سید عمران

محفلین
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات

انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
شناختی کارڈ کے انتظار میں دس دن گزارے نہیں گزر رہے تھے، ہر دن سو سو برس جتنا گراں تھا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب ہمارے ہاتھ میں پہلا شناختی کارڈ تھا۔ بندوبست پہلے سے تھا لہٰذا شناختی کارڈ لے کر سیدھا پاسپورٹ آفس پہنچے، چوں کہ یہاں نئے نویلے تھے، کچھ معلوم نہیں تھا کیا کرنا ہے لہٰذا وہاں آنے والے پرانے پاپیوں سے پوچھ پوچھ کر سارے مراحل طے کیے، بینک میں فیس جمع کروائی، ٹوکن لیا، طویل قطاروں میں لگے، کتنے فارم بھرے، کئی میزوں کا چکر لگایا اور دفتر والوں کو ارجنٹ پاسپورٹ بنانے کی تاکیدکر کے گھر لوٹ آئے۔
پاسپورٹ دس دن بعد ملنا تھا۔ ابھی پاسپورٹ ملنے میں پانچ دن بعد باقی تھے کہ آنٹی کا فون آگیا:’’تیاری کہاں تک پہنچی؟‘‘
’’پانچ دن بعد پاسپورٹ ملے گا۔‘‘ ہم خوش تھے کہ منزل قریب تھی۔
’’لیکن ہماری تو کل روانگی ہے۔‘‘آنٹی نے بتایا۔
یہ سن کر ہاتھوں پیروں سے گویا جان نکل گئی۔
’’اب ہمارا کیا ہوگا؟‘‘ ہم نے تھکے تھکے انداز میں مریل ہاتھوں سے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
پندرہ دن ہوچکے تھے۔ کل آنٹی اپنی چھوٹی بیٹی صبا اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ جارہی تھیں۔ ہم اپنی طرف سے جان جوکھوں میں ڈال کر ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، لیکن تدبیر پر تقدیر غالب آگئی۔ پندرہ دن پورے ہونے کے بعد آنٹی عازم سفر ہوئیں اور اماں کے دل کی کلیاں کِھل اٹھیں۔ لیکن ہم افسردہ تھے، انڈیا یاترا کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ادھر اماں کی خوشیاں دیدنی تھیں۔
’’کوئی بات نہیں، پاسپورٹ بننا اچھی بات ہے، ہوسکتا ہے کسی اور وقت کام آجائے۔‘‘ اماں جلتی پر تیل ڈال کر کچن میں توے پر تیل ڈالنے چلی گئیں۔ ہمارے رہے سہے جذبات بھی سرد ہوگئے!!!
اب ہمیں پاسپورٹ ملنے کا انتظار تھا نہ اس کے ملنے کی خوشی۔ پاسپورٹ لے کر گھر آئے، بے زاری سے الماری میں پھینکا اور خود کو بستر پر۔ جیسے بھرے پُرے گھر سے ہنستے بولتے مہمان رخصت ہوجائیں تو جو سناٹا چھاتا ہے وہ ہمارے دل پر چھایا ہوا تھا۔ بالکل ناامید تھے، جن کے ساتھ جانا تھا وہ ہی ساتھ چھوڑ گئیں، اب کس کے ساتھ جاتے۔
چند دن بعد آنٹی کا فون آیا۔ ’’ویزہ لگا یا نہیں؟‘‘
’’اب کیا فائدہ؟‘‘ کئی دن گزرنے کے بعد ہم جذباتی کیفیت سے نکل کر نارمل ہوگئے تھے۔
’’ہائیں، آنے کا ارادہ نہیں ہے؟ میں نے تو یہاں سب کو بتادیا کہ تم آرہے ہو، سب اتنا خوش ہیں کہ بار بار پوچھ رہے ہیں عمران بھائی کب آئیں گے۔‘‘
’’ کیا اکیلے آجاؤں؟ تنہا تو کوئی نہیں بھیجے گا، نہ اماں نہ ابا۔‘‘
’’فکر نہ کرو، میں بھائی جان سے بات کرلوں گی، بھابھی کو تم سمجھاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہاں سے جہاز میں بیٹھو، دہلی چھوٹے بھائی لینے آجائیں گے، بس پہنچ گئے انڈیا۔‘‘ انہوں اپنی طرف سے پُرکشش ترغیبیں دیں، بقول اماں میرے بچے کو خوب بھڑکایا، ورغلایا، آگ لگادی، پڑگئی کلیجے میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ!!!‘‘
ویسے یہ تو تھا، آنٹی نے دل میں سرد ہوتی آگ پھر بھڑکا دی تھی۔ ہم بہت دیر تک سوچتے رہے، جائیں، نہ جائیں۔ جائیں تو تنہاء دوسرے ملک کا سفر، دل دھڑکنے لگتا۔ نہ جائیں تو عزیزوں، رشتے داروں اور تاج محل کے دیدار سے محرومی، دل پھر دھڑکنے لگتا۔
اس عالم میں چند اکتاہٹ بھرے دن گزرے تو اچانک خیال آیا کہ ان چھٹیوں سے اکتا کر ہی تو انڈیا جانا تھا۔ ارے واہ!!! دل سے نعرہ نکلا۔ ہم پھر جوش سے بھر گئے۔ ارے بھئی انڈین ویزہ لگوانے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے؟ ہم نے بھارت دیدہ رشتے داروں سے فون پر ٹوہ لینی شروع کی۔
’’ کون جارہا ہے؟’’ اماں کی خالہ زاد بہن نے فون پر پوچھا۔
’’ہم اپنے لیے پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’کس کے ساتھ جارہے ہو؟‘‘ اگلا سوال۔ ارے بھائی ٹوہ ہم لینے والے تھے، شروع آپ نے کردی۔ ہم نے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھائے۔ کیوں باہر کھاتے تو کچھ ناخوشگوار اشیاء کھانے کو ملتیں، جن کا فی الوقت ہمارا کوئی موڈ نہیں تھا۔
’’اکیلے!!!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’باؤلے ہوگئے ہو؟ اکیلے جاؤگے، راستہ آتا ہے؟ وہاں سی آئی ڈی والے اکیلے نوجوانوں کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیا کرو گے جیل میں؟‘‘
’’ہمیں کیا معلوم؟ وہاں جائیں گے تو بتائیں گے۔‘‘ یہاں ہماری دال نہیں گلی۔
اب کسے فون کریں؟ سوچ سوچ کر ایک اور نمبر ملایا۔ ابا کی خالہ کو۔
’’ہم انڈیا جارہے ہیں، اکیلے، اب بتائیں ویزہ کیسے لگتا ہے، اور ہر بات تفصیل سے۔‘‘ وقت ضائع کرنا مناسب نہیں تھا لہٰذا بغیر تمہید کے مدعا پیش کردیا۔
’’ اکیلے ہو تو کیا ہوا؟ تمہیں پتا ہے لاہور پر کسٹم والے کتنا تنگ کرتے ہیں، لمبی لمبی لائنیں لگتی ہیں، لیکن حسّانہ ہر سال جا جا کراتنی تیز ہوگئی ہے کہ یہ جنگلہ پھلانگ، وہ بیرئیر کی راڈ سے نکل، اِدھر جا اُدھر جا، لائن میں گھس سب سے پہلے کاؤنٹر پر کھڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بیٹی کی ’’مردانگی‘‘ کے قصے بگھارنے شروع کردئیے۔ کچھ باتیں بور لگیں ، کچھ سنسنی خیز جو ہمارا مائنڈ کچھ اور سیٹ کرگئیں۔ آخر میں ان سے انڈین قونصلیٹ میں ویزہ لگنے کے مراحل سمجھے اور ایک لمبی سانس لے کر فون بند کردیا۔
اب ہمارے ذہن میں آئندہ کا لائحہ عمل بالکل واضح ہوچکا تھا جسے اماں سے چھپانا از حد ضروری تھا، ابھی آپ کو بھی نہیں بتائیں گے، کہیں اماں نہ سن لیں۔ فوراً انڈیا فون کیا چچا سے بات ہوئی، جن شہروں کا ویزہ لینا تھا وہاں کے ایڈریس لکھے، وہاں کے لوگوں سے کیا رشتے داری تھی وہ سمجھی اور ایک بھرپور ہنکارا بھر کر لائن کاٹ دی۔
آدھی رات کو خاموشی سے اٹھے، واش روم کی لائٹ جلا کر دروازہ کھول دیا، بیڈ روم میں اس کی مدھم روشنی سے گزارا کیا۔ کمرہ کی لائٹ جلتی دیکھ کر اماں نے فوراً آدھمکناتھا۔ سوتے سوتے بھی ہماری پوری خبر گیری رکھتی ہیں۔ اب ویزہ اپلائی کرنے کے لیے سارے کاغذات از سر نو ترتیب دئیے، بار بار دیکھا کوئی چیز کم تو نہیں رہ گئی، کچھ اطمینان، کچھ بے اطمینانی کے عالم میں الارم لگا کر سو گئے۔ صبح چھ بجے انڈین قونصلیٹ پہنچنا تھا۔
جیسے ہی الارم بجا فوراً بٹن دبا کر اس کا منہ بند کیا، ہر لمحہ ڈر، اماں نہ اٹھ جائیں۔ منہ ہاتھ دھویا، بغیر ناشتہ کیے باہر نکلے اور اطمینان بھری سانس لی۔ اماں کو جُل دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایک رکشہ آتا دکھائی دیا تو اسے ہاتھ دکھایا۔ یوں چھ بجے انڈین قونصلیٹ کی بلڈنگ کے آگے پڑی قطار میں کھڑے ہوگئے۔
قطار پڑی اس لیے تھی کہ بیرون شہر سے آنے والے بیسیوں لوگ رات سے بستر بچھائے پڑے تھے۔ اتنی لمبی لائن دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ قطار ختم ہونے تک تو پیدل ہی انڈیا پہنچ جائیں گے، دل میں سوچ کر رہ گئے۔ بھاگنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اپنے پیچھے کھڑے صاحب سے پوچھا:
’’ہماری باری کب آئے گی؟ ‘‘
’’ایک دفعہ گیٹ کھلنے کی دیر ہے، پھر دیر نہیں لگے گی۔ یہ لوگ جلدی جلدی سب کو نمٹادیتے ہیں ۔‘‘ صاحب کی بات سے دل کو تسلی ہوئی۔
’’آپ کراچی سے ہی ہیں؟؟؟‘‘ صاحب نے پوچھا۔
’’جی۔ اور آپ؟؟؟‘‘ ہم نے بھی اخلاقاً پوچھ لیا۔
’’ٹنڈو آدم سے۔‘‘ صاحب نے کہا۔
’’اچھا سندھ سے آئے ہیں۔‘‘ ہم نے بظاہر جوش دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’کراچی تو انگلینڈ میں ہے نا۔‘‘ جلا کٹا طنزیہ جواب آیا۔
’’اوہ۔‘‘ ہم نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کیسا بے وقوفانہ سوال تھا۔ اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ ہمیشہ سندھ سے پہلے اندرون لگانا نہیں بھولتے۔
نو بجے گیٹ کھلا، آہستہ آہستہ قطار آگے سرکنے لگی۔ دس بجے تک صبح کی باد نسیم کے جھونکوں کی جگہ سر جھلساتا سورج سر پر سوار ہوگیا تھا۔ چار گھنٹے سے بھوکے پیاسے کھڑے تھے، ٹانگیں الگ جواب دے رہی تھیں، کہیں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ غرض اچھا خاصا تزکیہ نفس ہورہا تھا۔
