روحانی اقوال

Dualism کی انتہائی شکل مجوسیت کو سمجھ لیں۔۔۔مجوسیت میں کائنات میں دو قوتوں کا تسلیم کیا جاتا ہے ایک خیر کی قوت یعنی یزداں اور دوسری شر کی قوت یعنی اہرمن۔۔
 
گستاخی معاف ،کائنات میں طاقت صرف ایک ہے۔ رحمان اور شیطان کا تقابل کسی بھی صورت معقول نہیں۔
تھینک یو سَر ۔۔۔۔ مجھے پتہ نہیں تھا مہاراج آپ نے میرے علم میں اضافہ کیا آپ مہان بدھی دان ہیں ویسے آپ کہاں ہوتے ہیں کہ چرن چھونے کو آپ کے دیس پدھاروں
 

ابن رضا

لائبریرین
تھینک یو سَر ۔۔۔ ۔ مجھے پتہ نہیں تھا مہاراج آپ نے میرے علم میں اضافہ کیا آپ مہان بدھی دان ہیں ویسے آپ کہاں ہوتے ہیں کہ چرن چھونے کو آپ کے دیس پدھاروں
جواب میں اسی لڑی میں آپ کے ہی شامل کیے گئے مراسلہ نمبر 87 کی یہ آخری سطر پیش کرنے کے علاوہ کوئی مزید اضافہ نہیں سکوں گا

جس گناہ سے نعمتوں کو زوال آتا ہے وہ تکبر ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/روحانی-اقوال.31605/page-5#post-1507861
 
1798733_1384419705164908_31892695_n.jpg
 
ہمارے محلے میں ایک دکاندار کی ایک بیٹی ھے، جو ھر وقت دکان میں سے کچھ نہ کچھ کھانے میں لگی رھتی ہے اور اس کا والد شور کرتا ھے کہ منافع یہ کھا جاتی ھے! وہ جب دیکھتی ھے کہ باپ کا پارہ چڑھا ھوا ھے، اب کہ مفت کھایا تو پٹائی ھو جائے گی، تو وہ اس کے گَلے میں سے پانچ روپے کا سکہ اٹھا کر باھر گاھکوں والی کھڑکی میں چلی جاتی ھے، اور نہایت اعتماد سے باپ کو آرڈر دیتی ھے "5 روپے والے بسکٹ دینا" اور بے نیازی کے ساتھ سنجیدہ ھو کر کھڑی ھوتی ھے کہ اب اس کا باپ نہ انکار کر سکتا ھے اور نہ غصہ!
اندر جا کر ماں کو بتاتی ھے کہ اپنے پیسوں سے لے کر آئی ھوں مفت کے نہیں ھیں !

اسی طرح کی ھماری عبادتیں ھیں۔ اللہ کی توفیق کے ساتھ چار ٹکریں مار لیں تو اب اللہ کے سامنے رکھ کر آرڈر دیئے جا رھے کہ " یہ لو سجدے اور دو ھماری جنت " اور ساتھ گھمنڈ اور نادانی بھی یہ کہ " یہ تو میری نمازوں کا بدلہ ھے، رب نے کوئی احسان تھوڑا ھی کیا ھے ۔!"
جو لوگ یہ گھمنڈ لے کر جائیں گے ان سے پھر نعمتوں کا حساب ھو گا اور ایک ادنٰی نعمت پہاڑوں کی مانند نیکیاں کھا کر بھی شکایت کرے گی کہ اس کا حق ادا نہیں ھوا !

ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ حشر بپا ھے اور ان کو بخش دیا گیا ھے،، آنکھ کھلی تو ان کو کوئی خاص خوشی محسوس نہ ھوئی، سوچا یہ تو ھونا ھی تھا، ھم نے بھی کوئی کم عبادتیں تو نہیں کی ھوئی ناں !
اگلی رات آئی تو پھر خواب شروع ھوا !
اب کہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ!
قافلہ جہنم کی طرف رواں دواں تھا تو ان کو زور کی پیاس لگی ! بار بار پانی مانگ رھے ھیں اور ایک ھی جواب ملتا ھے کہ پانی رستے میں نہیں وھیں چل کر کھولتا ھوا ملے گا !
جب وہ بہت زیادہ گڑگڑائے تو اللہ پاک نے فرمایا " اسے روک لو اور ٹھنڈا پانی لاؤ،،"
پانی آ گیا،، گلاس کے باھر بھی ٹھنڈک سے پسینہ نما قطرے بنے ھوئے تھے،، پیاس مزید بھڑک اٹھی،،
اللہ نے فرمایا، "اس سے اس کی عبادت لکھوا لو اور بدلے میں پانی دے دو !"
بندے نے جَھٹ ساری عبادت لکھ کر دے دی اور پانی کا گلاس لے کر پی لیا !
اب اللہ پاک نے فرمایا کہ اسے واپس لے آؤ !
اللہ پاک نے فرمایا،، "تو نے اپنی عبادت کا مول خود ایک گلاس پانی لگایا ھے اور بیچ بھی دی ھے ! اب وہ پانی جو تم نے دنیا میں ایک گلاس سے اضافی پیا ھے ، اس کا حساب کون دے گا ؟ اور جو باقی نعمتیں استعمال کی ھیں ان کا حساب کون دے گا ؟؟"
آدمی کی آنکھ کھل گئی۔ اب اسے احساس ھوا کہ وہ کتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا ! اس نے زارو قطار رو رو کر اللہ سے معافی مانگی!

اپنی عبادتوں کو بھی محض اللہ کی توفیق سمجھیں اور کبھی دل میں یہ خیال نہ لائیں کہ مجھے جو کچھ مل رہا ہے یہ میری عبادت کا صلہ ہے ۔ ہماری ساری عبادتیں مل کر بھی اللہ کی کسی چھوٹی سی نعمت کا بدلہ نہیں بن سکتی اس لیے اللہ کی جتنی نعمتیں مل رہی ہیں اسے اللہ کا احسان سمجھیں اور ہمیشہ اسکا شکر ادا کرتے رہیں۔
 
اجمل نیازی نے سوال کیا۔۔ ۔۔۔۔۔۔ "واصف صاحب یہ بتائیے عبادت کی حقیقت کیا ہے
وہ چند لمحے چپ رہے پھر بولے۔۔۔۔۔ " کچھ لوگ پیدائشی عبادت گزار ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی نزدیکی چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ عبادت کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں صاحبان عبادت سے رجوع رکھنا چاہیے۔ ۔ ۔۔ ۔۔ مثلا شہاب صاحب کو دیکھ لینا ہی عبادت ہے ۔۔ ۔۔ ایسے انسان کے لئے جو عبادت کا مقدور نہ رکھتا ہو۔ ۔۔۔۔ان کو دیکھتے رہنا کافی ہے۔"
" میں آپ کی بات مکمل طور پر نہیں سمجھا ۔۔۔۔۔"
واصف صاحب بولے۔۔۔ ۔۔کسی ملک میں ایک ٹھٹھیرا رہتا تھا۔ ۔۔وہ بڑا مفلس تھا۔اور معمولی ظروف پیتل، کانسی اور دھات کے بنا کر بیچا کرتا تھا۔۔لیکن یہ ٹھٹھیرا بڑا آرٹسٹ تھا۔خالی اوقات میں اندر والی کوٹھری میں بیٹھ کر ایک ایسا خوب صورت ظرف بنایا کرتا تھاجس پر خوب سورت نقش و نگار تھے۔موتی اور فیروزے جڑے تھے۔ پندرہ سولہ برس میں یہ صراحی تیار ہوئی۔ لیکن اس ٹھٹھیرے کی دوکان چھوٹی تھی۔ اور روؤسا کا ادھر گزر نہ تھا۔ اس لئے اس خوب صورت ظرف کوئی خریدار نہ ملا۔۔
بالآ خر ایک روز ٹھٹھیرے نے سوچا کہ ایسا قیمتی برتن اس چھوٹی دوکان میں محفوظ نہیں اسے گھر لئے چلتا ہوں وہاں طاق میں رکھوں گا۔شام کو اس کے پہلو میں دیا روشن کروں گا۔ جب یہ جگمگائے گا تو صحن میں اس کے قیمتی پتھروں کی روشنی پھیلے گی۔ آنگن میں کھیلنے والوں کے چہرے اسکی روشنی سے کچھ سیکھ جائیں گے۔ ٹھٹھیرے نے ظرف کو بغل میں دبایا دکان مقفل کی اور بازار میں چلا آیا تاکہ گھر جائے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اتفاق سے اسی وقت بادشاہ کی سواری ادھر سے گزری۔ بادشاہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک مفلوک الحال آدمی بغل میں ایک بے انتہا خوب صورت منقش صراحی اٹھائے مودب کھڑا ہے سورج کی کرنیں جب ظرف پر پڑیں تو وہ ایسے جگمگایا کہ بادشاہ ششدر رہ گیا۔ ٹھٹھیرے کو پاس بلایا۔ سواری سے اترا۔ صاحب کمال کو ساتھ لیا اور ظرف کی منہ مانگی قیمت ادا کی۔ توشہ خانے سے خلعت سواری اور پرگنے علیحدہ موصول ہوئے۔ ۔ ۔۔۔
تو یہ عبادت کی حقیقت ہے۔ اندر والے کمرے میں جو ظرف تیار کرتا ہے اور جب باہر لاتا ہے تو توفیق کی کرنیں اس پر پڑتے ہی بازیابی ہو جاتی ہے اسی بازار میں سینکڑوں اور بھی لوگ ہوں گے لیکن خالی ہاتھ کو نوازا نہیں جاتا۔ ۔۔میں یہ نہیں کہتا کرم کے لئے کوئی اصول ہے لیکن جس کے ہاتھ میں منقش ظرف ہو گا۔ ۔۔۔توفیق کی کرن پڑتے ہی وہ جگمگائے گا اور سرفرازی ضرور ہو گی ۔۔۔۔ ۔۔

