سانحہ تعلیم القرآن راولپنڈی ، آج نیوز چینل کا خصوصی پروگرام

حسینی

محفلین
آپ پھر گول مول باتیں کر گئے حسینی بھائی۔
مجھے اپنے اوپر ہی غصہ آ سکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ میں اتنی ہمت ہوگی کہ آپ صاف صاف اپنے عقائد اپنی کتابوں کی رُو سے بیا ن کریں گے، مگر اپ گول مول کر گئیے۔ میں جاننا چاہتا تو ہوں کہ آپ سے پوچھوں وہ کونسے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین تھے جو آپ کی نظر میں مرتد ہوئے؟ کیا مرتدین کی فہرست میں آپ ابن عباس، ابوذر، سلمان، اور مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے علاوہ سب کو ڈالتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کا جواب کیا ہوگا۔

اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ شہادتین کا مطلب مجھے بھی پتہ ہے کہ دو شہادتیں ہیں، مگر یہ ربط تو کچھ اور کہہ رہا ہے۔ یہاں تو کتب سے شہادتین کے کلمے نقل کئے گئے۔ اب یا آپ غلط ہیں یا یہ کتب غلط۔ دونوں درست نہیں ہو سکتے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ جب آپ نے کہا کہ جو شہادتین کا اقرار کرے وہ آپ کے نزدیک مسلمان ہے تو شہادتین سے آپ کی مراد صرف وہ شہادتین رہیں جو آپ نے ابھی کہا ، جیسا کہ میں نے آپ کے مراسلے کااقتباس لیا، یا پھر وہ شہادتین جو آپ کی مروجہ کتب میں منقول ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہر دو صورت میں مسلمان کی تعریف بدل جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی مسلمانی اس وقت تک مشکوک ہے جب اپ یہ واضح نہیں کرتے کہ شہادتین کی تعریف میں اتنا بڑا تضاد کیونکر ہوا۔ کونسی والی تعریف درست ہے۔ اگر آپ کی والی تعریف درست ہے تو کتابوں میں غلط بیانی کیوں؟؟
ویب سائٹ کا سکرین شات لیا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ بلاگ ختم ہو جاتا ہے تو تصویر میرے پاس رہےگی۔ بوقت ضرورت میں پیش کر سکتا ہوں۔


مجھے یا دپڑتا ہے کہ ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب مقدمہ کتاب الہند میں کہیں لکھا ہے کہ کسی قوم کے مذہب کے بارے میں جاننا چاہو تو اس کے خواص ) میرا خیال ہے اس سے مراد علماء ہی ہوگی( سے پوچھا جائے۔ کیونکہ عوام کی اکثریت مذہب کی تفاصیل سے ناواقف ہوتی ہے۔ اگر اس اصول کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کتب میں منقول شہادتین کی تعریف ہی درست تعریف ہو گی۔ حسینی بھائی والی تعریف تو اہلسنت والی تعریف لگتی مجھے۔

جاتے جاتے ایک مرتبہ پھر صاف اور غیر مبہم جواب کی امید میں سوال لکھتا جا رہا ہوں،
شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
ابن عباس، سلمان ابوذر، مقداد کے علاوہ جو لوگ تھے، مثلا ابو ہریرہ ، ابی بکر، عمر ، عثمان، علی، طلحہ، ابن زبیر، سعد بن ابی وقاص، عمرو بن العاص، وغیرہم، ظاہر ہے اگر سب کا نام لکھنے بیٹھ گیا تو میں مکمل نہ کر پاؤں گا اس لئے نمونے کے طور پہ کچھ نام لکھ ڈالے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے۔ تو کیا ان سب کو آپ صحابی سمجھتے ہیں؟ اور کیا یہ عقیدہ جمیع اہل تشیع کا بھی ہے؟ اور ان میں سے کون تھے جو مرتد ہوئے ؟ ان کے ارتداد کی کیا وجوہات بیان کرتے ہیں آپ لوگ؟

