نیرنگ خیال
لائبریرین
ظہیر بھائی کی ایک غزل کی تازہ شرح حاضر ہے۔ تازہ شرح سے مراد یہ ہے کہ آج ہی لکھی گئی ہے۔۔۔
آسماں بادلوں سے ڈھکا ہواہے۔ ہلکی ہلکی بارش درختوں کے پتوں سے ٹکرا کر گر رہی ہے۔ میرے سامنے چار چھوٹے چھوٹے چوزے کھیل رہے ہیں۔ ان سے کچھ دور ایک بلی گھات لگائے بیٹھی تھی۔ میں نے ابھی اسے بھگایا ہے۔ اور اب نیچے زمین پر بیٹھا ایسے ہی بےخیالی میں ظہیر بھائی کی شاعری دیکھ رہا ہوں۔ صفحے پلٹتے پلٹتے نظر اس غزل پر ٹھہر سی گئی ہے۔ مجھے محفل پر اپنا تبصرہ یاد آگیا کہ اگر کسی کو غزل نہ سمجھ آئی ہو تو مجھ سے معانی پوچھ لے۔ یہ سوچ آتے ہی بے خیال سی مسکان میرے چہرے پر امڈ آئی ہے۔ میری مسکان جیسی بھی ہے، اس سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ میں نے کاغذ قلم اٹھا لیا ہے۔ دیکھیں، صفحہ قرطاس پر کیا ابھرتا ہے۔ اس سے پہلے میں کچھ لکھوں،میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کہنے والے کہیں گے۔ یہ غزل فکری گہرائی، جذبات نگاری اور عرفانِ بصیرت کا حسین امتراج ہے، جس نے دلوں کے ان تاروں کو چھیڑ دیا ہے، جو اس مادیت پرستی میں بےمروتی اور نفسانفسی کے زنگ سے آلودہ ہو کر اپنا اصل رنگ کھو چکے تھے۔ اور اب ان تاروں سے آوازیں نکلنا بند ہو چکی ہیں۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر غزل میں کوئی ایموجی لگا دے۔ اگر غزل کا مصرعہ بھی شاعر کچھ ایسے لکھ دے۔۔۔ کہ دوبارہ پڑھو۔ بات گہری ہے۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔
رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید
مجھے سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید
مجھے ایک پرانا گھسا پٹا لطیفہ یاد آگیا ہے۔ جس میں ایک آدمی زمین پر گڑھا کھود رہا ہوتا ہے، اور دوسرا اس میں مٹی بھرتا جاتا ہے۔ ایک تیسرا شخص جو اس عمل کے مشاہدے میں مصروف تھا، اس نے پوچھا۔ بھائی آخر اس بےمقصد عمل کی وجہ کیا ہے۔ شکل سے تم دونوں پاگل نہیں لگتے۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ اصل میں ہم شجر کاری کے محکمے سے ہیں۔ اس کا کام گڑھا نکالنا اور میرا گڑھا بھرنا ہے۔ جس نے پودا لگانا ہے وہ آج چھٹی پر ہے۔ اور شخص چھٹی پر بیٹھا غزلیں لکھ رہا ہے۔ بجائے اس کے جا کر اصل میں پودا لگائے۔میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ میرے سخن شناس احباب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ واہ واہ۔۔۔ کیا بےغرضی کا فلسفہ دو مصرعوں میں سمو دیا ہے۔ ایسی درویشانہ سوچ جو محنت پر صلے سے بےنیاز ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ حضرت فرما رہے ہیں، کہ رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید۔ ایسا لگتا ہے، جیسے زرعی ترقیاتی بینک کے افسر ہیں، جو درخت تو لگانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے ثمر اور سائے سے یکسر بےنیاز ہیں۔ یا پھر بنیاد ہی ایسے درخت کی رکھ رہے ہیں، جس سے نہ کوئی پھل ملے گا اور نہ ہی وہ سایہ کسی کو دے گا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی حکومتی منصوبے کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کا ناکام رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
جس طرف لے چلی وارفتگیِ شوق مجھے
نقشِ پا بنتے گئے راہ گزر کی امید
ابھی ہوتے احمد بھائی یا فلک بھائی! تو کہتے کہ واہ واہ۔۔۔ یہ شعر راہ عشق کی خود کشودہ فطرت کو بیان کرتا ہے۔جہاں وارفتگی شوق ایک غیر متعین منزل میں خود راستہ بناتی ہے، اور بناتی چلی جاتی ہے۔ اللہ اللہ ۔ لیکن میں آپ کو سادہ سی بات سمجھاؤں۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ خود کار قسم کے نقش پا۔۔۔۔۔۔۔ جس میں نہ راہ کا تعین ہے اور نہ شوق کا۔ اب یہ راہ کوچہ جاناں پر اختتام پذیر ہوگی یا کسی چائے کے کھوکھے میں جا سمائے گی۔ کبھی کبھی میرا جی پی ایس جب کام نہیں کرتا، تو میری بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ چلے چلو۔۔۔۔ جہاں راستہ لے جائے۔ مگر جانے مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی بچہ برف پر قدم بنانے کے شوق میں بھاگتا جائے، اور پھر یہ امید بھی رکھے کہ پیچھے آنے والے اسے گوگل میپ سمجھ لیں گے۔ خیر ہمیں کیا۔ شاعر کوچہ جاناں میں نقش امید بنائے یا راہِ رقیب بھٹکائے۔
اور کیا کام دوانے کا ترے کوچے میں
اک تلطف کی توقع ہے، نظر کی امید
اگر میں زمانہ طالبعلمی میں ہوتا تو یقینا کہتا کہ شاعر اس شعر میں عاشقوں کا درویش نظر آتا ہے، جہاں محبوب کے در پر ایک عنایت ایک نظر کرم کی طلب اس کو نہال کرتی ہے اور یہ کوئی نفسانی وبال نہیں، بلکہ جمالیاتی حس کی تسکین ہے۔ لیکن افسوس، صد افسوس! میں زمانہ طالبعلمی میں نہیں ہوں۔ تشبیہات و استعارات جیسی نازک مزاج چیزوں سے کوسوں دور رہتا ہوں۔ حقیقت کی پٹی آنکھوں پر چڑھی ہے۔ اور تجربات و مشاہدات کسی لطیف خیال کو ذہن کے پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ ایسا نظر آتا ہے جیسے محبوب کا در بھی بینک کی قطار جیسا ہے۔ جہاں ایک مسکراہٹ ۔۔۔ ایک چھوٹی سی نظر کرم۔۔۔ اور بس۔۔۔ چلو اب کل آئیں گے۔ آج کی نظر ہوس تو پوری ہوئی۔ یا پھر ایسے جیسے کوچہ جاناں کا چکر لگانا۔ لیکن سلام نہ دعا۔ چائے نہ پانی۔ بس ایک نظر التفات اور آنکھوں آنکھوں سے ملاقاتیں۔ ان کو پتا نہیں کہ "تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں"۔ خیر ہمارا کام تو تنبیہ کرنا ہی ہے۔ لیکن ڈر ہے کہ ناصح ناصح کا راگ نہ چھیڑ دے کوئی۔ اللہ ہی ہدایت دے۔
یعنی ہے بیم و رجا کا یہ تماشائے دراز
مختصر عرصۂ ہستی میں بشر کی امید!
