سید عمران

محفلین
مسجد جماعت خانہ!!!
CF1GW2.jpg
 
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات

انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات

انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
شناختی کارڈ کے انتظار میں دس دن گزارے نہیں گزر رہے تھے، ہر دن سو سو برس جتنا گراں تھا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب ہمارے ہاتھ میں پہلا شناختی کارڈ تھا۔ بندوبست پہلے سے تھا لہٰذا شناختی کارڈ لے کر سیدھا پاسپورٹ آفس پہنچے، چوں کہ یہاں نئے نویلے تھے، کچھ معلوم نہیں تھا کیا کرنا ہے لہٰذا وہاں آنے والے پرانے پاپیوں سے پوچھ پوچھ کر سارے مراحل طے کیے، بینک میں فیس جمع کروائی، ٹوکن لیا، طویل قطاروں میں لگے، کتنے فارم بھرے، کئی میزوں کا چکر لگایا اور دفتر والوں کو ارجنٹ پاسپورٹ بنانے کی تاکیدکر کے گھر لوٹ آئے۔
پاسپورٹ دس دن بعد ملنا تھا۔ ابھی پاسپورٹ ملنے میں پانچ دن بعد باقی تھے کہ آنٹی کا فون آگیا:’’تیاری کہاں تک پہنچی؟‘‘
’’پانچ دن بعد پاسپورٹ ملے گا۔‘‘ ہم خوش تھے کہ منزل قریب تھی۔
’’لیکن ہماری تو کل روانگی ہے۔‘‘آنٹی نے بتایا۔
یہ سن کر ہاتھوں پیروں سے گویا جان نکل گئی۔
’’اب ہمارا کیا ہوگا؟‘‘ ہم نے تھکے تھکے انداز میں مریل ہاتھوں سے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
پندرہ دن ہوچکے تھے۔ کل آنٹی اپنی چھوٹی بیٹی صبا اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ جارہی تھیں۔ ہم اپنی طرف سے جان جوکھوں میں ڈال کر ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، لیکن تدبیر پر تقدیر غالب آگئی۔ پندرہ دن پورے ہونے کے بعد آنٹی عازم سفر ہوئیں اور اماں کے دل کی کلیاں کِھل اٹھیں۔ لیکن ہم افسردہ تھے، انڈیا یاترا کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ادھر اماں کی خوشیاں دیدنی تھیں۔
’’کوئی بات نہیں، پاسپورٹ بننا اچھی بات ہے، ہوسکتا ہے کسی اور وقت کام آجائے۔‘‘ اماں جلتی پر تیل ڈال کر کچن میں توے پر تیل ڈالنے چلی گئیں۔ ہمارے رہے سہے جذبات بھی سرد ہوگئے!!!
اب ہمیں پاسپورٹ ملنے کا انتظار تھا نہ اس کے ملنے کی خوشی۔ پاسپورٹ لے کر گھر آئے، بے زاری سے الماری میں پھینکا اور خود کو بستر پر۔ جیسے بھرے پُرے گھر سے ہنستے بولتے مہمان رخصت ہوجائیں تو جو سناٹا چھاتا ہے وہ ہمارے دل پر چھایا ہوا تھا۔ بالکل ناامید تھے، جن کے ساتھ جانا تھا وہ ہی ساتھ چھوڑ گئیں، اب کس کے ساتھ جاتے۔
چند دن بعد آنٹی کا فون آیا۔ ’’ویزہ لگا یا نہیں؟‘‘
’’اب کیا فائدہ؟‘‘ کئی دن گزرنے کے بعد ہم جذباتی کیفیت سے نکل کر نارمل ہوگئے تھے۔
’’ہائیں، آنے کا ارادہ نہیں ہے؟ میں نے تو یہاں سب کو بتادیا کہ تم آرہے ہو، سب اتنا خوش ہیں کہ بار بار پوچھ رہے ہیں عمران بھائی کب آئیں گے۔‘‘
’’ کیا اکیلے آجاؤں؟ تنہا تو کوئی نہیں بھیجے گا، نہ اماں نہ ابا۔‘‘
’’فکر نہ کرو، میں بھائی جان سے بات کرلوں گی، بھابھی کو تم سمجھاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہاں سے جہاز میں بیٹھو، دہلی چھوٹے بھائی لینے آجائیں گے، بس پہنچ گئے انڈیا۔‘‘ انہوں اپنی طرف سے پُرکشش ترغیبیں دیں، بقول اماں میرے بچے کو خوب بھڑکایا، ورغلایا، آگ لگادی، پڑگئی کلیجے میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ!!!‘‘
ویسے یہ تو تھا، آنٹی نے دل میں سرد ہوتی آگ پھر بھڑکا دی تھی۔ ہم بہت دیر تک سوچتے رہے، جائیں، نہ جائیں۔ جائیں تو تنہاء دوسرے ملک کا سفر، دل دھڑکنے لگتا۔ نہ جائیں تو عزیزوں، رشتے داروں اور تاج محل کے دیدار سے محرومی، دل پھر دھڑکنے لگتا۔
اس عالم میں چند اکتاہٹ بھرے دن گزرے تو اچانک خیال آیا کہ ان چھٹیوں سے اکتا کر ہی تو انڈیا جانا تھا۔ ارے واہ!!! دل سے نعرہ نکلا۔ ہم پھر جوش سے بھر گئے۔ ارے بھئی انڈین ویزہ لگوانے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے؟ ہم نے بھارت دیدہ رشتے داروں سے فون پر ٹوہ لینی شروع کی۔
’’ کون جارہا ہے؟’’ اماں کی خالہ زاد بہن نے فون پر پوچھا۔
’’ہم اپنے لیے پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’کس کے ساتھ جارہے ہو؟‘‘ اگلا سوال۔ ارے بھائی ٹوہ ہم لینے والے تھے، شروع آپ نے کردی۔ ہم نے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھائے۔ کیوں باہر کھاتے تو کچھ ناخوشگوار اشیاء کھانے کو ملتیں، جن کا فی الوقت ہمارا کوئی موڈ نہیں تھا۔
’’اکیلے!!!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’باؤلے ہوگئے ہو؟ اکیلے جاؤگے، راستہ آتا ہے؟ وہاں سی آئی ڈی والے اکیلے نوجوانوں کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیا کرو گے جیل میں؟‘‘
’’ہمیں کیا معلوم؟ وہاں جائیں گے تو بتائیں گے۔‘‘ یہاں ہماری دال نہیں گلی۔
اب کسے فون کریں؟ سوچ سوچ کر ایک اور نمبر ملایا۔ ابا کی خالہ کو۔
’’ہم انڈیا جارہے ہیں، اکیلے، اب بتائیں ویزہ کیسے لگتا ہے، اور ہر بات تفصیل سے۔‘‘ وقت ضائع کرنا مناسب نہیں تھا لہٰذا بغیر تمہید کے مدعا پیش کردیا۔
’’ اکیلے ہو تو کیا ہوا؟ تمہیں پتا ہے لاہور پر کسٹم والے کتنا تنگ کرتے ہیں، لمبی لمبی لائنیں لگتی ہیں، لیکن حسّانہ ہر سال جا جا کراتنی تیز ہوگئی ہے کہ یہ جنگلہ پھلانگ، وہ بیرئیر کی راڈ سے نکل، اِدھر جا اُدھر جا، لائن میں گھس سب سے پہلے کاؤنٹر پر کھڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بیٹی کی ’’مردانگی‘‘ کے قصے بگھارنے شروع کردئیے۔ کچھ باتیں بور لگیں ، کچھ سنسنی خیز جو ہمارا مائنڈ کچھ اور سیٹ کرگئیں۔ آخر میں ان سے انڈین قونصلیٹ میں ویزہ لگنے کے مراحل سمجھے اور ایک لمبی سانس لے کر فون بند کردیا۔