خدا خدا کرکے عمارت کے اندر داخل ہوئے، سب سے پہلا احساس سورج کی تپش سے نکل کر سائے اور ٹھنڈک میں آنے کا تھا۔ میز کے پیچھے بیٹھے ادھیڑ عمر کے بابو صاحب نے سر سے پیر تک دیکھا اور نہایت نرم لہجے میں پوچھا:
’’بیٹا آپ کے ساتھ اور کون ہے۔‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’مطلب اکیلے جاؤ گے۔‘‘ نرم لہجے کے ساتھ لبوں پہ مسکراہٹ بھی آگئی۔
’’جی۔‘‘
’’کوئی رشتے دار فوج میں تو نہیں ہے؟‘‘ اگلا سوال ہوا۔
ہم نے خوب سوچا، دھیان سے ایوب خان، ضیاء الحق وغیرہ جیسے مشہور فوجیوں سے رشتہ نکالنا چاہا مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔
’’نہیں جی۔ ہمارا فوجیوں سے کیا لینا دینا۔‘‘
بابو صاحب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘
ہم نے جھٹ ایڈریس کی لسٹ ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ اوپر سے نیچے تک لسٹ دیکھی پھر پوچھا:
’’مستقل رہائش کہاں ہوگی؟‘‘
’’دیو بند۔‘‘
انہوں نے سب قلم بند کیا۔ سلپ ہاتھ میں دے کر چند دن بعد کی تاریخ دی اور ہاتھ سے جانے کا اشارہ کردیا۔
اتنی جلدی فارغ ہوگئے تھے۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
باہر آکر دوکان میں بیٹھے، خوب پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور توانائی حاصل کی۔
اب سمجھا بھی کریں۔۔۔
یہ توانائی اماں کی باز پرس سے نمٹنے کے لیے از حد ضروری تھی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
گھر میں داخل ہوئے تو برتنوں کی آواز سے اندازہ لگالیا امّاں کچن میں ہیں۔ اماں کی نظروں سے بچ نکلنے کے لیے دبے پاؤں آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر اماں کی چھٹی حس نے بھانپ لیا۔
’’کہاں سے مٹر گشت کرکے آرہے ہو؟‘‘ حسب توقع پاز پرس شروع ہونے جارہی تھی۔
ہمیں معلوم تھا اس وقت صحیح بات بتانا ہمیں قرطاس ارض سے حرف غلط کی طرح مٹادے گا لہٰذا ٹہلتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہہ کربات ٹہلائی:
’’کھانے پر بتاتے ہیں۔‘‘
کھانے پر اماں کا سوالیہ اور ہمارا نظریں چراتا چہرہ۔
’’ کھانا کھانے دیں پھر اطمینان سے بتاتے ہیں۔‘‘ ہم نے اماں کو آخری بار ٹالا۔ معلوم تھا اب فرار کی مزید کوئی راہ نہیں۔ کھانے کے بعد پھر آ موجود ہوئیں۔
’’اتنا سسپنس پھیلانے کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ اماں کے لہجےمیں ہزار تشویشیں گھلی تھیں۔
’’ویزہ لگوانے گئے تھے۔‘‘ سچ بولے بغیر نجات کی کوئی راہ نہیں تھی۔
’’ہوش میں تو ہو؟‘‘
ہم خاموش رہے۔ کچھ بولنے کے نتائج دشمنوں کو خوش کرنے والے ہوتے۔
’’اکیلے جاؤ گے؟‘‘ہماری خاموشی سے تنگ آکر پوچھا۔
’’ہمم۔‘‘چہرہ جھکائے جواب دیا۔
’’اپنے ابا کو بتایا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ویزہ لگ گیا تو بتا دیں گے۔‘‘
’’بتا دیں گے، یعنی اطلاع دیں گے، اجازت نہیں لیں گے؟‘‘
’’ابا نے منع کردیا تو نہیں جائیں گے۔‘‘
اماں کچھ سوچتی نظروں سے گھورتی ہوئی چلی گئیں۔
اتنی خاموشی کا نتیجہ لازماً طوفان کی پیش گوئی ہوتا ہے۔ اور طوفان برپا ہوگیا۔رات کھانے کے بعد اماں نے آواز دے کر بلا لیا:
’’تمہارے ابا کا فون ہے، آکر بات کرلو۔‘‘ اماں نے ریسیور ہمیں تھما دیا۔
اماں نے جدّہ کال ملادی تھی۔ایک لمحے میں ہزار خوف، ہزار خیال دل پر سے گزر گئے۔ اماں نے کیا بتایا ، کس طرح بتایا، ڈانٹ پڑے گی، ابا غصہ ہوں گے، جانے سے منع کردیا تو اجازت کیسے ملے گی۔
’’تمہاری امی کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ابا نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ہم نے لہجے میں لاعلمی سمونے کی کوشش کی۔
’’انڈیا جانے کا ارادہ ہے ؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’بتایا کیوں نہیں؟‘‘
’’ سوچا پہلے کچھ تیاری کرلیں پھر بتاتے ہیں۔‘‘ دل میں جو تھا بتادیا۔
’’ کہاں تک تیاری پہنچی؟‘‘
’’ویزہ لگنے دیا ہے۔‘‘
’’ہممم۔‘‘ ابا کی آواز میں گہری سوچ تھی۔
’’اچھا مجھے کچھ سوچنے دو ، کل بات کرتا ہوں۔‘‘
ہم نے گہری سانس لے کر فون بند کردیا۔ اگلی رات ابا کا فون آنے تک ہزاروں وسوسے اندیشے آتے رہے جاتے رہے۔ رات دس بجے فون کی گھنٹی بجی۔ دھڑ دھڑ کرتے ہوئے دل سے فون اٹھایا۔ امید تھی ابا کی کال ہوگی۔ واقعی انہی کی تھی۔
’’ اکیلے سفر کرلو گے؟‘‘ سلام دعا کے بعد پہلا سوال آیا۔
’’جی کرلیں گے۔‘‘
’’کسی قسم کا خوف یا گھبراہٹ؟‘‘ نجانے ابا نے کیوں پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ ہم نے مضبوط لہجے میں کہا۔
ہم اپنے ملک میں اکیلے سفر کرنے کے عادی تھے لہٰذا سفر کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اسی لیے دل کو یہی سمجھایا کہ سفر یہاں کا ہو یا وہاں کا ڈرنے کی کیا بات ہے، اور وہاں پہنچتے ہی چچا لینے آجائیں گے، پھر آگے کی وہ جانیں ان کا کام۔ ویسے بھی اس وقت ابا کے سامنے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھانے کا مطلب صاف انکار سننا تھا۔
’’اچھی بات ہے۔ مجھے یہی سننا تھا۔ اب بڑے ہورہے ہو تو بڑا بن کے بھی دکھاؤ، بڑے کام کرو، محض زندگی کے سال میں اضافے سے آدمی بڑا نہیں بنتا۔ آج تمہارے چچا سے بات ہوئی ہے، انہوں نے اطمینان دلایا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، میں دلّی ائیر پورٹ پہنچ جاؤں گا۔ اگر تمہارا ویزہ لگ جائے تو مجھے بتانا، کراچی میں کسی دوست سے کہہ کر جہاز کی سیٹیں بک کرادوں گا۔‘‘
معلوم نہیں ابا نے کن کن لوگوں کو فون کھڑکا دیا تھا، ان سے کیا کیا معلومات حاصل کی تھیں۔ اتنی دور بیٹھ کر باپ کا اولاد کے لیے فکر مند ہونا لازمی بات تھی۔ ابھی بھی اجازت دے رہے تھے لیکن لہجے میں تشویش واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی۔
’’ ہم جہاز سے نہیں جارہے ٹرین سے جائیں گے۔‘‘ ہم نے ایک اور دھماکہ کردیا۔
’’بیٹا تم میری پریشانی بڑھاتے جا رہے ہو۔‘‘ ابا مزید پریشان ہوگئے۔
’’ابو، حسّانہ بھی ٹرین سے جاتی ہے اور کیا کیا کرتب دکھاتی ہے۔ ہم بھی یہ سب کرسکتے ہیں۔‘‘ دل کی اصل بات زبان پر آگئی۔ ہمارا اصل کمپٹیشن حسّانہ سے تھا۔ جب وہ کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہم نے ابا کو تفصیل سے حسّانہ کے کارنامے بتائے۔ پہلے تو ہنسے پھر کہا:
’’بیٹا، وہ لوگ ہر سال جاتے ہیں، کسٹم کے سارے مراحل سے بخوبی واقف ہیں، حسّانہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہے، جو کسی بھی قسم کی اونچ نیچ سنبھال سکتے ہیں۔ ابھی تم نے وہاں دیکھا ہی کیا ہے؟ جہاز کی نسبت ہزار مشکلات ہیں۔‘‘ جن باتوں نے ہمیں اس تھرل پر اکسایا تھا وہی باتیں ابا کو پریشان کررہی تھیں۔
’’ابو، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم سے ویزہ اپلائی کرتے وقت پوچھا گیا تھا، سفر جہاز سے ہوگا یا ٹرین سے۔ ہم نے ٹرین لکھوادیا ۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ابا نے بے بسی سے کہا۔
’’ چلو، اللہ مالک ہے۔‘‘
گویا ابا کی طرف سے ہاں تھی۔ اماں نے سنا تو منہ بنا کر بیٹھ گئیں:
’’ تمہارا تو سارا خاندان ہی باؤلا ہے۔‘‘ اشارہ واضح طور پر سسرال کی جانب تھا۔
اب ہم شیر ہوگئے تھے، خوب دندناتے پھرتے تھے۔ ہر ایک کو ببانگ دہل بتاتے انڈیا جارہے ہیں۔ خاندان والے ہمیں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے جبکہ دوست احباب تجسس بھری نظروں سے کہ وہاں جا کر کیا لنکا ڈھاتے ہیں۔
اندیشہ تھا کہ دی گئی تاریخ سے ویزہ ملنے میں ایک دو دن تاخیر نہ ہوجائے اس لیے ہم نے احتیاطاً ویزہ ملنے کی تاریخ سے چند دن آگے کی سیٹ بک کرالی تھی، کراچی سے لاہور کی۔ ہوسکتا ہے عین وقت پر سیٹ نہ ملے اور مزید وقت ضائع ہو۔ ہماری کوشش تھی کہ آنٹی کے پاکستان واپس آنے سے پہلے پہنچ جائیں۔ تاکہ ان کے ساتھ مل کر سب سے ملیں۔ کیوں کہ اس پاکستانی کی ہندوستانیوں سے بالکل واقفیت نہیں تھی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ویزہ ملنے سے پہلے ہزار لوگوں نے ہزار طرح سے ڈرایا:
’’ کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، نوجوان لوگوں کو ویزہ نہیں ملتا، اور اکیلے کو تو ناں ہی سمجھو۔‘‘
ایک نے کہا:
’’اکیلے جانے کی غلطی نہ کرنا، نوجوانوں کو تو بالکل نہیں چھوڑتے، جاسوسی کے الزام میں دھرلیتے ہیں۔ ‘‘
ایک صاحب نے ماضی حال کے تمام اخبارات کھول کھول کر دکھائے۔
’’یہ دیکھو، یہ لوگ کتنے برسوں سے جیل میں ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں، حکومت بھی کوئی خبر گیری نہیں رکھتی۔‘‘

