نام کو نہیں ہوتا اوراُن کی حاسد نگاہیں دوسروں کی کمائی پر لگی رہتی ہیں۔

حالانکہ انسان کو محنت سے اپنا نام کمانا چاہیےاور رزق کے معاملے پر رازق پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ چوری کرنے والے کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ چور ہی رہتے ہیں اور اُن کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں باز پُرس یا مکافات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

*****
بہت ہی عمدہ تحریر ہے پہلے دو تین لائن پڑھ کر سوچا بس ایسے ہی کمنٹس کردیا جائے پھر سوچا کہ یہ نا انصافی ہوگی اِسی لئے پوری تحریر کو پڑھ لیا لیکن جب پڑھا تو واقعی تحریر عمدہ تھی۔
اب رائے دئیے دیتے ہیں اِس کے بارے میں اِن لوگوں کو چاھئیے کہ جو لوگ بھی دوکان وغیرہ چلارہے ہوں وہ اپنے نام رجسٹر کروالیا کریں پھر اگر کوئی اُن لوگوں کا نام چُرائے تو کوئی قانونی کاروائی بھی ہوسکے ۔ یہ تو صرف آپ دوکانوں کی باتیں کررہے ہیں بہت سے کارخانے بھی کوئی نام رجسٹر نا کرکے چلائیں جارہے ہیں اپنے تھوڑے سے پیسے بچانے کے لئے کہ حکومت کو ٹیکس دینا پڑے گا ۔ پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ جو اتنی محنت سے کئی سالوں میں نام کمایا ہوتا ہے وہ بہت ہی آسانی سے چُرا کر رجسٹر بھی کرلیا جاتا ہے بات آپ کی ٹھیک ہے کہ نام چُرانے سے کسی کے رزق پر کوئی فرق نہیں پڑتا نام بنتا ہی اُس کا ہے جو کام اچھا کرتا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر اچھا موضوع اور مثالیں بہت موزوں اچھی نشاندہی کی ہے شاید اسی قسم کی چیز کو حمیت سے عاری احساس کہا جاتا ہے بس فائدہ ہونا چاہیے یا شاید وہ مثال کی محبت اور جنگ میں سب جائز والی جیسی مثال جو ہمارے یہاں مشہور ہے شاید اس قانون کے تحت وہ کاروبار کسی نے محبت سے شروع کیا ہو یا ایک جنگ کے طور پر کہ اس پر یہ قانون لاگو ہو جائے گا اور اپنا کام بھی بن جائے گا ۔
ایک متعلقہ واقعہ ہمار ا بھی سن لیں۔۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہم نمک کی تھیلی لے کر آئے تو کھانوں میں کچھ حساب کتاب گڑ بڑ ہو گیا۔۔ نمک کا بیگم سے جان کی امان پاکر نشاندہی کی تو انہوں نے فرمایا تو انہوں نے دریا دلی سے حامی بھری اور کہاکے میرا حساب تو وہی ہے آپ شاید کوئی اور نمک لائے ہوں میں نے کہا نہیں وہی نیشنل ہی لایا تھا بات آئی گئی ہو گئی مگر ہم اٹک چکے تھے چیک کرنے کی غرض سے ہم اسی دکان پر گئے اور کہا ذرا ایک تھیلی نمک کی دینا انہوں نے ہمیں وہی نیشنل کی تھیلی تھما دی مگر جو غور کیا تو سب کچھ ویسا ہی تھا مگر نام پر جو غور کیا تو وہ نیشن لکھا ہوا تھا جو پہلی نگاہ میں نیشنل ہی سمجھ آرہا تھا۔۔ پہلے تو دکان والے کو سنائیں سامنے سامنے اور پھر چھپی چھپی جن کی پروڈکٹ تھی ان کو اب اسے چھپی ہر رہنے دیں ۔۔۔
مطلب حد ہے لوگو تک وہی ہوتا ہے کے پہلی نظر میں وہی لگے۔۔۔

بہت شکریہ اکمل بھائی!

واقعی ہمیں کافی معاملات میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں نقالی کا رواج بہت عام ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی عمدہ تحریر ہے پہلے دو تین لائن پڑھ کر سوچا بس ایسے ہی کمنٹس کردیا جائے پھر سوچا کہ یہ نا انصافی ہوگی اِسی لئے پوری تحریر کو پڑھ لیا لیکن جب پڑھا تو واقعی تحریر عمدہ تھی۔
بہت شکریہ عبدالقدیر بھائی!