اب ہمارے ذہن میں آئندہ کا لائحہ عمل بالکل واضح ہوچکا تھا جسے اماں سے چھپانا از حد ضروری تھا، ابھی آپ کو بھی نہیں بتائیں گے، کہیں اماں نہ سن لیں۔ فوراً انڈیا فون کیا چچا سے بات ہوئی، جن شہروں کا ویزہ لینا تھا وہاں کے ایڈریس لکھے، وہاں کے لوگوں سے کیا رشتے داری تھی وہ سمجھی اور ایک بھرپور ہنکارا بھر کر لائن کاٹ دی۔
آدھی رات کو خاموشی سے اٹھے، واش روم کی لائٹ جلا کر دروازہ کھول دیا، بیڈ روم میں اس کی مدھم روشنی سے گزارا کیا۔ کمرہ کی لائٹ جلتی دیکھ کر اماں نے فوراً آدھمکناتھا۔ سوتے سوتے بھی ہماری پوری خبر گیری رکھتی ہیں۔ اب ویزہ اپلائی کرنے کے لیے سارے کاغذات از سر نو ترتیب دئیے، بار بار دیکھا کوئی چیز کم تو نہیں رہ گئی، کچھ اطمینان، کچھ بے اطمینانی کے عالم میں الارم لگا کر سو گئے۔ صبح چھ بجے انڈین قونصلیٹ پہنچنا تھا۔
جیسے ہی الارم بجا فوراً بٹن دبا کر اس کا منہ بند کیا، ہر لمحہ ڈر، اماں نہ اٹھ جائیں۔ منہ ہاتھ دھویا، بغیر ناشتہ کیے باہر نکلے اور اطمینان بھری سانس لی۔ اماں کو جُل دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایک رکشہ آتا دکھائی دیا تو اسے ہاتھ دکھایا۔ یوں چھ بجے انڈین قونصلیٹ کی بلڈنگ کے آگے پڑی قطار میں کھڑے ہوگئے۔
قطار پڑی اس لیے تھی کہ بیرون شہر سے آنے والے بیسیوں لوگ رات سے بستر بچھائے پڑے تھے۔ اتنی لمبی لائن دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ قطار ختم ہونے تک تو پیدل ہی انڈیا پہنچ جائیں گے، دل میں سوچ کر رہ گئے۔ بھاگنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اپنے پیچھے کھڑے صاحب سے پوچھا:
’’ہماری باری کب آئے گی؟ ‘‘
’’ایک دفعہ گیٹ کھلنے کی دیر ہے، پھر دیر نہیں لگے گی۔ یہ لوگ جلدی جلدی سب کو نمٹادیتے ہیں ۔‘‘ صاحب کی بات سے دل کو تسلی ہوئی۔
’’آپ کراچی سے ہی ہیں؟؟؟‘‘ صاحب نے پوچھا۔
’’جی۔ اور آپ؟؟؟‘‘ ہم نے بھی اخلاقاً پوچھ لیا۔
’’ٹنڈو آدم سے۔‘‘ صاحب نے کہا۔
’’اچھا سندھ سے آئے ہیں۔‘‘ ہم نے بظاہر جوش دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’کراچی تو انگلینڈ میں ہے نا۔‘‘ جلا کٹا طنزیہ جواب آیا۔
’’اوہ۔‘‘ ہم نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کیسا بے وقوفانہ سوال تھا۔ اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ ہمیشہ سندھ سے پہلے اندرون لگانا نہیں بھولتے۔
نو بجے گیٹ کھلا، آہستہ آہستہ قطار آگے سرکنے لگی۔ دس بجے تک صبح کی باد نسیم کے جھونکوں کی جگہ سر جھلساتا سورج سر پر سوار ہوگیا تھا۔ چار گھنٹے سے بھوکے پیاسے کھڑے تھے، ٹانگیں الگ جواب دے رہی تھیں، کہیں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ غرض اچھا خاصا تزکیہ نفس ہورہا تھا۔
خدا خدا کرکے عمارت کے اندر داخل ہوئے، سب سے پہلا احساس سورج کی تپش سے نکل کر سائے اور ٹھنڈک میں آنے کا تھا۔ میز کے پیچھے بیٹھے ادھیڑ عمر کے بابو صاحب نے سر سے پیر تک دیکھا اور نہایت نرم لہجے میں پوچھا:
’’بیٹا آپ کے ساتھ اور کون ہے۔‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’مطلب اکیلے جاؤ گے۔‘‘ نرم لہجے کے ساتھ لبوں پہ مسکراہٹ بھی آگئی۔
’’جی۔‘‘
’’کوئی رشتے دار فوج میں تو نہیں ہے؟‘‘ اگلا سوال ہوا۔
ہم نے خوب سوچا، دھیان سے ایوب خان، ضیاء الحق وغیرہ جیسے مشہور فوجیوں سے رشتہ نکالنا چاہا مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔
’’نہیں جی۔ ہمارا فوجیوں سے کیا لینا دینا۔‘‘
بابو صاحب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘
ہم نے جھٹ ایڈریس کی لسٹ ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ اوپر سے نیچے تک لسٹ دیکھی پھر پوچھا:
’’مستقل رہائش کہاں ہوگی؟‘‘
’’دیو بند۔‘‘
انہوں نے سب قلم بند کیا۔ سلپ ہاتھ میں دے کر چند دن بعد کی تاریخ دی اور ہاتھ سے جانے کا اشارہ کردیا۔
اتنی جلدی فارغ ہوگئے تھے۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
باہر آکر دوکان میں بیٹھے، خوب پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور توانائی حاصل کی۔
اب سمجھا بھی کریں۔۔۔
یہ توانائی اماں کی باز پرس سے نمٹنے کے لیے از حد ضروری تھی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
گھر میں داخل ہوئے تو برتنوں کی آواز سے اندازہ لگالیا امّاں کچن میں ہیں۔ اماں کی نظروں سے بچ نکلنے کے لیے دبے پاؤں آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر اماں کی چھٹی حس نے بھانپ لیا۔
’’کہاں سے مٹر گشت کرکے آرہے ہو؟‘‘ حسب توقع پاز پرس شروع ہونے جارہی تھی۔
ہمیں معلوم تھا اس وقت صحیح بات بتانا ہمیں قرطاس ارض سے حرف غلط کی طرح مٹادے گا لہٰذا ٹہلتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہہ کربات ٹہلائی:
’’کھانے پر بتاتے ہیں۔‘‘
کھانے پر اماں کا سوالیہ اور ہمارا نظریں چراتا چہرہ۔
’’ کھانا کھانے دیں پھر اطمینان سے بتاتے ہیں۔‘‘ ہم نے اماں کو آخری بار ٹالا۔ معلوم تھا اب فرار کی مزید کوئی راہ نہیں۔ کھانے کے بعد پھر آ موجود ہوئیں۔
’’اتنا سسپنس پھیلانے کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ اماں کے لہجےمیں ہزار تشویشیں گھلی تھیں۔
’’ویزہ لگوانے گئے تھے۔‘‘ سچ بولے بغیر نجات کی کوئی راہ نہیں تھی۔
’’ہوش میں تو ہو؟‘‘
ہم خاموش رہے۔ کچھ بولنے کے نتائج دشمنوں کو خوش کرنے والے ہوتے۔
’’اکیلے جاؤ گے؟‘‘ہماری خاموشی سے تنگ آکر پوچھا۔
’’ہمم۔‘‘چہرہ جھکائے جواب دیا۔
’’اپنے ابا کو بتایا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ویزہ لگ گیا تو بتا دیں گے۔‘‘