ہائے۔۔ پھر وہی زمانہ طالبعلمی۔۔۔ کمرہ امتحان۔۔۔ گھڑی کی سوئی گھوم رہی۔۔۔ ٹک ٹک کمرے میں نہیں، نیرنگ کے دل میں ہو رہی ہے۔ قلم چل رہا ہے۔ یہ شعر روحانی کشمکش کا بیان ہے۔ زندگی کے عروج و زوال کی داستان ہے۔جس میں انسان کی فطری اضطرابی چھلک رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک تو ہے۔ نیرنگ کا قلم بھی ہے۔ لیکن کمرہ امتحان نہیں ہے۔ نمبر نہیں لگنے۔ ہاں بس خیال ہے تو ظہیر بھائی کا۔ کہ انیس لگے نہ ٹھیس ان آبگینوں کو۔ ایسا لگتا ہے جیسے شاعر نے کسی مینا بازار میں سٹال لگایا ہوا ہے۔ "بشر! جلد آ رہا ہے۔" گاہک آتے ہیں، پوچھتے ہیں، کب آ رہا ہے کوئی بشر؟ کیا پیشگی ادائیگی کی کوئی سہولت ہے؟ تماشائی مایوس لوٹ رہے ہیں۔ آج بھی بشر نہ ملا۔ دو دوست آپس میں گفتگو کرتے جا رہے ہیں۔ کیا یار! آج کا میلہ بھی ضائع گیا۔ پچھلے برس بھی یہی بورڈ آویزاں تھا۔ لیکن نہ پچھلے برس نہ اِس۔ بشر دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ دوسرا دوست! میں نے پوچھا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ زبردست بشر بنوا رہا ہوں۔ اگلی بار دیکھو گے، دیکھتے رہ جاؤ گے۔ لیکن کس کو خبر۔۔۔۔ اگلا برس آئے گا کہ نہیں۔
ایک شب خون نیا قافلے والوں پہ پڑا
جب کبھی بندھنے لگی رختِ سفر کی امید
نہ ہوئے عاطف بھائی۔۔۔ ورنہ کہتے۔ یہ شعر تو حادثاتی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ ہر نئے ارادے، نئے سفر پر مشکل، رکاوٹ اور پریشانیوں کا ہونا ، زمانے کی بےثباتی اور عدم پیش بینی کا عکاس ہے۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہی کسی مصیبت سے رہائی ملنے کی کوئی سبیل پیدا ہوئی ہے، شاعر نے میرا غم کتنا کم کے مصداق کوئی نئی محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ یہاں قافلہ گروہِ رقیباں ہوگا اور شب خون سے یقیناً شاعر کی مراد اپنی سپہ گری رہی ہوگی۔
راہ خود رہبری کردے تو کرم ہے ورنہ
کارواں چھوڑ چکا میرِ سفر کی امید
مجھے علم نہیں کہ آپ کبھی ایسی جگہ گئے ہیں کہ نہیں، جب عین درمیان سفر آپ کا ساتھی کہہ دے، کہ یار یہاں تک میں لے آیا ہوں، لیکن آگے کسی سے راستہ پوچھ لیتے ہیں۔ ویسے مجھے یاد تو تھا، شاید یہی سڑک مڑتی تھی، لیکن احتیاط بہتر ہے۔ ایسے میں آپ کو جی پی ایس، گوگل میپس اور راستہ دکھانے والے دیگر اطلاقیے اپنے دوست سے کہیں زیادہ پیارے محسوس ہوتے ہیں۔لیکن جب انٹرنیٹ بھی نہ ہو اور کوئی راستہ سجھائی نہیں دے تو ساتھ بیٹھا دوست سڑک پر لگے بورڈز پڑھ پڑھ کر سنانے لگتا ہے کہ دھیان سے! آگے موڑ ہے۔ پل بانسری صرف بیس کلومیٹر۔ اس کی ان حرکتوں پر آپ جی کڑا کر کے بیٹھے تو رہتے ہیں کہ قدرت آپ کو موقع دیتی ہے، اور آپ کو ایسی مقامی سواری نظر آتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ رانے نال ویر۔۔۔ سیدھے فیر (فائر)
