ریاست پاکستان کا قیام کس حد تک درست تھا؟

زونی

محفلین
خیر اتنا بھی نہیں۔ مغلیہ دور صرف ایک ریفرنس کے طور پر دیا تھا۔ شاید اس زمانے میں مسلمانوں کے ہزاروں فرقے نہیں تھے:rollingonthefloor:



لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ، فرقے تو خلافتِ راشدہ کے بعد سے چلے آرہے ہیں اور مغل کونسے دودھ کے دھلے ہوئے تھے ، طاقت جب فرد واحد کے ہاتھ میں ہو تو اسکی شرافت اور پرہیزگاری کا اندازہ تو بخوبی لگایا جا سکتا ھے اور تو اور اس وقت تو کوئی لانگ مارچ اور دھرنے کا رواج بھی نہیں تھا :battingeyelashes:
 

قمراحمد

محفلین
کیا تقسیم ہند کی بنیاد غیر مذہبی ہے؟

تکبیر مسلسل…خورشید ندیم

مسلمانوں اور ہندووں میں موجودتہذیبی تضاد اگر امر ِواقعہ ہے تو اس کا سبب مذہب کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟دو قو می نظریہ اگر جنوبی ایشیا میں بسنے والے مسلمانوں کے سیاسی موقف کا صحیح عنوان ہے تو قیام ِ پاکستان کی اساس غیر مذ ہبی کیسے ہو سکتی ہے ؟قا ئداعظم کا نقطہ نظر اگر درست تھا تو بھارت اور پاکستان کی نظریا تی شناخت یکساں کیسے ہو سکتی ہے ؟ذہنی توازن دونوں کو ایک ساتھ قبول کر نے میں مانع ہے۔جو لوگ دونوں باتیں ایک سانس میں کہتے ہیں،نہیں معلوم وہ اس فکری تضاد کا کتنا احساس رکھتے ہیں۔تہذیب کیا ہے ؟جغرافیہ،تاریخ ،مذہب اور رسوم ورواج کے اشتراک سے جو طرز ِ معاشرت وجود میں آتا ہے ،وہ تہذیب ہے۔تہذیب کے ان اجزائے ترکیبی میں سے اگرکسی ایک میں اختلاف پیدا ہو جائے تو دیگر اجزا میں اشتراک کے باوجود تہذیبی تضاد کا پیدا ہو نا یقینی ہے۔

بر صغیر کے ہندو اور مسلمان صرف مذہب میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ایک تاریخ،ایک جغرافیہ اورایک طرح کے رسوم و رواج کے باوجود اگر تہذیبی تضاد موجود تھا تو اس کا سبب مذہب کے علاوہ آخر کیا ہو سکتا ہے؟معاشی تضاد تو اس بنیا دی فرق کا ایک نا گزیر نتیجہ ہے،سبب کسی طرح نہیں۔تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ محض اقتصادی مفادات کے ٹکراؤ نے کسی تہذیبی تضاد کو جنم دیا ہو۔سیاسی تنازعات کے نتیجے میں تو یہ ضرور ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان اختلافات نے تہذیبی رنگ اختیار کر لیا ہو، معاشی اختلافات کبھی تہذیبی تضاد میں نہیں ڈھلے۔اشتراکیت اور سرمایہ داری دو مختلف اقتصادی نظام ہیں لیکن ان میں کوئی بنیا دی تہذیبی اختلاف نہیں۔ اقتصادیات میں مسابقت ہو تی ہے ،تضاد نہیں۔ سر مایہ دارانہ معیشت پر تو یہ بات بطور خاص صادق آتی ہے۔ آج پاکستان میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں۔وہ 14اگست کو پاکستان کے ترانے گاتیں اور اسلام کے تہواروں، عیدین وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے اظہار َ یکجہتی کرتی نظر آتی ہیں۔مقامی مارکٹ اجازت دے گی تو اشتہارات میں عورت نیم برہنہ ہو گی،بصورت ِ دیگر اسے سکارف بھی پہنایا جا سکتا ہے۔

