ادھر آپ سب لوگ ایسے فقرے جو ذاتی ہوں یا کسی سے سنے ہوئے جو ایک لمحے کو آپ کو ششدر و حیران کردیں، یا ہنس ہنس کر پیٹ میں بل ڈال دیں یا صرف چہرے پر مسکراہٹ لے آئیں یا اچھے لگیں تو ان کو ادھر لکھ دیں۔ اسی لیئے اس زمرے کا نام مجہول رکھا ہے۔
نوٹ: اگر منتظمین چاہیں تو اس کو کسی دوسری زمرے میں بھی لے جاسکتے ہیں مجھے تو اردو محفل میں یہی جگہ موزوں و مناسب لگی سو ادھر نیا دھاگہ بنا لیا ہے۔
 
........................لیلی آئی............................

همارے اردو کے ایک استاد هوا کرتے تهے قاضی قیصر خان لالک...بڑے شاندار آدمی تهے...لیکن جمالیات کے ازلی دشمن تهے...جب بهی اردو شاعری پڑهاتے تو کہتے..بچو ان باتوں پر کان نہ دهرنا یہ سارے ناکام عاشقوں کی نا آسوده خواهشات هیں یا پهر بوڑهوں کا ٹهرک پن...حقیقت اس وقت کهلتی هے جب غزالی آنکهوں کی گلابی ڈوروں والی محبوبہ قسط نمبر سات کے ریٹیک شاٹ میں بیوی بن کر صبح سویرے پیاز کی مہنگائی کا رونا روتی هے تو دل کرتا هے کہ غالب کی " خطہ پیالہ سراسر نگاه گلچیں" کے پیالے میں غالب کو جلاب پلا دیا جائے..

خیر قاضی قیصر خان لالک سے پڑھ کر هم سارے جمالیات دشمن هو گئے تهے..گهر میں جب هوائیں ڈرامہ کے سنجیده سین پر خواتین رونے کی تیاری کر لیتیں تو هم زور سے هنسنا شروع دیتے..اور یہ بتا کر کہ یہ هما نواب ایکٹینگ کر رهی هے اور یہ جو غریب سا گهر دکهایا گیا هے یہ سیٹ هے اور تنہائی میں مخاطب اس اکیلے کمرے میں تین لائٹ مین، دو کیمره میں، چار سپاٹ بوائز، ایک میک اپ آرٹسٹ اور ڈائیریکٹر سمیت چار اور افراد بهی موجود هیں....تو ڈرامے کی واٹ لگ جاتی....اس کے بعد گهر میں همیں صرف ٹام اینڈ جیری دیکهنے کی اجازت تهی..ڈرامے کے وقت همارا داخلہ ممنوع تها....بشری رحمن کی پیاسی پر رو رواں تبصره کرنے پر همیں براه راست والد صاحب کا جوتا پڑا تها..کیونکہ هم ناول پڑه چکے تهے اور چهوٹے بهائی کا مزا کرکرا کر رهے تهے...ٹهاه.....سیدها منہ پر...اٹه چشتی مجاهد کی اولاد....

خیر همارے ایک دوست جو مستقل عاشق تهے..جس لڑکی سے ان کو محبت تهی ان کا نام صنوبر تها...ان کے حواس پر صنوبر اتنی چهائی هوئی تهے کہ ایف ایس سی میں باٹنی کے پریکٹیل مین جب ان کو کسی چیز کا بیچ دکها کر نام لکهنے کو کہا گیا تو عاشق صاحب نے جواب میں لکها " سیڈز آف صنوبر ٹری"...لو هور دسو...پهر یوں هوا کہ اسی دن وه صنوبر کے درخت کے مالی نے یعنی ان کے متوقع سسر نے ان کا خط دهر لیا....اور اس دن جو ان کے ابا اور صنوبر کے ابا نے ان کی دهلائی کی اس کی ساری کسر انہوں نے اردو کے پیپر میں نکال لی....

