روحانی اقوال

تو میری تحریر میں کہاں شامل ہے کہ میں نے انبیاء کو کسی غلط کام میں شامل کیا ہے ؟؟؟
اوپر جو کورٹ تم ایک محفلین کا کیا ہے اور ساتھ ہی جلد بازی میں میری تحریر کو سمجھے بغیر کہ میں نے کیا جواب دیا ہے میری تحریر کو بھی غلط معنوں میں معنون کیا ہے۔
یہ بھی نہ سوچا کہ میں نے غیر محسوس انداز میں کہ میرے معزز محفلین بھائی کو محسوس نہ ہو نیچے اپنے خیالات کو احسن طریقے سے پیش کردیا یا سوچ کا نقطہ نظر واضح کردیا لیکن پتہ نہیں تم کس نظر کی عینک پہنتے ہو کہ تمہیں الٹا نظر آتا ہے۔
یہ کوئی سیاست کا زمرہ تو ہے نہیں کہ اس میں اگلے بندے پر اپنی علمیت جمائی یا منوائی جائے ۔ تم کو چاہیے تھا کہ اگر تمہارے خیال سے معزز محفلین نے کوئی غلطی کی ہے تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کو چھوڑ دیتے کیونکہ کوئی بھی مسلمان کسی نبی کی شان مین جانتے بوجھتے ہوئے گستاخی نہیں کرسکتا ہے اور اگر زیادہ تکلیف تھی تو اس کو ذاتی پیغام میں بتا دیتے کہ اس کو تدوین کے ذریعے درست کرلو۔سب کے سامنے اس کی لفظی لغزش کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
تو میری تحریر میں کہاں شامل ہے کہ میں نے انبیاء کو کسی غلط کام میں شامل کیا ہے ؟؟؟
میں نے ایسا کچھ کہا؟

اوپر جو کورٹ تم ایک محفلین کا کیا ہے اور ساتھ ہی جلد بازی میں میری تحریر کو سمجھے بغیر کہ میں نے کیا جواب دیا ہے میری تحریر کو بھی غلط معنوں میں معنون کیا ہے۔
کیا علمیت ہے جناب کی۔ایک تو طرز تخاطب بہت عالمانہ ہے دوسرا جناب تو غلطی کو سدھارنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔
میں نے لفظ ‘‘ملوث’’ کے متعلق عرض کیا تو جناب نے کہا کہ :معنے پتا ہیں تمہیں۔جناب کو معنی دکھائے تو ناراض ہو گئے۔پہلے جناب معنی دیکھنے پر بضد تھے اب جلد بازی کا عذر تراش رہے ہیں ۔

یہ بھی نہ سوچا کہ میں نے غیر محسوس انداز میں کہ میرے معزز محفلین بھائی کو محسوس نہ ہو نیچے اپنے خیالات کو احسن طریقے سے پیش کردیا یا سوچ کا نقطہ نظر واضح کردیا لیکن پتہ نہیں تم کس نظر کی عینک پہنتے ہو کہ تمہیں الٹا نظر آتا ہے۔
معزز آپ صرف ایک بھائی کے ساتھ ہی ہو سکتے ہیں کیا ؟ یہاں آپ نے میری عینک بھی دیکھ لی۔ خیر نمبر سوا دو کی ہے۔دور کی ۔ نزدیک کی اچھی ہے اللہ کے فضل سے۔
نیز یہ روحانی لڑی ہے جناب یہ مجھے الٹا مت لٹکایئے۔جس طرح کے آپ اقتباسات پیارے پیارے شیئر کرتے ہیں برائے مہربانی لہجہ بھی ویسا ہی خوبصورت اپنایئے ۔ یہ صرف ایک عرض ہے فدوی کی۔

یہ کوئی سیاست کا زمرہ تو ہے نہیں کہ اس میں اگلے بندے پر اپنی علمیت جمائی یا منوائی جائے
علمیت جمانے والی بات بھی آپ نے خوب کی۔ بندہ طفل ِ مکتب ہے علمیت سے متاثر ہوتا ہے جماتا نہیں ۔سیاست والے زمروں میں جانا تو ویسے بھی میں نے ترک کر دیا ۔

۔ تم کو چاہیے تھا کہ اگر تمہارے خیال سے معزز محفلین نے کوئی غلطی کی ہے تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کو چھوڑ دیتے کیونکہ
حسن ظن : واہ بہت مزا آیا آپ کی نصیحت سے۔دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔ یہی حسن ظن آپ بھی میرے بارے میں رکھ سکتے تھے۔

کوئی بھی مسلمان کسی نبی کی شان مین جانتے بوجھتے ہوئے گستاخی نہیں کرسکتا ہے
میں نے بھی جانتے بوجھتے کا لفظ نہیں کہا۔ میں نے سابقہ پوسٹ میں کہا تھا کہ یہ نادانستگی میں ہو گیا ہے۔ الزام تو نہیں لگایا تھا جناب پر۔

