ابن توقیر

محفلین
عرش کو سب سمجھتے رہے معراج کی حد
کون سمجھا ہے مگر رفعتِ شاہِ دوجہاں
کرتے ہیں اہلِ جنوں،اہلِ خرد سے یہ سوال
عرش پر پائے پیمبر تھے مگر سر تھا کہاں

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
اچھا کہتے برا کہتے ہیں
وہ جو کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
ایک انسان کی قیمت کیا ہے
لوگ پتھر کو خدا کہتے ہیں

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
چاہت کے عجب سلسلے ہیں
راستے منزل سے بھاگتے ہیں
یہ زیست پہاڑ سی کوئی رات
ہم بھی تیشہ بکف کھڑے ہیں
پلکوں پہ مری تُو ضو فگن ہے
ناداں ہیں جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں

توقیرعلی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
کھیل بچوں کا نہیں عرضِ ہنر
اے سبک رو! نہ بہت جلدی کر
شعرونغمہ کو سمجھنے کے لیے
کسی اُستاد کی شاگردی کر

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
شہر میں شر کی حکمرانی ہے
کیوں شرافت کی بات کرتے ہو
بدمعاشوں سے ناک میں دم ہے
کس معیشت کی بات کرتے ہو

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
خان زادے کہ ملک زادے ہوں
سب غریبوں کے لیے ایک سے ہیں
یہ کسی کے نہیں ہوتے ہرگز
ان کا ایمان فقط پیسے ہیں

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
دیکھنے میں آئینہ، گوغیرجانب دار تھا
درحقیقت وہ بھی ترا تشنہ دیدار تھا
ایک لمبی رات کے بدلے تبسم کی لکیر
اور پھر جلتا ہوا دن کتنا شعلہ بار تھا

توقیر علی زئی
 

ابن توقیر

محفلین
ساغر صدیقی کی زمین میں ایک غزل
غزل

جب وہ آئیں تو کیا تماشا ہو
پھر نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
رہ بنائیں تو کیا تماشا ہو
کہکشائیں تو کیا تماشا ہو
وہ مناتے مناتے آج ہمیں
روٹھ جائیں تو کیا تماشا ہو
جاتے جاتے وہ روٹھ کر ہم سے
پلٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
شبِ ہجراں میں جب ہمارے اشک
جگمگائیں تو کیا تماشا ہو
شہر آباد کر رہے ہیں لوگ
دل بسائیں تو کیا تماشا ہو
آئنوں کی طرح پتھر بھی
چوٹ کھائیں تو کیا تماشا ہو
کسی مفتی کو میکدہ میں آج
گھیر لائیں تو کیا تماشا ہو

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
یہ غزل بھی پُر شکوہ الفاظ کی لاتا ہوں میں
کہ انگوٹھی میں نگینوں کو جڑے جاتا ہوں میں
جب زمینِ حشر میں کہہ کر غزل لاتا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں خیال اس کے چرا لاتا ہوں میں
یہ حقائق کا ستم گر ترجماں ہے کس قدر
آئنہ جب دیکھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں میں
میری قسمت میں دیے کی ٹمٹماتی لَو سہی
آسماں سے ستارے توڑ کر لاتا ہوں میں
جھوٹ میں نے اس قدر بولا ہے اپنے آپ سے
اب یقیں آتا نہیں اس پر جو کہہ جاتا ہوں میں
مسجدوں میں، معبدوں میں، میکدوں میں دوستو!
کس قدر بہروپیے ہیں،آج دکھلاتا ہوں میں
راہی مخلص کی دعوت تھی،وگرنہ دوستو!
ان ہمک کے راستوں سے سخت گھبراتا ہوں میں
جب دلِ مضطر سے ہوتا ہے تمہارا تذکرہ
مجھ کو سمجھاتا ہے وہ اور اس کو سمجھاتا ہوں میں
اعتراف اس کا مرے دشمن کریں گے بَرملا
شاعروں کی بزم میں توقیر کہلاتا ہوں میں

توقیر علی زئِی​

۰ عبداللہ راہی ایڈوکیٹ اٹک کے گاوں "ہمک" سے تعلق رکھتے تھے اور یہ غزل وہاں منعقدہ طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

ابن توقیر

محفلین
غزل
پھر ستم بھی روا نہیں ہوتا
جب ستمگر خفا نہیں ہوتا
صرف تم کو معاف رکھتا ہوں
صرف تم سے ِگلا نہیں ہوتا
ساقیا! میکدہ سلامت رہے
جام گرچہ عطا نہیں ہوتا
ٹھیک ہے احتیاط لازم ہے
صبر لیکن ذرا نہیں ہوتا
سامنے آدمی کے جھکنا کیا
آدمی تو خدا نہیں ہوتا