یہاں کوئی تہذیبی تضاد ان کے راستے میں حائل نہیں کہ ان کی تہذیب منافع کماناہے۔اس لیے مسلمانوں اور ہندووں میں اگراقتصادی مسابقت،نہ کہ تضاد،موجود تھی تو اس کا سبب تہذیبی تضاد تھا جس کی بنیاد مذہب کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
بر صغیر کے مسلمانوں نے جب اس سوال کو غور و فکر کا موضوع بنا یا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد یہاں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا تو اس باب میں تین نقطہ ہا ئے نظر وجود میں آئے۔ایک جو دو قو می نظریہ کے عنوان سے شہرت رکھتا ہے۔اس کا حاصل یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اس لیے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر ایک علیحدہ ملک بنا دیا جائے۔دوسرا نقطہ نظرمتحدہ قو میت کے عنوان سے معروف ہے،جس کے مطابق قومیں وطن اورسر زمین سے بنتی ہیں،مذہب سے نہیں۔تیسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ متحدہ قومیت کا نظریہ غیر اسلامی ہے اور علیحدہ ملک اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ الگ وطن کا مطالبہ کرنے والے اس نظریے سے کوئی فکری منا سبت رکھتے ہیں نہ عملی جس کی بنیاد پر وہ پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو چائیے کہ وہ پہلے شعوری مسلمان بنیں اور پھر پورے بر صغیر کو اسلامی ریاست بنا نے کی کوشش کریں۔ان تینوں نقطہ ہائے نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے انکا ر تاریخی مسلمات کا انکا ر ہے۔اب ان تینوں طرح کے خیالات پر ایک نظر ڈالیے۔متحدہ قو میت کا تصور دراصل دوقو می نظریے کا رد عملanti thesis )تھا۔مذہب کے بجائے وطن کو قو میت کی اساس کے طور پر پیش کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ دو قو می نظریے کی بنیادمذہب ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو متحدہ قومیت کا مقدمہ بے معنی اور اور بے وقت کی راگنی ہو تا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ جمعیت علمائے ہندکے اکابر مسلم لیگ کی تنقید کا نشانہ بنتے۔ اسی طرح مسلم لگ کی قیادت پر یہ اعترض بے معنی ہو تا کہ وہ اسلام کے ساتھ کوئی فکری اور عملی مناسبت نہیں رکھتی۔اگر وہ اسلام کے نام پر الگ وطن کا مطالبہ نہیں کررہی تھی تواس کی اسلام سے وابستگی کو پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کوئی شخص پیغمبر ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہا تو اس سے معجزے کا مطالبہ کوئی لا علم ہی کر سکتا ہے۔ اس بات کے حق میں کہ قیام ِپاکستان کی بنیاد مذہب تھا، قائد اعظم کے بہت سے ارشادات بھی پیش کیے جا سکتے تھے لیکن میں نے ان سے دانستہ صرف ِ نظر کیا ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ کہا جا تا ہے انہوں نے ایسی باتیں صرف مخالف مذہبی گروہوں کی تنقید کے جواب میں کہی تھیں۔یہ موقف علم و استدلال کے حضور میں اتنا بے وقعت ہے کہ اس کے جواب میں کچھ کہنا محض وقت کا ضیاع ہے۔یوں بھی اس وقت مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں میں تہذیبی تضاد کو مان لینے کے بعد یہ قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اس تضاد کا سبب مذہب ہی تھا۔