اور اگر زیادہ تکلیف تھی تو اس کو ذاتی پیغام میں بتا دیتے کہ اس کو تدوین کے ذریعے درست کرلو۔سب کے سامنے اس کی لفظی لغزش کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی
اب جو جھاڑ (پھونک) آپ نے مجھے پلائی ہے یہ آپ ذاتی پیغام میں بھی پلا سکتے تھے ۔ مگر نہیں نا ۔ نصیحت کرنا آسان ہوتا ہے اپنانا بہت مشکل۔



خیر میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔:)
 
قلب کو اگر دنیا کی فضولیات سے خالی رکھا جائے تو اس میں عجز و انکسار کے شگوفے کِھلتے ھیں، ان شگوفوں کی خو شبو " عُجب اور کِبر " کی بدبو کو نکال باھر کرتی ھے.....
عُجب اور کبر دو روحانی بیماریاں ہیں .....عُجب میں انسان دوسرے کو تو حقیر نہیں سمجھتا لیکن اپنے آپ کو عظیم سمجھتا ھے.....(جیسا کہ میں شدید قسم کی احساس برتری کا شکار ہوں)
جبکہ کِبر میں خود کو بھی عظیم سمجھتا ھے اور دوسرے کو بھی حقیر جانتا ھے.....
یہ زوائل قلب کی صفائی کو گندگی سے آلودہ کر دیتے ہیں، اس غلاظت سے نجات حاصل کر کے اگر قلب کو عجز و انکسار کی پستی میں بچھا دیا جائے تو اس کا رُخ پاکیزگی کے پرنالے کی طرف مڑ جاتا ھے......
اسی کوشش میں انسان لگا رھے...
(بقول) اس کو پاؤں یا نہ پاؤں، اُس کی طلب میں لگا رھوںگا..
وہ ملے یا نہ ملے اس کے ملنے کی آرزو برابر کرتا رھونگا.....

از شہاب نامہ
 
ايک بچہ اپنی ماں سے “آپ روتی کيوں ہيں ؟”
ماں “کيونکہ ايسی ضرورت پڑتی ہے”
بچہ ” مجھے سمجھ نہيں آئی”
ماں نے بچے کو سينے سے لگا کر پيار کرتے ہوئے کہا “تمہيں سمجھ آئے گا بھی نہيں”
پھر بچے نے اپنے باپ سے سوال کيا “ماں بغير وجہ کيوں روتی ہے ؟”
باپ نے لاپرواہی سے جواب ديا “سب عورتيں بلاوجہ روتی ہيں”
بچہ مخمصے ميں رہا ۔ کچھ دن بعد بچے کی ايک عالِم سے ملاقات ہوئی ۔ بچے نے سوچا “سب لوگ عالِم سے عِلم حاصل کرتے ہيں ۔ انہيں ضرور پتہ ہو گا کہ عورتيں کيوں روتی ہيں”
بچہ نے عالِم سے کہا “يا شيخ ۔ عورتيں اتنی آسانی سے کيوں رونے لگ جاتی ہيں ؟”
عالِم نے جواب ديا
“جب اللہ نے عورت کو بنايا تو اس پر خاص توجہ دی
اللہ نے عورت کے کندھے اتنے مضبوط بنائے کہ وہ دنيا کا وزن اُٹھا سکيں اور ساتھ اتنے نجيب کہ آرام پہنچا سکيں
اللہ نے عورت ميں اندرونی طاقت اتنی بھری کہ بچے کے حمل سے لے کر اُس ناپسنديدگی کو برداشت کر سکے جو بعض اوقات اُس کی اپنی اولاد ہی کی طرف سے ہوتی ہے
اللہ نے عورت کو کڑاپن عطا کيا کہ جب باقی سب ہار جاتے ہيں وہ بغير شکائت اپنے خاندان کی بيماری اور مشکلات کے دوران ديکھ بھال کرتی رہتی ہے
اللہ نے عورت ميں اپنے بچوں سے محبت کا احساس رکھا کہ وہ اُن سے ہر حال ميں محبت کرتی ہے خواہ بچے اُسے دُکھ ہی ديں
اللہ نے عورت کو طاقت بخشی ہے کہ اپنے خاوند کی تمام تر خاميوں کے ساتھ گذر کرتی ہے ۔ اور اللہ نے اسے مرد کی پسلی سے اُس کے دل کی حفاظت کيلئے پيدا کيا ہے
اللہ نے عورت ميں جاننے کی عقل رکھی ہے کہ اچھا خاوند بيوی کو دُکھ نہيں ديتا بلکہ اللہ کبھی کبھار خاوند کا ساتھ دينے ميں عورت کی مضبوطی اور قوتِ ارادی کا امتحان ليتا ہے
اور سب سے بڑھ کر اللہ نے عورت کو آنسو عطا کئے جو عورت کا طُرّہ امتياز ہيں جنہيں وہ جب چاہے جہاں چاہے بہائے ۔ اس کيلئے کسی وضاحت کی ضرورت نہيں کيونکہ يہ اُس کی خاص ملکيت ہيں
ديکھ بيٹا ۔ عورت کا حُسن اُن کپڑوں ميں نہيں جو وہ پہنتی ہے ۔ نہ اُس کے چہرے کی رنگت يا خد و خال ہيں ۔ نہ اُس کے بال ہيں ۔
بلکہ عورت کا حُسن اُس کی پرہيزگاری ہے جو اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے کيونکہ وہی دل کی راہداری ہيں ۔ دِل جس ميں محبت گھر کرتی ہے
 

