ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ریختہ نے اپنی ویبگاہ پر اٹھارویں صدی کے استاد شاعر رضا عظیم آبادی کی غزل میں ایک شعر اس طرح لکھا ہے:
جوں جرس بام و درِ ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا ساز ِسحا ہوجیے
لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں ایک فاش غلطی ہے ۔ آئیے اسے دیکھتے ہیں ۔ چونکہ اس غزل کا وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے (بحر رمل مثمن محذوف) اس لیےپہلی بات تو یہ کہ مصرعِ ثانی میں "سحا" کا لفظ آ ہی نہیں آسکتا ۔ اس کی جگہ صرف فعلن کے وزن کا کوئی لفظ آسکتا ہے (مثلاًصحرا ، بینا ، ، فردا ، بالا وغیرہ)۔ دوسری بات یہ کہ لفظ "سحا" اردو میں موجود ہی نہیں۔ فارسی زبان میں یہ غریب اور شاذ لفظ ضرورموجود ہے (بہ کسرِ اول و فتحہ دوم) اور اس کے معنی ہوتے ہیں خط کا عنوان یا سرنامہ ۔ چنانچہ اگر اس ترکیب کو "سازِ سحا " مان بھی لیا جائے تو اول تو یہ بے معنی ہے اور دوسرے یہ کہ وزن سے بھی خارج ہے۔ رضا عظیم آبادی اردو، فارسی اور عربی کے زبان دان ، عروض کے ماہر اور قادرالکلام استاد شاعر تھے ان سے ایسی فاش غلطی بالکل بھی متوقع نہیں۔ بحر اور قافیے کی ایسی بنیادی غلطی اُن سے تو کیا کسی عام شاعر سے بھی ہونا محال ہے۔ یقیناً یہ کتابت کی غلطی ہے۔
ریختہ پر موجود رضاعظیم آبادی کا دیوان قاضی عبدالودود کامرتب کردہ ہےاور 1956 میں شائع ہوا۔ اس کے پیش لفظ میں قاضی صاحب نے صفحہ نمبر 8 پر تفصیل سے یہ بات لکھی ہے کہ اس دیوان کی تالیف انہوں نے جن دو قدیم دستیاب نسخوں کی مدد سے کی وہ دونوں کرم خوردہ اور شکستہ حالت میں تھے۔ اُن کی کتابت بدخط ، ناقص اور ا غلاط سے پُر تھی۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر یہ لفظ "سحا" نہیں ہے تو پھر کیا ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے آئیے ذرا سی ادبی سراغ رسانی کرتے ہیں۔
چونکہ غزل کی ردیف " ہوجیے" (یعنی ہوجائیے )ہے اس لیے"سحا" کی جگہ کسی اسم یا صفت کا آنا ہی ممکن ہے ۔ لیکن بہت سوچ بچار کے بعد بھی ایسا کوئی لفظ میرے سامنے نہیں آتا کہ جو فارسی ہو ، فعلن کے وزن پر ہو (مثلاًصحرا ، بینا ، فرما ، فردا ، ) اور ساز کے ساتھ اس کی بامعنی اضافی یا عطفی ترکیب بھی بن سکے۔کچھ ممکنہ الفاظ جو اس جگہ آسکتے ہیں (مثلاً ساز آسا ، سازِ فردا ) اگر انہیں استعمال کریں تو پھر مصرع کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مصرع میں ایک سے زیادہ کتابت کی غلطیاں ہوں اور اس میں ساز کے بجائے کوئی اور لفظ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ اگر دیوانِ رضا کاکوئی اور نسخہ مل جائے تو شاید وہاں سے دیکھ کر تصحیح کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔
ریختہ پر جو دیوانِ رضا عظیم آبادی موجود ہے اور جس کا عکس مریم افتخار نے لگایا ہے اس میں "سحا" نہیں لکھا ہوا بلکہ "نبحا" کی شکل کا ایک لفظ بغیر نقطوں کے لکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ شکستہ اور قدیم نسخے سے نقل کرتے وقت اصل لفظ پڑھا نہیں گیا اور کاتب نےساز کے بعد کچھ خالی جگہ چھوڑ کر بغیر نقطوں کے " نبحا" کی شکل کا ایک لفظ لکھ دیا ۔ اس لفظ کے شروع میں سین کے شوشے موجود نہیں ہیں جیسا کہ دیگر الفاظ میں موجود ہیں ۔ چنانچہ اسے "سحا" نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ریختہ والے بھائی نے دیوان کو ٹائپ کرتے وقت اس بغیر نقطوں کے لفظ کو "سحا" سمجھا اور یونہی ٹائپ کر دیا ۔ اب آپ دنیا بھر کی لغات میں (بشمول ریختہ لغت) سحا کا لفظ اور سازِ سحاکی ترکیب ڈھونڈتے رہیے اور اپنا سر کھجاتے رہیے۔ یہ دونوں کہیں بھی وجود نہیں رکھتے۔ ساز کا لفظ تو ہر لغت میں ہے لیکن سحا کوئی لفظ نہیں ۔ چنانچہ سازِ سحا کی ترکیب مہمل ہے۔ اوراس ترکیب کے معنی ممکن نہیں ۔
اس معمے کے حل کی ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ اس شعر کے مطلب پر غور و فکر کیا جائے تو شاید اس طرح کوئی معقول قافیہ ذہن میں آسکے ۔ چونکہ ریختہ والے اپنے یونیکوڈ مواد میں کسرۂ اضافت نہیں لگاتے اس لیےپہلے تو میں اس شعر کو درست حالت میں لکھتا ہوں اور پھر اس کے مطلب پر غور کرتے ہیں۔
جوں جرس بام و درِ ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا سازِ ۔۔۔ ہوجیے
پہلے اس کی فرہنگ دیکھیے:
جوں جرس : گھنٹی کے مانند
بام و درِ ہر خانہ سے: ہر گھر کے بام و در سے
حشر برپا: کہرام مچ جانا
ہوجیے: ہوجائیے
ساز: اس لفظ کے ایک معنی زادِ سفر اور سامان کے بھی ہیں ۔ جیسے ساز و سامان
اس شعر سے بننےوالی لفظی تصویر کچھ یوں ہے کہ کوئی شخص (محبوب؟)سفر پر روانہ ہورہا ہے اور شاعر کہتا ہے کہ جب آپ سفر پر روانہ ہوں گےتو ہر گھر کے درو بام سے جرس کے مانند شور اٹھے گا۔ (جب قافلہ سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اونٹوں وغیرہ کے گلے میں پڑی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں جسے جرسِ کارواں یا جرسِ قافلہ کہا جاتا ہے- اگر سفر کا سیاق و سباق موجود ہو تو اسےصرف جرس بھی کہا جاتا ہے۔ ) ۔ ہر گھر سے شور اٹھے گا یعنی کہرام مچ جائے گا۔
مت سفر سے حشر برپا سازِ ۔۔۔۔ ہوجیے
چنانچہ مصرعِ ثا نی میں شاعر سفر پر جانے والے سے کہہ رہا ہے کہ آپ اپنے سفر سے حشر برپا کرنے والےساز ۔۔۔۔ مت ہوجائیے ۔ اس خالی میں جگہ اگر ساز آرا کی ترکیب رکھیں تو شاید نبھ جائے ۔ ساز آرا بمعنی ساز و سامان یا زادِ سفر کو سنوارنے والا ۔ لیکن ساز آرا کوئی معروف ترکیب نہیں ۔ ساز آسا بھی رکھا جاسکتا ہے لیکن معنی پھر بھی واضح نہیں ہوں گے۔ اور یہ بھی معروف نہیں۔
ڈیڑھ دو درجن ذہنی قلابازیاں لگانے کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ شاید اس مصرع میں ایک سے زیادہ اغلاط ہیں اور یہاں ساز کے بجائے کوئی اور لفظ ہونا بھی ممکن ہے۔ اس موقع پر محفل پر موجود صاحبانِ علم و ہنر سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس ادبی سراغ رسانی میں حصہ لیں اور اگر وہ سحا یا سازِ سحا کی جگہ کوئی مناسب لفظ یا ترکیب بوجھ سکیں اور اس معمے کو حل کرسکیں تو شرلاک ہومز پرائز محفل کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں ان کی نذر کیا جاوے گا۔