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
جدھر جاتا ہوں تیرا سامنا ہے
کوئی منزل ہے تُو یا راستا ہے
رہے گا ناخدائی کا بھرم کیا؟
لبِ ساحل سفینہ ڈوبتا ہے
حویلی آگ میں لپٹی ہوئی ہے
مگر سارا قبیلہ سو رہا ہے
رو پہلی صبح کو جوڑ گیا تھا
اندھیری رات میں توڑ گیا ہے
قلا بازی عذابِ جاں بنی ہے
کبوتر اڑتے اڑتے گِر گیا ہے
پرندہ اوٹ میں بیٹھا ہوا تھا
نشانہ تاک کر مارا گیا ہے
ترا پیغام ہے اشکِ رواں میں
سمندر دل میں ٹھاٹیں مارتا ہے
مرے ہونے سے وہ میرِ انجمن تھا
وہ میرے بعد اکیلا رہ گیا ہے
ابھی میں کیسے اطمینان کر لوں
ابھی اک عقبی دروازہ کھلا ہے

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
شبِ فرقت کو شبِ وصل بنائے رکھنا
تری تصویر کو آنکھوں سے لگائے رکھنا
دل میں کینہ و کدورت کو چپھائے رکھنا
پھول سجدوں کے جبینوں پہ سجائے رکھنا
اپنے ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں فروِ عمل
اپنی سانسوں میں ہمیں آگ لگائے رکھنا
وہ کہ منہ پھیر کے چپ چاپ گزر جائے
ہم کہ فرسودہ رسومات نبھائے رکھنا
اس نئے عہد میں بدلے گئے سب رسم و رواج
لیکن اک رسمِ محبت کو بچائے کھنا
کسی مزدور کی دن بھر کی کمائی کی طرح
اپنے شہکار کو سینے سے لگائے رکھنا

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
جب اپنی زیست کی پہلی کتاب لکھوں گا
لہو کے نور سے ایک ایک باب لکھوں گا
مرے حروف پکاریں گے، لفظ بولیں گے
جبینِ وقت پہ جب اپنے خواب لکھوں گا
فصیلِ شہر پہ شعلے اتار کر لوگو!
میں انقلاب کے تابندہ باب لکھوں گا
ترے جمال کے سچ کو گواہ ٹھہرا کر
بیاضِ صبح پہ شب کے خواب لکھوں گا
نکال دیں چمنستاں سے مجھ کو اہلِ چمن
مگر گلاب کو پھربھی گلاب لکھوں گا

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
غزل
اک شخص مے کدے میں عجب کام کرگیا
لبریز آنکھ اٹھا کے مرا جام کرگیا
کچھ تو بتاو کون تھا وہ اجنبی سا شخص
محفل میں آکے سب کو تہہِ دام کرگیا
اے زلفِ یار! تیرے گھنے سائے کی قسم
یہاں آکے صبحِ ہستی کی میں شام کرگیا
تسبیح دراز ساغرِ مے پر نثار کی
واعظ بھی مے کدے میں عجب کام کرگیا
دنیا کی بات اور ہے اپنا ہے یہ خیال
پروانہ جل ے شمع کو بدنام کرگیا
خاکِ لحد پہ اس کی تو جھک جھک سلام کر
توقیر مرکے دوست!ترا نام کرگیا

توقیر علی زئی
1953-2001​
 

ابن توقیر

محفلین
ہمارے ایک کزن تھے جوانی میں حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ان کی یاد میں لکھی گئی ایک آزاد نظم۔
عجلت
(مظہر علی خان کے لیے ایک نظم)

بہاروں کا منظر
وہ صبحِ چمن کا تکبر،وہ خوشبو سراسر
وہ نکہت مجسم
وہ سادہ طبیعت
وہ اخلاق حسنہ کا پیکر
بہت خوبصورت،بہت دلنشین تھا
وہ مہرومروت کا پتلا
فخرِِ زمردوگہر تھا
کہ انگشتری میں نگیں تھا
کوئی نوجواں اس طرح کا نہیں تھا
ابھی زندگی اس پہ نازاں تھی
پیکِ اجل۔۔!
اتنی عجلت بھی کیاتھی!
کہ اس موت پر موت بھی رہ رہی ہے

توقیر علی زئی​
 

ابن توقیر

محفلین
ابو جی کے کلیات سے میری ایک پسندیدہ غزل:۔

کبھی اپنا تماشا دیکھتا ہوں
کبھی ترا سراپا سوچتا ہوں
خود اپنے آپ سے گھبرا رہا ہوں
میں دشتِ ذات میں تنہا کھڑا ہوں
میں غافل ہوں امورِ دوجہاں سے
مگر تجھ کو مسلسل سوچتا ہوں
کبھی فکرِ دو عام گھیرتی ہے
کبھی اپنی طرف بھی دیکھتا ہوں
سرِ صحرا بفیضِ آبلہ پائی
ہر اک ذرّہ میں غنچہ دیکھتا ہوں
مجھے شب کو نظر آتے ہیں سورج
میں دن میں بھی ستارے دیکھتا ہوں
سمندر کی سخاوت اللہ اللہ
لبِ ساحل میں تشنہ لب کھڑا ہوں
قضا ہوئے اپنے اکثر فرائض
مگر تجھ کو مسلسل سوچتا ہوں

توقیر علی زئی
1953-2001​
 
Top