سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں ۔ رشید ندیم

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں
جتنے نشّے ہیں ترے جام سے نکلے ہوئے ہیں

جس طرف دیکھیں ترے اسم کا پھیلا ھے طلسم
نام جتنے ہیں ترے نام سے نکلے ہوئے ہیں

ہم بھی کرتے ہیں شب و روز اُسی گھر کا طواف
ہاں فقط جامۂ احرام سے نکلے ہوئے ہیں

ڈھونڈنے اُٹھے ہو اب سانجھ سویرے جس کو
ڈھونڈنے ہم بھی اُسے شام سے نکلے ہوئے ہیں

تری دہلیز پہ ہی آ کے کریں گے سجدہ
سب کے سب تیرے در و بام سے نکلے ہوئے ہیں

سارے آزادہ و خودبیں ہیں گرفتار ترے
پر سمجھتے ھیں ترے دام سے نکلے ہوئے ہیں

اپنی یہ تہمتِ تکفیر بچا کر رکھ لے
ناصحا ہم ترے اسلام سے نکلے ہوئے ہیں

بھول جاتے ھیں کسی عالمِ حیرت میں ندیم
ورنہ گھر سے تو کسی کام سے نکلے ہوئے ہیں


(رشید ندیم)
 

محمد وارث

لائبریرین
جس طرف دیکھیں ترے اسم کا پھیلا ھے طلسم
نام جتنے ہیں ترے نام سے نکلے ہوئے ہیں

ہم بھی کرتے ہیں شب و روز اُسی گھر کا طواف
ہاں فقط جامۂ احرام سے نکلے ہوئے ہیں

اپنی یہ تہمتِ تکفیر بچا کر رکھ لے
ناصحا ہم ترے اسلام سے نکلے ہوئے ہیں

بھول جاتے ھیں کسی عالمِ حیرت میں ندیم
ورنہ گھر سے تو کسی کام سے نکلے ہوئے ہیں

کیا خوبصورت غزل ہے، کیا لاجواب اشعار ہیں۔ واہ واہ واہ
 
Top