لوگ لرزاتے رہے اور ہم لرزتے رہے۔لیکن سر پر جانے کی دُھن سوار رہی۔ یہاں تک کہ ویزہ ملنے کی تاریخ آگئی۔ ڈرتے لرزتے انڈین قونصلیٹ پہنچے۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ نمبر آنے پر پاسپورٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا، ہاتھ مزید لرزگیا ، ویزہ لگا یا نہیں۔ ہزار تشویشیں دماغ میں کوندنے لگیں، دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔ جلدی جلدی پاسپورٹ کے سارے صفحات دیکھے، سب خالی، کہیں ویزے کا نام و نشان نہیں،حلق خشک ہوگیا۔ ساری محنت اور بھاگ دوڑ پر پانی پھر گیا، لوگوں کا کہا سچ ہوا، نوجوانوں کو ویزہ نہیں ملتا!!!

ہم نے زرد چہرے اور پھیکے لہجے میں پاسپورٹ تھمانے والے بابو سے پوچھا کیا ویزہ نہیں لگا؟ اس نے ہمارے ہاتھ سے پاسپورٹ لیا اور صفحات الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ یہ کام تو ہم کر ہی چکے تھے۔ دل میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوئی، ناحق وقت ضائع کررہا ہے۔ اتنے میں اس نے پاسپورٹ ہمیں واپس کردیا، لیکن وہ صفحہ کھول کر جس پر جا بجا انڈین قونصلیٹ کی مہریں لگی ہوئی تھیں، آخری صفحے سے ایک دو صفحات پہلے۔ شاید گھبراہٹ میں ہماری نظروں سے نکل گئے تھے۔ مارے خوشی کے ہم صفحے پر لگی مہریں دیکھ رہے تھے، تبھی کاؤنٹر والے بابو نے چند صفحات اور تھمادئیے۔ جس پر ان شہروں کی تفصیلات تھیں جہاں کے ویزہ کے لیے ہم نے اپلائی کیا تھا۔ ان میں دو جگہیں شامل نہیں تھیں، بمبئی اور جے پور!!!

نہ جانے ان کو ہم سے کیا خطرہ تھا۔ ہم سے بات کرتے تو انہیں کامل یقین دلاتے کہ نہ تو ہم آپ کی فلم انڈسٹری میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہونے بمبئی جارہے ہیں نہ ہی آپ کے گلابی شہر جے پور کا رنگ و روغن تبدیل کرنے کی غرض و غایت رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس موضوع پر بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ خیر، اپنا ہی معاشی نقصان کیا۔ ہم نے ان شہروں کی سیاحت پر اتنا پیسہ لُٹانا تھا جن سے بھارت کا سرکاری خزانہ بھر جاتا۔ ویزہ لُوٹ کر گھر لوٹے تو ہمارے چہرہ پر گلاب کِھل رہے تھے، چاند دمک رہا تھا،سورج چمک رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور اماں کے چہرہ پر۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ!!!

ریل کی ٹکٹ بُک تھی۔ اب سامان کی پیکنگ شروع کی۔ لوگ باگ آتے گئے مشورے دیتے گئے۔ رشتے دار بڑی بوڑھیاں ہمیں مشورے دیتیں اور اماں کو ہولیں۔ ہولایا تو خیر لوگوں نے ہمیں بھی بہت:
’’اب منع کرنے کے باوجود جاہی رہے تو پکڑے جانے سے قبل بچنے کی اپنے تئیں کوششیں ضرور کرلینا۔‘‘ ایک کزن جاتے جاتے بھی ہولانے سے باز نہ آیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ ہم نے چہرہ پر سوالیہ نشان بنایا۔
’’باہر نکلتے وقت پینٹ شرٹ پہننا، شلوار قمیض نہیں، ورنہ دور سے ہی پہچان کر دھر لیے جاؤ گے۔‘‘
’’مزید کچھ؟‘‘ ہم نے اس بات کو دماغ میں بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ اجنبیوں، دوکان داروں اور رکشہ والوں سے زیادہ پٹر پٹر باتیں نہ بنانے بیٹھ جانا۔ لہجے سے فوراً پہچان لیے جاؤ گے۔‘‘ کزن کی اماں نے گول شیشوں والی عینک کے پیچھے سے آنکھیں گھمائیں۔
’’اور فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ ہمیں سبق اچھی طرح یاد ہوگیا تھا۔
اپنی پڑھائی پٹی پر ہمارا عبور دیکھ کر کزن کی اماں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔

ہم واحد سوٹ کیس میں سامان رکھتے اور دماغ میں لوگوں کے مشورے۔ ہمارے جانے کا سن کر لوگ آتے اور ہمیں تحائف سے نوازتے۔ خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،تمام تحفے انڈیا میں رشتے داروں کو بھیجنے کے لیے دئیے جارہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوٹ کیس سے ہمارے کپڑے نکلتے گئے اور لوگوں کے تحائف بھرتے گئے۔ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ سیاح آدمی کو سامان سے کیا سرو کار۔ وہ تو جتنا کم سامان ہو اتنا ہلکا رہتا ہے۔ اور یہاں اصل سے زیادہ سود اٹھانا پڑ رہا تھا۔

خدا خدا کرکے وقتِ روانگی آگیا۔ اماں نے صبح سے چپ لگا رکھی تھی۔ ہم سمجھ رہے تھے سارا خفگی کا اثر ہے۔سہ پہر کا وقت ہوگا، دروازے کے باہر ٹیکسی کھڑی تھی اور دروازے پر اماں۔سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کیا سلام دعا ہوئی اور اماں نے فی امان اللہ کہا۔ ہم نے جاتے جاتے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر اماں کو دیکھا۔ چہرہ پر سنجیدگی اور سختی تھی جیسی کوئی پرواہ نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ اور آنکھوں میں معمول سے زیادہ نمی، جیسے بہت کچھ ہوگیا۔ دل اداس ہوگیا اور پاؤں بوجھل۔

تبھی ٹیکسی والے نے بے چین ہوکر ہارن بجانا شروع کردیا۔ ہم بوجھل دل لیے اماں کو اسی حالت میں کھڑا چھوڑ کے آگے بڑھ گئے۔ اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز بھی نہ سنی۔ نہ جانے اماں دروازے پہ کب تک کھڑی رہی ہوں گی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ریل کی پہلی سیٹی کی آواز نے لوگوں کو ہوشیار کردیا کہ جگر تھام کے بیٹھو، اب میں چلنے والی ہوں۔ دوسری اور تیسری سیٹیی بجا کے اتمام حجت بھی پوری کردی تاکہ کوئی کہہ نہ سکے کہ ہمیں چھوڑ کر ایسی چلیں کہ خبر بھی نہ دی۔

ٹرین میں بآسانی اپنی نشست ڈھونڈ لی تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ ہمارے اردگرد براجمان تھے۔ ریل آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔ تھوڑی دیر رینگنے کے بعد رفتار پکڑ لی۔ ہم نے کھڑکی کے پاس والی سیٹ بک کروائی تھی۔ باہر کے نظارے دیکھنے لگے۔ شہر سے باہر نکلے تو وسیع و عریض خاکی رنگ کے ریتلیے چٹیل میدان۔ نظر اوب گئی، دل اُچاٹ ہوگیا۔ تبھی سامنے والی نشست پر نظر پڑی۔ ہماری عمر کا ایک لڑکا ہمیں ہی دیکھ رہا تھا۔ نظریں ملیں تو علیک سلیک ہوگئی۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو حال احوال لینے لگے۔
’’کہاں جارہے ہیں؟‘‘ ہم سفر سے پوچھا جانے والا عام سا سوال۔
’’انڈیا۔ اور آپ؟‘‘ ہم نے بھی عوامی روایت نبھائی۔
’’انڈیا۔‘‘ ہماری نقل ماری گئی۔
’’اچھا!!! انڈیا میں کس جگہ؟‘‘یکایک ہمیں بے انتہا خوشی ملی اور ڈھارس بھی کہ ایک سے دو بھلے۔ ان کا ساتھ رہے گا تو کافی آسانی رہے گی۔
’’مراد آباد۔ اور آپ؟‘‘
’’دیو بند۔‘‘

