سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
گجرات I

بس ایک آن میں منظر کی آنکھ بند ہوئی
تمام رنگ مہکتی ہوئی فضاؤں کے
تمام گیت بہکتی ہوئی ہَواؤں کے
تمام لفظ بلکتی ہوئی دعاؤں کے
تمام حرف وبیاں شوق کی نگاہوں کے
تمام نور کے چشمےتمام دل کے دیار
تمام خواب تمنّاؤں کے گل وگلزار
تمام خاک ہوئے اور ایک ہی پل میں
اتھاہ گہرے اندھیرے کی سرد کھائی میں
فنا کی آخری ہچکی کے بعد
ڈوب گئے!!

اور اس کے بعد فضا نے غبار اوڑھ لیا
سحر کی ٹھنڈی ہوا اپنے بال بکھرا کر
نہ جانے کس کے لئے بین کرکے روتی رہی؟
سیاہ سوگ کی تنہائی میں ڈبوتی رہی
حقیقتوں کی نہ پوچھو کہ خواب بھی نہ رہے
فقط سوال ہیں جن کے جواب بھی نہ رہے
نہ جانے کون سا غم تھا کہ جس کے بوجھ تلے؟
بلند وبالا مکانوں نے خود کشی کرلی
جنوں میں صحرا نے کھیتوں نے سبزہ زاروں نے
خود اپنے جیب وگریباں چاک کرڈالے
زمین بھوک میں اپنے بدن کو کھانے لگی
یہ لگ رہا تھا کہ جیسے قیامت آنے لگی

مگر کسی کوکرشمہ دکھانا ہوتا ہے
کرامتوں کا بھی کوئی زمانہ ہوتا ہے
کہ یہ بھی تھاکہ اندھیرے کی سرد کھائی میں
کہ خوف اور اذیت کی بے پناہی میں
جو انتظار کی امید کی ڈھلان پہ تھے
مگر یقین کا اپنے دیا جلائے ہوئے تھے
اور اپنے پالنے والے سے لَو لگائے ہوئے تھے
تو ان کو نیک فرشتے بچانے آئے ہوئے تھے
کہ روشنی کی بہر حال جیت ہوتی ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
ایک غزل امن کی پہل کے نام

ہَوا کے ہاتھ میں منہدی لگانے نکلے ہیں
غزالِ شوق کو دلہن بنانے نکلے ہیں
وہ روٹھ جانے کے فن میں بہت پرانا ہے
یہ جانتے ہوئے اس کو منانے نکلے ہیں
کھلی فضا کی بھی کچھ دیر سیر کرنا ہے
تو دیر تک کے سفر کے بہانے نکلے ہیں
جو بجھ گئے ہیں ہواؤں کی سازشوں سے چراغ
جلا سکے تو انہیں پھر جلانے نکلے ہیں
کوئی ضرور زمیں کی دعائیں سنتا ہے
دھویں کے ابر سے موسم سہانے نکلے ہیں
جو سرحدوں کے سوا دل بھی بانٹ دیتی ہے
اسی لکیر کو اب کے مٹانے نکلے ہیں
جو آگ پھیل گئی جنگلوں سے بستی تک
اب اس سے اپنے گھروں کو بچانے نکلے ہیں
**
باجپئی جی کی لاہور بس یاترا
****
 

الف عین

لائبریرین
کاش

کبھی تو یوں ہو!
کہ دونوں چپ چاپ بیٹھے بیٹھے
بس ایک دوجے کو دیکھے جائیں
نہ آنکھ جھپکیں نہ لب ہلائیں
بس اس کے بارے میں سوچے جائیں
کہ ہوتے ہوتے بغیر حرف وصدا کا ہم پر
طریقِ گویائی منکشف ہو!
تو گفتگو ہو!!

طرح طرح کی ہزار باتیں
جو اس سے پہلے نہیں کہی تھی
مزے مزے کے تمام قصے
کہ جن کے پردے میں ہم چھپے تھے
سنائیں ایسے
بتائیں ایسے
کہ خود ہمیں بھی خبر نہ ہو
کبھی تو یوں ہو!!!
 

الف عین

لائبریرین
گھر

عجیب گھر تھا
کہ جس کے دیوار ودر ہوا کے بنے ہوئے تھے
چہار اطراف روشنی کے حسین پردے پڑے ہوئے تھے
فصیل ومحراب میں ستارے جڑے ہوئے تھے
تمام اشجار دست بستہ کھڑے ہوئے تھے
عجیب گھر تھا!

دھنک کے سب رنگ
اس کے نقش ونگار میں جگمگا رہے تھے
فضا میں رقصاں طیور نغمے سنا رہے تھے
سفیر خوشبو کی مملکت سے بھی آرہے تھے
مہکتے پھولوں سے بام ودر کو سجارہے تھے
وہ اس کا گھر تھا!!



ہر ایک گوشے میں عکس اس کا چھپا ہوا تھا
اسی بدن کی مہک سے یہ گھر بسا ہوا تھا
بڑی سی تختی پہ نام اس کا لکھا ہوا تھا
اسی کی خاطر یہ قصرِ زریں بنا ہوا تھا
مگر کھلے جب کواڑ اس کے
تو میں نے دیکھا
کہ اس کے اندر تو میں ہی میں تھا!!!
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل تیستاسیتلواد *کے نام

سنہری صبح کا روشن اشارا جیسا ہے
کہیں کہیں کوئی جگنو ستارا جیسا ہے
صنم کدے کا بھی ایمان جاگتا ہے کبھی
کہ اس کے دل میں بھی اک رب ہمارا جیسا ہے
ہَوا چلے ہے تو چنگاریاں سی اڑتی ہیں
ہماری راکھ میں اک برق پارا جیسا ہے
امید ٹوٹی نہیں ہے ابھی اجالوں کی
چراغِ آخرِ شب بھی سہارا جیسا ہے
یہ سرخ پھول لہو رنگ پھول رستے نے
ہمارے نقشِ قدم کو ابھارا جیسا ہے
بدن سے مہکی ہوئی چاندنی سی پھوٹتی ہے
وہ آدمی ہے مگر ماہ پارا جیسا ہے

*ظہیرہ شیخ کی مددگار

***
 

الف عین

لائبریرین
شاعرکے شکریے کے ساتھ
ان پج سے تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، اور کتابیں ڈاٹ آئ فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے بابا جانی سبحان اللہ ، میں اسے محفوظ کرلیتا ہوں اور فرصت سے پڑھتا ہوں ، بہت بہت شکریہ
 
Top