زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
غالب کے مصرعے
نظارہ سگالد کہ ہمان است و ہمان نیست
کا ترجمہ صوفی تبسم نے یوں کیا کہ نظارہ سوچتا ہے کہ یہ وہی ہے مگر یہ وہی نہیں ہے۔
ویسے سوچتا ہے کے لیے می سگالد نہیں ہونا چاہیے تھا؟
سگالد تو ماضی مطلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تب ترجمہ شاید یوں ہوتا کہ نظارے نے سوچا کہ یہ وہی ہے مگر یہ وہی نہیں ہے۔
'سِگالیدن' کا ماضیِ مطلق 'سِگالد' نہیں، 'سِگالید' ہے۔ 'سِگالد'، 'کُند' کی طرح مضارع واحد غائب ہے۔

جس طرح اردو میں صرف 'وہ جائے' کا معنی استمراری و ناتمام بھی ہو سکتا ہے (وہ جاتا ہے)، امر یا خواہش کا اظہار بھی ہو سکتا ہے (میں چاہتا ہوں کہ وہ جائے وغیرہ)، اور بعض موارد میں اِس سے مستقبل کے معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں، اُسی طرح فارسی میں بھی سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجرّد مضارع سے حالِ مستمر و ناتمام، امر، خواہش، شرط، اور مستقبل کے معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
'سگالد' کا لفظی ترجمہ تو 'وہ سوچے، وہ فکر کرے' ہے، لیکن یہی صیغہ 'وہ سوچتا ہے، وہ فکر کرتا ہے' کے معانی بھی دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دانش نامۂ ایرانیکا کے اِس مضمون کے مطابق فارسی کا قدیم ترین باقی ماندہ قلمی نسخہ 'کتاب الابنیہ عن حقایق الادویہ' کا ہے، جس کی نسخہ برداری ۴۴۸ه/۱۰۵۶ء میں ہوئی تھی، جبکہ یہ کتاب اُس سے ۸۰-۹۰ سال قبل منصور بن نوح سامانی کے عہد میں تقریباً ۹۷۰ء میں لکھی گئی تھی۔
اِس کتاب کے مؤلف کا نام ابومنصور موفق بن علی الہروی ہے، اور یہ کتاب مفرداتِ طب، ادویہ اور گیاہوں کی خاصیتوں، اور گوناگوں امراض کے معالجات کے بارے میں ہے۔ اِس کتاب کا جو نسخہ موجود ہے اُس کے مُستَنسِخ گرشاسپ نامہ کے شاعر اور فارسی کے اولین لغت نامے 'لغتِ فُرْسْ' کے مؤلف اسدی طوسی ہیں۔ علاوہ بریں، فارسی کی اولین طبی کتاب ہونے کا شرف بھی اِسی کتاب کو حاصل ہے۔ پس یہ کتاب موضوع کے لحاظ سے بھی، ناسخ کے لحاظ سے بھی، اور قدیم فارسی نثر کے نمونے کے لحاظ سے بھی ایک گراں مایہ کتاب ہے۔
اِس کتاب کا تصحیح شدہ متن ۱۹۶۷ء میں تہران سے شائع ہو چکا ہے۔

کتابِ مذکور کا آغاز اِن جملوں سے ہوا ہے:
"به نام ایزد بخشاینده بخشایشگر!
سپاس باد یزدان دانا و توانا را که آفریدگار جهانست و دانندهٔ آشکار و نهانست و رانندهٔ چرخ و زمانست و دارندهٔ جانورانست، و آورندهٔ بهار و خزانست، و درود بر محمّد مصطفی که خاتم پیغامبرانست، و آفرین بر اصحاب اوی و اهل بیت و گزیدگان اوی و درود بر همه پیغامبران ایزد و همه فریشتگان و همه پاکان که اختیار و اولیای خدای عز و جل بودند، و خلق را به راستی پند دادند و به یزدان راه نمودند، و طریق مبطلان برنوشتند و بساط حق بگستردند. و آفرین بر همه نیکوکاران که از هوای این جهانی پرهیز کردند و توشهٔ آن جهان برداشتند و عمر اندر رضای ایزد بگذاشتند."