اردو کے پیپر میں اپنے مرزا غالب صاحب کا کوئی شعر تها جو اب یاد نہیں هے غالبا کچه یوں تها "گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلٰی نہ سہی" تو اس کی تشریح میں جناب نے لکها کہ همارے استاد قاضی قیصر خان لالک فرماتے هیں کہ چچا غالب نہ صرف "میٹها پان خوار" (ذوق یاراں کے لیے جدید اصطلاح) تهے بلکہ انتہا درجے کے ٹهرکی بهی تهے...یہ جمالیات وغیره کچه بهی نہیں هوتا...جس شاعر کا بهی کلام پڑهو تو آخر میں بقول استاد قاضی قیصر خان لالک کے..."لیلی راغلہ، پہ خندا راغلہ، یوار بیا راغلہ، خوامخوا راغلہ"
یعنی لیلی آئی، هنستی هوئی آئی، پهر آئی، خواه مخواه آئی....

خیر بات یوں یاد آئی کہ دوست یار سارے سیاست میں مصرف هیں..کچه زیادہ هو گیا...تهوڑا جمالیات کی طرف آئیے...اپنے میاں صاحبان تو لیلی کی طرح روز لیلی راغلہ، پہ خندا راغلہ، یوار بیا راغلہ، خوامخوا راغلہ...آتے رهیں گے..ان کے لیے ڈی چوک میں ایک قاضی قیصر خان لالک موجود هے..آپ لوگ تهوڑا جمالیات کے پرچے میں بهی کچھ لکهیں..
بشکریہ یدبیضا
 
ماضی کے جھروکوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مختصر سی آپ بیتی
گرمیوں کی چھٹیوں کے اختتام ہوا تو ہوم ورک کام چیک کرانے کا مرحلہ آیا، الہی بخش صاحب اپنی غائب دماغی اور قصابانہ صلاحیتوں کے لئے مشہور تھے جب کہ ہم غیرذمہ داری کے معاملے میں ا پنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ ریاضی کا کام لکھنے کے لئے "فدوی" نے بنا لکیروں والی کاپی کو شرف بخشا،حاشیے ڈالنا وقت کا ضیاؑ ع گردانا،۔
استاد صاحب نے پہلا صفحہ پھرولا ، حاشیے نہ پاکر کھا جانے والی نظروں سے ہمیں دیکھا اورتنبیہ کی

"حاشیے لگایا کر"

اگلا صفحہ کھولا، حسب معمول حاشیے نہ پا کرکاپی ٹیبل پر رکھی، ڈنڈا دست شفقت میں پکڑاا،نتھنوں سے گرم ہوا اور منہ سے جھاگ کے ساتھ ساتھ ایک جملہ برآمد ہوا
"ابھی تو تجھے بولا تھا، حاشیے لگایا کر"
اس کے بعد بس
ہم تھے کار کا"نازک" شیشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ تھے ظالم گلوبٹ

اس "کلا" کے ساتھ ہم پہ حاشیےڈالے کہ "پکاسو" کی بھی کیا مجال !!!
بشکریہ عبد غفار چینہ
 
فیس بک پر عجیب و غریب نام رکھنے کا رواج کیا چلا ہے یار لوگوں نے حد ہی کردی ہے کوئی جاہل ہے اور کوئی سنکی ، کوئی مخبوط الحواس ہے کوئی سول نافرمان اور کوئی چاک گریباں اور تو اور سنیئے صاحب کچھ لوگ اپنے تئیں یا بزعم خود بابا بنے بیٹھے ہیں۔ ہا ہا ہا
 
آخری تدوین:
ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "شیطانیاں" سے اقتباس
لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔
میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔
اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر
اتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا،
وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔
میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں

مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔

پریشان ہو کرسی آئی ڈی باس کے انداز میں بولے، "حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں
 