کاشفی

محفلین
عورت رنج میں ساتھ دیتی ہے اور راحت کو دوبالا کر دیتی ہے ۔
باعصمت عورت عموماً مغرور اور شوخ ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے اپنی عصمت پرناز ہوتا ہے۔
عورت مرد کے لئے بیش بہا نعمت اور خدا ئی برکت ہے۔
عورت نہایت بے تکلفی کے ساتھ شوہر سے ان مشکلات کا شکوہ کرتی ہے جو اسے گھر میں پیش آتی ہے۔ لیکن اگر اُسے عیش و آرام میسر ہو تو وہ شاذو نادر ہی اس کا ذکر کرتی ہے۔

(کالیداس، سنسکرت کتاب سے اقتباس)
 

کاشفی

محفلین
عورت کمزور اور بزدل مرد کی پرواہ نہیں کرتی۔ اس کا عقیدہ ہے کہ مچھلیاں صرف مضبوط جال سے ہی پکڑی جاتی ہیں۔
عورت کی کتاب دُنیا ہے وہ کتابوں سے اس قدر نہیں سیکھتی جس قدر دنیا کے مشاہدے سے۔
(کالیداس، سنسکرت کتاب سے اقتباس)
 

کاشفی

محفلین
"عورت نشہ ہے، فریب ہے، سراب ہے، رسوائی ہے اور وہ سب کچھ ہے جو انسان کو بدی کی طرف راغب کرتا ہے۔
عورت پاکیزگی ہے، عصمت ہے، سراپا تقدیس ہے اور سب کچھ ہے جو انسان کو انسانیت کے معراجِ کمال پر لے جاتا ہے۔ جس آسانی سے یہ ایمان کو غارت کرسکتی ہے اُسی آسانی سے یہ اُسے عطا بھی کرسکتی ہے۔۔"

(اقتباس: گومی اور پنڈت از کرشن چندر)
 

کاشفی

محفلین
عشقعاشق، انسان اور کامل، کمال و جمال کا متلاشی ہے۔عاشق روحانیت اور معنویت کے اس بلند مرکز پر ہوتا ہے جہاں دوسرے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔اس عالم سے اوپر ایک اور عالم ہے وہ عالم روحانی ہے اور پاک روحوں کا مسکن ہے وہاں روحانیت معنویت اور عشق کی تجلیاں ہیں اور بس۔
عشق کے لئے تجسس کا سودا اور جستجو کا جنوں لازمی ہے۔جہاں عشق ہے وہاں جستجو ہے اور جہاں جستجو ہے وہاں عشق ہے۔
عشق مختلف مناظر میں مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے۔کبھی حقیقت کی تجلی گاہ میں‌ ضیاہ افگن ہوتا ہے اور کبھی مجاز کے پردوں سے چھن کر باہر نکلتا ہے۔اور ایک عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔
عشق خواہ کسی رنگ میں ‌ہو اور کسی جگہ ہو اس کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے ۔ عشق حقیقی ہو یا مجازی، مادی ہو یا روحانی، دائمی ہو یا وقتی ۔ وہ نور ہے جو ایک ہی روشی کا پرتو ہے۔
(فارسی کتاب سے اقتباس)
 
قلب کو اگر دنیا کی فضولیات سے خالی رکھا جائے تو اس میں عجز و انکسار کے شگوفے کِھلتے ھیں، ان شگوفوں کی خو شبو " عُجب اور کِبر " کی بدبو کو نکال باھر کرتی ھے.....
عُجب اور کبر دو روحانی بیماریاں ہیں .....عُجب میں انسان دوسرے کو تو حقیر نہیں سمجھتا لیکن اپنے آپ کو عظیم سمجھتا ھے.....(جیسا کہ میں شدید قسم کی احساس برتری کا شکار ہوں)
جبکہ کِبر میں خود کو بھی عظیم سمجھتا ھے اور دوسرے کو بھی حقیر جانتا ھے.....
یہ زوائل قلب کی صفائی کو گندگی سے آلودہ کر دیتے ہیں، اس غلاظت سے نجات حاصل کر کے اگر قلب کو عجز و انکسار کی پستی میں بچھا دیا جائے تو اس کا رُخ پاکیزگی کے پرنالے کی طرف مڑ جاتا ھے......
اسی کوشش میں انسان لگا رھے...
(بقول) اس کو پاؤں یا نہ پاؤں، اُس کی طلب میں لگا رھوںگا..
وہ ملے یا نہ ملے اس کے ملنے کی آرزو برابر کرتا رھونگا.....