وہ بھی خوش تھا کہ اچھا ہمسفر مل گیا۔ سفر خوب گزرے گا۔ اور واقعی سفر خوب گزرا۔ کافی باتونی لڑکا تھا۔ مزاج میں سادگی اوربے تکلفی تھی۔ کافی دیر بیٹھے بیٹھے تھک گئے تو اوپر برتھ پر جاکر لیٹ گئے۔ دونوں کی برتھیں آمنے سامنے تھیں۔ وہاں بھی باتیں کرتے رہے۔ کافی دیر بعد نیچے سے اس کی اماں نے آواز دی:
’’عباس، نیچے آجا کھانا کھا لے۔‘‘ آواز میں خاصی تلخی اور تیکھا پن تھا۔ اماں کافی ٹیڑھے مزاج کی معلوم ہوتی تھیں۔
’’چلو، نیچے چل کے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ عباس نے ہمیں پیشکش کی۔
’’چلو۔‘‘ ہم ایسی آفر ٹھکرانا کفرانِ نعمت سمجھتے ہیں۔
نیچے اتر کر ہم نے بھی اپنا کھانا نکالا جو اماں نے ساتھ باندھ دیا تھا۔ پراٹھے اور کباب۔ سب نے ساتھ مل کر کھایا۔ عباس کی اماں تند مزاج ہی نکلیں۔ ناک چڑھی ہوئی اور تیوریوں پہ بل ۔

کھانا کھا کے ہم دونوں پھر اوپر آگئے۔ نیچے اماں بڑبڑاتی رہیں۔ نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے انہیں بیٹے کا ہم سے اس درجہ گھل مل جانا پسند نہیں آرہا تھا۔ اسی طرح باتیں کرتے سوتے جاگتے، کسی اسٹیشن پر اتر کر چائے بوتل پیتے، اسنیکس کھاتے رات ہوگئی۔ عباس کے ساتھ جو باتیں ہوئیں سو ہوئیں البتہ اس کا ایک جملہ آج تک یاد رہ گیا۔ باتوں کے دوران اچانک اچھل کر ہماری برتھ پر آیا، سرگوشی کے انداز میں کان منہ کے قریب لا کر اپنے تئیں ایک عظیم الشان راز کا انکشاف کیا:
’’معلوم ہے انسان بے لباسی سے زیادہ لباس میں اچھا لگتا ہے۔‘‘ نہ جانے کیا دیکھ کر آیا تھا یا کیا دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ ہم کافی دیر تک کچھ سمجھ داری کچھ ناسمجھی کے عالم میں اس کی شکل دیکھتے رہے۔ وہ ہمیں اس حالت میں دیکھ کر مسکرا تا رہا پھر اچھل کر دوبارہ اپنی برتھ پر چلا گیا۔ ہم کروٹ بدل کر کافی دیر اس مکالمۂ عظیم پر غور و فکر کرتے کرتے سو گئے۔

صبح سویرے لاہور اسٹیشن پر اترے۔ اطمینان تھا کہ عباس کے ساتھ ساتھ رہیں گے تو کسٹم امیگریشن وغیرہ کے مراحل بنا پریشانی کے طے ہوجائیں گے۔ عباس ہاتھ پکڑ کے ٹی اسٹال پر لے گیا۔ سامان کے پاس بیٹھی اماں کِلستی رہ گئیں۔ نہ جانے کیوں انہیں ہم سے خدا واسطے کا بیر ہورہا تھا۔
’’خوب ڈٹ کے ناشتہ کرلوپھر ایسا پھنسو گے کہ موقع نہیں ملے گا۔‘‘
ہم دونوں نے حسب استطاعت خوب ڈٹ کے ناشتہ کیا۔ واپسی پر اماں کے لیے بھی ناشتہ لے گئے۔ کھا پی کر بھی ان کے چہرے پر بشاشت کے آثار نظر نہیں آئے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر عباس کہنے لگا:
’’بس اب جلدی سے چلو۔ جتنی جلدی پہنچ جائیں گے اتنا پہلے نمبر آئے گا۔‘‘

ہم نے اپنا واحد سوٹ کیس اٹھایا اور عباس اور اماں کے ہمراہ چل دئیے۔ انڈیا جانے والوں کے لیے دور دراز ایک الگ تھلگ پلیٹ فارم لوہے کا جنگلہ لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ جنگلے میں داخل ہوگئے پھر واپسی کی کوئی راہ نہیں تھی ، بس آگے ہی آگے جانا تھا۔ جنگلے کے گیٹ پر کافی رش تھا۔ سب گیٹ کھلنے کے منتظر تھے۔ گویا قیامت کا سماں تھا اور باب بہشت بند تھا۔ وقت مقررہ پر جیسے ہی گیٹ کھلا سب بدحواسی کے عالم میں اندر داخل ہونے لگے۔ بدتمیزی کے انداز میں دھکم پیل شروع ہوگئی۔ عباس نے ہمارا ہاتھ پکڑ لیا۔ اماں آگے آگے تھیں۔ ذرا ہی دیر میں اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ وہ پیچھے مڑ مڑ کر ہمیں دیکھتا اور آوازیں دیتا رہا، ہم بھی پورا زور لگا کر اس کے قریب ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ اچانک اماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے آگے بڑھیں:
’’کیا عمران عمران کررہا ہے۔ چل آگے بڑھ۔‘‘ اماں کی آخری بار ناگوار آواز ہمارے کانوں میں آئی۔ پھر ہم رش کے اس ریلے میں اس سے بچھڑ گئے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!!!

جنگلے کے اندر پہنچ کر جگہ کچھ کشادہ ہوئی تو ہم نے ایک کونے میں کھڑے ہوکر سانس درست کیا۔ عباس کو ڈھونڈنے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا مگر چاروں طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ زمین پر غیر خدا کا واحد اور آخری سہارا بھی چھوٹ گیا۔ اب پھر سے ہم تھے اور ہمارا خدا۔ کاؤنٹر ابھی بند تھے، لوگ لائن لگانے کے لیے افراتفری کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ہم ایک طرف غمزدہ کھڑے ان کا مشاہدہ۔تبھی اچانک حسّانہ کی اماں کی بات یاد آئی۔’’حسّانہ اِدھر گھس اُدھر گھس، لائن میں سب سے آگے جاکھڑی ہوتی ہے۔‘‘ اس ڈائیلاگ نے ہمارے اندر سنسنی مچا رکھی تھی۔ لیکن یہاں آکر پتا چلا کہ اس دھماچوکڑی کا کوئی فائدہ نہ تھا، آپ لائن میں پہلے کھڑے ہوں یا سب سے آخر میں ریل سب کو ساتھ لے کر ہی جائے گی۔

اس انکشاف کے ہوتے ہی ہم نے سکون کا لمبا سانس لیا اور ایک کونے میں سوٹ کیس پر بیٹھ کر تماشائے اہل کرم دیکھنے لگے۔ کیوں کہ اب کاؤنٹر کھلنے لگے تھے، لوگوں کے سامان اُدھڑنے لگے تھے۔ کسٹم والوں کی ناک اور منہ عباس کی اماں کی طرح چڑھے ہوئے تھے، چہرے پر کرختگی اور لہجہ میں ناقابل بیان حد تک بدتمیزی تھی۔ جس کا جو سامان پسند نہ آیا اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ جو سامان پسند آیا وہ بھی اٹھا کر باہر پھینکا لیکن واپس جاتے سمے اٹھا کر بغل میں دبا لیا۔

اس طوفان بدتمیزی کو دیکھ کر ہمیں شدت سے احساس ہونے لگا کاش جہاز سے ہی جاتے۔ ہم جو تھرل، ایڈونچر اور اٹھا پٹخ سوچ کرآئےتھے ایسا کچھ نہیں تھا۔ لائن میں آگے لگنے کے لیے چوکڑیاں بھرنے کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ واقعی ناکامیوں سے بھی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ سفر تو نام ہی وسیلۂ ظفر کا ہے۔ اس سفر سے دو زبردست سبق ملے۔ پہلا یہ کہ کوئی بھی تھرل یا ایڈونچر سرانجام دینے سے پہلے اس کا مقصد اور اس سے حاصل ہونے والے فائدے کو ضرور سوچنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ خدا کے سوا کبھی کسی پہ بھروسہ نہ کریں، نہ ہی کسی سے امیدیں باندھیں۔ سب اچانک ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، امیدیں توڑ دیتے ہیں۔ آخر میں صرف خدا ہی رہ جاتا ہے، ساتھ دینے کے لیے، سہارا بننے کے لیے!!!

ہم آخری مسافر کے نمٹنے تک اطمینان سے بیٹھے رہے۔ جب آخری مسافر کے آخر میں کوئی نہ کھڑا ہوا تو ہم جا کھڑے ہوئے۔ کسٹم والوں کی تلخیوں اور ناگواریوں سے دل پریشان تھا کہ نہ جانے ہمارے ساتھ بلاوجہ کی کوئی ڈرامہ بازی شروع کرکے پریشان نہ کریں۔ اچانک نانی کی نصیحت یاد آگئی:
’’سارے سفر آیت الکرسی پڑھتے رہنا۔‘‘
سارے سفر تو یاد نہ آئی، اب مشکل پڑی تو یاد آئی۔ یاد آتے ہی مسلسل آیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور اس سفر کے آخر تک اس کے اثرات دیکھے، خدا کا ساتھ دیکھا۔ ہماری باری آئی۔ کسٹم والے نے جیسے ہی ہمیں دیکھا لگا کہ اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے، چہرہ کی کرختگی دور ہوگئی۔
’’اکیلے ہو؟‘‘ بے زاری سے پوچھا۔ ہزار شکر کہ لہجے میں بدتمیزی نہیں تھی۔
’’جی۔‘‘
بے دلی سے واحد سوٹ کیس کھولا۔ لیڈیز شلوار قمیض کا سوٹ۔ ہاتھ میں لے کر حیرت زدہ سا کبھی ہم کو کبھی سوٹ کو دیکھتا۔
’’ہمارے نہیں ہیں گفٹ دینے کے لیے ہیں۔‘‘ ایک سیکنڈ کو تو ہم بھی گڑبڑاگئے۔
سائیڈ میں رکھ کر باقی سوٹ کیس میں ہاتھ ڈال کر الٹ پلٹ کرنے لگا۔
’’لگتا ہے سوٹ پسند آگیا۔‘‘ ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔ گیا یہ تو ہاتھ سے۔ دیکھیں اور کیا کیا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کا وِرد مسلسل جاری تھا۔

اس نے ضرورت سے زیادہ ہی جلد اپنا سرچ آپریشن مکمل کرلیا اور چاک سے ٹک کا نشان لگا کر سوٹ کیس ہماری طرف بڑھا دیا۔ ہم لیڈیز سوٹ سے مطمئن ہوگئے تھے کہ یہ تو اس کا ہوا۔ سوٹ کیس اپنی طرف کھینچ کر اس کی زپ بند کرنے لگے تھے کہ اس نے وہ سوٹ بھی اٹھا کر سوٹ کیس میں پھینک دیا۔ ہم نے جھٹ سے زپ بند کی اور فٹ سے آگے بڑھ گئے۔ امیگریشن کی مہر ثبت کروانے۔