آپ کا اس میں کچھ خاص قصور نہیں ہے، تمہید شاید کچھ طولانی ہو گئی ۔ :)
اب رائے دئیے دیتے ہیں اِس کے بارے میں اِن لوگوں کو چاھئیے کہ جو لوگ بھی دوکان وغیرہ چلارہے ہوں وہ اپنے نام رجسٹر کروالیا کریں پھر اگر کوئی اُن لوگوں کا نام چُرائے تو کوئی قانونی کاروائی بھی ہوسکے ۔ یہ تو صرف آپ دوکانوں کی باتیں کررہے ہیں بہت سے کارخانے بھی کوئی نام رجسٹر نا کرکے چلائیں جارہے ہیں اپنے تھوڑے سے پیسے بچانے کے لئے کہ حکومت کو ٹیکس دینا پڑے گا ۔ پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ جو اتنی محنت سے کئی سالوں میں نام کمایا ہوتا ہے وہ بہت ہی آسانی سے چُرا کر رجسٹر بھی کرلیا جاتا ہے بات آپ کی ٹھیک ہے کہ نام چُرانے سے کسی کے رزق پر کوئی فرق نہیں پڑتا نام بنتا ہی اُس کا ہے جو کام اچھا کرتا ہے ۔
بہت خوب!

بہت اچھا مشورہ دیا ہے آپ نے۔
 

سید عمران

محفلین
ارے بھیا سیدھی سی بات ہے کہ اتنی محنت اب کون کرے نام اور ساکھ جب مارکیٹ میں موجود ہو تو
حلال و حرام کی فکر میں پڑ کر اپنی دنیا کی آسائشوں کو ضائع نہیں کرنا
دیکھ لیں اپنے معصوم بھیا کی معصومیتیں!!!
:timeout::timeout::timeout:
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہم بھی تو ایسے ہی ہیں شکر ہے آپ آئے !طبعیت اتنی خراب تھی ۔۔۔صبح سے !!آپ کے جملے سے اتنی ہنسی آئی کہ اللہ کرے بہتر ہو طبعیت !!!!!
سید عمران اب تو دل کی باتیں بھی بوجھنے لگے ہیں۔ شاید اسی لیے میرے خالی مراسلوں پر متفق کی مہر ثبت کر دی۔
اب میری مرضی جو کچھ بھی اب میں خالی مراسلے میں لکھ دوں 😂😂
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
سرقہ مارکہ ذہنیت
ازمحمد احمد

چوری کو عربی میں سرقہ کہتے ہیں، چکاری کو کیا کہتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم ابھی تک مناسب لغت کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت میں صبر نہیں ہے تو آپ لغت کے ملنے تک سرقہ سراقی سے گزارا چلا سکتے ہیں۔

مارکہ کا لفظ غالباً مارک یا نشان سے اخذکیا گیا ہے اور مارکہ کا مطلب ہے نشان زدہ۔ اگرآپ نے اپنے بچپن میں بلی مارکہ اگربتی کا اشتہار دیکھا ہے تو آپ اسے با آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ یعنی ایسی اگربتی جس کے ڈبے پر بلی کانشان یاتصویر ہو۔

ذہنیت کا مطلب ذہنی معیار ہے جو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن کچھ ذہنی معیار پوری قوم کے بھی بن جاتے ہیں ۔ پوری قوم میں بہرکیف ملت کا ہر شخص شامل نہیں ہے لیکن سوادِاعظم کی سوچ اُسی قسم کی ہو جاتی ہے۔

ابھی کچھ دنوں سے ہم اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ کو کھول کھول کر بیان کرنے لگے ہیں اورہمیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہمارے قارئین کی اردو کا حال بھی ہمارے ہی جیسا ہے، اور جیسے ہم کسی تحریر میں مشکل الفاظ کی بہتا ت دیکھ کر پہلے آنکھیں اور بعد میں صفحہ بند کر لیتے ہیں ویسے ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تحریریں قارئین کی لسانی قابلیت کے لئے دعوتِ مبارزت کا کام کررہی ہیں۔ تاہم ہمارا حال اُس بچے سے سوا نہیں ہے کہ جو پانی کاگلاس ہاتھ میں لیتے ہوئےاپنے بڑوں کو ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مم مم نہیں بلکہ پانی کہتے ہیں۔بہرکیف، اس بارہمیں جلد سے جلداپنے موضوع کی طرف لوٹنا ہے، سو فی الحال فرہنگ کو داخل دفترکیے دیتے ہیں۔