از شہاب نامہ
دل ایک مِنی کعبہ ہے۔ اسے ہم نے اپنی نادانی کی وجہ سے بہت سے بتوں سے سجا یا ہوتا ہے۔ تو جب 360 بتوں کے بعد، اس ایک بت نے گھر کرنا ہوتا، تو وہ آنے سے پہلے سب دوسرے بت پاش پاش کرتا ہے۔ خالی کر دیتا اس کعبہ کو۔ انسان کو اس کی بےمائیگی اوراپنی کبریت سے آگاہ کرتا۔ تو اگر زندگی میں یہ بھاگ والی کیفیت نصیب ہو جائے، تو اس کعبہ کی جھاڑ پونچھ کر لینی چاہیے۔ جو ایسا کر لیتا ہے، وہ پھر اس ہستی کی میزبانی سے فیض یاب ہوتا ہے، جس کی آس پوری نسلِ انسانی کو ہے۔ جسے ڈھونڈ ڈھونڈ انسان دیوانہ ہوئے پڑا ہے۔ تو بات وہی ہے جو آپ نے کہہ ڈالی۔ بس میرا علم ناقص ہے۔ میں اسے اچھے سے کہہ نہ پایا۔ تو پتے کی باتیں دو ہوئیں۔
1۔ دل کا خالی ہونا بھی رب کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ عموماََ یہ کام بڑی تکلیف والا ہوتا اور انسان صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا۔ تو جب وہ اس پل صراط سے گزر رہا ہو، تو صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ اللہ کے نام کی ضرب ہر دم دل پہ لگاتے رہنا چاہیے۔ اسی کا نام جاپنا چاہیے۔
2۔ جو اس بے مائیگی کی کیفیت میں رب کا منتظر رہتا، مثبت سوچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، رب کو خوش آمدید کہتا، تو اس کی ناؤ پار لگ ہی جاتی ہے۔ اسے مرتبہ دے دیا جاتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اس کی اس نعمت کو سمجھنے اور اس کے ملنے پر صابر و شاکر رہنے کی توفیق دے (آمین)۔

آپ کا بہت شکریہ، آپ نے اتنی اچھی بات کی اور مجھ تھوڑ دِلے کو دو چار "لقمے" دینے کا موقع دیا۔ اللہ پاک آپ کی مشکلات کو آپ لیے آسان فرمائے (آمین)۔
 

ساقی۔

محفلین
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زندگی بھر کسی شخص نے بھی کسی معاملہ میں مجھے اس طرح شکست نہیں دی جس طرح بلخ کے ایک نوجوان نے دی.. میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس سے ہار گیا..
شاگردوں نے پوچھا.. " حضرت ! اصل واقعہ کیا ہے.. "
فرمایا.. " ایک دفعہ بلخ کا ایک نوجوان حج کو جاتے ہوئے میرے پاس حاضر ہوا جو انتہائی متوکل اور صابر نوجوان تھا.. اس نے مجھ سے سوال کیا کہ زہد کی حقیقت آپ کے نزدیک کیا ہے..
میں نے کہا کہ جب ہمیں ملے تو کھالیں اور جب نہ ملے تو صبر کریں..
اس نے کہا ایسے تو ہمارے ہاں بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں.. جب ملے کھالیتے ہیں اور جب نہ ملے تو صبر کر لیتے ہیں.. یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے..
میں نے پوچھا تو پھر تمہارے ہاں زہد کی حقیقت کیا ہے..
وہ کہنے لگا جب ہمیں نہ ملے تو پھر بھی حمد و شکر کریں اور جب ملے تو دوسرں پر ایثار کر دیں.. یہ ہے زہد کی حقیقت..!!
 

ساقی۔

محفلین
ہم صرف زبان سے اللہ اللہ کہتے رہتے ہیں۔ اللہ لفظ نہیں، اللہ آواز نہیں، اللہ پکار نہیں۔ اللہ تو ذات ہے مقدس و ماوراء ، اس ذات سے دل کا تعلق ہے، زبان کا نہیں۔ دل اللہ سے متعلق ہو جائے تو ہمارا سارا وجود دین کے سانچے میں ڈھل جانا لازمی ہے۔

( واصف علی واصف)
 
