روحانی اقوال

سیما علی

لائبریرین
بے شبہہ استہزا اور تمسخر اسی دل سے صادر ہوتے ہیں جو برے اخلاق سے لبالب بھرا ہوا ہو اور ہر مذموم رویے کا حامل ہو اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ آدمی کی برائی کے لیے یہی کافی ہے وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے !
علامہ عبدالرحمان السعدی رحمہ اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ انسان جب بات کرنے کا ارادہ کرے، بات کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے، اگر مصلحت سمجھے تو بات کرے ورنہ خاموش رہے، تاکہ مصلحت اس کا متقاضی ہو جائے۔
اذکارِ نبویؐ ٢/٣٨٨
 
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
لوگوں کو اتنی اہمیت دو جتنی اہمیت لوگ تمہیں دیتے ہیں۔
اگر کم دوگے تو مغرور کہلاؤ گے اور اگر زیادہ دوگے تو گِر
جاؤگے۔
¤¤¤
اگر کسی کا ظرف آزمانا ہو تو اسے عزت دو۔ اگر اعلیٰ ظرف کا ہوا تو تمہیں عزت دے گا اور اگر کم ظرف ہوا تو خود کو بڑا سمجھے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک فقیر رند مشرب مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا " مولوی بابا ہمیں شراب پلوا -"
شاہ صاحب نے ایک روپیہ ان کی نذر کیا اور فرمایا جو چاہو سو کھاؤ پیو تم کو اختیار ہے -
وہ بولا " ہم نے تو آپ کا بڑا نام سنا تھا لیکن آپ تو قید میں ہیں - "
شاہ صاحب نے فرمایا ، " صاحب من ! کیا آپ قید میں نہیں ہیں ؟ "
کہاں " نہیں - ہم تو رند مشرب لوگ ہیں کدھر کی قید کدھر کی پابندی - ہم آزاد ہیں اور آزادی کے پرستار ہیں - ہمارے یہاں جکڑ بندیاں نہیں - "
شاہ صاحب نے فرمایا کہ " اگر کسی روش کے قیدی نہیں ہو تو آج غسل کرو ، جبہ پہنو ، عمامہ باندھ کر مسجد میں چلو اور نماز پڑھو ............. ورنہ جس طرح تم رندی کی قید میں ہو اسی طرح ہم شریعت کی قید میں پابند ہیں - اصل میں تمھاری آزادی ایک خیال خام ہے -
یہ بات سن کر وہ چپ ہوا اور شاہ صاحب کے قدم پکڑےاور کہا کہ " دراصل ہمارا خیال غلط تھا جو آزادی کا دم بھرتے تھے - "
 
آخری تدوین:

وسیم

محفلین
ایک فقیر رند مشرب مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا " مولوی بابا ہمیں شراب پلوا -"
شاہ صاحب نے ایک روپیہ ان کی نذر کیا اور فرمایا جو چاہو سو کھاؤ پیو تم کو اختیار ہے -
وہ بولا " ہم نے تو آپ کا بڑا نام سنا تھا لیکن آپ تو قید میں ہیں - "
شاہ صاحب نے فرمایا ، " صاحب من ! کیا آپ قید میں نہیں ہیں ؟ "
کہاں " نہیں - ہم تو رند مشرب لوگ ہیں کدھر کی قید کدھر کی پابندی - ہم آزاد ہیں اور آزادی کے پرستار ہیں - ہمارے یہاں جکڑ بندیاں نہیں - "
شاہ صاحب نے فرمایا کہ " اگر کسی روش کے قیدی نہیں ہو تو آج غسل کرو ، جبہ پہنو ، عمامہ باندھ کر مسجد میں چلو اور نماز پڑھو ............. ورنہ جس طرح تم رندی کی قید میں ہو اسی طرح ہم شریعت عزا کی قید میں پابند ہیں - اصل میں تمھاری آزادی ایک خیال خام ہے -
یہ بات سن کر وہ چپ ہوا اور شاہ صاحب کے قدم پکڑےاور کہا کہ " دراصل ہمارا خیال غلط تھا جو آزادی کا دم بھرتے تھے - "