غمِ دنیا نے تو موقع دیا ہر بار نیا
غمِ جاناں سے نہیں بارِ دگر کی امید
یہ ایک جدید شعر ہے۔ احباب خوب جانتے ہیں، کہ فی زمانہ سب کچھ پیکج پر چل رہا ہے۔پیغام رسانی سے لیکر برقی خطوط تک، اور آدھی ملاقات سے لیکر بصری ملاقات تک۔ یہ سبسکرپشنز ہی ہیں، جو عہد حاضر کے انسان کو آگے سے آگے چلائے جا رہی ہیں۔ شاعر نے بھی دنیا کے غموں کا پیکج لیا ہے، اور طرز بیاں سے واضح ہے کہ ہر کچھ مدت کے بعد دوبارہ تازہ کاری کی سہولت بھی موجود ہے۔ جبکہ غم جاناں پیکج، یا صرف جاناں پیکج ، کسی تہوار کی مانند بازار میں جلوہ فروز ہوا اور خوبی قسمت سے شاعر کو اس کی سبسکرپشن بھی مل گئی۔ لیکن ، جب شاعر کو چیٹک لگی، تو پتا چلا کہ یہ پیکج تو "قواعد و ضوابط لاگو ہیں" کی شرط مظہرہ کا مظہر تھا۔شاعر کے انداز سے مایوسی چھلک رہی ہے۔
درِ کعبہ سے ملے ہیں یہ تبرّک میں مجھے
زیرِ لب حرفِ دعا، دل میں اثر کی امید
یہ شعر میں نے قصداً چھوڑ دیا ہے۔ میں اس پر اینکرپٹڈ دعا اور آپ کی تمام دعائیں صیغہ راز میں رہیں گی، اور اس پر وصول پائے کا دوہرا نشان جیسی باتیں لکھ کر آپ احباب کے عتاب کا مستحق نہیں بننا چاہتاہوں۔
تیری دنیا میں مسافر ہوں، خدایا
مجھ کو وہ سفر دے جو بنے زادِ سفر کی امید
عام مشاہد ہ ہے کہ ہر مسافر اپنے سفر کے اسباب اور وسائل کی تگ و دو سے نہ صرف پوری طرح واقف ہوتا ہے، بلکہ ان کے لیے کوشاں بھی رہتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ شاعر جو کہ کوچہ آلکساں کی رکنیت کی خواہش لیے ایک مدت سے بناوٹی آلکسی کی مبتلا ہے۔ اپنے سفر کے لیے کسی سفری عطیے کا منتظر ہے۔ اور آلکسی کا بھرم رکھتے ہوئے وہ یہ تمنا بھی رکھتا ہے کہ اگر زادِ راہ کوئی اور نہیں لانے والا، تو مجھے سفر ہی ایسا کرنا چاہیے، جو میرے اسباب کے اندر ممکن ہو سکے۔ کہنے والے اس کو روحانی بالیدگی اور عرفان زندگی سے تعبیر کریں گے، لیکن ہم جانتے ہیں، کہ یہ محض کسی ایسے دوست کی تمنا ہے، جو یہ کہے کہ یار چل نکلتے ہیں۔ کہیں گھوم کر آتے ہیں۔
کچھ دیئے ایسے جلے ہیں کفِ جادہ پہ ظہیؔر
سینۂ شب میں جھلکتی ہے سحر کی امید
اس شعر نے شاعر کا سارا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک یہ غزل مکمل طور پر زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھی، لیکن روشنی کی عدم دستیابی، دیے کے جلنے، بلکہ ہاتھوں میں ٹارچ نما موم بتی لیکر پھرنے کے عمل نے قلعی کھول دی ہے کہ شاعر پاکستانی ہے۔ اور یا تو بجلی کا بل نہیں بھرا، یا پھر لوڈ شیڈنگ نے اندھیر مچا رکھی ہے۔ اور اب انہی شمعوں میں اس کو سحر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا تلخ تجربہ ایسی شائستگی سے بیان کرنے پرشاعر کی سخنوری پر دسترس کھل کر سامنے آرہی ہے۔جہاں عام احباب کو اس شعر میں اندھیرے اور روشنی کے متصادم ہونے پر مایوسی اور امید کی علامتیں نظر آ رہی ہیں، وہیں ہمیں برق کی غیر موجودگی میں شاعر کی بے بسی اور سحر ہونے تک کے طویل کرب کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے کی عملی کوشش نظر آرہی ہے۔