منور آج پھر سر پکڑے پریشان سا بیٹھا تھا مگر ”کیا ہوا منو! فکر نہ کر....“ کہہ کر تسلی دینے والی ماں چلی گئی تھی۔ وہ اوسط ذہانت رکھنے والا عام سا انسان تھا۔ شروع ہی سے اپنے ہر ٹیسٹ اور پیپر کے دنوں میں وہ یونہی پریشان سا ہوکر بیٹھ جاتا تھا۔ کتابیں ارد گرد پھیلائے، گیس پیپر ہاتھ میں پکڑے پریشان حال منور کو دیکھ کر ماں مسکراتی، پھرکہتی:
”ارے منو! پاگل نہ بن، تیرا کام پڑھنا ہے تو وہ کر، میرا کام دعا کرنا ہے وہ میں کرتی ہوں، نتیجہ خدا پر چھوڑ دے بچے!“
وہ کچھ دیر اس کے بال سہلاتی رہتی پھر کچھ پڑھ کر اس پر پھونکتی تو اسے لگتا پریشانی پر لگا کر اڑگئی ہے ،پھر جتنی دیر وہ پڑھتا رہتا، ماں جائے نماز سے نہ اٹھتی۔ چنانچہ اس کو دعاﺅں کی برکت سے نتیجہ ہمیشہ شان دار نکلتا تھا۔
ایسا ہی تب ہوا تھا ،جب وہ نوکری کی تلاش میں اپنی جوتیاں اور شہر کی سڑکیں گھسا رہا تھا۔ اتنے انٹرویو دے دے کر وہ دل توڑ بیٹھا اور ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر رونے لگا۔
”ماں! میں دنیا سے ہار گیا ہوں، دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ماں تیرا بیٹا کسی کام کا نہیں۔“
اس دن ماں مسکرانے کی جگہ ہنس ہی پڑی۔ ”او منو! جھلے! تو تو لڑکیوں کی طرح رو رہا ہے، شرم نہیں آتی تجھے؟ مقابلہ ابھی شروع ہوا نہیں اور تو ہار مان رہا ہے، پاگل نہ ہو، تجھے ہزار بار سمجھایا ہے، ہم دونوں اپنا اپناکام کرتے ہیں، رب اپنا کرے گا تو کیوں فکر کرتاہے۔“ پھر ایسا ہی ہوا تھا۔اسے ماں کی کرامت ہی کہنا چاہیے کہ ایسی پوسٹ پر بغیر سفارش اور رشوت کے اس کا تقرر ہوگیا تھا جو بغیر تگڑی سفارش اور ڈھیر سی رشوت کے بغیر بظاہر ناممکن تھا۔
پھر کئی موقع آئے اس کی زندگی میں، کبھی کوئی پراجیکٹ، کبھی تبادلے کا مسئلہ، وہ ماں کی دعا کو ڈھال بنائے دنیا سے لڑتا رہا اور جیتتا رہا۔ نجمہ گھر کے سونے آنگن میں اچھا اضافہ تھی، پھر دو جڑواں بچیوں نے جیسے اس کی ہر آرزوپوری کردی تھی۔ ماں کی دعاﺅں سے وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا۔ یوں جیسے ہلکے ہلکے قدموں سے پھولوں بھری شاہراہ پر چلا جارہا ہو کہ اچانک پیرمیں ایک کانٹا چبھ گیا۔ یوں تو اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ اب وہ کیا کرے گا؟اس کی ڈھال اس سے چھن گئی تھی۔ دنیا کے تیر نشانے پر لگنے والے تھے۔ ماں کی قبر کے پاس، سر پکڑے پریشان سا منور، ننھا منو بن گیا تھا۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی مگر تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔ وہ روئے چلا جارہا تھا، زندگی کی ایک ایک یاد آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ باپ کی موت، دادی کا اسے اور ماں کو گھر سے نکالنا، ماں کا لوگوں کے گھر کام کرنا، ماموﺅں سے جھگڑ کر اس کی تعلیم کا بندوبست کرنا، اس کی زندگی کا ہر نیا قدم ماں کے دیے اعتماد اور دعاؤں کے حصار میں اٹھتا تھا۔ وہ تو زندگی یوں بسر کررہا تھا جیسے بچہ ماں کی انگلی تھام کر سڑک پار کرتا ہے، دائیں بائیں دیکھے بغیر، بند آنکھوں کے ساتھ ،بس مضبوطی سے اس انگلی کو پکڑے ہوئے اور اب اس بچے سے وہ انگلی چھوٹ گئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ ابھی کوئی تیز رفتار گاڑی اسے کچل کر چلی جائے گی۔
وہ آنسو پونچھتا ہوا بوجھل قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔
اس کے گھر آجانے سے اس کی بیوی اور بچے پرسکون ہوگئے تھے۔ وہ سو چکے تھے مگر وہ کیسے سوجاتا۔اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو ٹپ ٹپ گر کر اس کا تکیہ بھگوتے رہے۔ کروٹیں بدلتے بدلتے، جانے رات کے کس پہر وہ سحر زدہ سا ہوکر اٹھ بیٹھا۔ ماں اس کے سامنے کھڑی تھی، ہمیشہ کی طرح اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی۔
”او جھلے، پاگلے ساری زندگی بھی یوں رو رو کر مجھے ستاتا رہا، اب تو چین لینے دے۔ بچہ نہیں رہا اب تو! میری بات غور سے سن۔ ساری عمر تجھے یہی ایک سبق سکھاتی رہی تھی کہ پریشان ہونا مسئلے کا حل نہیں۔ انسان کے ذمے صرف دو کام ہیں۔ کوشش اور دعا ،نتیجہ اس کا نہیں رب کا کام ہے، تو کوشش کر اور....“
”جبھی تو رو رہا ہوں! ماں اب دعا کون دے گا مجھے ؟یوں ایک دم اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ہے کس کے سہارے؟“ وہ پھر سے سسکنے لگا تھا۔
”کفر نہ بک منو! کفر نہ بک، سہارا صرف سوہنے رب کی ذات ہے، وہ موجود ہے ہمیشہ سے، ہمیشہ کے لیے، اس نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ صرف ماں کی دعا قبول ہوگی، تو خود کیوں نہیں مانگتا؟ اور اب تو تو خود باپ ہے، سربراہ ہے اپنے خاندان کا، یہ بچوں والی حرکتیں چھوڑ، خبردار جو تو پھر رویا۔“ انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا۔
٭
کیا یہ خواب تھا؟ ناشتے کی میز پر وہ چائے کے کپ میں چمچ چلاتے ہوئے جانے کب سے سوچے چلے جارہا تھا جب نجمہ کی آواز نے اس کے ارتکاز کو توڑ دیا۔ وہ سن نہیں پایا تھا کہ اس نے کیا کہا ہے۔
”کچھ کہا تم نے؟“ ٹھنڈی چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”ہاں! مجھے معلوم ہے کہ اماں کے بعد آپ بہت پریشان ہیں، مگر اب بہت دن ہوگئے ہیں۔ آپ کو زندگی کی طرف آنا ہوگا.... شاید میں اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں پارہی....“
”نہیں تم کہو۔“
”دیکھیں! مائیں چلی جاتی ہیں مگر ان کی دعائیں کبھی نہیں مرتیں، ہمیشہ ہمارے سر پر ایک سائبان بن کر ہماری راہنمائی اور حفاظت کرتی ہیں۔“
وہ یک ٹک اسے دیکھے چلا گیا۔ اتنی سی بات وہ کیوں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کے ساتھ ہر قدم پر کامیابی کی دعا تھی، نجمہ نے کیسے سمجھ لی؟ وہ حیران تھا مگر اس کی یہ حیرت بھی جلد ہی دور ہوگئی تھی، جب وہ بالکل ماں کی طرح اس کی دونوں بچیوں کے لیے مصلیٰ بچھائے دعا میں مصروف تھی۔ ماں کی دعا کی حقیقت ایک ماں سے بڑھ کر بھلا کون جان سکتا تھا۔ اس نے سوچا ہاں واقعی مائیں مرجاتی ہیں مگر ان کی دعائیں زندہ رہتی ہیں۔
 