امیگریش کے کاؤنٹر سے بھی سب فارغ ہوچکے تھے۔ کاوئنٹر محض ہمارے انتظار میں کھلا تھا اور کاؤنٹر والا ہاتھ میں مہر لیے ہماری راہ تک رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اپنی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ پاسپورٹ پر ایگزٹ کا ٹھپہ لگتے ہی ہم جنگلے کے آگے والے گیٹ پر پہنچے جہاں ایک صاحب جامہ تلاشی کے منتظر کھڑے تھے۔ انہیں مزید انتظار کرائے بغیر فارغ کرکے گھر بھیج دیا۔

گیٹ سے باہر ریل گاڑی ہمارے انتظار میں خاموشی سے کھڑی تھی۔ ہم آہستہ آہستہ اطمینان سے چلتے ہوئے ریل کی جانب بڑھے اور ایک نسبتاً خالی بوگی دیکھ کر اس میں چڑھ گئے۔ بوگی میں مسافر کم تھے اور نشستیں زیادہ۔ دھم سے ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ صبح سے دوپہر ہوگئی تھی کچھ کھایا تھا نہ پیا تھا، نہ وہاں کوئی بندوبست تھا۔ جہاں دیدہ لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر آئے تھے۔ کچھ نے تو وہیں ہاتھ صاف کرلیا تھا، کچھ یہاں انصاف کررہے تھے۔ ہم کہ ٹھہرے نرے اناڑی ، ٹک ٹک دیدم بھی نہیں کرسکتے تھے ورنہ لوگ ندیدہ کہتے۔ صبر شکر کرکے بیٹھنے میں ہی عافیت تھی۔

کافی دیر کے بعد ریل نے سیٹی بجائی اور آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ ہم اپنی سیٹ پر سنبھل کر بیٹھ گئے۔ دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہونے لگی۔ ذرا دیر بعد دوسرے ملک جاپہنچیں گے۔ اپنے دیس میں ہی تنہا ہونے کا احساس شدت سے تھا، پرائے دیس میں کیا ہوگا۔ ہم باہر دیکھنے لگے۔ ہنستے بولتے، کھاتے پیتے خاندانوں سے بھری بوگی میں ہم اکیلے بھوکے پیاسے ایک طرف بیٹھے تھے۔اماں ابا شدت سے یاد آنے لگے۔آنکھوں میں کچھ زیادہ ہی نمی آگئی تھی۔ شاید ہوا سے ریت اُڑ کر گھس گئی تھی۔ ہم نے آنکھیں مل لیں۔

تھوڑی دیر بعد خار دار تاروں سے بنی دیوار نظر آئی۔ چند فٹ زمین چھوڑ کر اسی طرح کی ایک اور دیوار دِکھی۔ خاروں بھری دو دیواروں کے درمیان یہ خالی زمین ’’نو مینز لینڈ‘‘ تھی۔ نہ تیری نہ میری، کسی کی جاگیر نہیں۔ ان دیواروں کے درمیان لوہے کا بڑا سا گیٹ تھا۔ ریل قریب پہنچی تو گیٹ کھول دیا گیا۔ گیٹ سے گزرتے ہی ہم اپنا دیس چھوڑ کر سرحد کے اس پار پہنچ گئے تھے!!!

نئے دیس کی فضاؤں میں گہری سانس لی۔ حالاں کہ ہوا تو پابند سرحد نہیں۔ اس کی دونوں طر ف یکساں اجارہ داری ہے۔ لیکن دل کے بہلانے کو یہ خیال بھی اچھا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اٹاری اسٹیشن آگیا۔ سب اترنا شروع ہوگئے۔ ہم بوگی خالی ہونے کے بعد سب سے آخر میں اٹھے۔ گیٹ پر کھڑے ہوکر پرائے دیس پر پہلی بھرپور نظرڈالی۔ لاہور کی بنسبت بے انتہا وسیع و عریض صاف ستھرے پلیٹ فارم۔ جابجا کشادہ اور عمدہ اسٹائل سے بنے بڑے بڑے کاؤنٹرز اور کاؤنٹرز کے پیچھے بڑے بڑے پگڑ باندھے سکھ سردار۔ ہم زندگی میں پہلی بار لائیو سردار دیکھ رہے تھے، جیتے جاگتے، ہنستے مسکراتے۔ واقعی یہاں سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی، ہنسی تھی، نرمی اور شائستگی تھی۔ لمحوں میں رویوں کا اتنا فرق۔ ہم نے لاہور کسٹم پر موجود خونخوار چہروں کا یہاں کے مسکان زدہ چہروں سے تقابل کیا۔

ریل کا ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے اترے اور آہستگی سے بھارت دیس پر اپنا پہلا قدم رکھ دیا!!!

پلیٹ فارم بڑے بڑے تھے اور کاؤنٹرز تعداد میں زیادہ۔ مجمع مختلف کاؤنٹرز پر بکھر گیا۔بھیڑ بھاڑ اور رش جیسا کوئی منظر نہ تھا۔ کاؤنٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سب جلدی جلدی فارغ ہورہے تھے۔ ہم کاؤنٹر پر پہنچے تو ہم سے آگے دو چار لوگ ہی کھڑے تھے۔ ہماری باری آئی تو سکھ جی ہمیں دیکھ کر ہنسے:
’’ او کڑئیا کلے ای آیا اے۔‘‘ ہم کچھ کچھ سمجھے شاید یہی پوچھا ہے کہ کیا اکیلے ہی آئے ہو۔
’’جی۔‘‘ ڈر کے مارے مختصر جواب دیا۔ نہ جانے آگے سے کون سی گاڑھی پنجابی بول دے کہ ہم بغلیں جھانکتے رہ جائیں۔
’’بڑی ہمت کیتی سی۔‘‘ اسی طرح کچھ کہا۔ اور ہمیں بڑے پیار سے شفقت بھری نظروں سے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ پرائے دیس میں اپنائیت کا احساس ہوا۔
تمام کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھنے کےبعد گویا ہوا:
’’بیٹا، ٹیکے دا سرٹیفیکیٹ اے؟‘‘
’’اف!‘‘ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یہ تو ہم نے لگوایا ہی نہیں تھا، کسی کی یاد دہانی کے باوجود۔
’’اب کیا ہوگا؟ کیا واپس بھیج دیں گے یا جرمانہ ہوگا؟ کہیں اسی کیس میں پکڑ تو نہیں لیں گے۔‘‘ اوسان خطا ہونے لگے۔
ہمارے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھ کر سکھ زور سے مسکرایا، آنکھیں شرارت سے چمکنے لگیں:
’’او نئی اے کیا؟‘‘
ہم نے سہمے سہمے انداز سے گردن ہلادی، نفی میں۔
’’چل چھڈ دے، پر آئندہ خیال رکھئیو، ٹھیک ہے نا۔‘‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور سے مسکرایا۔ اور پاسپورٹ پر ٹھپہ لگا کر ہمارے حوالے کردیا۔
اتنے پیار ے انداز میں تنبیہ کی۔ ہم جان بچ جانے کی خوشی سے بھی سرشار تھے اور سردار جی کی نرم خوئی سے بھی۔ اینٹری کا ٹھپہ لگتے ہی ہم مستند طور پر ہندوستان کے باقاعدہ سرکاری مہمان بن چکے تھے۔

پلیٹ فارم کے اِس طرف ہرے رنگ کی پاکستانی ریل کھڑی تھی اور دوسری جانب نیلے رنگ کی ہندوستانی ریل۔ ہمارا سفر ہرے سے نیلے رنگ کی جانب مقدر ہوچکا تھا۔ پلیٹ فارم کے اس جانب نیلی ریل کے قریب پہنچے۔ ہندی میں لکھا تھا ’’اٹاری۔۔۔۔دلِّی۔‘‘ ریل پر چڑھ کر اپنی مرضی کی سیٹ کے نیچے سامان کے نام پر واحد سوٹ کیس رکھا۔ پھر نیچے اُتر آئے۔ پیاس سے حلق خشک ہورہا تھا۔ پانی کی تلاش ہوئی، ایک جگہ نصب کولر سے پانی پینے لگے تو یکایک تاریخ کی کہانی ذہن میں دوڑ گئی، اب تو ہندو پانی مسلم پانی کا شوشہ کھڑا نہیں ہوتا نا؟ ہم نے نفسیاتی طور پر اِدھر اُدھر دیکھا۔ سب چہل پہل میں لگے ہوئے تھے۔ کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف نہ دیکھا۔ حلق تر کرنے کے بعد ٹی اسٹال پر آئے۔ پیٹ بھر کے چائے کے ساتھ بسکٹ کھائے۔ صبح ناشتہ کیا تھا اور اب عصر کی سرخی بھی ڈوبنے والی تھی۔

پلیٹ فارم پر تھوڑی دیر چہل قدمی کرنے کے بعد دوبارہ اپنی نشست پر جابراجمان ہوئے۔ مغرب کے بعد نہ جانے کیا وقت ہوا تھا البتہ اتنا یاد ہے کہ رات کی سیاہی اچھی طرح چھا چکی تھی کہ ٹرین نے رینگنا شروع کیا۔ تھوڑی دور چل کر رفتار پکڑلی۔ ہم نے باہر منہ نکال کر کافی گھورا مگر اندھیرے میں بھارت کے نقوش واضح نہیں ہورہے تھے۔ مایوس ہوکر اپنی نشست پر لیٹ گئے۔ ہمارے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ خاموشی تھی، جو اپنے منہ میں ہزار داستان رکھتی ہے۔

نہ جانے کون سا وقت ہوگا جب ہمارے چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا، اتنا سناٹا کہ ریل کے چلنے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔

اوہ۔ یہ تو ہم سوگئے تھے!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
خار دار تاروں کی دو دیواریں اور ان کے درمیان ’’نومینز لینڈ‘‘!!!