از قلم نیرنگ خیال
1 جولائی 2025
آسماں بادلوں سے ڈھکا ہواہے۔ ہلکی ہلکی بارش درختوں کے پتوں سے ٹکرا کر گر رہی ہے۔ میرے سامنے چار چھوٹے چھوٹے چوزے کھیل رہے ہیں۔ ان سے کچھ دور ایک بلی گھات لگائے بیٹھی تھی۔ میں نے ابھی اسے بھگایا ہے۔ اور اب نیچے زمین پر بیٹھا ایسے ہی بےخیالی میں ظہیر بھائی کی شاعری دیکھ رہا ہوں۔ صفحے پلٹتے پلٹتے نظر اس غزل پر ٹھہر سی گئی ہے۔ مجھے محفل پر اپنا تبصرہ یاد آگیا کہ اگر کسی کو غزل نہ سمجھ آئی ہو تو مجھ سے معانی پوچھ لے۔ یہ سوچ آتے ہی بے خیال سی مسکان میرے چہرے پر امڈ آئی ہے۔ میری مسکان جیسی بھی ہے، اس سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ میں نے کاغذ قلم اٹھا لیا ہے۔ دیکھیں، صفحہ قرطاس پر کیا ابھرتا ہے۔ اس سے پہلے میں کچھ لکھوں،میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کہنے والے کہیں گے۔ یہ غزل فکری گہرائی، جذبات نگاری اور عرفانِ بصیرت کا حسین امتراج ہے، جس نے دلوں کے ان تاروں کو چھیڑ دیا ہے، جو اس مادیت پرستی میں بےمروتی اور نفسانفسی کے زنگ سے آلودہ ہو کر اپنا اصل رنگ کھو چکے تھے۔ اور اب ان تاروں سے آوازیں نکلنا بند ہو چکی ہیں۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر غزل میں کوئی ایموجی لگا دے۔ اگر غزل کا مصرعہ بھی شاعر کچھ ایسے لکھ دے۔۔۔ کہ دوبارہ پڑھو۔ بات گہری ہے۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔
رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید
مجھے سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید
مجھے ایک پرانا گھسا پٹا لطیفہ یاد آگیا ہے۔ جس میں ایک آدمی زمین پر گڑھا کھود رہا ہوتا ہے، اور دوسرا اس میں مٹی بھرتا جاتا ہے۔ ایک تیسرا شخص جو اس عمل کے مشاہدے میں مصروف تھا، اس نے پوچھا۔ بھائی آخر اس بےمقصد عمل کی وجہ کیا ہے۔ شکل سے تم دونوں پاگل نہیں لگتے۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ اصل میں ہم شجر کاری کے محکمے سے ہیں۔ اس کا کام گڑھا نکالنا اور میرا گڑھا بھرنا ہے۔ جس نے پودا لگانا ہے وہ آج چھٹی پر ہے۔ اور شخص چھٹی پر بیٹھا غزلیں لکھ رہا ہے۔ بجائے اس کے جا کر اصل میں پودا لگائے۔میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ میرے سخن شناس احباب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ واہ واہ۔۔۔ کیا بےغرضی کا فلسفہ دو مصرعوں میں سمو دیا ہے۔ ایسی درویشانہ سوچ جو محنت پر صلے سے بےنیاز ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ حضرت فرما رہے ہیں، کہ رکھ رہا ہوں میں زمینوں میں شجر کی امید۔ ایسا لگتا ہے، جیسے زرعی ترقیاتی بینک کے افسر ہیں، جو درخت تو لگانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے ثمر اور سائے سے یکسر بےنیاز ہیں۔ یا پھر بنیاد ہی ایسے درخت کی رکھ رہے ہیں، جس سے نہ کوئی پھل ملے گا اور نہ ہی وہ سایہ کسی کو دے گا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی حکومتی منصوبے کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کا ناکام رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
جس طرف لے چلی وارفتگیِ شوق مجھے
نقشِ پا بنتے گئے راہ گزر کی امید
ابھی ہوتے احمد بھائی یا فلک بھائی! تو کہتے کہ واہ واہ۔۔۔ یہ شعر راہ عشق کی خود کشودہ فطرت کو بیان کرتا ہے۔جہاں وارفتگی شوق ایک غیر متعین منزل میں خود راستہ بناتی ہے، اور بناتی چلی جاتی ہے۔ اللہ اللہ ۔ لیکن میں آپ کو سادہ سی بات سمجھاؤں۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ خود کار قسم کے نقش پا۔۔۔۔۔۔۔ جس میں نہ راہ کا تعین ہے اور نہ شوق کا۔ اب یہ راہ کوچہ جاناں پر اختتام پذیر ہوگی یا کسی چائے کے کھوکھے میں جا سمائے گی۔ کبھی کبھی میرا جی پی ایس جب کام نہیں کرتا، تو میری بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ چلے چلو۔۔۔۔ جہاں راستہ لے جائے۔ مگر جانے مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی بچہ برف پر قدم بنانے کے شوق میں بھاگتا جائے، اور پھر یہ امید بھی رکھے کہ پیچھے آنے والے اسے گوگل میپ سمجھ لیں گے۔ خیر ہمیں کیا۔ شاعر کوچہ جاناں میں نقش امید بنائے یا راہِ رقیب بھٹکائے۔
اور کیا کام دوانے کا ترے کوچے میں
اک تلطف کی توقع ہے، نظر کی امید
اگر میں زمانہ طالبعلمی میں ہوتا تو یقینا کہتا کہ شاعر اس شعر میں عاشقوں کا درویش نظر آتا ہے، جہاں محبوب کے در پر ایک عنایت ایک نظر کرم کی طلب اس کو نہال کرتی ہے اور یہ کوئی نفسانی وبال نہیں، بلکہ جمالیاتی حس کی تسکین ہے۔ لیکن افسوس، صد افسوس! میں زمانہ طالبعلمی میں نہیں ہوں۔ تشبیہات و استعارات جیسی نازک مزاج چیزوں سے کوسوں دور رہتا ہوں۔ حقیقت کی پٹی آنکھوں پر چڑھی ہے۔ اور تجربات و مشاہدات کسی لطیف خیال کو ذہن کے پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ ایسا نظر آتا ہے جیسے محبوب کا در بھی بینک کی قطار جیسا ہے۔ جہاں ایک مسکراہٹ ۔۔۔ ایک چھوٹی سی نظر کرم۔۔۔ اور بس۔۔۔ چلو اب کل آئیں گے۔ آج کی نظر ہوس تو پوری ہوئی۔ یا پھر ایسے جیسے کوچہ جاناں کا چکر لگانا۔ لیکن سلام نہ دعا۔ چائے نہ پانی۔ بس ایک نظر التفات اور آنکھوں آنکھوں سے ملاقاتیں۔ ان کو پتا نہیں کہ "تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں"۔ خیر ہمارا کام تو تنبیہ کرنا ہی ہے۔ لیکن ڈر ہے کہ ناصح ناصح کا راگ نہ چھیڑ دے کوئی۔ اللہ ہی ہدایت دے۔
یعنی ہے بیم و رجا کا یہ تماشائے دراز
مختصر عرصۂ ہستی میں بشر کی امید!