’’بتا دیں گے، یعنی اطلاع دیں گے، اجازت نہیں لیں گے؟‘‘
’’ابا نے منع کردیا تو نہیں جائیں گے۔‘‘
اماں کچھ سوچتی نظروں سے گھورتی ہوئی چلی گئیں۔
اتنی خاموشی کا نتیجہ لازماً طوفان کی پیش گوئی ہوتا ہے۔ اور طوفان برپا ہوگیا۔رات کھانے کے بعد اماں نے آواز دے کر بلا لیا:
’’تمہارے ابا کا فون ہے، آکر بات کرلو۔‘‘ اماں نے ریسیور ہمیں تھما دیا۔
اماں نے جدّہ کال ملادی تھی۔ایک لمحے میں ہزار خوف، ہزار خیال دل پر سے گزر گئے۔ اماں نے کیا بتایا ، کس طرح بتایا، ڈانٹ پڑے گی، ابا غصہ ہوں گے، جانے سے منع کردیا تو اجازت کیسے ملے گی۔
’’تمہاری امی کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ابا نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ہم نے لہجے میں لاعلمی سمونے کی کوشش کی۔
’’انڈیا جانے کا ارادہ ہے ؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’بتایا کیوں نہیں؟‘‘
’’ سوچا پہلے کچھ تیاری کرلیں پھر بتاتے ہیں۔‘‘ دل میں جو تھا بتادیا۔
’’ کہاں تک تیاری پہنچی؟‘‘
’’ویزہ لگنے دیا ہے۔‘‘
’’ہممم۔‘‘ ابا کی آواز میں گہری سوچ تھی۔
’’اچھا مجھے کچھ سوچنے دو ، کل بات کرتا ہوں۔‘‘
ہم نے گہری سانس لے کر فون بند کردیا۔ اگلی رات ابا کا فون آنے تک ہزاروں وسوسے اندیشے آتے رہے جاتے رہے۔ رات دس بجے فون کی گھنٹی بجی۔ دھڑ دھڑ کرتے ہوئے دل سے فون اٹھایا۔ امید تھی ابا کی کال ہوگی۔ واقعی انہی کی تھی۔
’’ اکیلے سفر کرلو گے؟‘‘ سلام دعا کے بعد پہلا سوال آیا۔
’’جی کرلیں گے۔‘‘
’’کسی قسم کا خوف یا گھبراہٹ؟‘‘ نجانے ابا نے کیوں پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ ہم نے مضبوط لہجے میں کہا۔
ہم اپنے ملک میں اکیلے سفر کرنے کے عادی تھے لہٰذا سفر کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اسی لیے دل کو یہی سمجھایا کہ سفر یہاں کا ہو یا وہاں کا ڈرنے کی کیا بات ہے، اور وہاں پہنچتے ہی چچا لینے آجائیں گے، پھر آگے کی وہ جانیں ان کا کام۔ ویسے بھی اس وقت ابا کے سامنے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھانے کا مطلب صاف انکار سننا تھا۔
’’اچھی بات ہے۔ مجھے یہی سننا تھا۔ اب بڑے ہورہے ہو تو بڑا بن کے بھی دکھاؤ، بڑے کام کرو، محض زندگی کے سال میں اضافے سے آدمی بڑا نہیں بنتا۔ آج تمہارے چچا سے بات ہوئی ہے، انہوں نے اطمینان دلایا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، میں دلّی ائیر پورٹ پہنچ جاؤں گا۔ اگر تمہارا ویزہ لگ جائے تو مجھے بتانا، کراچی میں کسی دوست سے کہہ کر جہاز کی سیٹیں بک کرادوں گا۔‘‘
معلوم نہیں ابا نے کن کن لوگوں کو فون کھڑکا دیا تھا، ان سے کیا کیا معلومات حاصل کی تھیں۔ اتنی دور بیٹھ کر باپ کا اولاد کے لیے فکر مند ہونا لازمی بات تھی۔ ابھی بھی اجازت دے رہے تھے لیکن لہجے میں تشویش واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی۔
’’ ہم جہاز سے نہیں جارہے ٹرین سے جائیں گے۔‘‘ ہم نے ایک اور دھماکہ کردیا۔
’’بیٹا تم میری پریشانی بڑھاتے جا رہے ہو۔‘‘ ابا مزید پریشان ہوگئے۔
’’ابو، حسّانہ بھی ٹرین سے جاتی ہے اور کیا کیا کرتب دکھاتی ہے۔ ہم بھی یہ سب کرسکتے ہیں۔‘‘ دل کی اصل بات زبان پر آگئی۔ ہمارا اصل کمپٹیشن حسّانہ سے تھا۔ جب وہ کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہم نے ابا کو تفصیل سے حسّانہ کے کارنامے بتائے۔ پہلے تو ہنسے پھر کہا:
’’بیٹا، وہ لوگ ہر سال جاتے ہیں، کسٹم کے سارے مراحل سے بخوبی واقف ہیں، حسّانہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہے، جو کسی بھی قسم کی اونچ نیچ سنبھال سکتے ہیں۔ ابھی تم نے وہاں دیکھا ہی کیا ہے؟ جہاز کی نسبت ہزار مشکلات ہیں۔‘‘ جن باتوں نے ہمیں اس تھرل پر اکسایا تھا وہی باتیں ابا کو پریشان کررہی تھیں۔
’’ابو، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم سے ویزہ اپلائی کرتے وقت پوچھا گیا تھا، سفر جہاز سے ہوگا یا ٹرین سے۔ ہم نے ٹرین لکھوادیا ۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ابا نے بے بسی سے کہا۔
’’ چلو، اللہ مالک ہے۔‘‘
گویا ابا کی طرف سے ہاں تھی۔ اماں نے سنا تو منہ بنا کر بیٹھ گئیں:
’’ تمہارا تو سارا خاندان ہی باؤلا ہے۔‘‘ اشارہ واضح طور پر سسرال کی جانب تھا۔
اب ہم شیر ہوگئے تھے، خوب دندناتے پھرتے تھے۔ ہر ایک کو ببانگ دہل بتاتے انڈیا جارہے ہیں۔ خاندان والے ہمیں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے جبکہ دوست احباب تجسس بھری نظروں سے کہ وہاں جا کر کیا لنکا ڈھاتے ہیں۔
اندیشہ تھا کہ دی گئی تاریخ سے ویزہ ملنے میں ایک دو دن تاخیر نہ ہوجائے اس لیے ہم نے احتیاطاً ویزہ ملنے کی تاریخ سے چند دن آگے کی سیٹ بک کرالی تھی، کراچی سے لاہور کی۔ ہوسکتا ہے عین وقت پر سیٹ نہ ملے اور مزید وقت ضائع ہو۔ ہماری کوشش تھی کہ آنٹی کے پاکستان واپس آنے سے پہلے پہنچ جائیں۔ تاکہ ان کے ساتھ مل کر سب سے ملیں۔ کیوں کہ اس پاکستانی کی ہندوستانیوں سے بالکل واقفیت نہیں تھی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
ویزہ ملنے سے پہلے ہزار لوگوں نے ہزار طرح سے ڈرایا:
’’ کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، نوجوان لوگوں کو ویزہ نہیں ملتا، اور اکیلے کو تو ناں ہی سمجھو۔‘‘
ایک نے کہا:
’’اکیلے جانے کی غلطی نہ کرنا، نوجوانوں کو تو بالکل نہیں چھوڑتے، جاسوسی کے الزام میں دھرلیتے ہیں۔ ‘‘
ایک صاحب نے ماضی حال کے تمام اخبارات کھول کھول کر دکھائے۔
’’یہ دیکھو، یہ لوگ کتنے برسوں سے جیل میں ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں، حکومت بھی کوئی خبر گیری نہیں رکھتی۔‘‘