( عجائب و غرائب )
ایسا پیمانہ سائنس بھی ایجاد نہیں کرسکی جیسا ہماری "خواتین" کے پاس ہے، جس کے ذریعے سے وہ اپنے منفرد انداز میں دوسرے انسانوں...خاص کر دوسری عورتوں... کی آنکھوں کی گولائی، پلکوں کی لمبائی، بھنوؤں کے تیکھےپن، ناک کی لمبائی و موٹائی، گالوں کے ابھار اور ان کاسکڑپن، کان کے جغرافیہ، اور منہ کا بڑا چھوٹا ہونا، دانتوں کا محل_وقوع، بالوں کی چمک یا انکا گھونسلے جیساہونا، پیشانی کا طول_بلد اور عرض_بلد، ہاتھوں کا کومل ہونا یا لمبوتراپن، اٹھنے بیٹھنے اورچلنے میں ہرن خوئیمستانہ پن دیوانہ پن تکبرانہ پن یا لڑکھڑانا پن، بولتے وقت رخ_زیبا کی جفرافیائی تبدیلی سے پیدا شدہ خوبصورتی و بدصورتی، دماغی موسمی کیفیت، مزاج کی سرد و گرم ہواؤں، ہونٹوں کی ب ، ج،روتے وقت آنسوؤں کی پیدا کردہ خلیجوں کا حسن و قبح، اور مسکراہٹ کے وقت عضویاتی سرحدوں کی تبدیلی کو ناپتی اور بیان کرتی ہیں، اور جب کسی بڑھیا کے پچکے گالوں اور غائب شدہ پتلی کمر کی کھوج لگاتی ہیں تو ماہرین_آثار_قدیمہ کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں
 
آخری تدوین:
ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔
ردیف دیا گیا:
"دل بنا دیا"
اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھے۔
سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا:
اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا
اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی ، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟
لیکن جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔
انہوں نے کہا:
بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھےاور خیام الہند کہلاتے تھے۔ جگر کے کلام کو سنتے ہی وہ سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا،ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پاوں میں ڈال دیے۔
اس واقعے سے قبل دہلی کی لال قلعہ میں ایک طرحی مشاعرہ تھا۔ قافیہ " دل" رکھا گیا تھا۔ اُس وقت تقریبا سبھی استاد شعراء موجود تھے۔ان میں سیماب اکبرآبادی اور جگر مرادآبادی بھی تھے۔سیماب نے اس قافیہ کو یوں باندھا۔۔۔۔۔
خاکِ پروانہ،رگِ گل،عرقِ شبنم سے
اُس نے ترکیب تو سوچی تھی مگر دل نہ بنا
شعر ایسا ہوا کہ شور مچ گیا کہ اس سے بہتر کوئی کیا قافیہ باندھے گا؟۔ سب کی نظریں جگر پر جمی ہوئی تھیں۔
معاملہ دل کا ہو اور جگر چُوک جائیں۔۔وہ شعر پڑھا کہ سیماب کو شعر لوگوں کے دماغ سے محو ہوگیا۔
زندگانی کو مرے عقدہء مشکل نہ بنا
برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا
 
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں

مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔

پریشان ہو کرسی آئی ڈی باس کے انداز میں بولے، "حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں

ڈبل زبردست
 

قیصرانی

لائبریرین
ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "شیطانیاں" سے اقتباس
لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔
میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔
اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر
اتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا،
وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔
میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں۔۔۔۔
میں اسے گل نوخیز اختر کی شرارت سمجھتا رہا تھا :)
 
ابن صفی نے ایک سچا لطیفہ اپنے ایک ناول کے پیش رَس میں ذکر کیا ہے۔ جو کچھ یوں ہے۔
ایک مدیر صاحب کے پاس شہرہ آفاق مصور " پکاسو " پر لکھا گیا اردو کا ایک بہترین مقالہ آیا۔ مدیر محترم نے فوراَ اگلے شمارے میں اشاعت کے لئے برائے کتابت "کاتب صاحب" کے حوالے کر دیا۔
مضمون کا عنوان ہی تھا "پکاسو"
اردو زبان و ادب کے "ماہر" کاتب صاحب جو مشہور مصور " پکاسو " کے متعلق کچھ نہ جانتے تھے۔ انہوں نے آنکھیں پھاڑ کر مضمون کے عنوان کو دیکھا پھرمسکرائے اور زیرلب بولے : اچھا "ر" لکھنا بھول گئے !!
اب اللہ دے بندہ لے۔۔۔جہاں جہاں " پکاسو" کا لفظ آیا ، کاتب صاحب "ر" کا اضافہ کرتے چلے گئے
یوں ہو گیا ایک زبردست مقالہ " پکّا سور" پر تیار !!
اور مدیر صاحب میز پر سر کے بل کھڑے سوچتے رہ گئے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو کیا منہ دکھائیں؟؟
فیس بک سے
 
دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں ' جون کا مہینہ ہے ' سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔اصل میں آج اس کی‌ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے
'قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے ' ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔
دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔
قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔
ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا۔۔اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا' تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔۔
قاتل سپاہی ' غالب اسٹریٹ ' سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا' پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔۔اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔۔اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔۔اچانک اسے زور دار جٹھکا لگا۔۔جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں ' قاتل سپاہی ' لکھا ہوا تھا۔۔
خوشی کی لہر اس کے اندر دور گئی۔۔اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔۔ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔۔
کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔''کیا نام ہے ان کا ؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی ''
Qatil Shiphai
( گل نوخیز کی No خیزیاں سے اقتباس )
 
اگر جواب شکوہ اصل والا پڑھا ہو تو تب ہی مزہ آئے گا
بیوی کا جوابِ شکوہ
تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے
چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے
اُس کی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے
”پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے“
شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا
دل ‘ جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا
آئی آواز ٹھہر تیرا پتہ کرتی ہوں
تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں
میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں
ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں
اور تُو ہے کہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا
اپنے یارو میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا
تو یہ کہتا ہے ”کوئی منہ ہے نہ متّھا تیرا“
میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا
نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا
تو بھی گنجا ہے ارے باپ بھی گنجا تیرا
بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے
یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے
اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے ؟
نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے ؟
آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟
منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟
کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے
مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے
صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟
رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟
کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟
چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا
ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں
آج جوتے سے مزا تجھ کو چکھاتی میں ہوں
Salary اپنی فقط ماں کو تھمائی تُو نے
آج تک مجھ کو کبھی سیر کرائی تُو نے؟
کوئی ساڑھی‘ کوئی پشواز دلائی تُو نے؟
ایک بھی رسم ِ وفا مجھ سے نبھائی تُو نے؟
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں
بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی
ماں بھی اب جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی
میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی
میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی
ابّا بھی مانتے ہیں ان سے ہوا جرم ِ عظیم
آغا طالش کو سمجھ بیٹھے اداکار ندیم
ماں نے تھے جتنے دیئے بیچ کے کھائے زیور
تیرے ماتھے پہ سدا رہتے ہیں پھر بھی تیور
جس گھڑی مجھ سے جھگڑتے ہیں میرے دیور
تیری بہنیں بھی نہیں کرتی ہیں میری Favour
تین مرلے کے مکاں میں نہیں رہ سکتی میں
ساس کے ظلم و ستم اب نہیں سہہ سکتی میں
میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے
رنگ چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے
سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے
کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“
تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟
میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !
ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی
ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی
سَرّیا گردن کا‘ تری موڑ کے گھر جاؤں گی
سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی
یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں
(شاعر نا معلوم)
 