ہائے۔۔ پھر وہی زمانہ طالبعلمی۔۔۔ کمرہ امتحان۔۔۔ گھڑی کی سوئی گھوم رہی۔۔۔ ٹک ٹک کمرے میں نہیں، نیرنگ کے دل میں ہو رہی ہے۔ قلم چل رہا ہے۔ یہ شعر روحانی کشمکش کا بیان ہے۔ زندگی کے عروج و زوال کی داستان ہے۔جس میں انسان کی فطری اضطرابی چھلک رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک تو ہے۔ نیرنگ کا قلم بھی ہے۔ لیکن کمرہ امتحان نہیں ہے۔ نمبر نہیں لگنے۔ ہاں بس خیال ہے تو ظہیر بھائی کا۔ کہ انیس لگے نہ ٹھیس ان آبگینوں کو۔ ایسا لگتا ہے جیسے شاعر نے کسی مینا بازار میں سٹال لگایا ہوا ہے۔ "بشر! جلد آ رہا ہے۔" گاہک آتے ہیں، پوچھتے ہیں، کب آ رہا ہے کوئی بشر؟ کیا پیشگی ادائیگی کی کوئی سہولت ہے؟ تماشائی مایوس لوٹ رہے ہیں۔ آج بھی بشر نہ ملا۔ دو دوست آپس میں گفتگو کرتے جا رہے ہیں۔ کیا یار! آج کا میلہ بھی ضائع گیا۔ پچھلے برس بھی یہی بورڈ آویزاں تھا۔ لیکن نہ پچھلے برس نہ اِس۔ بشر دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ دوسرا دوست! میں نے پوچھا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ زبردست بشر بنوا رہا ہوں۔ اگلی بار دیکھو گے، دیکھتے رہ جاؤ گے۔ لیکن کس کو خبر۔۔۔۔ اگلا برس آئے گا کہ نہیں۔
ایک شب خون نیا قافلے والوں پہ پڑا
جب کبھی بندھنے لگی رختِ سفر کی امید
نہ ہوئے عاطف بھائی۔۔۔ ورنہ کہتے۔ یہ شعر تو حادثاتی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ ہر نئے ارادے، نئے سفر پر مشکل، رکاوٹ اور پریشانیوں کا ہونا ، زمانے کی بےثباتی اور عدم پیش بینی کا عکاس ہے۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہی کسی مصیبت سے رہائی ملنے کی کوئی سبیل پیدا ہوئی ہے، شاعر نے میرا غم کتنا کم کے مصداق کوئی نئی محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ یہاں قافلہ گروہِ رقیباں ہوگا اور شب خون سے یقیناً شاعر کی مراد اپنی سپہ گری رہی ہوگی۔
راہ خود رہبری کردے تو کرم ہے ورنہ
کارواں چھوڑ چکا میرِ سفر کی امید
مجھے علم نہیں کہ آپ کبھی ایسی جگہ گئے ہیں کہ نہیں، جب عین درمیان سفر آپ کا ساتھی کہہ دے، کہ یار یہاں تک میں لے آیا ہوں، لیکن آگے کسی سے راستہ پوچھ لیتے ہیں۔ ویسے مجھے یاد تو تھا، شاید یہی سڑک مڑتی تھی، لیکن احتیاط بہتر ہے۔ ایسے میں آپ کو جی پی ایس، گوگل میپس اور راستہ دکھانے والے دیگر اطلاقیے اپنے دوست سے کہیں زیادہ پیارے محسوس ہوتے ہیں۔لیکن جب انٹرنیٹ بھی نہ ہو اور کوئی راستہ سجھائی نہیں دے تو ساتھ بیٹھا دوست سڑک پر لگے بورڈز پڑھ پڑھ کر سنانے لگتا ہے کہ دھیان سے! آگے موڑ ہے۔ پل بانسری صرف بیس کلومیٹر۔ اس کی ان حرکتوں پر آپ جی کڑا کر کے بیٹھے تو رہتے ہیں کہ قدرت آپ کو موقع دیتی ہے، اور آپ کو ایسی مقامی سواری نظر آتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ رانے نال ویر۔۔۔ سیدھے فیر (فائر)
غمِ دنیا نے تو موقع دیا ہر بار نیا
غمِ جاناں سے نہیں بارِ دگر کی امید
