ابن توقیر

محفلین
نظم پیش ہے۔

طفل تسلی
کیا کہا"تاریخ دُہراتی ہے اپنے آپ کو"
لیکن آخر کس طرح سے
کیوں کہ میرے شہر میں
ایک سادہ لوح بڑھیا آج بھی
اپنے بچوں کی تسلی کے لیے
گھر کے ٹھنڈے چولہے پر
دھرے بیٹھی ہے خالی ہانڈیا
جیسے کہیں سے دفعتاً
آئے گا کوئی عمر ابن خطاب
۰۔۰۔۰
رضی اللہ عنہ
 

ابن توقیر

محفلین

زمین نئی نہ سہی لیکن اتنا یاد رہے
نیا مکاں نئی بنیاد پر کھڑا ہو گا
جناب! دل کے گمان و خیال اپنی جگہ
وہ پہلی بار ملا ہے یہ دیکھنا ہو گا
تھا ایک شخص خود اپنی تلاش میں گمراہ
مجھے یقیں ہے ضرور آپ سے ملا ہو گا

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
تری ہر بات کی تصدیق کروں یا نہ کروں!
کچھ نئے جھوٹ میں تخلیق کروں یا نہ کروں
کتنے خوانوں میں بٹے ہیں ترے لہجے اے دوست!
میں ترے حسن پہ تحقیق کروں یا نہ کروں!
بھوک ابھی تک مری آنکھوں میں نہیں پہنچی ہے
ظلم و عدوات کی تصدیق کروں یا نہ کروں
سرِ آفاق نمودار ہوا نجمِ سحر
وعدہ شب کی میں توثیق کروں یا نہ کروں
علم معیارِ فضیلیت ہے کہ دولت توقیر!
علم و دولت کی میں تطبیق کروں یا نہ کروں!
توقیر علی زئی
1953-2001
 

ابن توقیر

محفلین
پھول شاخوں پہ کھلیں بھنورے نگل جاتے ہیں
پھول شاخوں سے گریں لوگ مسل جاتے ہیں
ہمیں اب تک تری آنکھوں نے سنبھلنے نہ دیا
لوگ گرتے ہیں مگر گر کے سنبھل جاتے ہیں
تم سے توڑا نہ گیا آئینہ خانوں کا طلسم
لوگ کہتے ہیں کہ پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
کل یہی دوست تیرے تجھ پہ گواہی دیں گے
وقت بدلے تو سبھی لوگ بدل جاتے ہیں
شام کے ماتھے پہ خورشید درخشاں ہوں گے
یہ مناظر مری آنکھوں میں مچل جاتے ہیں
ہم سے اے دوست قصیدے نہیں لکھے جاتے
لے تری بزم سے ہم آج نکل جاتے ہیں
میں بہرحال سچ بات کہوں گا توقیر
تری پیشانی پہ آتے ہیں کہ بل جاتے ہیں
توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
گلشنِ فکر پہ کیا کیا ترے جلوے اترے
مری ہر بات میں جاناں ترے لہجے اترے
ہر طرح تو نے ستمگر ہمیں جانچا پرکھا
ہر طرح ہم ترے معیار پہ پورے اترے
ہم بتائیں گے انہیں اپنی زمیں کی رفعت
جب کبھی اوجِ ثریا سے وہ نیچے اترے
کیا کہیں وہ ترا موہوم تصوّر کیا تھا
قریۂ جاں میں بھی خوابوں کے جزیرے اترے
ایک سونے کی ترازو میں پڑا ہے انساں
کتنی ناداریٔ احساس میں بندے اترے
چوڑیاں دوست کبھی بر سرِ محفل ٹوٹیں
اور کبھی بر سرِ بازار دوپٹے اترے
مگر انساں پہ اثر ان کا مرتب نہ ہوا
ورنہ انساں کے لئے کتنے صحیفے اترے
رنگ لائی ہے میری تیرہ نصیبی کیا کیا
مرے آنگن میں گھٹا ٹوپ اجالے اترے
تیری آنکھوں کی یہ ابہام مزاجی توبہ
ہم نے مفہوم جو چاہے تو اشارے اترے
آج یاروں پہ کوئی حادثہ گزرا توقیر
کیسے بیٹھے ہیں ذرا دیکھو تو چہرے اترے
توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
یہ تلخیٔ اظہارِ حقیقت نہیں اچھی
ہر شخص سے اے دوست عداوت نہیں اچھی
یک طرفہ محبت میں توازن نہیں رہتا
شوریدہ سروں سے یہ شکایت نہیں اچھی
صدیوں کی مسافت سے یہ اعزاز ملا ہے
تہذیب و تمدن سے بغاوت نہیں اچھی
بے داغ جوانی پہ کوئی حرف نہ آئے
رک جا! شبِ مہتاب کی شہرت نہیں اچھی
مثلاً یہ کہے کوئی تم جانِ چمن ہو
ہر بات پہ انکار کی عادت نہیں اچھی
موسم کی روش بھی کوئی معقول نہیں تھی
اس نے بھی کہا میری طبیعت نہیں اچھی
روشن نہ ہوا کوئی ستارہ،نہ تم آئے
لگتا ہےکہ اس رات کی قسمت نہیں اچھی
ملاح سفینوں کو کنارے سے لگادیں
بپھرے ہوئے طوفاں کی نیت نہیں اچھی
توقیرعلی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
میں ہوں نقاد نہ افسانہ نگار
میں نہ شاعر،نہ صحافی،نہ ادیب
مجھے کافی ہے مری بزمِ خیال
ان کو ہو سطوتِ دربار نصیب
بادشاہوں سے مجھے کیا لینا
میں رہا کرتا ہوں خود اپنے قریب
توقیر​
 