روایتی اور بور طریقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں دوستو آج ایک طویل قصہ پڑھتے ہیں۔ یہ انیس سو پچپن کے ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوا۔
فزکس کا پرچہ تھا۔ممتحن نے سوال پوچھا کہ ایک بیرو میٹر کی مدد سے کیسے ایک بلند عمارت کی اونچائی ناپی جا سکتی ہے؟ ممتحن نے جس جواب کے لیے سوال پوچھا تھا، وہ یہ تھا کہ بیرو میٹر سے زمین کی سطح پہ دباو معلوم کیا جائے پھر اس عمارت کی چھت پہ دباو معلوم کیا جائے اور ان دونوں کے فرق کو ایک فارمولے میں رکھ کر عمارت کی بلندی پتہ کر لی جائے۔
طالب علم نے اس مہم پسند طالب علم کی طرح سوچا جو اپنی مہم جوئی کا شوق اپنے استاد پہ نکالتا ہے، کیوں نہ ممتحن کو تپایا جائے؟ جواب لکھ مارا کہ ایک رسی لے کر اس میں بیرو میٹر باندھ لیا جائے۔ عمارت کی چھت سے اس بیرو میٹر کا زمین تک چھوڑا جائے۔ زمین کی سطح سے چھت تک اس رسی کی لمبائی ناپ لی جائے اور اس میں بیرومیٹر کی اونچائی شامل کر لی جائے۔
ممتحن اتنا بھنایا کہ طالب علم کو فیل کر دیا۔ طالب علم نے احتجاج کیا کہ یہ اسکے ساتھ زیادتی ہے۔ کسی غیر جانب دار شخص سے اسکی تحقیقات کرائی جائے۔ ایک کمیٹی معاملے کی تحقیقات کے لیے بیٹھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جواب تو درست ہے لیکن اس میں فزکس کہیں نہیں ہے، لہٰذا طالب علم کو ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ فزکس میں اپنی مہارت ثابت کر سکے۔
طالب علم سے کہا گیا کہ اسکے پاس چھ منٹ ہیں۔ اگر وہ اس کا فزکس کے مطابق جواب دے دے تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ ہر حال میں ڈرامہ پیدا کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔اس کی فطرت میں بھی کچھ ڈرامہ تھا۔ طالب علم خاموش ہو گیا۔ لیکن گھڑی کی سوئیاں نہیں۔ اس لیے ایک دفعہ پھر اسے یاد کرایا گیا کہ اس کے پاس اب بہت کم وقت ہے۔
طالب علم نے جواب دیا کہ دراصل اس کے ذہن میں کئی ممکنہ جواب ہیں اور وہ طے کر رہا ہے کہ کسے پہلے بیان کرے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خالی ذہن ہی نہیں ،بھرا ہوا ذہن بھی شیطان کا چرخہ ہوتا ہے۔ہمارے فیس بک میں ایسے بھرے ہوئے دماغ والے کئی چرخے آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں ، خیر طالب علم نے کہا:
”بیرو میٹر کو عمارت کی چھت پہ لے جا کر وہاں سے نیچے پھینکا جائے۔ چھت سے زمین تک فاصلہ طے کرنے میں جو وقت لگے ، اسے نوٹ کر کے فارمولہ لگایا جائے تو بلندی معلوم ہو جائے گی، البتہ بیرومیٹر کے بچنے کی امید نہیں۔اور ہاں ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ اگر سورج نکلا ہوا ہو تو بیرو میٹر کی اونچائی نوٹ کر کے اس کے سائے کی لمبا ئیلے لیجیے پھر عمارت کے سائے کی لمبائی نوٹ کر لیں، اس کے بعد تو ایک بالکل سادہ نسبت کے ذریعے عمارت کی اونچائی معلوم کی جا سکتی ہے۔“
پھر اس نے اپنا داہنا گال کھجایا، شاید مسکراہٹ چھپانے کے لیے اور بولا:لیکن اگر آپ ایک دم درست لمبائی جاننا چاہتے ہوں تو بیرو میٹر کو ایک رسی کے ذریعے ٹانگ کر اس کا پینڈولم بنا لیں۔ پھر زمین اور عمارت پہ الگ الگ اسے جھلائیے اور دونوں جگہوں پہ’ ریسٹورنگ فورس ‘معلوم کر کے فارمولا لگا دیں، لیجیے جناب بلندی معلوم ہو جائے گی۔ “
تمام کمیٹیوں کے ارکان میں ایک بات مشترک ہوتی ہے، سب سکون سے ہر ناروا کو بھی روا سمجھ کر سنتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہے۔ یہ سوچ کر طالب علم نے کہا۔ اگر عمارت میں چھت تک جانے کے لیے ایمرجنسی سیڑھیاں موجود ہیں تو بیرو میٹر لے کر سیڑھیوں پہ چڑھ جائیے اور ہر منزل پہ بیرو میٹر کی بلندی ناپتے جائیے اور آخیر میں اسے جمع کر لیں۔ عمارت کی بلندی پتہ چل جائے گی۔
پھر اس نے ذرا رک کرسانس لی اور چہرے پر سخت بوریت کے تاثرات لاتے ہوئے کہا۔” اگر کسی روایتی اور بور طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں تو زمین پہ بیرو میٹر رکھ کر دباو معلوم کریں اور اسی بیرو میٹر سے عمارت کی چھت دباو معلوم کریں اور دونوں کے فرق کو ملی بار سے فٹ میں تبدیل کر لیں۔ عمارت کی بلندی علم میں آجائے گی۔“
آخر میں اس نے فیصلہ کن پینترا بدلا، لیکن چوں کہ ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ کھلے ذہن سے سائنسی طریقہ کار کو سوچو تو میں عمارت کے نگراں کے پاس جاوں گا اور کہوں گا کہ کیا وہ مجھے عمارت کی بلندی بتا سکتا ہے، اگر ہاں تو میرے پاس ایک نیا بیرو میٹر ہے، وہ اس کا ہوگا۔“
قصہ خواں اس کے بعد خاموش ہے۔ کیا کمیٹی کے حواس یکجا رہے؟ کیا کمیٹی نے متفقہ طور پہ اسے پاس کر دیا؟ کیا واقعی پوت کے پیر پالنے میں نظر آتے ہیں؟؟؟
 