جوں جرس بام و درِ ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا ساز ِسحا ہوجیے
لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں ایک فاش غلطی ہے ۔ آئیے اسے دیکھتے ہیں ۔ چونکہ اس غزل کا وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے (بحر رمل مثمن محذوف) اس لیےپہلی بات تو یہ کہ مصرعِ ثانی میں "سحا" کا لفظ آ ہی نہیں آسکتا ۔ اس کی جگہ صرف فعلن کے وزن کا کوئی لفظ آسکتا ہے (مثلاًصحرا ، بینا ، ، فردا ، بالا وغیرہ)۔ دوسری بات یہ کہ لفظ "سحا" اردو میں موجود ہی نہیں۔ فارسی زبان میں یہ غریب اور شاذ لفظ ضرورموجود ہے (بہ کسرِ اول و فتحہ دوم) اور اس کے معنی ہوتے ہیں خط کا عنوان یا سرنامہ ۔ چنانچہ اگر اس ترکیب کو "سازِ سحا " مان بھی لیا جائے تو اول تو یہ بے معنی ہے اور دوسرے یہ کہ وزن سے بھی خارج ہے۔ رضا عظیم آبادی اردو، فارسی اور عربی کے زبان دان ، عروض کے ماہر اور قادرالکلام استاد شاعر تھے ان سے ایسی فاش غلطی بالکل بھی متوقع نہیں۔ بحر اور قافیے کی ایسی بنیادی غلطی اُن سے تو کیا کسی عام شاعر سے بھی ہونا محال ہے۔ یقیناً یہ کتابت کی غلطی ہے۔
ریختہ پر موجود رضاعظیم آبادی کا دیوان قاضی عبدالودود کامرتب کردہ ہےاور 1956 میں شائع ہوا۔ اس کے پیش لفظ میں قاضی صاحب نے صفحہ نمبر 8 پر تفصیل سے یہ بات لکھی ہے کہ اس دیوان کی تالیف انہوں نے جن دو قدیم دستیاب نسخوں کی مدد سے کی وہ دونوں کرم خوردہ اور شکستہ حالت میں تھے۔ اُن کی کتابت بدخط ، ناقص اور ا غلاط سے پُر تھی۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر یہ لفظ "سحا" نہیں ہے تو پھر کیا ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے آئیے ذرا سی ادبی سراغ رسانی کرتے ہیں۔
چونکہ غزل کی ردیف " ہوجیے" (یعنی ہوجائیے )ہے اس لیے"سحا" کی جگہ کسی اسم یا صفت کا آنا ہی ممکن ہے ۔ لیکن بہت سوچ بچار کے بعد بھی ایسا کوئی لفظ میرے سامنے نہیں آتا کہ جو فارسی ہو ، فعلن کے وزن پر ہو (مثلاًصحرا ، بینا ، فرما ، فردا ، ) اور ساز کے ساتھ اس کی بامعنی اضافی یا عطفی ترکیب بھی بن سکے۔کچھ ممکنہ الفاظ جو اس جگہ آسکتے ہیں (مثلاً ساز آسا ، سازِ فردا ) اگر انہیں استعمال کریں تو پھر مصرع کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مصرع میں ایک سے زیادہ کتابت کی غلطیاں ہوں اور اس میں ساز کے بجائے کوئی اور لفظ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ اگر دیوانِ رضا کاکوئی اور نسخہ مل جائے تو شاید وہاں سے دیکھ کر تصحیح کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔
ریختہ پر جو دیوانِ رضا عظیم آبادی موجود ہے اور جس کا عکس مریم افتخار نے لگایا ہے اس میں "سحا" نہیں لکھا ہوا بلکہ "نبحا" کی شکل کا ایک لفظ بغیر نقطوں کے لکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ شکستہ اور قدیم نسخے سے نقل کرتے وقت اصل لفظ پڑھا نہیں گیا اور کاتب نےساز کے بعد کچھ خالی جگہ چھوڑ کر بغیر نقطوں کے " نبحا" کی شکل کا ایک لفظ لکھ دیا ۔ اس لفظ کے شروع میں سین کے شوشے موجود نہیں ہیں جیسا کہ دیگر الفاظ میں موجود ہیں ۔ چنانچہ اسے "سحا" نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ریختہ والے بھائی نے دیوان کو ٹائپ کرتے وقت اس بغیر نقطوں کے لفظ کو "سحا" سمجھا اور یونہی ٹائپ کر دیا ۔ اب آپ دنیا بھر کی لغات میں (بشمول ریختہ لغت) سحا کا لفظ اور سازِ سحاکی ترکیب ڈھونڈتے رہیے اور اپنا سر کھجاتے رہیے۔ یہ دونوں کہیں بھی وجود نہیں رکھتے۔ ساز کا لفظ تو ہر لغت میں ہے لیکن سحا کوئی لفظ نہیں ۔ چنانچہ سازِ سحا کی ترکیب مہمل ہے۔ اوراس ترکیب کے معنی ممکن نہیں ۔
اس معمے کے حل کی ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ اس شعر کے مطلب پر غور و فکر کیا جائے تو شاید اس طرح کوئی معقول قافیہ ذہن میں آسکے ۔ چونکہ ریختہ والے اپنے یونیکوڈ مواد میں کسرۂ اضافت نہیں لگاتے اس لیےپہلے تو میں اس شعر کو درست حالت میں لکھتا ہوں اور پھر اس کے مطلب پر غور کرتے ہیں۔
جوں جرس بام و درِ ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا سازِ ۔۔۔ ہوجیے
پہلے اس کی فرہنگ دیکھیے:
جوں جرس : گھنٹی کے مانند
بام و درِ ہر خانہ سے: ہر گھر کے بام و در سے
حشر برپا: کہرام مچ جانا
ہوجیے: ہوجائیے
ساز: اس لفظ کے ایک معنی زادِ سفر اور سامان کے بھی ہیں ۔ جیسے ساز و سامان
اس شعر سے بننےوالی لفظی تصویر کچھ یوں ہے کہ کوئی شخص (محبوب؟)سفر پر روانہ ہورہا ہے اور شاعر کہتا ہے کہ جب آپ سفر پر روانہ ہوں گےتو ہر گھر کے درو بام سے جرس کے مانند شور اٹھے گا۔ (جب قافلہ سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اونٹوں وغیرہ کے گلے میں پڑی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں جسے جرسِ کارواں یا جرسِ قافلہ کہا جاتا ہے- اگر سفر کا سیاق و سباق موجود ہو تو اسےصرف جرس بھی کہا جاتا ہے۔ ) ۔ ہر گھر سے شور اٹھے گا یعنی کہرام مچ جائے گا۔
مت سفر سے حشر برپا سازِ ۔۔۔۔ ہوجیے
چنانچہ مصرعِ ثا نی میں شاعر سفر پر جانے والے سے کہہ رہا ہے کہ آپ اپنے سفر سے حشر برپا کرنے والےساز ۔۔۔۔ مت ہوجائیے ۔ اس خالی میں جگہ اگر ساز آرا کی ترکیب رکھیں تو شاید نبھ جائے ۔ ساز آرا بمعنی ساز و سامان یا زادِ سفر کو سنوارنے والا ۔ لیکن ساز آرا کوئی معروف ترکیب نہیں ۔ ساز آسا بھی رکھا جاسکتا ہے لیکن معنی پھر بھی واضح نہیں ہوں گے۔ اور یہ بھی معروف نہیں۔
ڈیڑھ دو درجن ذہنی قلابازیاں لگانے کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ شاید اس مصرع میں ایک سے زیادہ اغلاط ہیں اور یہاں ساز کے بجائے کوئی اور لفظ ہونا بھی ممکن ہے۔ اس موقع پر محفل پر موجود صاحبانِ علم و ہنر سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس ادبی سراغ رسانی میں حصہ لیں اور اگر وہ سحا یا سازِ سحا کی جگہ کوئی مناسب لفظ یا ترکیب بوجھ سکیں اور اس معمے کو حل کرسکیں تو شرلاک ہومز پرائز محفل کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں ان کی نذر کیا جاوے گا۔