لوگ لرزاتے رہے اور ہم لرزتے رہے۔لیکن سر پر جانے کی دُھن سوار رہی۔ یہاں تک کہ ویزہ ملنے کی تاریخ آگئی۔ ڈرتے لرزتے انڈین قونصلیٹ پہنچے۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ نمبر آنے پر پاسپورٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا، ہاتھ مزید لرزگیا ، ویزہ لگا یا نہیں۔ ہزار تشویشیں دماغ میں کوندنے لگیں، دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔ جلدی جلدی پاسپورٹ کے سارے صفحات دیکھے، سب خالی، کہیں ویزے کا نام و نشان نہیں،حلق خشک ہوگیا۔ ساری محنت اور بھاگ دوڑ پر پانی پھر گیا، لوگوں کا کہا سچ ہوا، نوجوانوں کو ویزہ نہیں ملتا!!!

ہم نے زرد چہرے اور پھیکے لہجے میں پاسپورٹ تھمانے والے بابو سے پوچھا کیا ویزہ نہیں لگا؟ اس نے ہمارے ہاتھ سے پاسپورٹ لیا اور صفحات الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ یہ کام تو ہم کر ہی چکے تھے۔ دل میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوئی، ناحق وقت ضائع کررہا ہے۔ اتنے میں اس نے پاسپورٹ ہمیں واپس کردیا، لیکن وہ صفحہ کھول کر جس پر جا بجا انڈین قونصلیٹ کی مہریں لگی ہوئی تھیں، آخری صفحے سے ایک دو صفحات پہلے۔ شاید گھبراہٹ میں ہماری نظروں سے نکل گئے تھے۔ مارے خوشی کے ہم صفحے پر لگی مہریں دیکھ رہے تھے، تبھی کاؤنٹر والے بابو نے چند صفحات اور تھمادئیے۔ جس پر ان شہروں کی تفصیلات تھیں جہاں کے ویزہ کے لیے ہم نے اپلائی کیا تھا۔ ان میں دو جگہیں شامل نہیں تھیں، بمبئی اور جے پور!!!

نہ جانے ان کو ہم سے کیا خطرہ تھا۔ ہم سے بات کرتے تو انہیں کامل یقین دلاتے کہ نہ تو ہم آپ کی فلم انڈسٹری میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہونے بمبئی جارہے ہیں نہ ہی آپ کے گلابی شہر جے پور کا رنگ و روغن تبدیل کرنے کی غرض و غایت رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس موضوع پر بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ خیر، اپنا ہی معاشی نقصان کیا۔ ہم نے ان شہروں کی سیاحت پر اتنا پیسہ لُٹانا تھا جن سے بھارت کا سرکاری خزانہ بھر جاتا۔ ویزہ لُوٹ کر گھر لوٹے تو ہمارے چہرہ پر گلاب کِھل رہے تھے، چاند دمک رہا تھا،سورج چمک رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور اماں کے چہرہ پر۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ!!!

ریل کی ٹکٹ بُک تھی۔ اب سامان کی پیکنگ شروع کی۔ لوگ باگ آتے گئے مشورے دیتے گئے۔ رشتے دار بڑی بوڑھیاں ہمیں مشورے دیتیں اور اماں کو ہولیں۔ ہولایا تو خیر لوگوں نے ہمیں بھی بہت:
’’اب منع کرنے کے باوجود جاہی رہے تو پکڑے جانے سے قبل بچنے کی اپنے تئیں کوششیں ضرور کرلینا۔‘‘ ایک کزن جاتے جاتے بھی ہولانے سے باز نہ آیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ ہم نے چہرہ پر سوالیہ نشان بنایا۔
’’باہر نکلتے وقت پینٹ شرٹ پہننا، شلوار قمیض نہیں، ورنہ دور سے ہی پہچان کر دھر لیے جاؤ گے۔‘‘
’’مزید کچھ؟‘‘ ہم نے اس بات کو دماغ میں بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ اجنبیوں، دوکان داروں اور رکشہ والوں سے زیادہ پٹر پٹر باتیں نہ بنانے بیٹھ جانا۔ لہجے سے فوراً پہچان لیے جاؤ گے۔‘‘ کزن کی اماں نے گول شیشوں والی عینک کے پیچھے سے آنکھیں گھمائیں۔
’’اور فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ ہمیں سبق اچھی طرح یاد ہوگیا تھا۔
اپنی پڑھائی پٹی پر ہمارا عبور دیکھ کر کزن کی اماں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔

ہم واحد سوٹ کیس میں سامان رکھتے اور دماغ میں لوگوں کے مشورے۔ ہمارے جانے کا سن کر لوگ آتے اور ہمیں تحائف سے نوازتے۔ خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،تمام تحفے انڈیا میں رشتے داروں کو بھیجنے کے لیے دئیے جارہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوٹ کیس سے ہمارے کپڑے نکلتے گئے اور لوگوں کے تحائف بھرتے گئے۔ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ سیاح آدمی کو سامان سے کیا سرو کار۔ وہ تو جتنا کم سامان ہو اتنا ہلکا رہتا ہے۔ اور یہاں اصل سے زیادہ سود اٹھانا پڑ رہا تھا۔