اردو ادب میں گوشہ ’بول و براز‘
پچھلے دنوں ہمارے پیارے دوست عنایت الرحمن شمسی صاحب سے اردو ادب کے تین انوکھے شاعروں کا ذکر چلا۔ ان میں ایک ہزل گو فحش نگار جعفر زٹلی تو قدرے معروف ہے۔ دوسرے عاصی رام لکھنوی، جن کی گالیاں بھی کافی مشہور ہیں، مگر تیسرے شاعر جعفر علی چرکین کو اگر اردو ادب کا دھتکارا ہوا شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ چرکین نے وہ ناگفتہ بہ موضوع اپنے لیے چنا ، جس کے بارے میں دوسرے شاعر تو کجا عام افراد بھی اشاروں کنایوں میں بات کرنا چاہتے ہیں۔جی ہاں! چرکین نے اردو ادب کا گوشہ’ برازیات‘ اپنے نام کر رکھا ہے،جس کے بارے میں اردو ہی نہیں، دنیا کی کسی بھی زبان کے معیاری ادب میں کوئی جگہ نہیں(البتہ اس موضوع کے علاوہ دوسرے ممنوع موضوعات مثلا جنس وغیرہ پر بے تحاشا مواد ہے) شاید یہ طبعی میلان کی وجہ سے ہے کہ انسانی طبیعت کو اس سے کراہت آتی ہے۔ جرمن ناول نگار پیٹرک سسکنڈ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں اپنے بچپن میں یہ سوچ سوچ کر حیران ہو تا تھا کہ ناولوں کے کرداروں کو کبھی بیت الخلاءجاتے کیوں نہیں دکھایا جاتا؟ اسی طرح پریوں کے قصے ہوں یا اوپرا، ڈراما ہو یا فلمیں یا پھر بصری آرٹ کی مختلف شکلیں ان میں کسی کو بھی رفع حاجت کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی؟
اوپر بیان کردہ تینوں شاعروں میں سے جعفر زٹلی اور عاصی کے کلام کو تو فیس بک جیسے فورم پر ہرگز شیئر نہیں کیا جا سکتا لیکن میرے خیال میں علم دوست احباب کی معلومات کے لیے چرکین کا تعارف اور تھوڑا سا انتہائی’منتخب ‘نمونہ کلام پیش کیا جا سکتا ہے کیوں کہ بقول اردو کے مایہ ناز ادیب شمس الرحمن فاروقی:”چرکین کا کوئی شعر فحش نہیں ہے،خلافِ تہذیب ہونا اور بات ہے لیکن کوئی شعر ایسا نہیں کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کے سامنے پڑھایا نہ جا سکے یا ان کے سامنے پڑھا نہ جا سکے۔“
اس لیے عنایت شمسی صاحب کی فرمائش پر تھوڑی سی تفصیل پیش خدمت ہے مگر ذرا رکیے۔ آگے پڑھنے سے پہلے یہ وارننگ ضرور پڑھ لیں!
( خبردار!یہ مضمون کافی حد تک ناشائستہ مواد پہ مشتمل ہے گو فحش ہرگز نہیں مگر قدرے خلافِ تہذیب ضرور ہے۔ حساس طبیعت رکھنے والے اس سے گریز کریں ،ورنہ مزاج میں پیدا ہونے والی کراہت کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔)