لہٰذا میں بہتر سمجھتا ہوں کہ اختتام سے پہلے یہ بات لکھتا چلوں کہ اگر آپ میرے سوالوں کے جواب میں اسی طرح آئیں بائیں شائیں کرتے رہے تو میرا اس موضوع پر یہ آخری مراسلہ ہوگا۔ اپ کے جوابوں سے تشنگی بڑھتی جا رہی اور میں سمجھتا ہوں یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اپ شائد اب پہلوتہی کرنے لگے ہیں اس بحث سے ۔
کتابوں کو میں نے دیکھا ہے۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی عقیدہ کی کتاب نہیں ہے۔۔۔۔ سب ہی تقریبا احادیث کی کتابیں ہیں جن کو کسی بلاگ پر جمع کیا گیا ہے۔۔ اور یہ کام کیا بھی کس نے ہے نہیں معلوم۔۔۔ کوئی معتبر حوالہ دیا کریں۔۔ اور کسی بھی جگہ یہ نہیں لکھا ہوا کہ مسلمان بننے کے لیے یہ والی شہادت پڑھنا ضروری ہے۔۔۔ اور یہ بات بھی یاد کریں کہ جو کلمہ آج کل ہم سارے
مسلمان پڑھتے ہیں اسی شکل میں آپ قرآن یا احادیث میں کہیں نہیں دکھا سکتے۔۔۔۔ جیسے کہا گیا کہ اللہ کی وحدانیت اور پیامبر اکرم کی وحدانیت کی گواہی ہونی چاہیے اب اس کے لیے الفاظ جو بھی اختیار کر لے۔۔
اور جب شہادتین کہا گیا تو وہ پہلی دو شہادت ہی مراد ہے ۔۔۔ اور ان دو شہادتوں سے مسلمان ہو جاتا ہے۔۔
تیسری شہادت جو علی ع کی ولایت کی شہادت ہے اس کے پڑھنے سے (یعنی اس کا عقیدہ رکھنے سے) وہ شیعہ ہوجاتا ہے۔۔۔
ارتداد کے حوالے سے جو اور جگہوں پر میں نے جوابات دیے ہیں اس سے شاید بات واضح ہو گئی ہو۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
مختصر طور پر اتنا ہی کہوں گا کہ آپ انتہائی حد تک غلط ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق ایک حدیث کا متن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی بنی ہوتا تو عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوتا۔

اس سے آپ ان کی شان کا اندازہ فرما لیں۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رتبہ تو ان سے بھی زیادہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خلیفہ اول، دوم اور ثالث نے خلافت کو جو ان کا حق نہیں تھا ( اور علی ابن ابی طالب جو خلیفہ منصوص من اللہ تھے ان کا حق) غصب کیا تھا۔۔۔ اس وجہ سے یہ لوگ غاصب ٹھہریں گے۔

آپ ان خلفاء کو غاصب قرار دے رہے ہیں جن میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسُر تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئیں۔

ایک حدیث کا متن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم قیامت سب سے پہلے میرا حساب ہو گا، پھر ابو بکر کا، پھر عمر کا پھر علی کا۔

اصحابہ کرام نے پوچھا اور عثمان کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔

حیرت ہے آپ ان کو غاصب کہہ رہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خلفیہ اول اور دوم اور ثالث کو خلافت کا حق نہیں تھا؟

اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کیسے خلیفہ منصوص من اللہ تھے؟
 

گرائیں

محفلین
مختصر طور پر اتنا ہی کہوں گا کہ آپ انتہائی حد تک غلط ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق ایک حدیث کا متن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی بنی ہوتا تو عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوتا۔

اس سے آپ ان کی شان کا اندازہ فرما لیں۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رتبہ تو ان سے بھی زیادہ ہے۔


مجھے اپ کے جذبات کا اندازہ ہے۔ مگر میں اس وقت آپ سے اور باقی سب سے درخواست کروں گا کہ دخل اندازی نہ کریں۔ میں اپنی اس کوشش میں بالکل سنجیدہ ہوں کہ میں جاننا چاہتا ہوں وہ کیا باتیں ہیں ہمیں، اہل سنت والجماعت کو اہل تشیع سے ممیز کرتی ہیں۔ میں نے حسینی بھائی سے بار بار اسی لڑی میں درخؤاست کی کہ وہ تفصیل بتائیں۔ ان کو اپنی بات مکمل کر نے دیں۔ کیا درست ہے کیا غلط، گفتگو کے اختتام تک واضح ہو جائے گا۔ درمیاں میں مداخلت سے حسینی بھائی کی توجہ کسی طرف مبذول ہو جائے گی اور جیسا کہ عموما ہوتا ہے گفتگو کا رُخ یکسر بد ل جائے گا۔
بحیثیت منتظم آپ پر ہم باقی ممبران کی نسبت زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
امید ہے آپ اس درخواست پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔
اور مجھے امید ہے حسینی بھائی باقاعدہ حوالے مہیا کر کے بات کریں گے، کہ ان موضؤعات پر ذاتی خیالات پر مبنی گفتگو کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔
 

گرائیں

محفلین
۔ محب اردو ، گرائیں ۔ شمشاد بھائی آپ نے ان سوالات کے جواب مانگے ہیں۔ لہذا میں بالکل صاف الفاظ میں بغیر کچھ چھپائے ان کا ایک حد تک جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
لیکن ان لوگوں سے پیشگی معذرت کروں گا جن کا دل شاید میری ان باتوں کی وجہ سے دکھے۔۔۔ مگر دوسری طرف آپ کے عقائد میں بھی بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن سے ہمارا دل دکھتا ہے۔۔۔ لیکن آزادی عقیدہ ہر کسی کو ہے۔
جمہور شیعہ کے نزدیک:
خلیفہ اول، دوم اور ثالث نے خلافت کو جو ان کا حق نہیں تھا ( اور علی ابن ابی طالب جو خلیفہ منصوص من اللہ تھے ان کا حق) غصب کیا تھا۔۔۔ اس وجہ سے یہ لوگ غاصب ٹھہریں گے۔۔۔ اب آپ خود سوچیں جن کو یہ لوگ غاصب سمجھتے ٰ ہیں ان کے حوالے سے کیا عقیدہ ہوگا؟؟؟ اور اس کے قاتل کے بارے پھر کیا کہیں گے؟؟