از بانو قدسیہ ۔۔ ۔۔مرد ابریشم۔
 
میرے ایک دوست کو فکر لاحق ہے کہ مدینہ منورہ میں ہماری دیکھ بھال کون کرے گا......... لابی میں چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا ........ " مدینہ منورہ میں ہے کوئی جان پہچان والا " ......اس سوال میں جانے کیا تھا کہ مضراب دل کے سارے تار جھنجھنا اٹھے اور پورے بدن میں ارتعاش بپا ہوگیا ...... میں نے کوئی جواب دیئے بغیر اپنے آپ سے پوچھا ...... "مدینہ میں ہے کوئی جان پہچان والا ؟" اور اس سوال کے ساتھ ہی میری آنکھیں بھر آئیں ، حلق میں نمک سا گھلنے لگا ...... میں نے دوست کو بتانا چاہا کہ ہاں ہے ، بہت ہی دیرینہ اور بڑا گہرا تعلق ہے اس سے ..... وہی مجھے بار بار بلاتا ہے ..... وہی میری میزبانی کرتا ..... میرے ساتھ ساتھ رہتا ..... میرے غم بانٹتا ..... میرے آنسو پونچھتا ہے ....... میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کچھ نہ کہہ سکا ۔ بصد مشکل میرے منہ سے ایک جملہ نکلا ،
" مدینہ میں بھی بھلا کوئی اجنبی ہوتا ہے "۔

میرے دوست نے میری طرف دیکھا اور آنسو اسکے رخساروں سے ڈھلکنے لگے
بشکریہ
S@d
 

باباجی

محفلین
جس انسان کی آنکھ میں آنسو ہیں وہ اللہ سے نہیں بچ سکتا، کیونکہ انسان کا اللہ سے قریب ترین رشتہ آنسؤں کا ہے

سرکار واصف ؒ
 

عزیزامین

محفلین
عوارف المعارف جو کہ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے اس کے صفحہ نمبر 402 پر رقم ہے۔ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا! کھانے کی ابتداء اور انتہاء نمک سے کروکیونکہ اس میں 70 بیماریوں کا علاج ہے جس میں پانچ بیماریاں یہ ہیں
جذام
برص
دارڈ کا درد
پیٹ کا درد اور جنون
جنون
جزک اللہ ۔ جزاک اللہ
 
بڑی بدقسمتی ھے،، ھر انسان خطاؤں کا مجموعہ ھے۔ عورت میں اگر کچھ کمی بیشی ھو گی تو شوھر بھی بہت سارا گند پالے ھوئے ھو گا،، مگر اپنا گند کسے نظر آتا ھے،، انسان دودھ پیتے بچے کی پیٹھ دھو دے تو جب تک ھاتھ صابن سے نہ دھوئے تسلی نہیں ھوتی،،مگر اپنا استنجا کر کے اکثریت بغیر صابن ھاتھ بھگو کر کھانا کھا لیتی ھے،، یہی حال گناھوں کا ھے اور خطاؤں کا ھے،، ساس کو جو باتیں اپنی بیٹی کا بھولپن نظر آتی ھیں وھی بہو کا عیب بن جاتی ھیں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
واصف صاحب فرماتے ہیں
جس آدمی کو آپ اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں اس کا ادب دل سے کرنا ، چاہے وہ کہیں ہو کوئی بھی ہو، اور جس آدمی کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں اس س محبت کرنا ضروری ہے ، یہ دو کام ضرور کرنا ، کوئی RIVAL پیدا نہ کرنا، برابر کی ٹکر آپ نا لگایا کریں ، یا کسی آدمی کو ادب کے ساتھ Acknowledge کر لو یا پھر کسی آدمی کو محبت سے Accommodate کر لو۔
 
"رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کبھی باطل پر جمع نہیں ہوگی۔ چنانچہ امت کے مختلف فرقوں میں جو اختلاف نظر آتا ہے ، وہ باطل کی وجہ سے ہے۔ لیکن پوری امت جس چیز پر جمع ہے یعنی جس پر انکا اتفاق ہے ، وہ ہے کلمہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ۔۔۔پس یہ وہ حق ہے جس پر تمام امت مجتمع ہے۔ اور کسی کا حق ادا کرنا امانت ہے، اور حق ادا نہ کرنا خیانت ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ "اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول سے خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں جانتے بوجھتے ہوئے خیانت نہ کرو" پس اب دورِ حاضر کا ہر مسلمان جوصرف اپنے فرقے، اپنی جماعت یا اپنے گروہ ہی کو حق پر سمجھتا ہے اور دوسرے فرقے اور گروہ کو دشمن سمجھتے ہوئے عداوت و خصومت رکھتا ہے، وہ اللہ، اسکے رسول اور مومنین سے خیانت و غداری کا ارتکاب کر رہا ہے۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [الأنفال: 27].
اور آج کے دور کی سب سے بڑی امانت یہی ہے کہ امتِ مسلمہ کی حفاظت و تقویت کی جائے ہر ممکن اور مناسب اسباب کے ذریعے۔
(ماخوذ از عارف باللہ الصوفی الشیخ السید عبدالغنی العمری حفظہ اللہ تعالیٰ)
 
حضور سید میر محمد سعید المعروف سید میراں بھیکھ رح جو کہ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے ایک عظیم پیشوا ہیں ، فرماتے ہیں۔۔۔۔

مالی گت کچھ کہی نہ جاوے ۔۔۔۔
کہت سُرت کی سُدھ بوراوے۔۔۔۔
یہ گت بھیکھ کہاں پچھانے۔۔۔۔
سو جانے جو آپ نہ جانے۔۔۔۔
مالہ بھیدا پار ہے پہنچی سُرت نہ تاہ۔۔۔۔
بُہتے سُرتا پچ رہے لیہو نہ کاہو راہ۔۔۔۔

اردو ترجمہ: اس مالی ( یعنی باغ کائنات کے خالق ) کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔ اس کی حقیقت تو کہنے سننے کا ہوش ہی بھلا دیتی ہے۔۔۔ ( وحدت سے کثرت کے صدور کی شان ) بھیکھ کہاں سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ اس حقیقت کو جو جان لے وہ تو اپنی خودی ہی کھودیگا۔۔۔

1509693_651021851612734_9794409_n.jpg
اس مالی کے راز بے پایاں اور بے کنار ہیں۔۔۔ عقل ان کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔ بے شمار عقل والے اس کی حقیقت پانے کی سرتوڑ کوشش کرکے تھک ہار گئے مگر اس کی حقیقت کی راہ تک نہ مل سکی۔۔۔۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔۔۔۔

گیان لہر جوں جوں جی آوے۔۔۔۔۔
بھرم بیل ڈھونڈے نہیں پاوے۔۔۔۔
گیان لہر رَس کو جو پیوے۔۔۔۔
سکھ مَن رہے سدا اوہ جیوے۔۔۔۔

اردو ترجمہ: نور معرفتِ محمدﷺ جیسے جیسے باطن میں سماتا چلا جاتا ہے۔۔۔ تو ( موجودات جن میں کھو کر انسان اپنے رَب سے غافل ہوجاتا ہے ) موجودات کو حقیقت سمجھنے کا انسانی فکری دھوکہ اور فریب ایسے ختم ہوجاتا ہے کہ پھر ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔۔۔
شرابِ معرفتِ حق کو جو کوئی پی لیتا ہے وہ قلبِ مطمئنہ کا مالک بن جاتا ہے۔۔۔ اور ( اپنی ذات سے فانی ہوکر ) معیتِ حق سے سدا زندہ ہوجاتا ہے۔۔۔۔
محمود احمد غزنوی
 