آپ نے شاید بندر روڈ ، کراچی میں سعیدغنی عطرفروش کی دوکان دیکھی ہو۔ ہم نے یہ دوکان آج سے کئی سال پہلے دیکھی تھی اور ہمیں یہاں سے کچھ منگوانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سامنے ہی سعید غنی عطرفروش کی دوکان نظر آئی ۔ ہم جھٹ سے اندر گھس گئےاور دکاراشیاء کا مطالبہ کیا، جو اتفاق سے اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ ہم دوکان سے باہر آئے کہ اب کیا کیا جائے تودیکھا کہ برابر میں ایک اور سعید غنی کی دوکان ہے ۔ اس سے اگلی دوکان پر نظر دوڑائی تووہ بھی سعید غنی کی دوکان تھی۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد والی دُوکان بھی سعید غنی کی ہی تھی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سعید غنی عطر کے کامیاب اور مشہور و معروف تاجر ہیں اور اُن کے معروف برانڈ کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے دیدہ دلیری سے عین اُن کے برابر دوکان کھول لی ہے اور نتیجتاً ایک ساتھ ایک ہی جیسی اور ایک ہی نام کی چار پانچ دوکانیں ہو گئی ہیں۔ یا حیرت ! اگر ان چوروں میں خدا خوفی نہیں ہے تو کیا آنکھوں میں مروت بھی نہیں ہے۔ بھلا کیسے لوگ عین برابر میں بیٹھ کرآپ کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈال لیتے ہیں۔

اگر آپ حیدرآباد کے شاہی بازار میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو یہی حال نظر آئے گا۔ اور ایک قطار میں آپ کو بے تحاشا "حاجی ربڑی" والے نظر آئیں گے۔اگر کوئی آپ کو بھیجے کہ جناب وہاں سے آپ"حاجی ربڑی" لے کر آئیں تو آپ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ ان میں سے وہ "حاجی" کون سا ہے جس کے پاس مجھے بھیجا گیا ہے۔کیا ربڑی بیچنا بھی اتنا مشکل کام ہے کہجس کےلئے دوسروں کے برانڈ چُرانا لازمی ہو جائے۔ یا ہم بطورِ قوم اس چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتے اور "حاجی" کو "ربڑی" کا جنرک نام سمجھنے لگے ہیں۔

اب ہمارے ہاں یہ بھی ہونے لگا ہے کہ پہلے لوگ کسی کاروباری شخص کو کوئی دوکان کرائے پر دیتے ہیں اور جب دوکان چل پڑتی ہے تو اُس شخص کوکرائے کی دُوکان سے چلتا کرکے خود اُسی جگہ ویسی ہی دوکان کھول لیتے ہیں اور کچھ بے شرم تو پچھلے کرائے دار کی دوکان کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک لودھی صاحب ہیں اُن کی آٹے کی چکی "خان آٹا چکی" کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اب لودھی صاحب نے اپنی آٹا چکی کا نام لودھی کے بجائے خان صاحب کے نام پر کیوں رکھا یہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ اُن صاحب نے اپنی آٹا چکی سامنے جگہ خرید کر منتقل کر لی، تو کچھ ہی دنوں میں بالکل اُسی جگہ کم و بیش اُنہی کے نام سے ایک آٹا چکی کُھل گئی، بس نام میں اے کا اضافہ کیا اور چکی کا نام اے خان آٹا چکی ہو گیا۔یعنی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی سے اصلی دُوکان کے سامنے جعلی دوکان کھل گئی۔