علمی حقائق اور تاریخی مسلمات کے انکا ر کا ایک ناگزیر نتیجہ موقف کا تضاد ہے۔ اسلامی علوم اور تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جب ہم کسی بنیادی مسلمے کا انکا ر کر تے ہیں تو پھر ہر قدم پر ہمیں ایک نئے تضاد کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ہم انکا ر پر قائم رہتے ہوئے جب اس تضاد کو حل کر نے کی کوشش کر تے ہیں تو ایک نیا تضاد کھڑا ہو جا تا ہے۔اس طرح غلطی ہائے مضامین کا سلسلہ دراز ہو تا چلا جا تا ہے اور لوگ ان تضادات کے ساتھ جینے کے عادی ہو جا تے ہیں۔تاہم ہر طبیعت اس تضاد کو گوارا نہیں کرتی۔ایسا رحجان رکھنے والا فرد جب ان تضادات کو حل کر نے کی کوشش کر تا ہے تو ان مقد مات کو زیربحث لا تا ہے جنہیں مقد مین بطور مسلمات قبول کر تے رہے ہیں۔ اسلامی علوم میں یہ کام تجدید کہلاتا ہے اور دیگر علوم میں تحقیق۔ہند ووں اور مسلمانوں کے اختلاف اور قیام ِپاکستان کی بنیاد کو جب ہم مذہبی ماننے سے انکا ر کر تے ہیں تودر اصل ایک تا ریخی مسلمے کوجھٹلانا چاہتے ہیں۔پھر اس تضاد سے چھٹکا را ممکن نہیں رہتا جس کی میں نے نشان دھی کی ہے۔

اس تضاد کو ایک اور زاویے سے دیکھیے۔تقسیم ِہند کے بارے میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔اس نقطہ نظر کی تین تعبیریں ہیں۔ایک یہ کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی تقسیم کا سبب بنا جس سے ان کی قوت میں کمی آئی۔اس سے یہ تو ممکن تھا کہ ان مسلمانوں کی کچھ بھلائی ہو جو مسلم اکثریتی علاقے میں رہتے تھے لیکن ان سے بڑی تعداد ایسے مسلمانوں کی تھی جو غیر مسلم اکثریت کے علاقے میں رہتے تھے۔ قیا م پاکستان کا مطلب انہیں ہند ووں کے رحم و کرم پر چھوڑنا تھا۔تاریخی اعتبار سے یہ موقف مولا نا ابو الکلام آزادسے منسوب ہے۔دوسری تعبیر یہ ہے کہ اگربر صغیر تقسیم نہ ہو تا تو متحدہ ہندوستان ایک بڑی طاقت ہو تا اورعالمی قو توں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ ایسی مضبوط ریاست پر وہ دباؤ ڈالتیں آج پاکستان جس کا شکا ر ہے۔یوں اس خطے اور دنیا کی تاریخ مختلف ہو تی۔ تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں میں کوئی تہذیبی اختلاف نہیں تھا۔ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ جب بعض لوگوں نے سیاسی مسائل کو مذہب کے زاویے سے دیکھا تو اس سے مزید الجھا ؤ پیدا ہوا اور اس عمل میں قائد اعظم بھی شریک تھے۔ اگر متحدہ ہندو ستان ایک سیکو لر ریاست کے طور پر قائم رہتا تو اس میں مسلمان اسی طرح ترقی کر سکتے تھے جس طرح دوسری اقوام کے لوگ ترقی کر رہے ہیں۔ میں نے ابتدامیں جن لوگوں کے فکری تضا دکا ذکر کیا ہے وہ یہی را ئے رکھتے ہیں۔پاکستا ن میں چونکہ یہ بات کہنا مشکل ہے اس لیے وہ ہرچند دن بعد مختلف طرح سے یہ کہنے کی تقریب پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان تو مذہب کے نام پر نہیں بنا تھا اور یوں ایک تایخی واقعے کا انکا ر کر کے جہاں خودنظری تضاد میں مبتلا ہو تے وہاں دوسروں کو بھی فکری پرا گندگی کا شکار بنا تے ہیں۔