نفس استاد تو نہیں پر وہ دشمن ضرور ہے جو سبق دیتا ہے۔ جتنا سبق آپکو آپکا دشمن دے سکتا ہے اتنا سبق آپکو آپکا استاد نہیں دیتا
دنیا میں دو طرح کے سبق ہوتے ہیں ایک احساس والا اور ایک انجام والا ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ احساس والا سبق حاصل کرتے رہیں پر جب ہم احساس والا سبق حاصل نہیں کرتے تو خودکار نظام کے تحت ہی انجام والا سبق ہمارا منتظر ہوتا ہے .
استاد سبق دے کرمارتاہے
زمانہ مار کر سبق دیتا ہے
 
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورو، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔

دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام تجویز نہیں کیا جاسکا۔
اشفاق احمد کے سفرنامے، سفر در سفر سے اقتباس
اوہ بھائی اس دی حقیقت تینوں سمجھ نئیں آسکدی کیوں کہ اے حال اے ۔۔۔۔قال نئیں کہ ماما توں سانوں سمجھاوندا پھریں کہ دل اچ گداز کیویں پیدا ہوندا اے
محبت کے لیئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر سازپہ گایا نہیں جاتا ہے
 
۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں
ہائے ہائے ہائے۔۔۔۔کیا کہہ دیا ظالم نے۔۔
 
خان صاحب آہستہ سے مسکرائے پھر بولے " ڈاکٹر صاحب ! جہالت ایک قسم کی سادگی کا نام ہے ،، غریب لوگ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ،،سفر ان کے بس کی بات نہیں ،پھر وہ تحفظ کہاں سے حاصل کریں مینڈک سے تالاب بند پانیوں کی لذّت بھی آپ چھین لینا چاہتے ہیں ،،

کیا ساری ذمّہ داری ،بوجھ اور تکالیف کو کسی بابے کی چوکھٹ پر پھینک آنے سے جو اطمینان ملتا ہے وہ قابل تقلید نہیں ،،،کبھی آپ نے ان لوگوں کے چہرے دیکھے جو کسی مزار سے باہر نکلتے ہیں ، تمام مصیبتوں کے باوجود چہرے پر امید کی کرن ،،،، حوصلے کی چمک ،،،

اب ڈاکٹر صاحب نے سنجیدہ ہو کر کہا " ،،اور وہ جو شرک ہے ،،، اللہ کی ذات کے ساتھ دوسروں کو ملانے کا گناہ ،،، وہ جو اپنی خواہشوں کے پورا کرنے کی آس رکھتے ہیں بابے سے ،،وہ سارا تو شرک ہے نہ ،،،،

ڈاکٹر صاحب ،،،پھر انجو پلاسٹی ختم ،،اب میں چلتا ہوں ،

ڈاکٹر زبیر حیران ہو کر بولے " ہیں " ہیں وہ کس لئے ؟"

میں بھی شرک کر رہا ہوں ،،میرا خیال ہے کہ آپ کے علاج سے میں ٹھیک ہو جاؤں گا ،،حالانکہ یہ شرک ہے مجھے سب کچھ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ..."

کتاب : راہ و رواں : بانو قدسیہ
 
آخری تدوین:
دکھ اور شکست دونوں کا کوئی وارث نہیں ھوتا !

جبکہ کائنات کے خالق نے دونوں میں بہت حکمت رکھی ھے !

جب آپ ایک دوا مسلسل لیتے رھتے ھیں تو پھر بدن اس کے خلاف مزاحمت کرنے پر قادر ھو جاتا ھے، اب وہ دوا اس کے لئے چاکلیٹ بن جاتی ھے، ڈاکٹر اسے فوراً تبدیل کر دیتا ھے !

جس لمحے آپ کو کوئی خوشی نصیب ھوتی ھے تو ٹھیک اگلے لمحے سے اس کا زوال شروع ھو جاتا ھے اور ھر آنے والا لمحہ ایک سوراخ کی مانند ھوتا ھے جس میں سے وہ خوشی قطرہ قطرہ ٹپک کر ختم ھو جاتی ھے،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اب آپ کو خوش ھونے کے لئے خوشی کی مزید ھائی پوٹینسی ڈوز چاھئے،، اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ھے یہانتک کہ جب بندے کے پاس دنیا کی ھر چیز موجود ھوتی ھے مگر خوشی نہیں ھوتی ! اب اسے صرف ایک ھی دوا نظر آتی ھے جو اسے تھرل دے سکتی ھے،کچھ نیا کر سکتی ھے اور وہ موت ھے ! یورپ میں خود کشی کا تناسب امیر گھرانوں میں زیادہ ھے !
غریب کی خوشی بھی چھوٹی سی ھوتی ھے،، وہ شروع میں ھی نس میں لگنے والے ٹیکے کی طرح خوشی کا انجیکشن نہیں لیتا ، بلکہ خوشیوں کی بہت ھلکی سی ڈوز لیتا ھے،، اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ھے اجر بھی لیتا ھے اور اگلی خوشی کا مزہ بھی !