خدا خدا کرکے وقتِ روانگی آگیا۔ اماں نے صبح سے چپ لگا رکھی تھی۔ ہم سمجھ رہے تھے سارا خفگی کا اثر ہے۔سہ پہر کا وقت ہوگا، دروازے کے باہر ٹیکسی کھڑی تھی اور دروازے پر اماں۔سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کیا سلام دعا ہوئی اور اماں نے فی امان اللہ کہا۔ ہم نے جاتے جاتے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر اماں کو دیکھا۔ چہرہ پر سنجیدگی اور سختی تھی جیسی کوئی پرواہ نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ اور آنکھوں میں معمول سے زیادہ نمی، جیسے بہت کچھ ہوگیا۔ دل اداس ہوگیا اور پاؤں بوجھل۔

تبھی ٹیکسی والے نے بے چین ہوکر ہارن بجانا شروع کردیا۔ ہم بوجھل دل لیے اماں کو اسی حالت میں کھڑا چھوڑ کے آگے بڑھ گئے۔ اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز بھی نہ سنی۔ نہ جانے اماں دروازے پہ کب تک کھڑی رہی ہوں گی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
سفرنامۂ ہند
مابدولت کی جانب سے برادرم سید عمران کے سفر ہندوستان کی صوتی روئیداد ۔
 

سید عمران

محفلین
دوپہر کو بابر آیا تو کچن میں چچی کے پاس کھڑا ہوکر کچھ ضد کرنے لگا۔ چچی اسے سمجھارہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد گھر سے باہر چلا گیا۔
ہم نے چچی سے پوچھا:’’کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
’’بھوک لگ رہی تھی، پیسے مانگ رہا تھا کہ باہر سے کچھ لے کر کھالوں گا، میں نے سمجھایا کہ بھوک خراب ہوجائے گی، تھوڑا انتظار کرلو، ابھی کھانا تیار ہوجاتا ہے ، مگر نہیں مانا، آخر پیسے دینے ہی پڑے۔‘‘
’’کیا چیز کھانے گیا ہے؟‘‘ سرسری انداز سے پوچھا۔
’’وہی چپس پاپڑ کھائے گا اور کیا۔‘‘ سرسری انداز سے جواب دیا گیا۔
’’کیا ؟؟؟ چپس؟؟؟ صبا جلدی سے بھاگ کے آؤ۔‘‘ صباکو بھی شامل کر لیا گیا۔
صبا کے ساتھ ساتھ آنٹی بھی گھبرا کے آگئیں۔
’’کیا ہوا عمران بھائی؟‘‘ صبا حیرت زدہ تھی۔
’’ چپس کھانے ہیں؟‘‘ معلوم تھا کہ انکار نہیں ہوگا لہٰذا صرف تاکید کے لیے پوچھا تھا۔
’’کہاں مل رہے ہیں؟‘‘ للچائی ہوئی آواز میں پوچھا گیا۔
’’بابر لینے گیا ہے اسی کا حصہ ماریں گے۔ چچی کس دوکان سے لینے گیا ہے؟‘‘ صبا کو اطلاع دے کر چچی سے پوچھا۔
’’گلی سے نکل کر سڑک پار نکڑ والی دوکان سے۔‘‘ چچی نے مفصل ایڈریس سمجھایا۔
’’بھاگو صبا، جلدی کرو۔‘‘ دونوں تیزی سے باہر نکلے۔ پیچھے آنٹی کی دانت پیستے ہوئے آواز سنی:
’’جب تک کھانے کے بعد موئے چپس نہ اَڑا لیں ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔‘‘
آنٹی کی بات کا جواب دینے کی ضرورت تھی نہ وقت۔ بھاگم بھاگ گلی سے نکل کر سڑک پار نکڑ والی دوکان پر پہنچے۔ مگر وہ تو بھائیں بھائیں کررہی تھی۔ بابر کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ ہم نے ہمت ہاری نہ ہار مانی۔ دوکان دار سے پوچھا:
’’بابر آیا تھا؟‘‘
کہا: ’’ہاں۔‘‘
’’کچھ خریدا؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’چپس، پاپڑ اور سیو۔‘‘
’’گیا کہاں ہے؟‘‘
’’گھرہی گیا ہے۔‘‘اس نے گھر جانے والے واحد راستے کی طرف اشارہ کیا۔
’’گھر میں تو ہے نہیں، راستے میں بھی نظر نہیں آیا، آخر گیا کہاں؟‘‘ ہم واپس جاتے ہوئے حیران تھے۔
’’عمران بھائی ادھر آئیں۔ بیٹھک میں ہی ہوگا۔‘‘ صبا نے بیٹھک کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
ڈیوڑھی سے پہلے بیٹھک کا دروازہ آتا ہے، چچا کے دوست یا مرد مہمانوں کی آمد پر کھلتا ہے یا کسی بڑی دعوت پر، ورنہ عموماً بند رہتا ہے، آج کھلا ہوا تھا، اندر بابر کی موجودگی کا امکان تھا جس کے پاس چپس تھے۔ ہم بیٹھک میں داخل ہوگئے۔ بڑا سارا کچا صحن تھا جس کے آخر میں ہال نما بڑا سا کمرہ تھا۔ داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر باتھ روم بنے تھے۔ ہم سیدھے ہال نما کمرے میں چلے گئے۔ اندر چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں، ایک چارپائی پر بابر بچھا ہوا تھا۔ ہاتھ میں چپس کا لفافہ۔
’’بابر، بدتمیز انسان اکیلے اکیلے کھاتے ہوئے شرم نہیں آئی۔‘‘ صبا نے ڈائیریکٹ لفافے میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر چپس نکال کر ہماری طرف بڑھائے۔
ہم جن چپس پہ قیاس کیے بیٹھے تھے یہ تو اس کے بالکل برعکس نکلے۔ موٹے موٹے مصالحہ لگے۔ کھا کر دیکھے تو اتنا برا ذائقہ نہیں تھا۔ سیو مکس بھی کافی موٹے تھے۔ لیکن فی الحال دور کی نسبت بھی کافی تھی۔ اتنے دنوں سے اسنیکس کا ایک دانہ بھی اڑ کے منہ میں نہیں گیا تھا، آج برسوں کے ترسے ہوؤں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ چلّو بھر اسنیکس ہمارے ہاتھوں لٹتے برباد ہوتے دیکھ کر بابا کا منہ دیکھنے والا تھا۔ ہم سے نہ رہا گیا پوچھا:
’’ کتنے کا سامان تھا؟‘‘
بولا:’’دو روپے کا ۔‘‘
ہم نے دس روپے ہاتھ میں پکڑائے کہ خوب جی بھر کے لے کر آؤ۔ اس روز خوب پیٹ بھر کے اسنیکس کھائے ۔کھا پی کے باہر صحن میں آئے تو دیکھا کہ سب لوگ دیوار کے پاس کھڑے ہیں۔ چچی کے ہاتھ میں بانس نما ڈنڈا ہے۔ لال اینٹوں کی دیوار سے ایک اینٹ اکھاڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔سب مشورے دے رہے ہیں:
’’اسی اینٹ کو اکھاڑیں۔ یہیں چھپتے دیکھا ہے۔‘‘
’’ اتنی سی جگہ میں کیا خزانہ چھپا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ سب کی توجہ اینٹ اکھاڑنے پر لگی ہوئی تھی۔ جب اینٹ ڈھیلی ہونے لگی تو چچی نے کہا:
’’سب لوگ دور ہٹ کر کھڑے ہوجائیں، کہیں اچھل کر کسی پر حملہ نہ کردے۔‘‘
’’کیا چیز ہے یہاں۔‘‘ ہم شش و پنج میں تھے۔
سب دور ہٹ کر کھڑے ہوئے اور اینٹ اکھڑ کر گر پڑی۔ اس کے پیچھے خاکی رنگ کا بڑا سا بچھو تھا۔
’’ای ی ی خ خ خ۔‘‘ہمیں جھرجھری آگئی۔ زندگی میں پہلی بار بچھو اور اس کا سر اٹھائے بڑا سا ڈنک دیکھ رہے تھے۔
ابھی بچھو بھاگنے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ڈنڈے کے پے در پے وار کرکے اس کا کچومر نکال دیا گیا۔
’’یہ تو ہمارے گھر بھی آسکتا ہے۔‘‘ ہمیں نیچے دری پر بیٹھنے کے خیال سے ہی ڈر لگنے لگا۔
’’او کچھ نہیں ہوتا عمران بھائی۔ کبھی کبھار کہیں سے آجاتا ہے۔ ہر وقت نہیں ہوتا۔ جیسے ہی نظر آتا ہے مار دیتے ہیں۔‘‘
شائستہ نے مسکراتے ہوئے تسلی دی۔ لیکن ہمارے دل کے خدشات دور نہ ہوئے۔
’’اگر ہمیں کاٹنے کے بعد کسی کو نظر آیا تو اس وقت تک تو ہمارا کام ہوگیا ہوگا۔‘‘ اس کے بعد سے ہم رات کو چارپائی پر ہی سوتے رہے۔