:start:
حضوراکرم :pbuh: ایک خشک خرما کے درخت کے ساتھ کھڑے ہو کر مسجد میں وعظ فرماتے تھے، پھر جب منبر بن گیا تو آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے۔ آپؐ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رونے کی اس طرح آواز آئی، جس طرح کوئی بچہ بے خود ہو کر گریہ زاری کرتا ہے۔ مجلس وعظ میں حیرت چھا گئی کہ یہاں رونے والا کون ہے؟ آخر معلوم ہوا کہ یہ صدائے گریہ ستون مسجد سے آ رہی ہے اور وہی حنانہ (نالاں) ہے۔ حضورؐ منبر سے اتر کر ستون کے پاس آئے اور پوچھا روتے کیوں ہو؟ کیا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا؛ حضورؐ کے غمِ فراق سے دل خون اور آتش ہجر سے جگر جل کر کباب ہو گیا ہے۔ آپؐ میرے ساتھ ٹیک لگا کر قیام فرماتے تھے اوراب مجھے چھوڑ کر منبر پر جا بیٹھے۔ میں روئوں نہ تو اور کیا کروں؟ حضورؐ نے فرمایا؛ اے پیارے درخت !تو بڑا خوش قسمت ہے، اب بتا کیا چاہتا ہے؟ اگر تو کہے تو پھر تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے اور تو اس قدر پھلے کہ مشرق اور مغرب کے رہنے والے تیرے میوے سے شاد کام ہوں اور اگر تیری مرضی ہو تو تو دوسرے جہاں میں سروسہی بنا دیا جائے تاکہ تو وہاں ہمیشہ تروتازہ رہے۔ ستون حنانہ نے عرض کیا مجھے بقائے دوام مطلوب ہے۔ حضورؐ نے اسے زمین میں دفن کردیا کہ وہ روزِ قیامت آدمیوں کی طرح محشور ہو۔
رسول اکرمؐ کی محبت اور خواہش بقائے دوام میں اے غافل! تو ستون سے کم نہ ہو
،جو خدا:a4: کا بندہ بن جاتا ہے، اسے اس دنیا کی کچھ محبت نہیں رہتی:تابدانی ہر کہ ایزد آں بخواند از ہمہ کار جہاں بے کار ماند(کتاب ’’حکایاتِ رومی:مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومیؒ،مؤلف: مطلوب احمد وڑائچ)
 