میرے نزدیک ہمیں پاکستان میں وہ فضا پیدا کر نی چائیے کہ کسی کو اپنی بات کہنے میں کو ئی تکلف محسوس نہ ہو۔اگر چو مسکی جیسے لوگ امریکا اور ارون داتی رائے بھارت میں اپنی بات کہہ سکتے ہیں جو ریاست کی سوچ اور عوامی مذاج سے مختلف ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ ایک موضوع پر جب مختلف آرا سامنے آئیں گی تو اس سے با لآخرعام آدمی بھی صحیح بات تک پہنچ سکے گا۔تاہم تاریخی واقعات کو بس اسی حوالے سے بیان کر نا چاہیے کہ اس سے مقصودان کی تنقیح ہے۔ پاکستان ّج دینا کے نقشے پر ایک حقیقت ہے اور ان شا اللہ یہ حقیقت ہی رہے گا۔اسی طرح ستانوے فی صد مسلمان آبادی سے یہ توقع رکھنا بھی عبث ہے کہ وہ اپنے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے قرآن مجید کو وہی اہمیت دیں گے جو اس کی نظروں میں گیتا کی ہو سکتی ہے۔پاکستان کی نظر یا تی شناخت کے حوالے سے عمو می رائے سے مختلف رائے رکھنے والے یقیناً یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی بات عام لو گوں کے سامنے رکھیں لیکن اس کے لیے تاریخی مسلمات کے انکا ر سے خود ان کی اصابت ِ رائے مشکوک ٹھہرے گی۔
 

قمراحمد

محفلین
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن نہیں؟

....سفیر احمد صدیقی


واہ! واہ! کیا خوب بیان دیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ ایسا انکشاف ہے جس سے عقل دنگ رہ گئی ہے۔ دشمن نے ہمیں مار مار کر ادھ موا کردیا ہے (مشرقی پاکستان اور جنگی کیمپوں کے حوالے سے) اور بین الاقوامی برادری میں رسوا اور ذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن نہیں۔ ہمارے صدر صاحب فرماتے ہیں کہ ممبئی میں دہشت گردی کے نتیجے میں بھارت کا طرزعمل محض جذباتی ردّعمل تھا۔ کیا عالی مرتبت بھارت کی ازلی عناد اور دشمنی جو سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئی اسے بھول گئے ہیں؟ کیا زرداری صاحب پنڈت جواہر لال نہرو کے یو این او میں کیے ہوئے وعدے بھول گئے ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ کشمیری اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا ہندوستان میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔ سیاچن میں بھارتی فوج گھس جاتی ہے اور اس ارادے سے گھستی ہے کہ جب بھی موقع ملا وہ بلتستان اور گلگت پر قابض ہو جائے گی۔ کیا بھارت کی اس حرکت کو ہم دوستی کا نام دیں۔ڈپلومیسی بہت نازک اور اچھی چیز ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھونڈی ڈپلومیسی اختیار کرتے ہوئے اپنا تشخص ہی کھو بیٹھیں۔ مثلاً صدر محترم بھارت کو خوش کرنے کے لئے یہ فرماتے ہیں کہ: ”ہم (ہندو اور مسلمان) ایک ہی مٹّی کے بنے ہوئے ہیں۔“

