ظہیر احمدظہیر

  1. محمد خرم یاسین

    فیض کی نظم ’’کتے‘‘ ساختیات(Structuralism) کے آئینے میں۔۔۔ محمد خرم یاسین

    فیض کی نظم ’’کتے‘‘ ساختیات(Structuralism) کے آئینے میں محمد خرم یاسین ساختیات (Structuralism) جس کا آغاز ساسئیر (Ferdinand de Saussure) کے لسانیات پردروس سے ہوتا ہے، نے نہ صرف ارسطو کے زمانے سے چلے آرہے قدیم لسانی تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا بلکہ طب ، نفسیات ، فلسفہ اور بشیریات ایسے شعبہ...
  2. ارشد چوہدری

    اپنے احساس کو لفظوں میں بیاں کیسے کروں ---------برائے اصلاح

    الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: صابرہ امین محمد خلیل الرحمٰن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے احساس کو لفظوں میں بیاں کیسے کروں سامنے غیر کے یا رب میں فغاں کیسے کروں ------------ غیر بن کر ہی سدا تم نے دکھایا ہے مجھے مجھ سے کرتے ہو محبّت یہ...
  3. ظہیراحمدظہیر

    منظرِ دشتِ تگ و تاز بدل کر دیکھا

    منظرِ دشتِ تگ و تاز بدل کر دیکھا رزق کو رفعتِ پرواز بدل کر دیکھا سلسلہ کوئی ہو انجام وہی ہوتا ہے ہم نے سو مرتبہ آغاز بدل کر دیکھا بس وہی ہجر کے سرگم پہ وہی درد کی لے مطربِ عشق نے کب ساز بدل کر دیکھا میرے شعروں سے ترے رمز و کنائے نہ گئے میں نے ہر مصرعہء غماز بدل کر دیکھا ہم گدایانِ محبت نے...
  4. ظہیراحمدظہیر

    کچھ دیر کو رسوائی ِ جذبات تو ہوگی

    کچھ دیر کو رسوائی ِجذبات تو ہوگی محفل میں سہی اُن سے ملاقات تو ہوگی بس میں نہیں اک دستِ پذیرائی گر اُس کے آنکھوں میں شناسائی کی سوغات تو ہوگی سوچا بھی نہ تھا خود کو تمہیں دے نہ سکوں گا سمجھا تھا مرے بس میں مری ذات تو ہوگی ہر حال میں ہنسنے کا ہنر پاس تھا جن کے وہ رونے لگے ہیں...
  5. ظہیراحمدظہیر

    بے سمت کاوشوں کا ثمر دائرے میں ہے

    بے سمت کاوشوں کا ثمر دائرے میں ہے محور نہیں ہے پھر بھی سفر دائرے میں ہے دُہرارہے ہیں خود کو عروج وزوالِ دہر عالم تمام زیر و زبر دائرے میں ہے کہنے کو انجمن ہے شریکِ سخن ہیں لوگ ہر شخص اپنے اپنے مگر دائرے میں ہے سونپی تھی رازدان کو ، آ پہنچی مجھ تلک معلوم یہ ہوا کہ خبر دائرے میں ہے...
  6. ظہیراحمدظہیر

    عجیب قاعدے ہجرت تری کتاب میں ہیں

    عجیب قاعدے ہجرت تری کتاب میں ہیں خسارے دونوں طرف کے مرے حساب میں ہیں یہ طے ہوا ہے کہ اب اُس کی ملکیت ہونگے وہ سب علاقے جو میری حدودِ خواب میں ہیں نہ تشنگی میں کمی ہے ، نہ پانیوں کی کمی عذاب میں ہیں کہ پیاسے کسی سراب میں ہیں تجھے ہی رکھتے ہیں قلب و نظر کے آگے امام جہاں بھی ہوں ترے بندے...
  7. ظہیراحمدظہیر

    اُجرتِ آبلہ پائی بھی نہ دے گا سورج

    اُجرتِ آبلہ پائی بھی نہ دے گا سورج ہمسفر بن کے اگر ساتھ چلے گا سورج دن نکلنے کا کرشمہ نہ سمجھنا آسان اَن گنت ٹوٹیں گے تارے تو بنے گا سورج سائباں جیسا بھی سر پر ہے غنیمت ہے بہت سر اٹھاؤ گے تو آنکھوں میں چُبھے گا سورج اپنی تابش پہ جنہیں ناز ہے اُن سے کہہ دو شام جب ہوگی تو اُن پر بھی...
  8. ظہیراحمدظہیر