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا ع کی رضایت کو رسول خدا نے اپنی رضا اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا۔۔ اور یہ بھی یقینی ہے رسول کی خوشنودی اللہ کی خوشنودی اور رسول کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ أَبِى مُلَيْكَةَ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ - رضى الله عنهما - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى ، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِى »
(صحیح بخاری حدیث 3714، 3729، 3767، سنن ترمذی حدیث 3804، 4243، صحیح مسلم حدیث 4483، 6461، 2449)
اور پھر یہ حدیث کہ نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ع حضرت ابوبکر اور عمر سے ناراض تھیں۔۔۔ اور ساری زندگی ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ - عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ - أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ ، وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَفَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ « لاَ نُورَثُ ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ » . قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ لاَ أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلاَّ صَنَعْتُهُ . قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ۔
(صحیح بخاری حدیث 6725، 6726، 6230، 6346)۔
حدیث کے اس آخری بولڈ شدہ الفاظ پر غور کریں۔ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
یہ تو اہل سنت برادران کی کتابوں سے ہیں۔
ورنہ شیعہ مصادر میں اس حوالے سے کمیت اور کیفیت دونوں حوالوں سے بہت زیادہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔۔۔ ۔

میں نے اس مراسلے کو بعد میں دیکھا۔ اس لئے پہلے بات کر گیا۔ کیا آپ کی بات جاری ہےِ
 
یہ بحثیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں اور میرے خیال میں یہ بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ کس کا کیا موقف ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کا موضوع تو یہ ہونا چاہئیے کہ اس سارے اختلاف کے باوجود، کیا کسی ایک گروہ کو کافر کہا جاسکتا ہے؟ میرا تو یہی خیال ہے کہ ہرگز نہیں۔ ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھئیے البتہ دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنے اپنے نقطہ نظر کی رو سے گمراہ بیشک سمجھتے رہیں لیکن کافر نہیں اور ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے اور اس فرق کو ذہن میں نہ رکھنے کی وجہ سے ہی ملک میں اس قدر بدامنی، عدم برداشت اور مذہبی دہشت گردی پھیل رہی ہے۔۔۔کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والے کسی شخص کو کافر کہے یا سمجھے۔ لیکن جب مولوی حضرات اس کلمے کا مقام نہ پہچانتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر کہنے میں بے باک ہوجاتے ہیں تو یہ دراصل اللہ اور اسکے رسول کی بارگاہ میں گستاخی اور بے باکی ہی ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ صرف اللہ اور اسکے رسول ہی دے سکتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا مسلمان۔۔۔باقی ہر شخص کو خواہ وہ کسی بھی درجے پر فائز ہو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔۔۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلا ں قول یا عمل یا طرزِ عمل اپنے اندر کفر کی وجوہ رکھتا ہے لیکن اس بناء پر مطلقا کسی کو کافر کہہ دینا گویا خدا کی خدائی میں دخل دینا اور اسکے علم کو اور اپنے علم کو ایک ہی درجے میں رکھنے پر شرک کا مرتکب ہونا قرار پائے گا۔
چنانچہ اپنے ہر نقطہ نظر کے بعد اللہ و رسولہ اعلم کہنا اور سمجھنا ہی دراصل مسلمان کے شایانِ شان ہے۔ و فوق کل ذی علم علیم۔
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
یہ بحثیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں اور میرے خیال میں یہ بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ کس کا کیا موقف ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کا موضوع تو یہ ہونا چاہئیے کہ اس سارے اختلاف کے باوجود، کیا کسی ایک گروہ کو کافر کہا جاسکتا ہے؟ میرا تو یہی خیال ہے کہ ہرگز نہیں۔ ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھئیے البتہ دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنے اپنے نقطہ نظر کی رو سے گمراہ بیشک سمجھتے رہیں لیکن کافر نہیں اور ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے اور اس فرق کو ذہن میں نہ رکھنے کی وجہ سے ہی ملک میں اس قدر بدامنی، عدم برداشت اور مذہبی دہشت گردی پھیل رہی ہے۔۔۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والے کسی شخص کو کافر کہے یا سمجھے۔ لیکن جب مولوی حضرات اس کلمے کا مقام نہ پہچانتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر کہنے میں بے باک ہوجاتے ہیں تو یہ دراصل اللہ اور اسکے رسول کی بارگاہ میں گستاخی اور بے باکی ہی ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ صرف اللہ اور اسکے رسول ہی دے سکتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا مسلمان۔۔۔ باقی ہر شخص کو خواہ وہ کسی بھی درجے پر فائز ہو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔۔۔ زیادہ سےھ زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلا ں قول یا عمل یا طرزِ عمل اپنے اندر کفر کی وجوہ رکھتا ہے لیکن اس بناء پر مطلقا کسی کو کافر کہہ دینا گویا خدا کی خدائی میں دخل دینا اور اسکے علم کو اور اپنے علم کو ایک ہی درجے میں رکھنے والے شرک کا مرتکب ہونا قرار پائے گا۔
چنانچہ اپنے ہر نقطہ نظر کے بعد اللہ و رسولہ اعلم کہنا اور سمجھنا ہی دراصل مسلمان کے شایانِ شان ہے۔ و فوق کل ذی علم علیم۔
سو فیصد متفق بھائی جی۔۔۔۔
لیکن جب کسی مکتبہ فکر پر عقیدتی حملہ ہو۔۔۔ اور ایسی باتیں منسوب کریں جن کی وہ قائل نہیں تو ان کا انکار ضروری ہے۔
یقینا یہ جھگڑے چودہ صدیوں سے جاری ہیں۔۔ اور ہم کچھ دنوں میں نہ ان کو ختم کر سکتے ہیں۔۔۔ اور نہ ہی ختم کرنا مقصد ہے۔
لیکن بہت زیادہ غلط فہمیاں جو آپس میں پھیلی ہوئی ہیں۔۔۔ شاید ان میں اک حد تک کمی آسکے۔
 

حسینی

محفلین
مختصر طور پر اتنا ہی کہوں گا کہ آپ انتہائی حد تک غلط ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق ایک حدیث کا متن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی بنی ہوتا تو عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوتا۔

اس سے آپ ان کی شان کا اندازہ فرما لیں۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رتبہ تو ان سے بھی زیادہ ہے۔
اگر آپ صحیح بخاری کی انہی احادیث کے اندر رہتے ہوئے بحث کریں تو اچھا ہوگا۔۔۔ جن کا حوالہ میں نے دیا ہے۔
باقی حق یہ بنتا ہے کہ آپ بحث میں ہماری کتابوں کا حوالہ دیں۔۔۔ نہ کہ اپنی کتابوں کا۔
اور حضرت عمار یاسر کے حوالے سے جو حدیث شئیر کی تھی اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔
 

آصف اثر

معطل
یہ بحثیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں اور میرے خیال میں یہ بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ کس کا کیا موقف ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کا موضوع تو یہ ہونا چاہئیے کہ اس سارے اختلاف کے باوجود، کیا کسی ایک گروہ کو کافر کہا جاسکتا ہے؟ میرا تو یہی خیال ہے کہ ہرگز نہیں۔ ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھئیے البتہ دونوں فریق ایک دوسرے کو اپنے اپنے نقطہ نظر کی رو سے گمراہ بیشک سمجھتے رہیں لیکن کافر نہیں اور ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے اور اس فرق کو ذہن میں نہ رکھنے کی وجہ سے ہی ملک میں اس قدر بدامنی، عدم برداشت اور مذہبی دہشت گردی پھیل رہی ہے۔۔۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والے کسی شخص کو کافر کہے یا سمجھے۔ لیکن جب مولوی حضرات اس کلمے کا مقام نہ پہچانتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر کہنے میں بے باک ہوجاتے ہیں تو یہ دراصل اللہ اور اسکے رسول کی بارگاہ میں گستاخی اور بے باکی ہی ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ صرف اللہ اور اسکے رسول ہی دے سکتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا مسلمان۔۔۔ باقی ہر شخص کو خواہ وہ کسی بھی درجے پر فائز ہو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلا ں قول یا عمل یا طرزِ عمل اپنے اندر کفر کی وجوہ رکھتا ہے لیکن اس بناء پر مطلقا کسی کو کافر کہہ دینا گویا خدا کی خدائی میں دخل دینا اور اسکے علم کو اور اپنے علم کو ایک ہی درجے میں رکھنے پر شرک کا مرتکب ہونا قرار پائے گا۔
چنانچہ اپنے ہر نقطہ نظر کے بعد اللہ و رسولہ اعلم کہنا اور سمجھنا ہی دراصل مسلمان کے شایانِ شان ہے۔ و فوق کل ذی علم علیم۔
محترم محمود احمد غزنوی بھائی آپ کے جذبات اور احساسات کا ادراک مجھے بھی ہے مگر میں یہاںمناسب سمجھو ں گا کہ آپ اتنے پُرامن اور دلائل سے لیس بحث میں فی الحال شامل نہ رہے تو یہ آپ کی اعلی ظرفی ہوگی۔ کیوں کہ غلط فہمیوں ،ارتداد، گمراہی اور کفر میں فرق بہ ہر حال سامنے آنا چاہیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ یہ اختلافات کسی حد تک ہی سہی سب محفلین سمجھے؟ ضرور چاہیں گے۔ لہذا حسینی ، محب اردو اور گرائیں بھائی کو اپنے اکابرین کامؤقف رکھنے میں فی الحال انتظار سے کام لیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ۔
آمین
 

سید ذیشان

محفلین
میں بھی غزنوی بھائی سے اتفاق کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ یہ سنی شیعہ بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ چیدہ چیدہ عقائد کا سب ہی کو علم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ بنیادی اختلاف خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ تو دوبارہ سے یہ بحث کرنا بے سود ہے۔ باقی اگر کسی کو کسی مکتبہ فکر پر مزید تحقیق کرنی ہو تو اس مکتبہ فکر کے چوٹی کے علما کی کتابیں پڑھے۔ اگر اس کو معلوم نہ ہو تو اس کا حوالہ مانگ سکتا ہے۔
باقی انسان کو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اور فتنہ پردازی سے دور رہنا چاہیے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
کافی پرامن سی بحث ہے مگر لگتا نہیں کہ پر امن رہے گی، میرے خیال میں آج کل کے دور میں کسی کو اہل سنت اور اہل تشیع کے عقائد کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور سب ہی ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں اور خصوصا اہل محفل تو ضرور ہی جانتے ہوں گے۔ پھر بھی فریقین اگر برداشت کو قوی رکھ کر بحث جاری رہے ضرور رہے حسینی صاحب کیا کریں گے کہاں تک کھل کر بیان کریں گے اپنے عقائد کیوں کے میرے نزدیک تو اہل سنت اور اہل تشیع کے عقائد، کثیر، ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایک کا محترم دوسرے کا مرتد اور ایک کا معصوم دوسرے کا خطا کار ہے۔ اس دور میں پہچنے تک شیعہ و سنی دریا کےدو ایسے کنارے ہیں کہ جو کبھی نہیں مل سکتے اور ہمیشہ ایک کنارا مشرق میں ہو گا تو دوسرا اس کی مخالف سمت ہو گا۔۔۔۔ مگر یہ ساتھ بہہ تو سکتےہیں اپنی اپنی منز مقصود تک پہچنے کے لیے، بنا ایک دوسرے کو چھیڑے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے کڑوے اور سخت ترین عقائد کو جان کر بھی ایک دوسرے کا پاکستانی اور ہم وطن ہونے کے ناطے حق آزادی تسلیم کیا جائے، یہ حق آزادی زندہ رہنے کا اور تمام مروجہ شہری حقوق رکھنے کا حق ہے۔ بے شک ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہیں مگر کسی سے زندہ رہنے کا حق ہر گز مت چھینیں، اگر کسی کو اپنے عقیدے اپنے راستے پر چلانے کا زیادہ ہی شوق ہے تو اپنے عمل سے اپنے اخلاق سے اسے اپنا مطیع کریں۔ وہ طریقہ تبلیغ اپنائیں جو ہمارے سلف نے اپنایا۔ مناظروں میں استعمال ہونے والے عقائد اور دلیلیں منبروں پر نہ بیان کی جائیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھا انسان کوئی بن جائے تو وہی کافی ہے زندہ رہنے کے لیے کیوں کہ اچھا انسان اچھا مسلمان بننے کی پہلی منزل ہے۔ ہمارے ہاں اچھائی کا یہ معیار ہے کہ بے ایمانی کرنے والا اور لوگوں کا مختلف طریقوں سے خون چوسنے والا تاجر'حج' بھی کرتا ہے اور "زیارات" بھی کرتا ہے اورخود کو اچھا مسلمان اور مومن کہلواتا ہے اور اسکا ضمیر اسے ایک لمحے کے لیے بھی شرمندہ نہیں کرتا۔
عقائد کی تعمیر کرنی ہی ہے تو گھروں میں کی جائے اپنی نسلوں کو اپنے اولادوں کو سب اچھا برا سکھایا جائے ان کی تربیت کی جائے، دیکھا جائے تو ایک اہل تشیع اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اپنے ہر عقیدے کے بارے میں بتاتا ہے مگر اہل سنت اپنے بچوں کو وہ توجہ نہیں دیتے جو دینی چاہیے اور وہ زیادہ تر علم معاشرے سے اور سنی سنائی باتوں سے حاصل کرتے ہیں کہ پڑھنے اور کتاب پڑھنے کا رواج تو ویسے بھی کم کم ہے، مگر ساتھ محبت کا لاحقہ لگا کر اور انسانیت کا درس پڑھا کر۔۔۔۔۔ آج کے دور میں انسانیت کی ہی اولیت ہونی چاہیے کیوں کے اچھا مسلمان اچھا انسان ضرور ہوتا ہے۔
 

محب اردو

محفلین
لو جی میرے نزدیک بحث ختم ہوگئی ۔
حسینی صاحب نے یہ ظاہر کیا تھا کہ سنی حضرات شیعوں کو ’’ برا بھلا ‘‘ ’’ کافر ‘‘ وغیرہ وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ہمیشہ اس بات سے اجتناب کرتے ہیں ۔
میں نے اسی غلط فہمی کے ازالے کے لیے دو چار شراکتیں کیں تھیں کہ شیعہ حضرات نے ’’ تبرا بازی ‘‘ اور ’’ تکفیر ‘‘ کا سلسلہ آج سے نہیں صحابہ کرام علیہ الرضوان سے شروع کر رکھا ہے ۔
میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں یہ ایک منصف مزاج قاری خود بخود اندازہ کرسکتا ہے ۔
باقی کوئی کافر ہے یا مسلمان ہے ؟ یہ بحثیں کوئی آج کی نہیں ہیں بڑے بڑے علماء و ذاکریں یہی گتھیاں سلجھاتے ہوئے راہ عدم کے مسافر ہوئے ۔ اور ویسے بھی یہ بحث علماء کے کرنے کی ہے میرے جیسے کم فہم اور کج بحث کو اتنے بڑے موضوع پر جسارت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
ابھی جو نئی بحث شروع ہوگئی ہے اگر جاری رہ سکی تو آپ دیکھیں گے کس طرح محنت اور ثواب سمجھ کر مسلمانوں (صحابہ کرام علیہم الرضوان ) کو کافر و باغی غاصب ثابت کیا جائے گا اور کافروں ( مثلا ابو لولو فیروز مجوسی ) کو ایک مسلم ہیرو ثابت کیا جائے گا ۔
پھر کہا جاتا ہے جی ہم صحابہ پر طعن نہیں کرتے ہم ان کو کافر نہیں کہتے بلکہ ہمارے نزدیک وہ صحابی ہیں ہی نہیں ۔ اور اس کو ایک علمی نکتہ تصور کیا جاتا ہے ۔
اسی بحر میں اگر کوئی سنی کہے کہ جناب ہم مسلمانوں کو کچھ نہیں کہتے بلکہ ہماری مراد تو شیعہ ہیں جو ہمارے نزدیک مسلمان ہی نہیں ۔ تو یہ ظلم اور تکفیر اور پتہ نہیں کیا کیا ہو جائے گا ۔
جناب اگر شیعہ کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا صحابہ کو کلمہ نہیں آتا تھا ؟!
میرے نزدیک اصل موضوع بحث یوں ہونا چاہیے کہ :
ایک دوسرے کو گمراہ مانتے ہوئے ، کافر ہی سہی ، اسی حالت میں آپس میں حسن سلوک کا رستہ کیسے نکالا جاسکتا ہے ؟ آخر یہودیوں عیسائیوں کے ساتھ بھی تو مسلمانوں کے تعامل کے کوئی نہ کوئی اصول و ضوابط ہوں گے ؟ یا پھر ہر کافر کا آخر حل قتل و غارت ہی ہے ؟
 

ابن رضا

لائبریرین
مذکور بحث سے ہر دو فریقین اس بات پہ متفق نظر آ رہے ہیں کہ دونوں مسالک کے عقائد میں تصادم کا اصل سبب حکومت، تخت، جانشینی یعنی سیاست یا جاہ و منزلت ہے جس سے دیگر تمام اختلافات ظہورپزیر ہوئے۔ تو یہاں یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺکے وہ نہایت قریب ترین ساتھی جن کا تزکیہ و تربیت خود سرکار ﷺ نے فرمائی اور جس تزکیے کی قران نے گواہی دی ۔ وہ قریبی ساتھی معاذ اللہ دولت و حکومت کے دلدادہ تھے۔ حالانکہ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سب حضرات کی زندگی دور ِ حکومت میں بھی نہایت سادگی اور انکساری میں گزری خسروانہ طرز زندگی سے اجتناب کیا پیوند زدہ ملبوسات کو پسند کیا، اور جن لوگوں نے باہمی محبت ، ایثار اور تقویٰ کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کو آج تک بھی جھٹلایا نہیں جا سکا۔ جیسا کہ عدل ِ فاروق تو غیر مسلم مورخین بھی بہت احترام سے یاد رکھے ہوے ہیں۔ شجاعت حیدر، یارِ غار اور دیگر عظیم مثالیں۔ایسے عظیم لوگ جنہوں نے دنیا بھر میں اسلام کا پرچم آویزاں کیا (جنابِ خالدبن ولید ر ) ہو ان کو بھی اسراف کے حکم میں معزول کرنے والے لوگ بھی حکومت کی ہوس رکھتے ہوں گے؟؟؟:atwitsend: یہ بات خلافِ منطق ہے۔ جبکہ دیگر تمام اختلافات اور انکی صداقت و کذب الگ حدیث ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ابن رضا صاحب دوسرے فریق کا یہی تو رونا ہے کہ خلافت کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں اور پہلے چاروں خلفاء اسےاپنی جوتی کی نوک پر رکھتے تھے اور ان کے نزدیک دنیاوی جاہ و متاع کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا تو کیوں دنیا کے مال اور سیاست کی خاطر ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے؟ کیوں ان کو غاصب کہا جاتا ہے۔ خود میرا سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی ترین ساتھیوں کا معاذ اللہ حقیقتا یہی حال تھا تو اسلام ختم ہے، اور اسلام تو پھر عیسائیت سے بھی گیا گزرا دین ٹھہرا کہ ادھر نبی نے آنکھیں بند کیں اور ادھر سب مال و دولت کی تقسیم میں پڑ گئے اور پھر تو نبی کو مشن اور دین بھی مشکوک ٹھہرا کہ وہ دین جو نبوت کے مشن کے خاتمے کے طور پر آیا تھا اور جس کے بعد آسمانی ہدایت کا سلسلہ منقطع ہونے والا تھا اس دین کا نبی چند قریبی ترین بندہ کےدل میں اس دین کو اتار تک نہ سکا تو رہتی دنیا کے ہزاروں ماہ سال تک وہ دین کس طرح وسیلہ ہدایت بن سکتا ہے؟؟؟ جس دین کا یہ حال ہو کہ اس کے شارع کے گھر والے اس کے قریبی ترین ساتھیوں سے بھی محفوظ نہ رہ سکیں وہ دین دنیا بھر کے مظلوموں کو کیا پیام امن دے گا؟؟؟ مسئلہ یہی ہے میرے لیے کہ اگر غاصب ہونے کے عقیدے کو ٹھیک سمجھا جائے تو اسلام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور اسلام کی عمارت دھڑام سے نیچے آن گرتی ہے اور اس دین کا بھی وہی حال نظر آتا ہے جو اس سے پچھلے ادیان کا ہوا حتیٰ کہ انھیں ترک کر کے ایک نیانبی مبعوث کیا جا نا ضروری سمجھا گیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
ایک دوسرے کو گمراہ مانتے ہوئے ، کافر ہی سہی ، اسی حالت میں آپس میں حسن سلوک کا رستہ کیسے نکالا جاسکتا ہے ؟ آخر یہودیوں عیسائیوں کے ساتھ بھی تو مسلمانوں کے تعامل کے کوئی نہ کوئی اصول و ضوابط ہوں گے ؟ یا پھر ہر کافر کا آخر حل قتل و غارت ہی ہے ؟

چلو جی تکفیر تو ثات ہے، اب سب مل بیٹھ کر اس بات پر مغز ماری کرتے ہیں ان کو کیسے قتل کیا جائے؟ میرے خیال میں تو ہٹلر کا گیس چیمبرز کا طریقہ کار کافی بہتر ہے۔ اس سے گند بھی کم مچتا ہے۔ کاکروچ بھی مارے جائیں گے اور تعفن بھی نہیں پھیلے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ماشاءاللہ کیا احسن خیالات ہیں آپ کے سید بادشاہ، پتہ نہیں اب میں متشدد خیالات رکھتا ہوں یا آپ مجھ سے دو ہاتھ آگے ہیں، منسلک بہ مراسلہ :eek:
مباحثہ عقائد سے چلتا ہوا اگر میں تم یعنی ذاتیات میں آ جائے تو پھر بات کی اصل روح دم توڑ دیتی ہے اس لیے سب برادارن سے نہایت ادب سے التماس ہے کہ منفی رویوں سے اجتناب کرتے ہوئے موضوع پہ تعمیری بحث فرمائیں
 

S. H. Naqvi

محفلین
معذرت چاہتا ہوں ابن رضا صاحب، اصل میں دوسری جگہ ایک اور دھاگے میں سید ذیشان صآحب سے کچھ حصول علم کی کوشش کررہا تھااس دھاگے میں ان کے کچھ زریں خیالات پڑھے تو بے اختیار اسی کا تذکرہ اس دھاگے میں آ گیا وگرنہ اس دھاگے میں غیر متعلقہ بات کر کے موضوع سے ہٹنا میرا مقصد نہیں تھا۔ :)
 