کیا ہمیں یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ ان کی بود و باش، لباس، طور طریقے، رہن سہن مسلمانوں سے اتنے جدا اور مختلف ہیں جیسے قطب شمالی اور قطب جنوبی۔ میں حیران ہوں کہ انہیں مسجد اور مندر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اگر یہ کہنا درست ہے کہ ہم ایک ہی خمیر سے بنے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گاندھی جی ٹھیک ہی کہا کرتے تھے کہ: "How can a group of converts claim a separate homeland."
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں تو پھر کیا خدانخواستہ دو قومی نظریہ ایک ڈھونگ تھا اور جدوجہد پاکستان "An Exercise in Futility" ۔ کیا دس ملین مسلمانوں نے حصول پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ بھی ان کی بھول تھی اور پاکستان کے نام پر کرہٴ ارض پر وقوع پذیر ہونے والی سب سے بڑی ہجرت بھی لاحاصل تھی۔ مائی لارڈ اگر ہم ایک مٹّی کے بنے ہوئے ہوتے تو گاندھی اور نہرو ہمیں متحدہ ہندوستان میں اقلیت کا درجہ دینے پر کیوں مصر تھے۔ اگر ہم ایک ہی خمیر کے بنے ہوئے ہیں تو مسلمانوں کے لئے گائے ایک مقدس جانور تو نہیں ہے۔ پھر ہم ایک جیسے کیوں کر ہوئے۔ کس زاویئے سے کس منطق کی رو سے۔ جب کسی دو شے کی مماثلت پیش کی جاتی ہے تو ان دو چیزوں میں کوئی مشابہت کا ہونا لازمی ہے۔ زرداری صاحب مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن، معاشرتی اقدار سب کو اپنے ایک نا مناسب بیان سے ضم کر دینا چاہتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
فرخ بھیا، اسلام کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی طرح سے نماز پڑھیں، ایک سے عقائد رکھیں۔ جب ایک مملکت میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو یہ مقصد ہوتا ہے کہ اسلام کا معاشرتی انصاف و رواداری کا مظہر معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ میں کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ عبادات معاشرت سے الگ ہیں اور انہیں الگ ہی دیکھنا چاہئے۔ بدقسمتی سے مُلا کو دین کے سوا اور کسی طرح سے اپنی برتری ثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے وہ دین کو صرف عبادات کا ہی مجموعہ سمجھ کر اس پر فساد ڈال کر بیٹھ جاتا ہے۔ مُلا تو قائد اعظم اور علامہ کو بھی اچھا مسلمان نہیں سمجھتے کہ نہ ان کی داڑھی تھی اور نہ وضع قطع "شرعی"۔ ان لوگوں کے وژن کا اسلام تو پاکستان کے قیام سے میل ہی نہیں کھاتا اس میں نفاذ کی بات تو دور کی ہے۔ سو یہ سُنی، شیعہ ، بریلوی، دیوبندی، وہابی کے فساد صرف مُلا کے پھیلائے ہوئے ہیں۔ کونسا اسلام رشوت ستانی کو جائز سمجھتا ہے؟ عدل کی فراہمی سے روکتا ہے؟ قتل و غارت گری کی اجازت دیتا ہے؟ مُلا کی بالادستی کی اجازت دیتا ہے؟ امن و سکون کو اپنے معاشرہ کے مکینوں پر حرام قرار دیتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ مُلا کا کیونکہ ان سب باتوں سے دم گھُٹتا ہے سو اس کا اسلام ٹخنوں سے شلوار اونچی رکھنے، برقعہ پہننے، داڑھی رکھنے، اور "جی مولانا" تک محدود ہے اور اسی اسلام کی مارکیٹنگ میں شیعہ، سُنی، وہابی، دیوبندی کے مسائل ہیں۔ لیکن یہ تو اسلام کا وہ پہلو ہے جس پر عمل کے لئے ہر شخص آزاد ہے لیکن کیا کِیا جائے کہ اگر یہ مان لیں تو مُلا کے حلوے مانڈے تو ختم :)
(یہی وہ ملا کا کردار ہے جس پر "Hot post" میں صفحے کالے کیے جا رہے ہیں مگر ملا پر آنچ نہیں آنے دی جا رہی)
وسلام
 

dxbgraphics

محفلین
یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ایک اسلام ہے؟ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، بریلوی یا کون؟

اس پر بحث کی جاسکتی ہے اگر محفل کے منتظمین حذف یا بین نہ کریں تو ۔۔۔۔
کیوں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ خلافت راشدہ کےبعد سے فرقہ بندی ہوئی ہے تو یہ سچ ہے تمام فساد کی جڑ عبداللہ بن سبا یہودی منافق تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ اور حضرت علی رضی اللہ کے درمیان اختلافات پیدا کئے۔
یہ وہی عبداللہ بن سبا ہے جس کو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے قتل کا حکم دیا لیکن یہ مصربھاگ گیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس پر بحث کی جاسکتی ہے اگر محفل کے منتظمین حذف یا بین نہ کریں تو ۔۔۔۔
کیوں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ خلافت راشدہ کےبعد سے فرقہ بندی ہوئی ہے تو یہ سچ ہے تمام فساد کی جڑ عبداللہ بن سبا یہودی منافق تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ اور حضرت علی رضی اللہ کے درمیان اختلافات پیدا کئے۔
یہ وہی عبداللہ بن سبا ہے جس کو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے قتل کا حکم دیا لیکن یہ مصربھاگ گیا۔