    ریت گھڑی

    ریت گھڑی ٹھہری ہے ایک نقطے پہ گزرانِ روز و شب خود اپنی گردشوں میں کہیں کھوگیا ہے وقت گرتا ہے ریزہ ریزہ سا لمحوں کا ریگزار شیشے کے ایک ظرف میں گم ہوگیا ہے وقت اُلٹے گا ریگزار یہ دورانیے کے بعد پھر سے پلٹ کر آئیگا اب جو گیا ہے وقت ظہیر احمد ۔ ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶
  9. ظہیراحمدظہیر

    قلب ہوجائے جو پتھر تو بشر پتھر کا

    قلب ہوجائے جو پتھر تو بشر پتھر کا پھر تو ہر آدمی آتا ہے نظر پتھر کا سنگباری ہوئی اتنی کہ شرر ہوگیا خون کچھ تو ہونا ہی تھا آخر کو اثر پتھر کا عشقِ بیناکی عنایت ہے یہ ترتیبِ صفات آئنہ چہرہ ، بدن پھول ، جگر پتھر کا کارِ شیشہ گری نازک سا ہے بالائے سطح زیرِ شیشہ ہے وہی کام مگر پتھر کا...
  10. ظہیراحمدظہیر

    ترکِ وطن

    ترکِ وطن مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی خواب دیکھنا لیکن ہم...
  11. ظہیراحمدظہیر

    بے غرض کرتے رہو کام محبت والے

    غزل بے غرض کرتے رہو کام محبت والے خود محبت کا ہیں انعام محبت والے لفظ پھولوں کی طرح چن کر اُسے دان کرو اُس پہ جچتے ہیں سبھی نام محبت والے خود کو بیچا تو نہیں میں نے مگر سوچوں گا وہ لگائےتو سہی دام محبت والے ۔ دل کی اوطاق میں چوپال جمی رہتی ہے ملنے آتے ہیں سر ِ شام محبت والے غم کسی...
  12. ظہیراحمدظہیر

    بھوکا بُرا لگا ، کبھی روٹی بری لگی

    غزل بازی انا کی ، بھوک سے کیسی بری لگی بھوکا بُرا لگا ، کبھی روٹی بری لگی خانہ بدوشیوں کے یہ دکھ بھی عجیب ہیں چوکھٹ پر اپنے نام کی تختی بری لگی روشن دریچے کر گئے کچھ اور بھی اداس صحرا مزاج آ نکھ کو بستی بری لگی دشمن کی ناخدائی گوارا نہ تھی ہمیں غرقاب ہوتے ہوتے بھی...
  13. ظہیراحمدظہیر

    اپنی تو ہجرتوں کے مقدر عجیب ہیں

    غزل اپنی تو ہجرتوں کے مقدر عجیب ہیں اپنے ہی شہر میں ہیں نہ غربت نصیب ہیں اب اعتبار کس کا کریں الجھنوں کے بیچ باتیں ہیں دوستانہ سی لہجے رقیب ہیں چارہ گروں کے طرزِ جراحت کا شکریہ ! آزار اب مری رگِ جاں کے قریب ہیں مٹی سے تیری دور ہیں لیکن ہیں تجھ سے ہم ہم بھی تو اے وطن ترے شاعر ادیب ہیں...
  14. ظہیراحمدظہیر

    ہجرت تو ثقافت کے سفیروں کا سفر ہے

    غزل تہذیب و تمدن کے ذخیروں کا سفر ہے ہجرت تو ثقافت کے سفیروں کا سفر ہے ہر روز نئے لوگ ، نئی رت ، نئے ساحل یہ زندگی نایافت جزیروں کا سفر ہے زنجیر ترے نام کی ، رستے ہیں کسی کے اک کربِ رواں تیرے اسیروں کا سفر ہے مل مل کے بچھڑنا بھی ستاروں کی ہے گردش یا میری ہتھیلی پہ لکیروں کا سفر ہے...
  15. نایاب

    حصارِ ذات

    محترم ظہیر احمد ظہیر بھائی کی اک خوبصورت غزل
Top