113000.jpg
 

سید عمران

محفلین
ایسا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہم ریل کے سفر میں اتنا سوئے ہوں۔ ہمیشہ سوتے جاگتے سفر ہوتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شروع رات سے بے سدھ ہو کر سوئے تو صبح سویرے آنکھ کھلی۔ دو دن کے مسلسل سفر اور بے آرامی سے بدن تھکن سے چور ہوگیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ریل کے اذیت ناک دو دن سے جہاز کے دو گھنٹے ہزار درجے بہتر ہیں۔

ٹائم دیکھا پانچ بج رہے تھے۔ ہلکا اندھیر ہلکا اُجالا، ٹھنڈی ہوائیں، نکھرا نکھرا موسم، چاروں طرف سرسبز لہلہاتے کھیت کھلیان، دور افق پر طلوع ہوتے سورج کی سفیدی۔ منہ ہاتھ دھو کر جو بیٹھے تو مناظر سے نظر نہیں ہٹتی تھی۔ رات کو امرتسر سمیت نہ جانے کون کون سے اسٹیشنوں پر ریل رکی ٹھہری چلی پتا ہی نہ چلا۔ اب اپنے آخری اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھی۔

دہلی کے مضافات میں پہنچ کر ہم نے وہ منظر دیکھا جو وہاں جانے والے لوگ ضرور بیان کرتے تھے۔ صبح صبح پٹڑی کے دونوں طرف لوگ لائن بنا کر بیٹھے تھے۔ بچے بھی بڑے بھی۔ انڈیا میں گھروں میں تو کیا گلی محلے میں بھی اجتماعی ٹوائلٹس کی کمیابی تھی۔ یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔ یہ کراہت آمیز منظر دیکھا نہ گیا۔ منہ پھیر لیا۔ انسانیت کی یوں سرعام تذلیل پر دل بجھ گیا۔

آٹھ بجے کا وقت ہوگا جب ریل تھک ہار کر منزل مقصود پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ پلیٹ فارم کے آغاز پر اردو میں نئی دلی اور انگریزی میں نیو دہلی لکھا پڑھ لیا۔ اس وقت تک ہندی پڑھنی نہیں آتی تھی لہٰذا اردو انگریزی پر گزارا کیا۔ ریل کے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی ہم دروازے پر آکھڑے ہوئے تاکہ چچا ہمیں دیکھ لیں۔ انہوں نے تو ہمیں دیکھ لیا لیکن رش کے باعث وہ ہمیں نظر نہ آسکے۔ ریل رکنے پر ہم اپنی سیٹ پر آئے اور واحد سوٹ کیس اٹھا کر واپس گیٹ پر جانے والے تھے کہ چچا زور زور سے آوازیں دیتے اندر آگئے۔ دیکھے ہی سینے سے لگایا سلام دعا ہوئی اور وہ بے اختیار ہمارا سوٹ کیس اٹھانے جھکے۔ تبھی ہم نے روک لیا:
’’کیا کرتے ہیں چچا۔ ہم آپ کے بھتیجے ہیں۔‘‘ ہم نے سوچا چچا نے غیر ارادی طور پر پاکستان سے آٗنے والے کسی بھی مہمان جیسا سلوک کرنے کی کوشش کی۔
’’کوئی بات نہیں۔ ارے میں بالکل تازہ دم ہوں۔تم تین دن کے سفر سے تھک گئے ہوگے۔ ایک ہی تو سوٹ کیس ہے۔ آرام سے اٹھا لوں گا۔ چلو اب جلدی کرو۔ باہر نکلو۔‘‘
ہمارا خیال غلط تھا چچا نے غیر ارادی طور پر نہیں خوب ارادہ کرکے سامان اٹھایا تھا۔ چچا آگے آگے جارہے تھے۔ ہم شرمندگی اور بے بسی سے ان کی پیروی کررہے تھے۔ اسٹیشن سے باہر آکر ہم نے قریبی ہوٹل میں ناشتہ کیا اور اپنے کاغذات، پاسپورٹ اور بچے کچھے پیسے فی الحال سب ان کے حوالے کردئیے۔ ناشتے کے بعد چچا قریب کھڑی بس میں بٹھا کر نیچے اتر گئے۔ شاید ٹکٹ لینے۔ بس کے آخر میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ تب ہی نیچے کھڑی ایک فقیرنی کی آواز آئی، اپنے بچے سے کہہ رہی تھی:
’’بیٹا کل میرے پاس آٹھ آنے تھے، آج وہ بھی نہیں ہیں۔‘‘بھارت پہنچ کر ہمارے کانوں میں سب سے پہلی واضح آواز یہی پڑی تھی۔ آواز میں بسی بے چارگی سے دل مسوس کر رہ گئے۔ کچھ دینے کے لیے بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا تو کچھ نہ نکلا۔ یاد آیا ہم اپنے سارے کاغذات، پاسپورٹ اور پیسے چچا کو سونپ کر ہلکے پھلکے ہوگئے تھے۔

کراچی میں کچھ رشتے داروں نے جو تازہ تازہ انڈیا سے لوٹے تھے ہمیں بچی کھچی انڈین کرنسی تھما دی تھی کہ اب ہمارے کس کام کی۔ یہ کرنسی اٹاری سے دلی تک کے سفر کے لیے کافی تھی۔ ہم نے ان ہی پیسوں سے اٹاری اسٹیشن پر چائے بسکٹ کھائے تھے اور دلی تک ریل کا ٹکٹ لیا تھا۔ ہزار ہزار کے پاکستانی نوٹ بھی پاس تھے جسے بوقت ضرورت انڈیا میں تبدیل کروائے. گھاگ گرگوں نے مشورہ دیا تھا کہ دلی کی جامع مسجد کے پاس کرنسی ایکسچینجر ہیں، وہ نسبتاً زیادہ پیسے دیتے ہیں، کرنسی وہیں تبدیل کروانا۔ادھر ابا نے چچا کے اکاؤنٹ میں بھی پیسے بھیج دئیے تھے جو ہمارے وہاں قیام کے دوران کھانے پینے، گھومنے پھرنے اور دیگر ضروریات کے لیے کافی تھے۔ اب ہماری ساری ذمہ داری چچاکے سر آگئی تھی۔گویا ہم سارے آزار سے آزاد ہوگئے تھے!!!

بس نے چلنے کا ہارن دیا تو چچا آگئے۔ بس دہلی سے نکل کر دیوبند جانے کے لیے رواں دواں تھی۔ سارا راستہ گھنے درختوں اور سرسبز کھیتوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہری بھری گھاس سڑک کے منہ کو آرہی تھی۔ جہاں جگہ ملی سبزے نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔ دہلی سے دیوبند تقریباً سوا سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے جو چار گھنٹے میں طے ہوا۔ دو دن کی تھکن کے بعد رات بھر بھرپور نیند لے چکے تھے لہٰذا چاق و چوبند تھے۔ راستے کے مناظر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔

چار گھنٹے بعد منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ بس سڑک کے کنارے رکی تو ہم اترگئے۔ سامنے دوکانیں اور ان کے عقب میں جھانکتے گھر نظر آئے۔ چچا نے تانگہ ’’بُک‘‘ کیا۔ہم اس میں بیٹھ کر خراماں خراں ٹک ٹکا ٹک کی آوازوں کے سنگ چل پڑے۔ پیچ در پیچ گلیوں راستوں سے ہوتے ایک گلی کے کنارے پر اتر گئے کہ تنگیِ داماں کے باعث تانگہ گلی میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ گلی کے دونوں کنارے نالیاں، لال اینٹوں کی دیواریں، ان پر گارے سے کی گئی استر کاری، گارے کا استر بارش کے پانی سے بہہ کر جابجا اُکھڑ رہا تھا۔

گلی میں داخل ہوئے، چند قدم بعد سامنے خالی پلاٹ تھا، اس کے آگے راستہ بند تھا، دائیں طرف لکڑی کا بڑا سا دروازہ جس کے اندر ڈیوڑھی۔ وہی ڈیوڑھی جس کا تذکرہ اردو ادب میں جگہ جگہ پڑھنے کو ملتا ہے، آج دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو دیکھا اندر مزید تین مکانات تھے۔ دائیں، بائیں اور سامنے۔ ہم دائیں طرف والے دروازے کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگئے۔

باہر جتنی خاموشی تھی اندر اتنی گہما گہمی ۔دروازہ صحن میں کھلتا تھا جس کے سامنے اور دائیں جانب برآمدے تھے۔ سامنے والے برآمدے میں بہت سارے لوگ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی چہرے جگمگانے لگے، مسکرانے لگے۔ مصنوعی یا بتکلف مسکراہٹ نہیں۔ بھرپور دل سے امڈتی مسکراہٹیں جن کی سچائی کا ساتھ روشن چمکدار آنکھیں دے رہی تھیں۔جیسے ہی ہم قریب پہنچے ہمارے گلے میں دھڑا دھڑ ہار پھول ڈلنے لگے۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ابھی لال قلعہ فتح نہیں ہوا۔ ہم نے بتانے کی کوشش کی لیکن مبارک سلامت کے شور میں دل کی بات دل میں رہ گئی۔ ان سب میں دادی اور چچی کو پہچانتے تھے، کیوں کہ یہ کراچی آتے رہتے تھے۔
’’ یہ شائستہ ہے، یہ شگفتہ، یہ فاطمہ، بابر اور معین۔‘‘ کراچی والی آنٹی سب کا تعارف کروا رہی تھیں لیکن سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔
’’بعد میں الگ الگ دیکھ کر یاد کرلیں گے۔‘‘ ہم نے دل میں سوچ کر خود کو اطمینان دلایا۔

اب دائیں ہاتھ والے برآمدے کے ایک کونے میں بنے کمرے میں لے گئے۔ دری اور اس کے اوپر نفاست سے بچھی چاندنی پر بٹھایا گیا، ساتھ ہی دودھ روح افزا کا بڑا سا گلاس ہاتھ میں تھما دیا۔ ناشتہ کیے ہوئے پانچ گھنٹے ہوگئے تھے۔ دودھ روح افزا کچھ زیادہ ہی لذیذ لگا۔
’’اور لاؤں۔‘‘ کسی نے پوچھا۔
خواہش کے باوجود منع کردیا۔ جاتے ہی ’’نیتّا‘‘ مشہور ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
''چلو بھائی کو آرام کرنے دو۔'' کسی نے آواز لگائی۔ اور زبردستی ایک ایک کو باہر بھیجنے لگے۔ ہمیں گاؤ تکیہ دیا گیا، کمرہ کی لائٹ بند ہوگئی اور دروازہ ’’بھیڑ‘‘ دیا گیا۔