قبلہ لگتا ہے آپ کا اسلام اتنا کمزور ہے کہ ایک بندے کی سازش نہ سہہ سکا۔ :)
 

dxbgraphics

محفلین
لائبریری رکن کو پاس اتنا تو علم ہونا چاہئے کہ عبداللہ بن سبا یہودی جیسے سردار المنافقین کو نہیں جانتا
 

طالوت

محفلین
موضوع سے متعلق گفتگو رہے تو بہتر ہے ۔ آپ دونوں جس مختصر بیانی سے کام لے رہے ہیں اس سے دونوں کے موقف غیر واضح ہیں اور بات بگڑنے کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔
وسلام
 

مغزل

محفلین
عارف کریم صاحب اس لڑٰ ی کے ابتدائی دس مراسلے آج دیکھیے ہیں، فی الحال رسید حاضر ہے ، مجھے آپ کی کئی باتوں سے اتفاق ہے ، شکریہ
 

arifkarim

معطل
عارف کریم صاحب اس لڑٰ ی کے ابتدائی دس مراسلے آج دیکھیے ہیں، فی الحال رسید حاضر ہے ، مجھے آپ کی کئی باتوں سے اتفاق ہے ، شکریہ
پسند کرنے کا شکریہ، بہت کم لوگوں کو میرے مراسلوں سے اتفاق ہے۔ کیونکہ تقریبا 90 فیصد ہمارے ہاں لکیر کے فقیر ہیں۔

بقول حالی
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

:)

جی ہاں اس دھاگے کا مذہبی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست پاکستان کا قیام ایک سیاسی و تاریخی مسئلہ ہے۔ اگر یہ مذہبی فیصلہ ہوتا تو آج بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان نہ ہوتے!
 

ابن جمال

محفلین
آج کل جسونت سنگھ کی کتاب کا ہرجگہ چرچا ہے اوراس کے جو مندرجات ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں‌ہے۔ یہی بات کافی پہلے مولانا ابوالکلام آزاد انڈیاونس فریڈم یاآزادی کی کہانی میں لکھ چکے ہیں۔ انہوں‌نے اس کتاب کے تیس صفحات میں لاکر میں رکھوادیاتھا اوروصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کے تیس سال بعد وہ شائع کئے جائیں۔ تیس سال بعد جب ان تیس صفحات کو کھولا گیا تواس میں بھی پاکستان کے قیام میں جواہر لال نہرو کی ہٹ دھرمی اورسخت موقف کا ذکر تھا۔
ویسے حال ہی میں ڈاکٹر اسرار احمد کی بھی ایک کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا۔اس میں انہوں‌نے عجیب بات لکھی ہے کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد معاشی مفادات کا تحفظ تھایعنی زمینداروں اورجاگیرداروں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان بنایا۔
 

arifkarim

معطل
اس میں انہوں‌نے عجیب بات لکھی ہے کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد معاشی مفادات کا تحفظ تھایعنی زمینداروں اورجاگیرداروں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان بنایا۔
ہاں نا وہی امرا کی لاٹھی بھینس والا معاملہ تھا یہاں‌بھی!
جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے! :notlistening:
 