یہ فارسی نثر ایک ہزار سال قبل رشتۂ تحریر میں آئی تھی، لیکن فی زمانِنا کوئی بھی فارسی خواں اِسے آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔

ذہن میں رہے کہ یہاں صرف قدیم ترین فارسی قلمی نسخے کی بات ہو رہی ہے، قدیم ترین فارسی کتاب کی نہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فعل مضارع کو پہچانا کیسے جائے؟؟
مصدر سے مادۂ مضارع نکالنے کا کوئی ایک قاعدہ نہیں، اور عموماً افعال کے مضارع الگ سے یاد کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن مختلف مصدروں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً:

جو مصدر 'یدن' پر ختم ہوتے ہیں، مضارع میں اُن کا 'یدن' حذف ہو جاتا ہے:
خندیدن --- خند؛ رسیدن --- رس؛ خریدن --- خر

جو مصدر 'ندن' پر ختم ہوتے ہیں، مضارع میں اُن کا 'دن' حذف ہو جاتا ہے:
کندن --- کن؛ راندن --- ران؛ ماندن --- مان؛ خواندن --- خوان

جو مصدر 'ودن' پر ختم ہوتے ہیں، مضارع میں اُن کا 'ودن' ختم ہو جاتا ہے اور 'ا' کا اضافہ ہو جاتا ہے:
ربودن --- ربا؛ ستودن --- ستا؛ گشودن --- گشا؛ افزودن --- افزا

جو مصدر 'اشتن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع میں اِس کی جگہ پر 'ار' جاتا ہے:
داشتن --- دار؛ انگاشتن --- انگار؛ نگاشتن --- نگار

جو مصدر 'ختن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع میں یہ 'ز' میں تبدیل ہو جاتا ہے:
افروختن --- افروز؛ آویختن --- آویز؛ آموختن --- آموز؛ گریختن --- گریز؛ سوختن --- سوز

جو مصدر 'فتن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع کے آخر میں 'ب' آتا ہے:
خفتن --- خواب؛ روفتن --- روب؛ کوفتن --- کوب؛ یافتن --- یاب؛ تافتن --- تاب

جو مصدر 'اِستن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع میں 'ستن' حذف ہو جاتے ہیں:
دانِستن --- دان؛ توانِستن --- توان؛ شایِستن --- شای؛ مانِستن --- مان

جو مصدر 'اُستن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع کے آخر میں 'وی' آتا ہے:
رُستن --- رُوی؛ شُستن --- شوی؛ --- جُستن --- جوی

جو مصدر 'آستن' پر ختم ہوتے ہیں، اُن کے مضارع میں 'استن' کی جگہ 'ای' آتا ہے:
آراستن --- آرای؛ پیراستن --- پیرای؛ ویراستن --- ویراستن

لیکن اِن درجہ بندیوں میں بهی چند استثنائات موجود ہیں۔ مثلاً 'آفریدن' کا مادۂ مضارع 'آفر' نہیں بلکہ 'آفرین' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فعل مضارع کو پہچانا کیسے جائے؟؟
جہاں تک مضارع کو پہچاننے کی بات ہے تو اِس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ مادۂ مضارع کے آخر میں عموماً 'د'، 'ید' یا 'ت' نہیں آتے، جبکہ مادۂ ماضی کے آخر میں 'د' یا 'ت' موجود ہوتے ہیں۔ میں نے عموماً کا لفظ استعمال کیا ہے، کیونکہ چند ایک استثنائات اِس قاعدے میں بھی ہیں:
بستن --- بند؛ پیوستن --- پیوند
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فعل مضارع کو پہچانا کیسے جائے؟؟
میرے لیے مضارع کو پہچاننے سے زیادہ مشکل ہمیشہ یہ رہا کہ مضارع سے مصدر کو کیسے پہچانا جائے۔ اگر ماضی اور مستقبل کا علم ہو تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فعل جو سمجھ نہیں آ رہا وہ مضارع ہی ہوگا کہ امر اور نہی بھی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں لیکن کسی مضارع سے مصدر تک پہنچنا میرے لیے ہمیشہ سے دردِ سر ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
آج میرے محلّے کی مسجد کے دیوبندی مکتبۂ فکر کے امام صاحب نے نمازِ فجر کے بعد کے درسِ قرآن کے دوران شیخ سعدی شیرازی کا یہ قطعہ پڑھا اور اُس کا ترجمہ بیان فرمایا:
شمشیرِ نیک از آهنِ بد چون کند کسی
ناکس به تربیت نشود ای حکیم کس
باران که در لطافتِ طبعش خلاف نیست
در باغ لاله روید و در شوره‌زار خس