قیصرانی

لائبریرین
:start:
حضوراکرم :pbuh: ایک خشک خرما کے درخت کے ساتھ کھڑے ہو کر مسجد میں وعظ فرماتے تھے، پھر جب منبر بن گیا تو آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے۔ آپؐ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رونے کی اس طرح آواز آئی، جس طرح کوئی بچہ بے خود ہو کر گریہ زاری کرتا ہے۔ مجلس وعظ میں حیرت چھا گئی کہ یہاں رونے والا کون ہے؟ آخر معلوم ہوا کہ یہ صدائے گریہ ستون مسجد سے آ رہی ہے اور وہی حنانہ (نالاں) ہے۔ حضورؐ منبر سے اتر کر ستون کے پاس آئے اور پوچھا روتے کیوں ہو؟ کیا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا؛ حضورؐ کے غمِ فراق سے دل خون اور آتش ہجر سے جگر جل کر کباب ہو گیا ہے۔ آپؐ میرے ساتھ ٹیک لگا کر قیام فرماتے تھے اوراب مجھے چھوڑ کر منبر پر جا بیٹھے۔ میں روئوں نہ تو اور کیا کروں؟ حضورؐ نے فرمایا؛ اے پیارے درخت !تو بڑا خوش قسمت ہے، اب بتا کیا چاہتا ہے؟ اگر تو کہے تو پھر تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے اور تو اس قدر پھلے کہ مشرق اور مغرب کے رہنے والے تیرے میوے سے شاد کام ہوں اور اگر تیری مرضی ہو تو تو دوسرے جہاں میں سروسہی بنا دیا جائے تاکہ تو وہاں ہمیشہ تروتازہ رہے۔ ستون حنانہ نے عرض کیا مجھے بقائے دوام مطلوب ہے۔ حضورؐ نے اسے زمین میں دفن کردیا کہ وہ روزِ قیامت آدمیوں کی طرح محشور ہو۔
رسول اکرمؐ کی محبت اور خواہش بقائے دوام میں اے غافل! تو ستون سے کم نہ ہو
،جو خدا:a4: کا بندہ بن جاتا ہے، اسے اس دنیا کی کچھ محبت نہیں رہتی:تابدانی ہر کہ ایزد آں بخواند از ہمہ کار جہاں بے کار ماند(کتاب ’’حکایاتِ رومی:مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومیؒ،مؤلف: مطلوب احمد وڑائچ)
کیا یہ واقعہ اور نبی پاک ص کا یہ مکالمہ، حدیث کی کسی کتاب سے ثابت ہے؟
 
بادشاہ کا قیمتی موتی گم ھو گیا ، اس نے اعلان کیا کہ جو اسے ڈھونڈ لائے گا اسے اس اس انعام سے نوازا جائے گا !
سارے درباری سردار اور معززین تلاش میں لگ پڑے ،، دو دن کی جان مار تلاش کے بعد ایک درباری کو وہ موتی مل گیا، جبکہ باقی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام رھے !
بادشاہ نے ڈھوندنے والے کو حسب وعدہ تمام انعامات سے نوازا اور اس کی محنت کی تعریف کی !
اس کے بعد بادشاہ دوسرے درباریوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کی محنت پر ان کے لیئے خیر کے کلمات کہے اور پھر ان کو بھی انعامات دیئے ! یہ منظر دیکھ کر اس درباری کو کہ جسے وہ موتی ملا تھا، کچھ اچھا نہیں لگا اور اس کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نظر آنے لگے ! بادشاہ جو یہ سب محسوس کر رھا تھا وہ اس درباری کی طرف متوجہ ھوا اور اس سے کہا کہ
"میں نے موتی ڈھونڈنے والے سے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تمہیں نواز دیا اور اس میں کمی کوئی نہیں کی ! پھر میں سعی والوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کو نوازا اور تیرے حق میں سے کم کر کے نہیں دیا بلکہ اپنے خزانے سے دیا،، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوشش کر کے بھی جن کو نہ ملا ان کو محروم کر دونگا ! موتی ایک تھا اور ایک کو ھی ملنا تھا،، مگر سعی کرنے والے بہت تھے،، پانے والے کو پانے کا صلہ مل گیا اور سعی والوں کو ان کے خلوص کا صلہ ملا !!
مگر اے شخص میں تیرے چہرے پہ ناگواری کے آثار دیکھتا ھوں گویا کہ تو میرے فیصلے میں بے انصافی دیکھتا ھے ؟ تو میری عطا کو اپنے احسان سے کم سمجھتا ھے اور مجھے اپنے احسان کے تابع رکھ کر مجھ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاھتا ھے،تو چاھتا ھے کہ میں سب کو محروم رکھوں کیونکہ اس میں تیری رضا ھے !! جہاں تک تیرے احسان کا تعلق ھے تو اس کی اھمیت میرے نزدیک بس اتنی ساری ھے"
،،یہ کہہ کر بادشاہ نے موتی کو فرش پر پٹخ کر ٹکڑے کر دیا،، اور اپنا خطاب جاری رکھا !
میرے خزانے ایسے موتیوں سے بھرے پڑے ھیں ِ پا کر احسان جتلانے والوں کی نسبت نہ پا کر پچھتاوے کا احساس رکھنے والے مجھے زیادہ عزیز ھیں ،، کیونکہ پچھتاوہ انکساری پیدا کرتا ھے اور احسان تکبر پیدا کرتا ھے ! اور کسی بادشاہ کے دربار میں کسی متکبر کی کوئی جگہ نہیں !
یہ کہہ کر بادشاہ نے اس درباری کو اپنی مجلس سے نکال دیا !!
ھمیں اپنی بخشش پر نظر رکھنی چاھئے نہ کہ اپنے چند ناقص سجدوں کے عوض اللہ کی عطا پر قدغن لگانی چاھئے کہ وہ جس پر بھی فضل کرے ھماری مرضی پوچھ کر کرے !! ھمیں کبھی بھی اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان نہیں آنا چاھئے ،، " چاھے وہ گنہگار بندے ھی کیوں نہ ھوں ۔"
 