یہ ایک جدید شعر ہے۔ احباب خوب جانتے ہیں، کہ فی زمانہ سب کچھ پیکج پر چل رہا ہے۔پیغام رسانی سے لیکر برقی خطوط تک، اور آدھی ملاقات سے لیکر بصری ملاقات تک۔ یہ سبسکرپشنز ہی ہیں، جو عہد حاضر کے انسان کو آگے سے آگے چلائے جا رہی ہیں۔ شاعر نے بھی دنیا کے غموں کا پیکج لیا ہے، اور طرز بیاں سے واضح ہے کہ ہر کچھ مدت کے بعد دوبارہ تازہ کاری کی سہولت بھی موجود ہے۔ جبکہ غم جاناں پیکج، یا صرف جاناں پیکج ، کسی تہوار کی مانند بازار میں جلوہ فروز ہوا اور خوبی قسمت سے شاعر کو اس کی سبسکرپشن بھی مل گئی۔ لیکن ، جب شاعر کو چیٹک لگی، تو پتا چلا کہ یہ پیکج تو "قواعد و ضوابط لاگو ہیں" کی شرط مظہرہ کا مظہر تھا۔شاعر کے انداز سے مایوسی چھلک رہی ہے۔
درِ کعبہ سے ملے ہیں یہ تبرّک میں مجھے
زیرِ لب حرفِ دعا، دل میں اثر کی امید
یہ شعر میں نے قصداً چھوڑ دیا ہے۔ میں اس پر اینکرپٹڈ دعا اور آپ کی تمام دعائیں صیغہ راز میں رہیں گی، اور اس پر وصول پائے کا دوہرا نشان جیسی باتیں لکھ کر آپ احباب کے عتاب کا مستحق نہیں بننا چاہتاہوں۔
تیری دنیا میں مسافر ہوں، خدایا
مجھ کو وہ سفر دے جو بنے زادِ سفر کی امید
عام مشاہد ہ ہے کہ ہر مسافر اپنے سفر کے اسباب اور وسائل کی تگ و دو سے نہ صرف پوری طرح واقف ہوتا ہے، بلکہ ان کے لیے کوشاں بھی رہتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ شاعر جو کہ کوچہ آلکساں کی رکنیت کی خواہش لیے ایک مدت سے بناوٹی آلکسی کی مبتلا ہے۔ اپنے سفر کے لیے کسی سفری عطیے کا منتظر ہے۔ اور آلکسی کا بھرم رکھتے ہوئے وہ یہ تمنا بھی رکھتا ہے کہ اگر زادِ راہ کوئی اور نہیں لانے والا، تو مجھے سفر ہی ایسا کرنا چاہیے، جو میرے اسباب کے اندر ممکن ہو سکے۔ کہنے والے اس کو روحانی بالیدگی اور عرفان زندگی سے تعبیر کریں گے، لیکن ہم جانتے ہیں، کہ یہ محض کسی ایسے دوست کی تمنا ہے، جو یہ کہے کہ یار چل نکلتے ہیں۔ کہیں گھوم کر آتے ہیں۔
کچھ دیئے ایسے جلے ہیں کفِ جادہ پہ ظہیؔر
سینۂ شب میں جھلکتی ہے سحر کی امید
اس شعر نے شاعر کا سارا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک یہ غزل مکمل طور پر زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھی، لیکن روشنی کی عدم دستیابی، دیے کے جلنے، بلکہ ہاتھوں میں ٹارچ نما موم بتی لیکر پھرنے کے عمل نے قلعی کھول دی ہے کہ شاعر پاکستانی ہے۔ اور یا تو بجلی کا بل نہیں بھرا، یا پھر لوڈ شیڈنگ نے اندھیر مچا رکھی ہے۔ اور اب انہی شمعوں میں اس کو سحر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا تلخ تجربہ ایسی شائستگی سے بیان کرنے پرشاعر کی سخنوری پر دسترس کھل کر سامنے آرہی ہے۔جہاں عام احباب کو اس شعر میں اندھیرے اور روشنی کے متصادم ہونے پر مایوسی اور امید کی علامتیں نظر آ رہی ہیں، وہیں ہمیں برق کی غیر موجودگی میں شاعر کی بے بسی اور سحر ہونے تک کے طویل کرب کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے کی عملی کوشش نظر آرہی ہے۔
از قلم نیرنگ خیال
1 جولائی 2025
آخری تدوین: