ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ریت گھڑی
ٹھہری ہے ایک نقطے پہ گزرانِ روز و شب
خود اپنی گردشوں میں کہیں کھوگیا ہے وقت
گرتا ہے ریزہ ریزہ سا لمحوں کا ریگزار
شیشے کے ایک ظرف میں گم ہوگیا ہے وقت
اُلٹے گا ریگزار یہ دورانیے کے بعد
پھر سے پلٹ کر آئیگا اب جو گیا ہے وقت
ظہیر احمد ۔ ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶
ٹھہری ہے ایک نقطے پہ گزرانِ روز و شب
خود اپنی گردشوں میں کہیں کھوگیا ہے وقت
گرتا ہے ریزہ ریزہ سا لمحوں کا ریگزار
شیشے کے ایک ظرف میں گم ہوگیا ہے وقت
اُلٹے گا ریگزار یہ دورانیے کے بعد
پھر سے پلٹ کر آئیگا اب جو گیا ہے وقت
ظہیر احمد ۔ ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