الف عین

لائبریرین
مکمل ہونے پر اطلاع دیں۔ بزم اردو لائبریری میں شامل کی جائے گی۔ بلکہ بہتر ہو کہ ایک فائل ہی بنا کر بھیج دیں۔
 

ابن توقیر

محفلین
مکمل ہونے پر اطلاع دیں۔ بزم اردو لائبریری میں شامل کی جائے گی۔ بلکہ بہتر ہو کہ ایک فائل ہی بنا کر بھیج دیں۔
بہت شکریہ سر جی
میں بہت جلد اپنے ریکارڈ سے نکال کر آپ کو مکمل ان پیج فائل ارسال کرتا ہوں، محفل کے لیے تو میں دوبارہ سے ٹائپ کررہا تها وگرنہ پبلشنگ والی فائل میں نے محفوظ رکهی ہوئی ہے. وہ آپ کو جلد ارسال کرتا ہوں. ان شاءاللہ
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ سر جی
میں بہت جلد اپنے ریکارڈ سے نکال کر آپ کو مکمل ان پیج فائل ارسال کرتا ہوں، محفل کے لیے تو میں دوبارہ سے ٹائپ کررہا تها وگرنہ پبلشنگ والی فائل میں نے محفوظ رکهی ہوئی ہے. وہ آپ کو جلد ارسال کرتا ہوں. ان شاءاللہ
ٹائپ کرنے کی ضرورت؟ کیا اسی فائل کو کنورٹ نہیں کر سکتے؟ ان پیج ۳ میں تو راست کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں!
 

ابن توقیر

محفلین
ٹائپ کرنے کی ضرورت؟ کیا اسی فائل کو کنورٹ نہیں کر سکتے؟ ان پیج ۳ میں تو راست کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں!
آپ کی بات بالکل درست ہے سر جی،کمپیوٹرٹیبل پر ہروقت کتاب پڑی رہتی ہے تو اکثر جب فارغ ہوتا ہوں تو پڑھتے وقت شوق سے محفل میں براہ راست ٹائپ کرکے شیئر کردیتا ہوں وگرنہ پبلشنگ کے لیے جو فائل بھیجی تھی وہ بھی ہماری اپنی کمپوزڈشدہ ہے۔
 

