سب نے جب ٹھکرا دیا تھا کہہ کے دیوانہ مجھے۔ سراج الدین سراج

فرحت کیانی

لائبریرین
سب نے جب ٹھکرا دیا تھا کہہ کے دیوانہ مجھے
بھیجتے ہیں کس لیے پھولوں کا نذرانہ مجھے

روزِ اول کیا سنا دی اپنی رودادِ جنوں
اب تو سونے ہی نہیں دیتا ہے ویرانہ مجھے

صورتِ عنواں رہے گی حشر تک میری وفا
ایک شب جلنا پڑا مانندِ پروانہ مجھے

بھر دیا خوش ہو کے بنیادوں میں نسلوں کا لہو
کس قدر مہنگی پڑی تعمیرِ کاشانہ مجھے

میں نگاہوں سے بدل سکتا ہوں نظمِ میکشی
کیا سمجھ بیٹھا ہے آخر پیرِ میخانہ مجھے

اعتبارِ حسن اس کے ساتھ رخصت ہو گیا
ہر حقیقت لگ رہی ہے آج افسانہ مجھے

دوسروں کے غم میں جلتا دیکھ کر مجھ کو سراج
روشنی نے خود بنایا اپنا پیمانہ مجھے

سراج الدین سراج
 
Top