اس محبت بھرے شاندار استقبال سے لطف اندوز ہوتے کمر سیدھی کرنے لیٹے تو بلاوجہ ہی آنکھ لگ گئی!!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
دیوبند اترے تو کچھ اس طرح کا منظر تھا۔ سڑک کے کنارے کچا حصہ، اس کے کنارے دوکانیں۔ ان کے عقب میں گھر!!!
deoband.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ظہر کی اذانیں ہورہی تھیں کہ آنٹی نے جگادیا۔
’’نہا دھو کر تیار ہوجاؤ۔ کھانا بھی تیار ہے۔ سب انتظار کررہے ہیں۔‘‘
ہم آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ اتنے میں سارے کزنز دوبارہ ہمارے اردگرد جمع ہوگئے۔ ہم نے واحد سوٹ کیس میں سے ضروری سامان نکالا۔ کزنز ہمیں اپنے جلو میں واش روم تک لے گئے جس کے دروازے پر پردہ لٹک رہا تھا۔
’’واش روم کے دروازے پر پردہ کیوں؟‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔
لڑکیاں بالیاں ہنسنے لگیں اور بڑی بڑی روشن چمک دار آنکھوں والا لڑکا جو عمر میں ان سب سے بڑا تھا اپنی آنکھیں مزیدچمکا کے بولا:
’’ اس لیے کہ دروازہ نہیں ہے۔‘‘ سب اور زور زور سے ہنسنے لگے۔
’’کیا!!‘‘ ہمارے حواس اُڑ گئے۔
’’نہائیں گے کیسے؟‘‘
’’زور زور سے گاتے رہیے گا۔ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ بڑی آنکھوں والا پھر بولا۔ اب اس کا نام معلوم ہوگیا تھا، معین۔
’’اور جو سانس لینے کے ذرا دیر رک گئے تو؟‘‘ ہمیں مستقبل کے اندیشے لاحق ہورہے تھے۔ سب شور مچا مچا کر ہنسنے لگے۔
’’ہائیں!!! ابھی تک نہانے گئے نہیں۔‘‘ آنٹی زور سے حیران ہوئیں۔
’’نہیں۔ اس باتھ روم میں نہانے سے بلا نہائے بھلے۔‘‘ ہم نے صاف جواب دے دیا۔
آنٹی پہلے تو زیر لب مسکرائیں پھر کندھے پر زور سے ہاتھ مار کر اندر دھکیل دیا۔
’’کوئی نہیں آئے گا۔ سب کو معلوم ہے تم نہا رہے ہو۔‘‘
’’ لو جی، اب ہمارے نہانے کا بھی سب کو معلوم ہوا کرے گا۔‘‘ ہم ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔
چھوٹے سے باتھ روم کے بڑے سے طاق میں دھات کی بالٹی رکھی تھی اور بالٹی میں گرم پانی رکھا تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں کراچی گرم لُو کی لپیٹ میں ہوتا ہے جبکہ شمالی حصوں میں خنکی کا راج ہونے لگتا ہے۔ یہاں بھی موسم خوشگوار تھا۔ شاید اسی لیے گرم پانی کی ضرورت پڑی ۔
غسل کے دوران ہم برابر پردے کو دیکھتے رہے کہ اب کوئی آیا اب کوئی آیا، لیکن آخر تک کوئی نہیں آیا اور ہمارے سانس میں سانس آیا۔ غسل کرنے سے تین دن کا گرد و غبار اور تھکن سب دُھل گئی۔ ہم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا اور صاف ستھرا محسوس کرنے لگے۔ اس تر و تازگی کا احساس لیے کمرے میں آئے جہاں دستر خوان بچھ چکا تھا، سالن کے ڈونگے رکھے جا چکے تھے اور کزنز بیٹھ چکے تھے۔ سو ہم بھی بیٹھ گئے۔ ایک ایک کرکے بڑے بھی آنے لگے۔ آنٹی ہماری خاطر داری میں آگے آگے تھیں۔ یا شاید انہیں جان بوجھ کر آگے کیا گیا تھا۔ کباب، بریانی اور قورمہ۔ سب مزے دار تھا۔
’’ یہ قورمے میں بوٹی کیسی عجیب سی ہے؟ سچ سچ بتائیں آنٹی کس جانور کی ہے؟‘‘ ہم نے برابر بیٹھی آنٹی کے کان میں کھسر پھسر کی۔
ابھی کھانوں میں گدھوں اور کتوں کی بوٹیوں کے رواج کا شہرہ عام نہیں ہوا تھا۔ لیکن عقل بھی کوئی چیز ہے۔ بوٹی عجیب لگی تھی، چربی زدہ سی۔ اس لیے پوچھنا ہمارا فرض تھا۔
’’کھائیں یا نا؟‘‘ ہم نے جھک کر دوبارہ سرگوشی کی۔
’’چپ چاپ خاموشی سے کھالو۔‘‘ زور سے بازو نوچ کر جوابی سرگوشی ہوئی۔
’’ایسے کیسے کوئی بھی الا بلا کھالیں۔ جلدی سے بتائیں ورنہ ہم ڈونگے میں واپس ڈال رہے ہیں۔‘‘دھمکی ملی تو آنٹی زور زور سے بولنے لگیں۔
’’بتاؤ اس کو یہ کس جانور کا گوشت ہے۔‘‘ آنٹی نے دیکھا کہ اس نے کھانا ہی نہیں ہے تو سب کو ایک ساتھ مخاطب کرلیا۔
کزنز کی تو کھی کھی شروع ہوگئی جسے حسب رسائی کہنیاں مار کر بند کرایا گیا۔
’’یہاں گائے کا گوشت نہیں ملتا، کٹّے کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح شرمندہ شرمندہ انداز میں بتایا گیا کہ ہم خود شرمندہ ہوگئے۔
’’کٹّا کیا؟‘‘ ہم نے پہلی دفعہ سنا تھا۔
’’بھینس کا بیٹا۔‘‘ ایک کزن ہنستے ہنستے دوہری ہوگئی۔ یہ شائستہ تھی۔ ایک ایک کرکے نام یاد ہورہے تھے۔
ہم نے بڑی مشکل سے کِچ کِچ کرتی للبلی سی بوٹی کچھ کھائی کچھ بچائی۔ بوٹی کے علاوہ ہر چیز مزے کی تھی۔ میٹھے میں چاندی کا ورق لگی لذیذ فیرنی ملی۔ کھانے سے فارغ ہوئے، دسترخوان اُٹھا، اب مفصل حال احوال دریافت ہونا شروع ہوئے۔ اس دوران وقتاً فوقتاً آس پڑوس کی عورتیں بھی امپورٹڈ مال کی زیارت سے مستفید ہونے آتی رہیں اور دانتوں تلے انگلیاں دباتی رہیں۔ ایک نے تو ہمیں بھی دبانے کی کوشش کی۔ ہاتھ دھونے باہر نکلے تو ایک خاتون نے بڑی سادگی سے عام انداز میں کہا:
’’میری بیٹی سے شادی کرلو، بے شک اپنے ساتھ پاکستان لے جانا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
اس اچانک حملہ کی قطعاً کوئی توقع نہیں تھی۔ ہم گڑبڑا کر رہ گئے۔ کوئی جواب نہیں سوجھا تو مسکرا کر، کندھے اچکا دئیے۔
کمرے میں واپس آئے تو تاڑو آنٹی تازہ تازہ صورتِ حال تاڑ چکی تھیں، چپکے سے پوچھا:
’’کیا کہہ رہی تھی؟‘‘ ہم نے بتادیا۔
’’پھر تم نے کیا کہا۔‘‘ آنٹی ہول گئیں۔
’’اتنی اچھی آفر تھی، انکار تو نہیں کیا۔‘‘
’’سمجھو تم یہاں میری ذمہ داری پر آئے ہو۔ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا کہ بھائی جان اور بھابھی ناراض ہوں۔ یہاں کے لوگ بے چارے انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں، غربت بھی ہے اور اچھے رشتوں کا کال بھی۔ورنہ کون ماں اتنا بڑا قدم اٹھاتی ہے۔‘‘ آنٹی جذباتی کررہی تھیں اور ہم ہورہے تھے!!!

شام کی چائے پی کر فارغ ہوئے تو معین ہمارا ہاتھ پکڑ کر باہر لے جانے لگا۔
’’ہم بھی چلیں گے۔‘‘ باقیوں نے شور مچایا۔
’’چپ کرو۔ کوئی نہیں جائے گا۔‘‘ بڑے بھائی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔
باہر نکل کر چند گلیاں پار کی ہوں گی کہ اچانک آبادی ختم ہوگئی اور وسیع و عریض ہرے بھرے کھیت اور درختوں کے جھنڈ سامنے آگئے۔ صاف ستھری کھلی کھلی فضا۔ ٹہلتے ہوئے تھوڑا آگے بڑھے تھے کہ خوفزدہ ہوکر رک گئے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ معین نے پلٹ کر ہمیں دیکھا۔
’’وہ۔‘‘ ہم نے کچھ آگے درختوں پر بیٹھے قوی الجثہ گِدھوں کے طرف اشارہ کیا۔ اتنی کثیر تعداد میں اتنے بڑے بڑے گدھ پہلی دفعہ دیکھ رہے تھے۔
’’انہوں نے حملہ کردیا تو کسی کو ہماری ایک ایک تکہ بوٹی بھی صحیح سے نہیں ملے گی۔‘‘ ہم نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔
’’او کچھ نہیں ہوتا عمران بھائی، یہ صرف مرے ہوئے جانور کھاتے ہیں۔‘‘ معین نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’یہ حملہ کرکے ہم مار دیں اور پھر کھالیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا؟‘‘ ہم نے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’ہی ہی ہی۔ ان میں آپ جیسے آئیڈیئے لانے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘معین کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ ہم خوفزدہ ہونے سے کام چلارہے تھے۔ ہم یہیں سے واپس پلٹ گئے۔ معین کو بھی زبردستی واپس آنا پڑا۔ گھر پہنچ کر سب کو ہنس ہنس کر ہمارے آئیڈیئے بتائے۔
’’آئندہ ان کو اس طرف سے نہ لے جانا بھیا۔‘‘ ہمیں لگا شائستہ نے ہماری حمایت کی ہے۔
’’گِدھوں کو ان کے آئیڈئیے سمجھ میں آگئے تو یہ تو چلے جائیں گے مگر ہماری زندگی مصیبت میں کرجائیں گے۔‘‘ اب تو سب نے باقاعدہ شور مچا مچا کر ہنسنا شروع کردیا، ہمیں شرمندہ کرنا شروع کردیا۔
’’آپ سائیکل چلا لیتے ہیں؟‘‘ معین نے پوچھا۔
’’کیوں؟؟‘‘ ہم نے بھی پوچھا۔
کل اسی راستے پر سائیکل سے چکر لگائیں گے۔
’’تمہارے یہاں اس راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟‘‘ ہم واقعی ان مکروہ اور ہیبت ناک گِدھوں سے خوفزدہ تھے۔
’’جب تک آپ یہ راستہ اچھی طرح نہیں دیکھ لیں گے، کچھ اور نہیں دکھائیں گے۔‘‘ سب شرارت کے موڈ میں تھے۔ ہم نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔
یہ آج کے دن ہماری واحد اور ادھوری سیر تھی۔
رات کو چچا آگئے اور دسترخوان پر خوب محفل جمی۔

