سید عمران

محفلین
کناٹ پلیس، دہلی!!!
connaught-place-600x436.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آج صبح ناشتے کے بعد گیارہ بجے مسجد قوت الاسلام کے صحن میں جمع تھے۔ سامنے قطب مینار آسمانوں سے سرگوشیاں کررہا تھا، ان کو عظمتِ رفتہ کی داستانیں سنا رہا تھا۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث مسجد کھنڈر بن گئی، نہ چھت باقی نہ دیواریں، کہیں کہیں دیواروں کی باقیات سے پتا چل رہا تھا کہ عمارت عظیم تھی۔ مسجد کی از سر نو تعمیر پر حکومت وقت نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ لوگ صحن میں جوتوں سمیت آرہے تھے۔ اس پر کہیں کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا گیا۔ اگر کوئی ننگے پیر تھا تو وہ مسلمان تھے۔

خاندان غلاماں کے بادشاہ قطب الدین ایبک نے اس مینار کی تعمیر کروائی جس کی نسبت سے اسے قطب مینار کہتے ہیں۔ مسجد سے متصل ہونے کی وجہ سے شاید یہ اذان دینے کے لیے استعمال ہوتا ہو، لیکن یہ بہت مشکل کام تھا، کیوں اس کی بلندی ۲۳۸ فیٹ تھی۔ صرف اذان دینے کے لیے اس پر اترنا چڑھنا ایک مشکل کام تھا،البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی نچلی منزل سے اذان دی جاتی ہو ۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ مینار دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو کیوں کہ آج بھی اینٹوں سے بنا یہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے۔ ایک روایت کے مطابق دہلی کے آخری ہندو حکمران کے خاتمے کی خوشی میں اسے تعمیر کیا گیا تھا۔

قطب مینار کی پانچ منزلیں ہیں۔ قطب الدین ایبک مینار کی صرف تین منزلیں بنا سکا تھا۔ اس کے بعد شمس الدین التمش نے مزید دو منزلیں بنائیں۔پھر فیروز شاہ تغلق کے عہد میں مینار پر بجلی گری تو اس کی مرمت بھی کروائی اور پانچویں منزل کا اضافہ بھی کیا۔ سب سے اوپر کی منزل کے علاوہ ہر منزل پر باہر کی جانب جھروکے بنے ہیں، ان کے نیچے قرآنی آیات کندہ ہیں۔

سلطان شمس الدین التمش کی قبر قطب مینار کے قریب ہی واقع ہے جبکہ قطب الدین ایبک کا مزار لاہور میں ہے۔ یہ لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے مرگیا تھا۔ آج بھی اس کا مزار لاہور میں ایبک روڈ پر واقع ہے۔ قطب مینار بنانے والے تیسرے بادشاہ فیروز شاہ تغلق کا مقبرہ دہلی کے علاقے کوٹلہ میں واقع ہے۔

مسجد کے صحن میں ایک ۲۴ فیٹ بلند ٹھوس لوہے کا مینار نصب ہے۔ یہ تناسب کے ساتھ نیچے سے موٹا اور اوپر جاکر پتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہزار چھ سو سال بعد بھی اس میں زنگ نہیں لگا۔ راجہ چندر گپت کے زمانے میں تعمیر کیے گئے اس مینار پر قدیم زبان میں کندہ تحریر آج بھی واضح ہے جو راجہ کی تعریف پر مبنی ہے۔

سب لوگ لوہے کے اس مینار کے پاس آکر کھڑے ہوتے، اس سے پشت لگا کر پیچھے سے دونوں ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے۔ کسی کے ہاتھ آپس میں نہیں مل رہے تھے۔ ہم نے بھی کوشش کی اور ہمارے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مل گئیں۔ صبا اور صبور بھائی نے شور مچا دیا۔ آس پاس کے لوگ بھی متوجہ ہوگئے۔ تب ہم نے پوچھا کہ اس ساری سعی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں بتایا گیا کہ قدیم روایت کے مطابق جس کے ہاتھ آپس میں مل جائیں وہ بڑا خوش قسمت وغیرہ ہوتا ہے۔ ہم اپنی خوش قسمتی کو مستقبل کے کسی انقلاب کے سپرد کرکے چلے آئے!!!

یہاں سے ہمایوں کے مزار پہنچے۔ جیسے ہی عظیم الشان داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے سرخ رنگ کی پُر جلال و پُر ہیبت عمارت سامنے نمایاں ہوگئی۔ ایسا لگا گویا تاج لگائے ہمایوں بادشاہ اپنے جاہ و جلال اور کر و فر سمیت خود جلوہ افروز ہے۔

مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا یہ پُر شکوہ مقبرہ اس کی بیوی حمیدہ بانو بیگم نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ ہندوستان میں اپنی طرزِ تعمیر کا سب سے اوّلین نمونہ تھا۔ تاج محل میں بھی اس نمونے کے کچھ آثار نظر آتے ہیں۔ یہ نمونہ ہندوستانی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔یہاں ہمایوں کے علاوہ دیگر مغل زعماء کے مقابر اور مسجد بھی ہے۔ اس لیے اسے مغلوں کی بسترگاہ بھی کہا جاتا ہے۔

ہمایوں کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، مسلسل غلط سیاسی فیصلوں نے ایک وقت میں اسے سلطنت سے ہاتھ دھونے پر بھی مجبور کردیا ۔ بڑی جد و جہد اور کاوشوں کے بعد جب سلطنت ہاتھ آئی تو متاعِ زیست ہاتھ سے جاتی رہی۔ ایک شام ہمایوں اپنے کتب خانہ کم رصد گاہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا جس کے باعث اس کا انتقال ہو گیا۔ یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق: ’’اس نے ساری عمر ٹھوکریں کھائیں اور آخر میں بھی ٹھوکر کھاکر ہی مرا۔“
 
آخری تدوین:
Top