بقول آنٹی اسنیکس اتنے اَڑا لیے تھے کہ دوپہر کو کھانے کی بھوک نہ تھی۔ پھر بھی چچی سے پوچھ لیا کہ کیا پکا ہے۔ ہوسکتا ہے نظرِ ثانی کی کوئی صورت نکل آئے:
’’کٹے کا گوشت۔‘‘ چچی نے بتایا۔
’’شکر ہے۔ ویسے بھی ہمیں کھانا نہیں تھا!!!‘‘

شام کو چائے پر آنٹی نے کہا :‘‘کل سہارن پور جانا ہے۔‘‘
’’کس کے یہاں؟‘‘
’’بڑی باجی کی نند کے یہاں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اسی بہانے سہارن پور بھی دیکھ لیتےہیں۔‘‘
سہارن پور بس سے پون گھنٹے کا راستہ تھا۔ دیوبند کی نسبت بڑا شہر تھا۔ سڑکیں بھی دلی کی طرح تو نہیں لیکن نسبتاً کشادہ تھیں۔ یہاں بھی لڑکیاں دھڑلے سے سائیکل چلاتی پِھر رہی تھیں۔ بڑی پھوپھی کی نند کے گھر پہنچے۔ ہاتھ میں آنٹی کا چھوٹا بیگ تھا جس میں دو دن ٹھہرنے کے کپڑے تھے۔ نند بڑی عمر کی خوش مزاج خاتون تھیں۔ بچوں کے بھی بچے ہوچکے تھے۔ جاتے ہی میٹھے رسیلے سیب سے تواضع کی۔
’’سیب کا مصالحہ چھڑک دوں۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’یہاں سیب کے لیے بھی مصالحہ ہوتا ہے؟‘‘ ہماری حیرت بجا تھی۔
’’سیب کے لیے نہیں، فروٹ کے لیے مصالحہ ملتا ہے۔‘‘
مصالحہ کے ساتھ سیب کھائے تو الگ ہی لطف آیا۔
دوپہر کو کھانے میں لال رنگ کے لوبیا کا سالن تھا۔ ہم نے لوبیا تو کھائے ہیں لیکن سفید رنگ کے، وہ بھی چنے کی طرح ابلے ہوئے، اوپر سے چاٹ مصالحہ چھڑک کر۔
’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘ ہم نے سالن میں لال لال لوبیے تیرتے دیکھ کر پوچھا۔
’’راجما ہے۔ چاہو روٹی سے کھاؤ۔ چاہو خشکے سے۔‘‘
ہم نے دونوں طرح سے کھایا اور بہترین لطف پایا۔

کھانے کے بعد صبا نے کہا کہ سلیم بھائی کی دوکان پر چلتے ہیں۔سلیم بھائی نند صاحبہ کے بیٹے تھے۔ گھر کے سامنے ہی آیور ویدک دواؤں کا مطب تھا۔ وہاں جا کے سلام دعا ہوئی ۔ حسب معمول یہاں کے لوگوں کی طرح خوش مزاجی سے ملے اور جلد ہی بے تکلف ہوگئے۔ میز پر انگریزی اخبار رکھا تھا۔ کافی دنوں سے اخبار نہیں دیکھا تھا، گھر پر عموماً ہندی اخبار آتے تھے اور ہندی سے ہم بالکل نابلد تھے ۔اخبار اٹھا کر جو سب سے پہلی لائن پڑھی وہ آج تک یاد ہے، کیوں کہ ہمارے ہی متعلق تھی۔ مضمون نگار نے لکھا تھا: ’’پاکستان پر تین ’’اے‘‘ کی حکمرانی ہے، اللہ، آرمی اور امریکہ!!!‘‘
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سہارن پور سے واپس آچکے تھے۔ اس دن کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ تبھی معین نے کہا کہ مظفر نگر کا چکر لگاتے ہیں، سیر بھی ہوجائے گی اور وہاں آپ اپنے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا گھر بھی دیکھ لیں گے۔ اسی وقت معین کے ساتھ ہولیے۔ دیوبند سے مظفر نگر بس کے ذریعے آدھے گھنٹے کا راستہ ہے۔ سرسبز کھیتوں کھلیانوں کے درمیان سے سڑک گزرتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب درختوں کی شاخیں اوپر سے سر جوڑے رہتی ہیں۔ بعض جگہوں پر اتنے گھنے درخت تھے کہ لگتا تھا آگے راستہ نہیں ہے۔ مگر جوں جوں آگتے بڑھتے جاتے راستہ کھلتا جاتا۔

راستہ میں ایک گوشت کی دوکان دیکھی۔ غیر معمولی موٹی موٹی رانیں لٹکی ہوئی تھیں اور رنگ اتنا چمک دار سرخ گویا یاقوت ہو۔ ایسا گوشت پہلے مرتبہ نظر سے گزر رہا تھا۔ فوراً معین سے پوچھا:
’’یہ گوشت کس جانور کا ہے اتنا سرخ۔‘‘
اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور ہونٹ مسکرانے۔
’’ادھر دیکھو بھی نہیں عمران بھائی۔ یہ سور کا گوشت ہے۔ عموماً یہاں جمعداروں کی برادری والے کھاتے ہیں۔‘‘