کیوں سارق و مسروق میں حائل رہیں پردے
تم شرم و مُروّت کے جنازے کو اُٹھا دو​

یعنی اگر کوئی گاہک سال چھے ماہ بعد آئے تو اُسے پتہ بھی نہ چلے کہ جس دوکان سے وہ خریداری کرنا چاہتا تھا وہ سامنے منتقل ہو گئی ہے اور یہ جعلی دوکان ہے۔ ردِ عمل میں اصلی خان آٹا چکی والوں نے بڑا بڑا لکھ کر لگایا جو ہمارے ہاں اکثر لکھا نظر آتا ہے ۔ یعنی "نقالوں سے ہُشیار" اور یہ کہ اصلی خان آٹا چکی کی دوکان یہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک میڈیکل اسٹور جو بہت چلنے والا تھا ۔ اُس نے دوکان تبدیل کی یا اُسے دوکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اصل دوکان سے کچھ فاصلے پر منتقل ہو گیا۔ اور کچھ ہی دنوں میں پہلی دوکان میں پھر میڈیکل اسٹور کھل گیا اور نئے مالک نے دوکان کا نام تک بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یا بددیانتی سے پرانا نام ہی چلنے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی بھیڑ اصلی دوکان پر ہی رہتی ہے۔ یعنی چُرانے والے نے اُن کا نام تو چُرا لیا لیکن اُن کا برسوں کا تجربہ اور کاروباری لیاقت نہیں چُرا سکا۔

ایسی بے تحاشا کہانیاں ہیں۔ کیا کیا ذکر کیا جائے۔ ایک زمانے میں جب جیو نیوز نیا نیا لانچ ہوا تھا اور بہت مقبول ہو رہا تھا تو ہر دوسری بیکری اور ڈیری جیو کے نام سے کُھلنا شرو ع ہو گئ تھی۔ یعنی ایک مشہور نام کے سہارے پر لوگ اپنے نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن محنت اورلگن سے اپنا نام بنانے کو عار سمجھتے رہے تھے۔

ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ دھڑلے سے دوسروں کا نام چرا لیتے ہیں اور کسی کی برسوں کی محنت اور ساکھ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ محنت کرکےاپنا نام بنانے کا اعتماد ایسے لوگوں میں نام کو نہیں ہوتا اوراُن کی حاسد نگاہیں دوسروں کی کمائی پر لگی رہتی ہیں۔

حالانکہ انسان کو محنت سے اپنا نام کمانا چاہیےاور رزق کے معاملے پر رازق پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ چوری کرنے والے کامیاب بھی ہو جائیں تو وہ چور ہی رہتے ہیں اور اُن کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں باز پُرس یا مکافات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

*****
بیشک ایسا ہی ہے۔ بہت ساری ایسی دُکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ایک ہی نام کی ہیں اور کسی نے ساتھ اصلی کا لفظ لگایا ہوتا یا کسی نے ساتھ نیو (نئی) کا لفظ لگایا ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بیشک ایسا ہی ہے۔ بہت ساری ایسی دُکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ایک ہی نام کی ہیں اور کسی نے ساتھ اصلی کا لفظ لگایا ہوتا یا کسی نے ساتھ نیو (نئی) کا لفظ لگایا ہوتا ہے۔
ہمارے آفس کے پاس۔ کافی کلب ہوا کرتا تھا وہ ایک ایرانی ہوٹل تھا بعد میں کسی صاحب نے خریدا تو نیو کافی کلب نام رکھ دیا پر کوالٹی اسقدر گرا دی کہ کوئی اُدھر کا رخ نہ کرتا 😊
 

سید عمران

محفلین
سید عمران اب تو دل کی باتیں بھی بوجھنے لگے ہیں۔ شاید اسی لیے میرے خالی مراسلوں پر متفق کی مہر ثبت کر دی۔
اب میری مرضی جو کچھ بھی اب میں خالی مراسلے میں لکھ دوں 😂😂
آپ جہاں تک جانا چاہیں جائیں۔۔۔
ہماری دی گئی ریٹنگز سے باہر نہیں نکل سکتے!!!
:cool::cool::cool:
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ہمارے آفس کے پاس۔ کافی کلب ہوا کرتا تھا وہ ایک ایرانی ہوٹل تھا بعد میں کسی صاحب نے خریدا تو نیو کافی کلب نام رکھ دیا پر کوالٹی اسقدر گرا دی کہ کوئی اُدھر کا رخ نہ کرتا 😊
بالکل۔ اکثر نقل کرنے والوں کی کوالٹی کم ہی ہوتی ہے۔ ایسی دُکانوں پر ہر کسٹمر ایک یا دو ہی دفعہ جاتا ہے۔ اچھی کوالٹی والا اگر ریڑھی پر بھی اور بغیر نام کے ہو تو اُس کے پاس رش ہی ہوگا۔
 
Top