محسن حجازی

محفلین
بنیادی طور پر قیام پاکستان ایک سنگین غلطی تھی۔
تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ اس غلطی کا ارتکاب خود نادان اور ناعاقبت اندیش ہندو قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ برصغیر کی تقسیم انگریزوں کی بساط لپیٹتے وقت wrap up activity تھی سو انہیں تو کسی طرح اسے تقسیم کرنا ہی تھا۔ دوسری طرف قائداعظم کا فہم و ادراک بہت گہرا تھا ابتدا میں وہ خود کانگریس میں شامل رہے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ تاہم مسلم نکتہ نظر سے اگرچہ جزوی سہی لیکن بہت بڑی کامیابی تھی۔ جزوی اس طرح سے کہ تقسیم میں دھاندلی کے سبب بہت سے علاقے جو پاکستان کے حصے میں آنا تھے وہ نہ آ سکے۔اگر ہندو قیادت 1930 میں 2030 کا سوچتی تو وہ تقسیم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی بلکہ مسلم آبادی کے تحفظات کو ہر طرح سے دور کرتے ہوئے ہندوستان کو متحد رکھتی۔
مگر ایسا نہ ہو سکا جس کا نقصان بہرطور دونوں اقوام کو اٹھانا پڑا۔ تاہم مسلمانان ہند کو اس نقصان کے بدلے میں ظاہر ہے کہ ایک الگ آزاد ریاست بھی ملی جو اس نقصان کی تلافی سے کہیں بڑھ کر ہے تاہم بنیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
موجودہ حالات کا قیام پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں یہ سراسر قیادت کی نالائقی ہے اس کاکردگی کی بنیاد پر قیام پاکستان کو غلطی قرار دینا بذات خود ایک غلطی ہے۔
 

arifkarim

معطل
بنیادی طور پر قیام پاکستان ایک سنگین غلطی تھی۔
تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ اس غلطی کا ارتکاب خود نادان اور ناعاقبت اندیش ہندو قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ برصغیر کی تقسیم انگریزوں کی بساط لپیٹتے وقت wrap up activity تھی سو انہیں تو کسی طرح اسے تقسیم کرنا ہی تھا۔ دوسری طرف قائداعظم کا فہم و ادراک بہت گہرا تھا ابتدا میں وہ خود کانگریس میں شامل رہے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ تاہم مسلم نکتہ نظر سے اگرچہ جزوی سہی لیکن بہت بڑی کامیابی تھی۔ جزوی اس طرح سے کہ تقسیم میں دھاندلی کے سبب بہت سے علاقے جو پاکستان کے حصے میں آنا تھے وہ نہ آ سکے۔اگر ہندو قیادت 1930 میں 2030 کا سوچتی تو وہ تقسیم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی بلکہ مسلم آبادی کے تحفظات کو ہر طرح سے دور کرتے ہوئے ہندوستان کو متحد رکھتی۔
مگر ایسا نہ ہو سکا جس کا نقصان بہرطور دونوں اقوام کو اٹھانا پڑا۔ تاہم مسلمانان ہند کو اس نقصان کے بدلے میں ظاہر ہے کہ ایک الگ آزاد ریاست بھی ملی جو اس نقصان کی تلافی سے کہیں بڑھ کر ہے تاہم بنیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
موجودہ حالات کا قیام پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں یہ سراسر قیادت کی نالائقی ہے اس کاکردگی کی بنیاد پر قیام پاکستان کو غلطی قرار دینا بذات خود ایک غلطی ہے۔

یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ مگر قیادت کے فقدان کو خالی سیاست دانوں پر ٹھونسا شاید درست نہ ہو۔ ویسے ہماری حکومتیں اتنی دور اندیش کبھی نہیں ہوئیں کہ اگلے سال تک کی بھی دور اندیشی کر سکیں۔ :battingeyelashes: اسکا سب سے بڑا ثبوت برصغیر کا ٹھاٹھے مارتا آبادی کا سیلاب ہے جو کہ ہر سال روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے! :biggrin:
 

محسن حجازی

محفلین
یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ مگر قیادت کے فقدان کو خالی سیاست دانوں پر ٹھونسا شاید درست نہ ہو۔ ویسے ہماری حکومتیں اتنی دور اندیش کبھی نہیں ہوئیں کہ اگلے سال تک کی بھی دور اندیشی کر سکیں۔ :battingeyelashes: اسکا سب سے بڑا ثبوت برصغیر کا ٹھاٹھے مارتا آبادی کا سیلاب ہے جو کہ ہر سال روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے! :biggrin:

نومولود کی پیدائش کے بائیس برس بعداس کے ڈاکوں اور ڈکیتیوں کا الزام والدین اور ہسپتال کی انتظامیہ پر ڈالنا کیسا ہے؟ :noxxx:
 
Top