10169378_649972541705183_1796545447_n.png
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
سقراط خدا کی موجودگی کے بارے کہتا ہے کہ کائنات میں بکھری ہوئی فطرت میں وہ موجود ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا انسان کی روح میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں عقیدے کی بجائے علم پر یقین رکھتا ہوں۔ نیک عمل میں خدا کی ذات موجود ہوتی ہے۔

(ملک اشفاق کی تالیف ’’سقراط‘‘ سے اقتباس)
 

کاشفی

محفلین
قلب کو اگر دنیا کی فضولیات سے خالی رکھا جائے تو اس میں عجز و انکسار کے شگوفے کِھلتے ھیں، ان شگوفوں کی خو شبو " عُجب اور کِبر " کی بدبو کو نکال باھر کرتی ھے.....
عُجب اور کبر دو روحانی بیماریاں ہیں .....عُجب میں انسان دوسرے کو تو حقیر نہیں سمجھتا لیکن اپنے آپ کو عظیم سمجھتا ھے.....(جیسا کہ میں شدید قسم کی احساس برتری کا شکار ہوں)
جبکہ کِبر میں خود کو بھی عظیم سمجھتا ھے اور دوسرے کو بھی حقیر جانتا ھے.....
یہ زوائل قلب کی صفائی کو گندگی سے آلودہ کر دیتے ہیں، اس غلاظت سے نجات حاصل کر کے اگر قلب کو عجز و انکسار کی پستی میں بچھا دیا جائے تو اس کا رُخ پاکیزگی کے پرنالے کی طرف مڑ جاتا ھے......
اسی کوشش میں انسان لگا رھے...
(بقول) اس کو پاؤں یا نہ پاؤں، اُس کی طلب میں لگا رھوںگا..
وہ ملے یا نہ ملے اس کے ملنے کی آرزو برابر کرتا رھونگا.....

از شہاب نامہ
عمدہ شراکت جناب!

میں دل چاہتا ہوں
ملایا کتاب سے اقتباس۔(اردو ترجمہ)

میں دل چاہتا ہوں۔ اے خدا مجھے لعل و جواہر کے خزانوں کی ضرورت نہیں مجھے حکومت کی ضرورت نہیں۔ میں عزت نہیں چاہتا۔اگر مجھے دل مل جائے تو میں اپنی زندگی کو ہر چند کہ وہ تیری نظر میں‌ ناکارہ ہے تیرے حضور میں پیش کرونگا ۔میں دل چاہتا ہوں ۔دل ایک قابل پرستش دل
میں ایک بچے کا سا معصوم دل چاہتا ہوں۔اُس کے ہونٹ معصومیت سے لبریز ہوں اور اس کے الفاظ میں بناوٹ نہ ہو وہ یہ بھی نہ جانے کہ لوگوں پر کس طرح آواز کسے جاتے ہیں اور اُن کی ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔وہ اپنے آپ کو فراموش کر دے۔اور وہ تیری محبت سے بھر جائے۔میں ایسا دل چاہتا ہوں ۔میں آسمانی اور پاکیزہ دل چاہتا ہوں۔
میں خوبصورت اور سحرکار دل چاہتا ہوں۔وہ پاکیزہ ہو آفتاب سے منور صبح کی مانند اور نرم اتھاہ سمندر کی ہلکی ہلکی آوازوں کی طرح۔ وہ خوشی میں خزاں کے چاند کی طرح ہو اور ایک ایسی جھیل کی مانند ہو جس کو بارش نے کناروں تک بھر دیا ہو۔میں خوبصورت اور سحر کار دل چاہتا ہوں۔اس دل سے محبت کرتا ہوں جو مجبت کا دیوانہ ہے۔ جو دوسروں سے اُن کی خوشی کی اُمید میں محبت کرتا ہے۔
 
Top