عظیم اللہ قریشی
محفلین
تو میری تحریر میں کہاں شامل ہے کہ میں نے انبیاء کو کسی غلط کام میں شامل کیا ہے ؟؟؟
اوپر جو کورٹ تم ایک محفلین کا کیا ہے اور ساتھ ہی جلد بازی میں میری تحریر کو سمجھے بغیر کہ میں نے کیا جواب دیا ہے میری تحریر کو بھی غلط معنوں میں معنون کیا ہے۔
یہ بھی نہ سوچا کہ میں نے غیر محسوس انداز میں کہ میرے معزز محفلین بھائی کو محسوس نہ ہو نیچے اپنے خیالات کو احسن طریقے سے پیش کردیا یا سوچ کا نقطہ نظر واضح کردیا لیکن پتہ نہیں تم کس نظر کی عینک پہنتے ہو کہ تمہیں الٹا نظر آتا ہے۔
یہ کوئی سیاست کا زمرہ تو ہے نہیں کہ اس میں اگلے بندے پر اپنی علمیت جمائی یا منوائی جائے ۔ تم کو چاہیے تھا کہ اگر تمہارے خیال سے معزز محفلین نے کوئی غلطی کی ہے تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کو چھوڑ دیتے کیونکہ کوئی بھی مسلمان کسی نبی کی شان مین جانتے بوجھتے ہوئے گستاخی نہیں کرسکتا ہے اور اگر زیادہ تکلیف تھی تو اس کو ذاتی پیغام میں بتا دیتے کہ اس کو تدوین کے ذریعے درست کرلو۔سب کے سامنے اس کی لفظی لغزش کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی
آخری تدوین:

ایک خشک خرما کے درخت کے ساتھ کھڑے ہو کر مسجد میں وعظ فرماتے تھے، پھر جب منبر بن گیا تو آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے۔ آپؐ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رونے کی اس طرح آواز آئی، جس طرح کوئی بچہ بے خود ہو کر گریہ زاری کرتا ہے۔ مجلس وعظ میں حیرت چھا گئی کہ یہاں رونے والا کون ہے؟ آخر معلوم ہوا کہ یہ صدائے گریہ ستون مسجد سے آ رہی ہے اور وہی حنانہ (نالاں) ہے۔ حضورؐ منبر سے اتر کر ستون کے پاس آئے اور پوچھا روتے کیوں ہو؟ کیا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا؛ حضورؐ کے غمِ فراق سے دل خون اور آتش ہجر سے جگر جل کر کباب ہو گیا ہے۔ آپؐ میرے ساتھ ٹیک لگا کر قیام فرماتے تھے اوراب مجھے چھوڑ کر منبر پر جا بیٹھے۔ میں روئوں نہ تو اور کیا کروں؟ حضورؐ نے فرمایا؛ اے پیارے درخت !تو بڑا خوش قسمت ہے، اب بتا کیا چاہتا ہے؟ اگر تو کہے تو پھر تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے اور تو اس قدر پھلے کہ مشرق اور مغرب کے رہنے والے تیرے میوے سے شاد کام ہوں اور اگر تیری مرضی ہو تو تو دوسرے جہاں میں سروسہی بنا دیا جائے تاکہ تو وہاں ہمیشہ تروتازہ رہے۔ ستون حنانہ نے عرض کیا مجھے بقائے دوام مطلوب ہے۔ حضورؐ نے اسے زمین میں دفن کردیا کہ وہ روزِ قیامت آدمیوں کی طرح محشور ہو۔
کا بندہ بن جاتا ہے، اسے اس دنیا کی کچھ محبت نہیں رہتی:تابدانی ہر کہ ایزد آں بخواند از ہمہ کار جہاں بے کار ماند(کتاب ’’حکایاتِ رومی:مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومیؒ،مؤلف: مطلوب احمد وڑائچ)