حسینی

محفلین
لو جی میرے نزدیک بحث ختم ہوگئی ۔
حسینی صاحب نے یہ ظاہر کیا تھا کہ سنی حضرات شیعوں کو ’’ برا بھلا ‘‘ ’’ کافر ‘‘ وغیرہ وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات ہمیشہ اس بات سے اجتناب کرتے ہیں ۔
میں نے اسی غلط فہمی کے ازالے کے لیے دو چار شراکتیں کیں تھیں کہ شیعہ حضرات نے ’’ تبرا بازی ‘‘ اور ’’ تکفیر ‘‘ کا سلسلہ آج سے نہیں صحابہ کرام علیہ الرضوان سے شروع کر رکھا ہے ۔
۔
؟
لگتا ہے آپ کو میرے کچھ پوسٹس برے لگ گئے ہیں۔۔۔۔ اسی لیے میں نے کہا تھا برداشت نہیں کر سکیں گے۔
لیکن جب شمشاد بھائ نے سوال کیا تو مجھے جواب دینا پڑا۔
تبرا اور تولی ہمارے فروع دین میں سے ہیں۔۔۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی۔۔۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہے۔
لیکن شاید آپ شیعہ فقہ کے نظام سے بالکل بھی واقف نہیں ہے۔۔۔ ہمارے ہاں سوائے ان مجتہدین کے جن کو مراجع کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد اس وقت پوری
دنیا میں شاید دس بارہ سے زائد نہیں ہیں کوئی اور شرعی فتوی جاری نہیں کر سکتا۔۔ فتوی کی فیکٹری ایسے ہی عام نہیں ہے۔۔۔
اور ہر بالغ شخص پر زندہ مجتہد کی تقلید واجب ہے۔۔۔ یعنی اپنے شرعی احکام ان سے پوچھ کر ان پر عمل کرے۔۔۔ کوئی عام بندہ خود سے کوئی اس طرح کی بات کر ہی نہیں سکتا۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات پلے باندھ لیں کہ الحمد للہ آج تک ہمارے کسی مجتہد نے اہل سنت برادران کی نعوذ باللہ تکفیر نہیں کی۔۔۔ بلکہ الٹا ان کے ساتھ مل جل کر رہنے اور وحدت پر زور دیا ہے۔
آپ اگر کسی کا فتوی لا کر دکھائیں تو میں اپنی تمام بحث ادھر ہی چھوڑ دوں گا۔
اور یہاں یہ بات فرق بھی ملحوظ رہے کہ اہل سنت بریلوی برادران نے بھی آج تک شیعوں کی تکفیر نہیں کی۔۔۔ بلکہ ہمیشہ اچھے تعلقا ت رہے ہیں۔۔ آپ اپنے بڑوں سے پوچھ لیں کہ اہل سنت کے لوگ ہی محرم کے جلوس کے راستوں پر سبیلیں لگاتے تھے۔۔ اور جلوسوں میں شرکت بھی کرتے تھے۔۔۔ جس طرح سے شیعہ ربیع الاول کی عید میلاد النبی کے جلوسوں میں آج بھی شرکت کرتے ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بصد احترام دونوں فریقین سے میری گزارش ہے کہ میرے مذکورہ بالا سادہ سے سوال کا سادہ سا جواب عنایت فرمائیں کہ ان کا نقطہ ٔ نظر واضح ہوسکے

مذکور بحث سے ہر دو فریقین اس بات پہ متفق نظر آ رہے ہیں کہ دونوں مسالک کے عقائد میں تصادم کا اصل سبب حکومت، تخت، جانشینی یعنی سیاست یا جاہ و منزلت ہے جس سے دیگر تمام اختلافات ظہورپزیر ہوئے۔ تو یہاں یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺکے وہ نہایت قریب ترین ساتھی جن کا تزکیہ و تربیت خود سرکار ﷺ نے فرمائی اور جس تزکیے کی قران نے گواہی دی ۔ وہ قریبی ساتھی معاذ اللہ دولت و حکومت کے دلدادہ تھے۔ حالانکہ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سب حضرات کی زندگی دور ِ حکومت میں بھی نہایت سادگی اور انکساری میں گزری خسروانہ طرز زندگی سے اجتناب کیا پیوند زدہ ملبوسات کو پسند کیا، اور جن لوگوں نے باہمی محبت ، ایثار اور تقویٰ کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کو آج تک بھی جھٹلایا نہیں جا سکا۔ جیسا کہ عدل ِ فاروق تو غیر مسلم مورخین بھی بہت احترام سے یاد رکھے ہوے ہیں۔ شجاعت حیدر، یارِ غار اور دیگر عظیم مثالیں۔ایسے عظیم لوگ جنہوں نے دنیا بھر میں اسلام کا پرچم آویزاں کیا (جنابِ خالدبن ولید ر ) ہو ان کو بھی اسراف کے حکم میں معزول کرنے والے لوگ بھی حکومت کی ہوس رکھتے ہوں گے؟؟؟:atwitsend: یہ بات خلافِ منطق ہے۔ جبکہ دیگر تمام اختلافات اور انکی صداقت و کذب الگ حدیث ہے۔
 
Top