(ترجمہ: آہنِ بد سے کوئی شخص تیغِ خوب کیسے بنائے؟؛ اے دانشمند! تربیت سے نالائق لائق نہیں ہو جاتا؛ بارش کہ جس کی لطافتِ طبع میں کوئی اختلاف نہیں؛ باغ میں لالہ اور شورہ زار میں خس اگاتی ہے۔)
امام صاحب کی زبان پر سعدی شیرازی کا فارسی قطعہ جاری ہوتا دیکھ کر میرا دل خوشی سے سرشار ہو گیا، کیونکہ یہ غیر متوقع تھا۔ جب درس ختم ہونے کے بعد لوگ اُن سے مصافحہ و سلام کر رہے تھے تو میں بھی اُن کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ "مولانا صاحب! میں فارسی کا طالبِ علم ہوں، آج جو آپ نے درس کے دوران شیخ سعدی کا قطعہ پڑھا، وہ مجھے بہت اچھا لگا۔ اللہ آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے اور آپ کے علم میں اضافہ کرتا رہے۔" یہ الفاظ سن کر اُن کا چہرہ بھی متبسم ہو گیا تھا۔ :)
میری فارسی زبان زندہ باد!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میرے لیے مضارع کو پہچاننے سے زیادہ مشکل ہمیشہ یہ رہا کہ مضارع سے مصدر کو کیسے پہچانا جائے۔ اگر ماضی اور مستقبل کا علم ہو تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فعل جو سمجھ نہیں آ رہا وہ مضارع ہی ہوگا کہ امر اور نہی بھی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں لیکن کسی مضارع سے مصدر تک پہنچنا میرے لیے ہمیشہ سے دردِ سر ہے :)
فارسی میں افعالِ سادہ کی تعداد کم ہے، اور زیادہ تر افعالِ مرکب استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے فارسی سیکھتے وقت زیادہ مصادر اور اُن کے مضارع یاد نہیں کرنے پڑتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مندرجۂ ذیل کتاب میں فرہنگوں میں ثبت شدہ تمام فارسی مصادر کی فہرست دی گئی ہے، اور ساتھ میں اُن کے معنی بھی درج ہیں۔ لیکن اُن میں سے بیشتر مصادر مجھے پہلی بار نظر آئے ہیں۔ وہ خراسانی عہد کی قدیم کتابوں میں کبھی استعمال ہوئے ہوں گے، معاصر فارسی میں اُن کا استعمال بالکل نہیں ہے۔
فهرست فعل‌های فارسی با معنای آن‌ها
 

محمد وارث

لائبریرین
مندرجۂ ذیل کتاب میں فرہنگوں میں ثبت شدہ تمام فارسی مصادر کی فہرست دی گئی ہے، اور ساتھ میں اُن کے معنی بھی درج ہیں۔ لیکن اُن میں سے بیشتر مصادر مجھے پہلی بار نظر آئے ہیں۔ وہ خراسانی عہد کی قدیم کتابوں میں کبھی استعمال ہوئے ہوں گے، معاصر فارسی میں اُن کا استعمال بالکل نہیں ہے۔
فهرست فعل‌های فارسی با معنای آن‌ها
اس کے لیے برصغیرکے مدارس میں ایک "آمد نامہ" کتاب رایج رہی ہے جس میں مصاد ر اور انکی گردانیں بچوں کو یاد کرائی جاتی تھی ہیں، یہ کتاب نیٹ پر موجود ہے۔ اسی طرح کی کچھ سال قبل پنجاب یونیورسٹی نے بھی ایک مفید کتاب شائع کی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس طرح اردو میں عربی-فارسی الفاظ کی مدد سے دفنانا، ورغلانا، لرزنا، شرمانا، تراشنا، خراشنا جیسے چند مصادر بنا لیے گئے ہیں، اُسی طرح فارسی میں بھی چند مصادر عربی الفاظ کے ساتھ مصدرساز لاحقہ 'یدن' متصل کر کے بنائے گئے ہیں مثلاً: رقصیدن، فهمیدن، بلعیدن، طلبیدن۔
علاوہ بریں، فارسی میں چند ایک مصادر ترکی کلمات سے بھی مشتق ہوئے ہیں۔ مثلاً غارت کرنے اور تاراج کرنے کے معنی میں فارسی میں ایک مصدر 'چاپیدن' استعمال ہوتا ہے جو ترکی مصدر 'چاپماق' سے فارسی میں آیا ہے۔
ایسے کسی مصدر کو فارسی میں 'مصدرِ جعلی' کہتے ہیں۔
اِن جعلی مصدروں کا مضارع بنانے کے لیے مصدر سے 'یدن' کو حذف کر دیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زیرگُذَر
ابھی ایک ایرانی اخبار کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ 'انڈرپاس' کے لیے فارسی میں 'زیرگذر' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے:
"به دنبالِ بارشِ سیل‌آسایِ بارانِ عصرِ امروز در تبریز، بسیاری از زیرگذرهایِ این شهر با مشکلِ آب‌گرفتگی مواجه شدند۔"
ترجمہ: تبریز میں آج شام سیلاب جیسی بارش برسنے کے بعد اِس شہر کے کئی زیرگذر پانی بھر جانے کی مشکل سے دوچار ہو گئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بَلْعِیدن
اس فارسی مصدر کا معنی 'نگلنا' ہے۔