ابن توقیر

محفلین
ماشاءاللہ ٹائپ کرنے کا اتنا شوق ہے تو لائبریری میں شامل ہو جانا چاہیے تم کو
جی ضرور،جب کبھی ضرورت پڑی حاضر ہوں۔کسی زمانے میں آن لائن کمپوزنگ مشن کا حصہ رہ چکا ہوں جبکہ اپنا سیٹ اپ شروع کرنے سے پہلے ماموں کے ساتھ کمپوزنگ ٹیم میں تھا،تب کئی پبلشڈ کتابیں کمپوز کیں۔اب تو صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔
 

ابن توقیر

محفلین
میں نہ سورج نہ اجالے میرے
ڈھونڈھ مٹی میں حوالے میرے
کس سے دریائے رواں رُکتا تھا
اشک دامن میں سنبھالے میرے
میں کبھی روپ پہن لوں تیرا
تو کبھی شعر چُرا لے میرے
میں کبھی خوبیاں لکھوں تیری
تُو کبھی عیب نکالے میرے
پارسائی کا تجھے دعویٰ ہے
کچھ گنہ تُو بھی اٹھا لے میرے
یادگارِ غمِ الفت ہی سہی
چند آنسو ہی بچا لے میرے
میں کبھی بات بنا دوں تیری
تُو کبھی کام نکالے میرے
میں کبھی بال سنواروں تیرے
تُو کبھی جام اچھالے میرے
میں کبھی شوق چُرا لوں تیرا
تُو کبھی رنگ اُڑا لے میرے
میں کوئی بات نہ ٹالوں تیری
تُو کوئی روگ نہ پالے میرے
جام کیا اوک سے پی لیتا ہوں
کوئی توڑے جو پیالے میرے
توقیر علی زئی
1953-2001ء​
 

ابن توقیر

محفلین
نہ کوئی زیبِ سرِ دار ہوامیرے بعد
کتنا بے معنی ہوا حرفِ وفا میرے بعد
میرؔکے بعد تو اے دشتِ جنوں خیر ہوئی
شاید آئے نہ کوئی آبلہ پا میرے بعد
تھا وہ اک عالمِ وارفتگی ، سواب نہ رہا
کتنا بے فیض ہوا حرفِ دعا میرے بعد
میرے ہوتے بھی بہت عذر تھے،اس کو لیکن
محفل آرا نہ ہوا جانِ حیا میرے بعد
نہ وہ شوخی،نہ شکایت،نہ وہ انداز و ادا
اب کسی سے نہیں ہوتا وہ خفا میرے بعد
توقیر علی زئی
 

ابن توقیر

محفلین
موجِ صرصر ہوئی بے باک بہت
پھول کم ہیں خس و خاشاک بہت

سوچ کر رہ گئے وہ رستے میں
دوست تھے صاحبِ ادراک بہت

یہ کسی کا بھی طرف دار نہیں
قاضئ وقت ہے سفاک بہت

تند بارش کا عذاب اپنی جگہ
لبِ ہر غنچہ ہے نمناک بہت

ہم کو معلوم تھے کچھ راز مگر
شہرِ یاراں تھے غضب ناک بہت

دشمنی مول نہ لی سچ نہ کہا
یوں تو ہم لوگ تھے بے باک بہت

کیسے کاٹی شبِ ہجراں مت پوچھ
یہ کہانی ہے الم ناک بہت

توقیر علی زئی
[1953-2001]​
 

ابن توقیر

محفلین
قصہ خوانوں کی کیا ضرورت تھی!
داستانوں کی کیا ضرورت تھی!

سر جھکانا تھا، سر جھکا لیتے
آستانوں کی کیا ضرورت تھی

آدمی جب انا کا قیدی تھا
قید خانوں کی کیا ضرورت تھی

کشتیوں میں پڑے تھے چھید تو پھر
بادبانوں کی کیا ضرورت تھی!

زندگی ایک امتحان تھی جب
امتحانوں کی کیا ضرورت تھی!

باغ اجڑنا تھا اس طرح تو پھر
باغبانوں کی کیا ضرورت تھی!

توقیر علی زئی
[1953-2001]

 
Top