بعد میں ایک دفعہ دیوبند میں ان کے علاقے سے گزر ہوا تو ایک گندے نالے کے گرد جابجا کالے رنگ کے سور کھلے پھرتے نظر آئے۔ شاید یہیں سے پلے پلائے مسٹنڈے سور دکانوں پر کاٹ کر فروخت کیے جاتے تھے۔

مظفر نگر سہارن پور کی بنسبت چھوٹا اور پُر سکون شہر ہے۔ بس سے اتر کر گھومتے گُھماتے پاکستان کے سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کی عظیم الشان حویلی کے سامنے جاپہنچے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان صرف اس عظیم حویلی کے مالک نہیں تھے بلکہ یو پی اور کرنال میں تین سو گاؤں کے بھی مالک تھے۔ اتنی عظیم الشان جائیدادوں کے مالک ہوتے ہوئے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ اور مرتے وقت چند سکوں کے مالک نکلے۔ اس ملک کی ریت بھی عجیب ہے۔ کچھ نے اپنا آپ نوچ نوچ کر اس پر لگادیا کچھ اسے نوچ نوچ کر اپنے آپ پر لگا رہے ہیں!!!

رات چچا نے کہا:’’صبح دہرہ دون چلیں گے تیار رہنا۔‘‘
صبح ناشتے کے بعد ہم تیار ہوئے، دہرہ دون جانے والی بس میں بیٹھے اور تقریباً دو گھنٹوں بعد شہر میں اتر گئے۔ موسم بڑا سہانا تھا۔ سرسبز شہر تھا اوپر سے سیاہ گھنگھور گھٹائیں امڈ آئیں اور چھم چھم برسنے لگیں۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا اندھیرا اور ہلکا ہلکا اجالا تھا، فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ تبھی ہم ایک ہوٹل میں گئے۔ کھانے کا آرڈر دیا۔ آرڈر کے جواب میں دو تھالیاں آئیں۔ ایک ہمارے لیے، ایک چچا کے لیے۔ گول تھالیوں میں ایک بڑا سا دائرہ تھا، اس میں چاول یا پوری چپاتی رکھی جاتی تھی، اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے چند دائرے اور تھے، ان میں مختلف قسم کے سالن رکھے جاتے تھے۔ ہماری تھالی میں بڑے دائرے میں گرم گرم پوری تھی جبکہ چھوٹے دائروں میں آلو، بھنڈی، چنا اور اچار تھا۔ دلچسپ سین آن تھا۔ خوب مزے سے پہلے پوری اور بعد میں چاول سے مختلف ترکاریوں کا اچار سے لطف اٹھاتے رہے۔ پھر گرما گرم چائے پی۔

باہر بارش تھم چکی تھی۔ ایک بس میں بیٹھ کر مضافات کی طرف روانہ ہوگئے۔ بس میں یونیورسٹی کے طالب علم بیٹھے تھے۔ ایک چرب زبان طالب علم نہایت ٹھیٹھ ہندی میں دوسروں کو تیز طرار انداز سے نہ جانے کیا فلسفہ بگھار کر سمجھا رہا تھا ہمارے پلّے ککھ نہ پڑا۔ بلکہ ڈر لگ رہا تھا کہ ہماری طرف متوجہ ہوکر کچھ کہہ دیا تو ہماری کھڑے کھڑے ’’بے زتی‘‘ خراب ہوجائے گی۔

بس شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دریا نظر آنے لگا۔ یہاں ایک جگہ پکنک اسپاٹ بنا تھا دوکانیں تھیں اور بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا بندوبست تھا۔ ہم دریا میں پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر پاؤں گیلے کیے وارم اپ کی جگہ کول ڈاؤن ہوئے اور دریا میں چھلانگ لگادی۔ یہ منظر اسلام آباد کے شاہدرہ چشمے جیسا تھا بس پہاڑ ذرا دور دور فاصلے پر تھے، کشادگی کا احساس ہورہا تھا۔ جس طرح شاہدرہ سے آگے جائیں تو تقریباً ایک گھنٹے بعد مری کا ہل اسٹیشن آجاتا ہے اسی طرح یہاں سے آگے جائیں تو ایک گھنٹے بعد مسوری کا ہل اسٹیشن آجاتا ہے۔ چچا کے پاس وقت کی کمی کے باعث مسوری نہ جاسکے اور نیچے ہی نیچے سے ہاتھ ہلا کر واپس آگئے!!!
 

سید عمران

محفلین
تین دنوں سے لگاتار برسات برس رہی تھی۔ ہم گھر میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔تین دن مسلسل بارش کا زندگی میں پہلی بار تجربہ ہورہا تھا۔ کراچی میں زیادہ سے زیادہ ایک آدھ گھنٹہ بارش ہوئی اور بس۔ بارشوں کے اتنے طویل سلسلے کے بارے میں بڑے بزرگوں سے جو سنا تھا اسے عملی طور پر دیکھ رہے تھے۔ نہ جانے کتنی دعاؤں کے بعد تیسرے دن یہ سلسلہ کچھ تھما۔ عصر کے وقت ہلکی ہلکی دھوپ نکل آئی۔ تب اچانک آسمان پر یہ منظر دیکھا کہ صحن کے اوپر سے چمکدار رنگین قوس قزح گزر رہی ہے۔
’’ قوس قزح اتنی بڑی ہوتی ہے۔‘‘ ہم سچ مچ حیران رہ گئے تھے۔
’’کیا بولا عمران بھائی؟‘‘ شائستہ حیرت زدہ سی تھی۔
’’قوس قزح۔ تم لوگ اسے کیا کہتے ہو؟‘‘
’’اِندر دَھنوش۔‘‘ دونوں کو ایک دوسرے کے الفاظ نامانوس اور قدرے مشکل لگ رہے تھے۔

جگنو، دھنک،برسات۔ فطرت کے کتنے قریب ہے یہ زندگی۔ سادگی، ملنساری، رشتہ داروں سے میل جول عین انسانی فطرت ہے یہ زندگی۔ بڑے شہر والے اپنے اپنے گھر میں قلعہ بند اپنی ذات میں محصور رہتے ہیں، نہ یہ کسی کو پوچھتےہیں، نہ کوئی انہیں پوچھتا ہے، اپنی ذات کے حصار میں تنہائی کا ڈپریشن جھیلتے سسکتے زندگی گزارنا کس قدر اذیت آمیز ہے۔ یہاں آکر ہمیں احساس ہوا، انسانوں کی بستی میں انسانوں کے درمیان رہ کر انسان ہونے کا احساس ہوا۔

