ظہیر کاشمیری ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے ۔ ظہیر کاشمیری

فرخ منظور

لائبریرین
ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے

گلشن کو ہم برنگِ دگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے

ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے

وہ جنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھیے
کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے

وہ بار بار دل میں جلاتے رہے چراغ
ہم سر جھکا ئے شمعِ سحر دیکھتے رہے

محسوس ہو رہا تھا کوئی سلسلہ ظہیر
پہروں زمین راہ گزر دیکھتے رہے

(ظہیر کاشمیری)
 
Top