دکھ پہلی خوشی کو نیوٹرلائز کر دیتا ھے، اس خوشی کے مضر اثرات کو زیرو کر کے انسان کو پھر نئ خوشی کے لئے تیار کر دیتا ھے،جس طرح کسان فصل لینے کے بعد اس زمین کے بخیئے ادھیڑ دیتا ھے، اس میں دو پھالی راجہ ھل چلا کر نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا نیچے کر دیتا ھے،، اسے کھاد دیتا ھے اور سہاگہ چلاتا ھے،یوں اسے نئ فصل کے لئے تیار کر دیتا ھے،، اگر انسان امیری میں غریبوں کے درد کو اپنے اوپر وارد کرتا رھے ، اس درد کو محسوس کرتا رھے اور اس کا مداوہ کرتا رھے تو اب اسے اپنے دکھ کی ضرورت نہیں رھتی،، اور اللہ پاک اسے ذاتی دکھوں سے دوچار نہیں کرتا ! نیز غریبوں کی دعائیں اس کے مصائب کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ھیں !

جب کسی مریض کو 500 روپے بھی دے دو تو جو جو اور جس قسم کی دعائیں وہ دیتا ھے سن کر انکھیں بھیگ جاتی ھیں ،،یہ 15 بیس درھم ھم یہاں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر جھٹ خرچ کر دیتے ھیں جبکہ کسی اور کے لئے یہی 20 درھم زندگی موت کا مسئلہ ھوتے ھیں ! کبھی اسپتال کے ڈینگی وارڈ کے باھر جا کر دیکھئے، کچھ لوگ سر پکڑے بیٹھے نظر آئیں گے ! پوچھیئے گا تو جواب ملے گا ، ڈاکٹر نے بولا ھے کہ خون کی فوری ضرورت ھے،، آپ اسے کہیئے کہ پھر بیٹھے تماشہ کیا دیکھ رھے ھو جا کر جلدی سے خون لاؤ !! وہ پلٹ کر کہے گا کیسے لاؤں کہاں سے لاؤں میرے پاس تو ٹیکسی کا کرایہ بھی نہیں ! یہ وہ جگہ ھے جہاں آپ کسی کی جان بچا کر اپنی گردن آخرت میں آزاد کر سکتے ھیں ! بات صرف 20 ھزار کی ھے،، 20 ھزار سے زیادہ خون نہیں لگتا مگر کچھ بچے اپنی ماں کی پرشفقت گود سے محروم ھونے سے بچ جاتے ھیں،، کچھ بچے یتیم ھونے سے بچ جاتے ھیں،،

جو لوگ سود نہیں کھانا چاھتے مگر بینک میں پیسہ رکھنا بھی ان کی مجبوری ھے وہ پیسہ ان لوگوں کو جان بچانے کے لئے دے سکتے ھیں،، وہ ھمارے لیئے ناجائز ھے،، ان اضطرار والوں کے لئے جائز ھے ! لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے اپنے حصے کا درد وھاں محسوس کر لیں گے تو اپنے دکھوں سے بچے رھیں گے ! کسی کے بچے کی ٹانگ ٹوٹنے پر اپ اپنے بچے والا درد محسوس کر لیں گے اور اس کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ کریں گے تو آپ کے بچے کی ٹانگ توڑ کر آپ کو دکھ دینے کا پلان اللہ پاک منسوخ کر دیں گے کہ اس نے اپنے مقدر کا درد وصول کر لیا ھے ! یوں آپ کو اجر بھی ملے گا،، گھر سے مصیبت بھی دور رھے گی اور آپ کا بچہ بھی محفوظ رھے گا اور آپ کے قلب و نظر میں رقت و گداز بھی رھے گا اور آپ رب کے قریب بھی ھو جائیں گے !
 
Top