برسات تھم گئی تھی، بادل قدرے چھٹ گئے تھے۔ سورج کی دھوپ چھاؤں سے آنکھ مچولی جاری تھی تبھی شام کی چائے پر آنٹی نے کہا:
’’کل دلّی چلتے ہیں۔ صبور بھائی بلا رہے ہیں۔ انہوں نے دفتر سے چھٹیاں لے لی ہیں۔ خوب جی بھر کے سیر کریں گے۔‘‘
’’ارے واہ آنٹی۔ کیا بات کہی ہے۔ منہ چوم لیتے اگر دُھلا ہوا ہوتا۔‘‘ ہم بے اختیار گھسا پِٹا جملہ بول گئے اور نتیجتاً پِٹ گئے۔ معلوم نہیں تھا اس کا ری ایکشن توقع کے خلاف نکلے گا۔
’’بدتمیز، مجھے گندا سندا کب دیکھا ہے۔‘‘ ہم نے کمر پر آنٹی کے بھاری بھرکم ہاتھ کی دُھول وصول کی۔ تلملا کر رہ گئے۔ جوابی کاروائی کا سوچ ہی رہے تھے کہ عقل نے مشورہ دیا دلّی واپسی تک بنا کر رکھنے میں خیر ہے۔ اگر موڈ بدل گیا تو دلّی دور است نہ ہوجائے۔ چناں چہ ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ گئے۔ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔

اگلے دن بوریا بستر لپیٹا اور دلّی جانے والی ریل میں بیٹھ گئے۔ چچا نے بس سے منع کردیا تھا۔ دیوبند کے اسٹیشن پربٹھایا اور دلّی اسٹیشن پر صبور بھائی نے وصولا۔ راستے میں صبا کے لباس کو دیکھ کر ایک پرانے گھاگ بڑے میاں نے پوچھا:
’’پاکستان سے آئی ہو بٹیا؟‘‘
بٹیا کو سوار ہونے سے پہلے اچھی طرح پٹیا پڑھادی گئی تھی کہ پاکستان کا نام ہرگز نہیں لینا۔ جبھی بٹیا نے کہا:
’’دیوبند سے آرہے ہیں۔‘‘
بوڑھے نے ہلکا سا قہقہ لگایا گویا کہہ رہا ہو اچھا بے وقوف بنایا۔ ہمیں بھی یقین تھا کہ بڑے میاں کو بٹیا کی بات پر یقین نہیں آیا۔ لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر کچھ تعرض نہ کیا۔ دلّی اسٹیشن پر صبور بھائی موجود تھے۔ دبلے پتلے سنجیدہ سی مسکراہٹ لیے۔صبور بھائی کا گھر پہلی منزل پر تھا چھوٹا سا، مگر کشادہ دلی کی وجہ سے بڑا سا لگ رہا تھا۔ ان کی خوش مزاج بیگم نے دوپہر کے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ کھاتے بولتے عصر ہوگئی، وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ عصر کی چائے پر ہم نے کہا :
’’ہمارے پاس دن کم رہ گئے ہیں۔ اگر آج کی شام بھی ضائع نہ کی جائے تو اچھا ہو۔‘‘
سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ شام کو کہاں جایا جائے۔ بالآخر دو جگہوں کا پروگرام بن گیا۔

مغرب کا وقت ہوگا کہ ہم وسیع و عریض باغ میں داخل ہورہے تھے۔ چاروں طرف دور دور تک گھاس ، پودے اور درخت لگے تھے۔ ان کے عین درمیان بڑا سا سفید رنگ کا کنول کا پھول کھلا تھا۔ یہ لوٹس ٹیپمل تھا۔ بَہائی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ۔ باہر سے اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد ہم اندر داخل ہوگئے۔

اندر سے پوری عمارت ایک وسیع و عریض ہال پر مشتمل تھی، بینچیں لگی ہوئی تھیں، جن پر اِکّا دُکّا لوگ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ہمارے ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا جس کا ہینڈل چلتے وقت چوں چوں کی آواز کررہا تھا۔ اندر وسیع ہال میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔ کبھی کبھار ہمارے اکلوتے بریف کیس کی چوں چوں کی آواز سرجھکائے مراقبے میں منہمک لوگوں کو چونکا دیتی، وہ سر اٹھا کر چوں چوں کی آواز کے منبع کو دیکھتے، ہم پر نظر پڑتی تو ناگواری سے دیکھ کر دوبارہ آنکھیں بند کرلیتے۔

’’چوں چوں۔۔۔آنٹی اس عبادت گاہ میں ان لوگوں کی عبادت کا کیا طریقہ ہے؟ چوں چوں۔۔۔‘‘ ہم نے بریف کیس کی آواز کے درمیان سوال کیا۔
’’پہلے اس کم بختی مارے کی آواز تو بند کرو۔‘‘آنٹی نے دانت پیستے ہوئے بازو نوچا۔ ہم سی کرکے بازو سہلا کر رہ گئے۔
’’یہی ان لوگوں کی عبادت ہے ۔ آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا۔‘‘ آنٹی کی تلملاہٹ پر صبور بھائی کی بیگم نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’‘ ان لوگوں نے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی تمام مذاہب کی اچھی باتوں کو لے کر ایک نیا مذہب بنایا ہے۔ اور عبادت مراقبہ کرنے کو قرار دیا ہے ۔‘‘
’’اگر اس کم بخت بریف کیس کی چوں چوں انہیں عبادت کرنے دے تو۔‘‘ آنٹی کی تلملاہٹ جھنجھلاہٹ میں بدل رہی تھی۔
’’یہاں کی خاموشی میں آواز کچھ زیادہ ہی محسوس ہوہی ہے۔‘‘ ہم نے حقیقتِ حال بیان کرنے کی کوشش کی اور آگے بڑھ گئے۔
چوں چوں کرتے ہوئے ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے لیے عظیم خاموشی چھاگئی۔ کچھ دیر ادھر ادھر کا معائنہ کیا پھر اپنی جگہ سے اٹھے، چوں چوں کرتے ہوئے ہال کی سیر کی اور اپنے پیچھے اتھاہ خاموشی چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ واپسی پر وہاں موجود لوگوں نے کچھ پمفلٹ تقسیم کیے جن میں اس مذہب کے بارے میں معلومات درج تھیں۔

یہاں سے نکل کر کناٹ پلیس آگئے۔ یہ نئی دہلی کا پوش شاپنگ سینٹر تھا۔ خالہ نے چلتے ہوئے تاکید کی تھی کہ میرے لیے ساڑھی ضرور لے کر آنا، انڈیا جیسی ساڑھیاں یہاں نہیں ملتیں۔ ہم کناٹ پلیس گھومنے لگے۔یہاں ساڑھیاں تو تھیں لیکن خالہ کی دی ہوئی رقم ان کے آگے اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہورہی تھی۔
آنٹی نے کہا پرانی دلّی سے میں خود تمہیں ساڑھی دلوا دوں گی۔ ان کے اس وعدے پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ساڑھیوں کی تلاش بند کی۔ ایک نہایت خوبصورت لیڈیز پرس نظر آیا۔ اماں کے لیے پسند کرلیا۔ قیمت تو بہت زیادہ تھی لیکن اماں کی خوشی سے زیادہ نہیں!!!
 
آخری تدوین:
Top