مثال دیکھیے:
"یک مارِ عظیم‌الجُثّه گاو را بلعید۔"
ترجمہ: ایک عظیم الجُثّہ سانپ نے گائے کو نگل لیا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک وڈیو قطعے کےملاحظے کے دوران پتہ چلا کہ فارسی میں بے روزگار اور بےروزگاری کے لیے بے کار اور بےکاری استعمال ہوتا ہے ۔
جب کہ ہم اردو میں بے کار کو غیر مفید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس کے لیے برصغیرکے مدارس میں ایک "آمد نامہ" کتاب رایج رہی ہے جس میں مصاد ر اور انکی گردانیں بچوں کو یاد کرائی جاتی تھی ہیں، یہ کتاب نیٹ پر موجود ہے۔ اسی طرح کی کچھ سال قبل پنجاب یونیورسٹی نے بھی ایک مفید کتاب شائع کی تھی۔
مصادر کی فہرست کے لیے یہ کتابیں بھی دیکھیے:
مواردالمصادر
مصدرِ فیوض
صفوة‌المصادر
شاید اِس 'صفوۃ المصادر' ہی کو 'آمدنامہ' کہا جاتا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مصادر کی فہرست کے لیے یہ کتابیں بھی دیکھیے:
مواردالمصادر
مصدرِ فیوض
صفوة‌المصادر
شاید اِس 'صفوۃ المصادر' ہی کو 'آمدنامہ' کہا جاتا تھا۔
جی شاید یہی ہے، اور شاید مختلف جگہوں میں مختلف ناموں سے طبع ہوتی رہی ہے، ایک افغان مطبوعہ
آمدن نامہ
 

طالب سحر

محفلین
ایک وڈیو قطعے کےملاحظے کے دوران پتہ چلا کہ فارسی میں بے روزگار اور بےروزگاری کے لیے بے کار اور بےکاری استعمال ہوتا ہے ۔
جب کہ ہم اردو میں بے کار کو غیر مفید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اردو میں "بے کار" کسی بے جان یا جاندار چیز کے غیر مفید، ناقص، خراب، ناکارہ ہونےکے معنوں میں تو استعمال ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ یہ کسی شخص کے"بے روزگار، بے مشغلہ، بے شغل" (نوراللغات) ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ "بے کار بیٹھنے" کا محاورہ "کچھ کام نہ کرنے"کے لئے مستعمل ہے۔کراچی کے روزمرہ میں "آج کل میں بے کار ہوں" یا "آج کل بے کار بیٹھا ہوں" بمعنی "آج کل میں بے روزگار ہوں" سننے میں آتا ہے۔

محمد شمس الحق صاحب کی "اردو کے ضرب المثل اشعار" میں چار ایسے اشعار درج ہیں جن میں "بے کار" لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان میں سے تین میں یہ لفظ "کچھ کام نہ کرنے" کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو، یہی کہتے ہیں، ہم بےکار بیٹھے ہیں
-- انشا ء اللہ خان انشاء

کسے فرصت کہ فرضِ خدمتِ الفت بجا لائے
نہ تم بے کار بیٹھے ہو، نہ ہم بے کار بیٹھے ہیں
-- آزاد انصاری

بے کار مباش، کچھ کیا کر
خونِ دلِ عاشقاں پیا کر
از رشتہء زلفِ خویش ہر دم
چاکِ دلِ عاشقاں سیا کر
-- (نامعلوم)
 

طالب سحر

محفلین
پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست کےدوست بلوچستان کے ساحلی شہر اورماڑہ گئے، جہاں انہوں نے پاکستان نیوی کے زیرِانتظام چلنے والے ایک کلینک کو دیکھا۔ اس کلینک کا خوبصورت نام بلوچی میں "درمان جاہ" ہے جو کے فارسی ترکیب "درمانگاه" سے مستعار ہے۔ مجھے یہ نام سُن کر بہت اچھا لگا کیونکہ عموماً اس نوع کی جگہ کے لئے "آر ایچ سی" یا "بی ایچ یو" قسم کا نام ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
میرے لیے مضارع کو پہچاننے سے زیادہ مشکل ہمیشہ یہ رہا کہ مضارع سے مصدر کو کیسے پہچانا جائے۔ اگر ماضی اور مستقبل کا علم ہو تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فعل جو سمجھ نہیں آ رہا وہ مضارع ہی ہوگا کہ امر اور نہی بھی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں لیکن کسی مضارع سے مصدر تک پہنچنا میرے لیے ہمیشہ سے دردِ سر ہے :)
سلیمان حییم کی لغت میں مصادر کے ساتھ مضارع بھی دیے گئے ہیں۔ وہاں تلاش کر کے مصادر تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ریز سے میں مصدر ریختن تک پہنچ گیا۔ بیدل

در پردہ خونِ حسرتِ بے دست و پا مریز

پردے میں بے دست و پا حسرت کے خون کو نہ بہا۔
 
Top