بہت خوبصورت بات ہے
 
ایک خوبصورت بات، بہترین انداز میں
بادشاہ کا قیمتی موتی گم ھو گیا ، اس نے اعلان کیا کہ جو اسے ڈھونڈ لائے گا اسے انعام سے نوازا جائے گا !
سارے درباری سردار اور معززین تلاش میں لگ پڑے ،، دو دن کی جان مار تلاش کے بعد ایک درباری کو وہ موتی مل گیا، جبکہ باقی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام رھے !
بادشاہ نے ڈھوندنے والے کو حسب وعدہ تمام انعامات سے نوازا اور اس کی محنت کی تعریف کی !
اس کے بعد بادشاہ دوسرے درباریوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کی محنت پر ان کے لیئے خیر کے کلمات کہے اور پھر ان کو بھی انعامات دیئے ! یہ منظر دیکھ کر اس درباری کو کہ جسے وہ موتی ملا تھا، کچھ اچھا نہیں لگا اور اس کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نظر آنے لگے ! بادشاہ جو یہ سب محسوس کر رھا تھا وہ اس درباری کی طرف متوجہ ھوا اور اس سے کہا کہ
"میں نے موتی ڈھونڈنے والے سے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تمہیں نواز دیا اور اس میں کمی کوئی نہیں کی ! پھر میں سعی والوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کو نوازا اور تیرے حق میں سے کم کر کے نہیں دیا بلکہ اپنے خزانے سے دیا،، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوشش کر کے بھی جن کو نہ ملا ان کو محروم کر دونگا ! موتی ایک تھا اور ایک کو ھی ملنا تھا،، مگر سعی کرنے والے بہت تھے،، پانے والے کو پانے کا صلہ مل گیا اور سعی والوں کو ان کے خلوص کا صلہ ملا !!
مگر اے شخص میں تیرے چہرے پہ ناگواری کے آثار دیکھتا ھوں گویا کہ تو میرے فیصلے میں بے انصافی دیکھتا ھے ؟ تو میری عطا کو اپنے احسان سے کم سمجھتا ھے اور مجھے اپنے احسان کے تابع رکھ کر مجھ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاھتا ھے،تو چاھتا ھے کہ میں سب کو محروم رکھوں کیونکہ اس میں تیری رضا ھے !! جہاں تک تیرے احسان کا تعلق ھے تو اس کی اھمیت میرے نزدیک بس اتنی ساری ھے"
،،یہ کہہ کر بادشاہ نے موتی کو فرش پر پٹخ کر ٹکڑے کر دیا،، اور اپنا خطاب جاری رکھا !
میرے خزانے ایسے موتیوں سے بھرے پڑے ھیں ِ پا کر احسان جتلانے والوں کی نسبت نہ پا کر پچھتاوے کا احساس رکھنے والے مجھے زیادہ عزیز ھیں ،، کیونکہ پچھتاوہ انکساری پیدا کرتا ھے اور احسان تکبر پیدا کرتا ھے ! اور کسی بادشاہ کے دربار میں کسی متکبر کی کوئی جگہ نہیں !
یہ کہہ کر بادشاہ نے اس درباری کو اپنی مجلس سے نکال دیا !!
ھمیں اپنی بخشش پر نظر رکھنی چاھئے نہ کہ اپنے چند ناقص سجدوں کے عوض اللہ کی عطا پر قدغن لگانی چاھئے کہ وہ جس پر بھی فضل کرے ھماری مرضی پوچھ کر کرے !! ھمیں کبھی بھی اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان نہیں آنا چاھئے ،، " چاھے وہ گنہگار بندے ھی کیوں نہ ھوں۔
 
Top