محسن نقوی زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں ::: محسن نقوی

زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں

مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں

مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں

ستاروں سے حسد کی انتہا ہے
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں

سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں

مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں

مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں

محسن نقوی​
 

اکمل زیدی

محفلین
بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل ہے بہت ، جب سے الگ بیٹھا ہوں
عمرکرتا ہوں بسر گوشہ ء تنہائی میں
جب سے وہ روٹھ گئے ، تب سے الگ بیٹھا ہوں
میرا انداز نصیر اہلِ جہاں سے ہے جدا
سب میں شامل ہوں ، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں
 
Top