صبح فجر پڑھ کر سوگئے۔ پھر دس بجے اٹھے۔ گھر میں خاموشی تھی، صرف باورچی خانے سے ناشتہ تیار ہونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ہم وہیں چلے گئے۔اندر آنٹی اور چچی تھیں۔
’’اتنی خاموشی کیوں؟ سب لوگ کہاں ہیں؟‘‘
’’بچے اسکول کالج چلے گئے، تمہارے چچا ملازمت پر۔ اب جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو ناشتہ تیار ہے۔‘‘
’’واش بیسن کہاں ہے؟‘‘ ہم نے ادھر ادھر جھانکا۔ ابھی تک پورا گھر نہیں دیکھا تھا۔
’’واش بیسن کوئی نہیں ہے، ادھر ہینڈ پمپ پر آجاؤ۔‘‘ آنٹی بازو پکڑ کر کھسیٹتی ہوئی ہینڈ پمپ پر لے آئیں۔ باورچی خانے سے چچی کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ہینڈ پمپ کے نیچے چھوٹا سا حوض بنا تھا تاکہ پمپ سے پانی گرنے کی چھینٹیں نہ آئیں۔ ہم نے کوشش کی مگر سمجھ میں نہیں آیا منہ ہاتھ کیسے دھوئیں۔ ہینڈ پمپ چلا کے دونوں ہاتھ آگے کیے کہ چلو میں پانی بھرے تو منہ دھوئیں، اتنے میں پانی رُک جاتا۔ چلو بھر پانی بھی نصیب نہ ہوا۔
’’صبا، آکے بھائی کا منہ دھلوا دو۔‘‘آنٹی ہونٹ دبائے مسکرانے لگیں۔
’’عمران بھائی، یہاں ایسے ہی تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘ نو سالہ صبا ہینڈ پمپ چلاتی جائے اور ہنستی جائے۔
ہم نے جلدی جلدی برش کیا، پھر منہ پر صابن ملا اور چھپکے مارے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اچانک چچا آگئے۔ آتے ہی پھولی پھولی بے ترتیب سانسوں سے بولے:
’’جلدی کرو، تھانے جانا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ ہم خوفزدہ ہوکر رہ گئے !!!

سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
’’انڈیا پہنچتے ہی تھانے میں اینٹری کروانی ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ سرکار کے ریکارڈ میں آجائے کہ مسافر بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا ہے۔‘‘ چچا نے معلومات دیں۔
’’ اصولاً تو کل ہی اینٹری کروانی تھی، لیکن کچھ ضروری کام تھے اس لیے کل نہ جا سکا۔ صبح تم سو رہے تھے تو تھانے سے آدمی آیا تھا، پوچھ رہا تھا کہ ابھی تک اینٹری نہیں کروائی۔ یہاں سب کی ایک دوسرے سے جان پہچان ہے لہٰذا دیر سویر چل جاتی ہے۔بس اب چلو، اور کام بھی کرنے ہیں۔‘‘

دیوبند ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، سب ایک دوسرے کو خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ہماری آمد کی سارے قصبہ کو خبر ہوگئی تھی، بھلا تھانے داروں کو کیسے نہ پتا چلتا۔ پاسپورٹ اور کاغذات چچا کے پاس تھے۔ ہم نے جلدی جلدی کپڑے تبدیل کیے اور چچا کے سنگ ہولیے۔ تھوڑی دور چلے ہوں گے کہ بائیں ہاتھ پر سڑک اوپر کی جانب چڑھتی نظر آئی۔ ہم بھی چڑھ دئیے۔ یہ ایک پہاڑی تھی۔ اوپر تھانہ تھا۔ یہ محلہ ’’قلعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ تھانہ میں داخل ہوئے تو ماحول بے تکلفانہ تھا۔ ایک اہلکار نے پہلے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا، پھر ہمارے کاغذات دیکھے، ہم نے سوچا کہ اب ہماری جیب دیکھے گا، لیکن خیر ہوئی، شاید چچا کا لحاظ کرلیا۔ ہمارے کاغذات سے دیکھ کر اپنے کاغذات میں کچھ کاپی پیسٹ کیا۔ چائے پانی کا پوچھا ، کچھ دیر چچا سے گپ کی پھر دونو ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا، یوں ہمیں تھانے سے باہر کیا۔ تھانے سے باہر آکر دوسری جانب سے نیچے اترنے لگے۔ نیچے ایک بڑا سارا بازار تھا۔ یہ یہاں کا مرکزی بازار ہے، سر سٹہ۔

بازار سے باہر نکلے تو رہائشی علاقہ شروع ہوگیا۔ چچا ہمیں بتاتے جاتے یہ گھر فلاں رشتے دار کا ہے یہ فلاں کا۔ جن کو پہچانتے تھے ان کے لیے سر ہلادیتے، جن کو نہیں پہچانتے تھے ان کے لیے بھی سر ہلادیتے۔ ایسا کرنا ضروری تھا، ورنہ چچا سمجھا سمجھا کر سر پکا دیتے۔

ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے توں توں سفید لباس میں ملبوس سر پر سفید ٹوپی اوڑھے داڑھی والے لوگوں کا اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ ایک گل میں داخل ہوئے تو مدرسہ کے طلباء کی فراوانی نظر آئی۔ تھوڑا آگے بڑھ کر ایک مسجد کے دروازے پر رُکے، جوتے اتارے اور اندر داخل ہوگے۔ یہ دار العلوم دیوبند (وقف)تھا۔ اس وقت جامع مسجد میں قائم تھا۔ اب ایک شاندار عمارت تعمیر ہوچکی ہے۔

زندگی میں پہلی بار کسی مدرسے میں داخل ہوئے تھے۔ ماحول میں عجیب سکون و اطمینان رچا بسا تھا۔ لگتا تھا جیسے ایک الگ دنیا میں داخل ہوگئے ہوں۔ ایسی کیفیت سے زندگی بھر سرشار نہیں ہوئے تھے۔ چچا تو وہاں موجود حضرات سے باتوں میں لگ گئے۔ ہم خاموشی سے سکون و اطمینان کا ایک ایک قطرہ کشید کرکے رگ و جاں میں اتار رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں چائے سے تواضع کی گئی۔ جس کے بعد ہم باہر آگئے۔
’’کیوں کیسا لگا؟ کچھ مزہ آیا یا نہیں۔‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’کہا کہیں اس کیفیت کو۔ ابھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ ہم مسجد سے تو باہر آگئے تھے لیکن ابھی تک اس ماحول کے ٹرانس سے باہر نہیں آئے تھے۔

تھوڑا آگے بڑھے تو سرخ رنگ کی ایک عظیم الشان عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’دار العلوم۔‘‘ جواب ملا۔
’’اور وہ کیا تھا؟‘‘ ہم نے پھر پوچھا۔
’’دار العلوم۔‘‘ پھر جواب ملا۔
’’دو دار العلوم؟‘‘ ہمارے ماتھے پر بل پڑے۔
’’سمجھ بعد میں لینا۔ ابھی صرف سیر کرو۔‘‘
ہم چچا کے پیچھے پیچھے بڑے سارے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔ یہ مولسری کے درخت ہیں۔ اسی نسبت سے اسے احاطہ مولسری کہا جاتا ۔ ساتھ کنواں ہے جو ’’مولسری کا کنواں‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے پیچھے عمارت میں نو محرابیں بنی ہیں اس لیے یہ نودرے کے نام سے مشہور ہے۔‘‘ چچا نے ایک جانب اشارہ کرکے بتایا۔
’’یہ انار کا درخت ہے جس کے نیچے بیٹھ کر مولانا محمود نامی استاد نے محمود الحسن نامی شاگرد کو دار العلوم کا پہلا درس دیا تھا۔ ایک استاد، ایک شاگرد، دونوں کا نام محمود۔‘‘
انار کے درخت کی زندگی پندرہ سال ہوتی ہے، اس کے بعد یہ سوکھ جاتا ہے، لیکن انار کا یہ درخت سو سال بعد بھی سرسبز و شاداب کھڑا تھا۔
اس کے بعد دارالعلوم کی لائبریری میں داخل ہوئے جہاں جدید و قدیم کتابوں کا عظیم ذخیرہ موجود تھا۔ بڑی بڑی میزوں میں شیشے کے فریم میں بند قدیم و نادر ہاتھ کے لکھے قرآن پاک کے نسخے اور عربی و فارسی کتابیں محفوظ تھیں۔

باہر کھلی فضا میں آگئے۔ قدموں تلے بچھے سرسبز باغات کے بڑے بڑے قطعات، سر پر تنا کھلا کھلا نیلا آسمان، چاروں طرف بلند اونچی اونچی سرخ عمارتیں اور آس پاس موجود پرسکون ماحول۔یہ تھا مشہور زمانہ دار العلوم دیوبند!!!

واپسی پر ظہر کی اذانیں ہونے لگیں تو دار العلوم وقف کی مسجد میں نماز پڑھی۔گھر پہنچے تو دوپہر کا کھانا تیار تھا۔کزنز بھی آچکےتھے۔ معین کے ہاتھ میں اخبار تھا۔دادی کو اہم خبروں کی ہیڈ لائن سنائی جارہی تھیں۔ ہم نے بھی جھانکا۔ ہندی میں لکھا تھا، اردو میں پڑھ رہا تھا۔ ہمیں دل چسپی پیدا ہوئی۔
’’ یہ کیا لکھا ہے؟‘‘ ہم نے ایک لفظ پر انگلی رکھی۔
’’بھارت۔‘‘
’’یہ کیا ہے؟‘‘ بھارت کے بھی پہلے حرف پر انگلی رکھی۔
’’بھ۔‘‘
’’اچھا۔ اردو کی طرح ’’ب‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ملا کر ’’بھ‘‘ نہیں لکھتے۔ ’’بھ‘‘ایک الگ حرف ہے۔‘‘ ہم نے ہندی حرف ’’بھ‘‘ کو ذہن نشین کرلیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ ہندی میں حرف کو ’’اکشر‘‘ کہتے ہیں۔ ہندی آسان لگی ۔سیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔
’’ہمیں ہندی سکھاؤ۔‘‘ معین سے کہا۔
’’ٹھیک ہے کل میں کتاب لے آؤں گا ۔ اس میں سے اکشر پڑھنا سیکھ لیا تو اچھی خاصی ہندی آجائے گی۔‘‘
’’او کے۔ ڈن!!!‘‘ ہم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہامی بھر لی۔
 
آخری تدوین:
Top