اس وارننگ کے بعد آگے بڑھتے ہیں....جعفر علی چرکین تخلص کیا کرتے تھے۔ لفظ چرکین کے معنی فیروز اللغات میں ’غلیظ‘ کے ہیں۔ آپ قصبہ رودلی کے رہنے والے تھے۔مرزا قادر بخش صابر ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ”چرکین تخلص ہے ایک شخص ظریف، شوخ مزاج، ساکن لکھنو کا۔ وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاست معنوی سے آلودہ رکھتا، یعنی مضامین بول و براز اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمین سخن کو گوہ گڑھیا بنا دیتا،مگر انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا لیکن کوئی لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا تھا اور کو ئی پاکیزہ طبع اس سے گھن نہ کھاتا تھا۔ گویا بحر شعر کی لطافت وحسن نے اس نجاست کو بہا دیا تھا۔ اوائل حال میں تو جعفر نے یہ وضع ہزل سمجھ کر اختیار کی یعنی مذاق میں، لیکن رفتہ رفتہ اس قال کو حال بنا لیااور ایسی میلی کچیلی وضع رکھتا کہ اجنبی اس کو سچ مچ کاحلال خور سمجھتے۔“
چرکین کے بارے میں کئی کہانیاں بھی مشہورہیں۔ جناب مقصود عالم مقصود (یہ شاید غالب کے شاگرد تھے) جنہوں نے چرکین کے مرنے کے پچیس سال بعد ان کا کلام ایک جگہ اکٹھا کر کے اسے دیوان کی شکل دی، تعارف میں لکھا ہے کہ میاں چرکین بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام بہت عمدہ اور پاکیزہ ہوتا تھا، مگر لوگ آپ کا کلام چرا کر اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے، جس کی وجہ سے میاں چرکین نے عاجز آ کر اپنی شاعری کا رنگ بدل دیا اور ایسے اشعار کہنے لگے جس میں گندگی کا ذکر ضرور ہوتا، لیکن اس کلام میں بھی تمام شاعرانہ صفات بدرجہ اتم موجود ہوتی تھیں۔بہرحال چرکین کے کلام میں وہ نادر ترکیبیں ، الفاظ، فقرے اور محاورے ملتے ہیں، جو کسی شاعر نے استعمال نہیں کیے۔
ان کی بولی دیوان خانے یا معطر دریچوں کی نہیں.... نالی، کچرا گھر، سنڈاس وغیرہ کی ہے۔ بول و براز کے علاقے کے وہ الفاظ جن کے سلسلے میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں،ان کو چرکین نے اپنے کلام میں محفوظ کیا اور بیت الخلا کے حوالے سے ان نادر ترکیبوں ، الفاظ، فقروں اور محاوروںکو آیندہ نسل کے لیے محفوظ کیا، جن کا استعمال آہستہ آہستہ بدیسی زبانوں کے الفاظ، ٹوائلٹ،کموڈ، سٹول اور واش روم وغیرہ کے عام استعمال کی وجہ سے محدود ہو گیا ہے۔ان کا کلام اسی زبان میں ہے جو اس زمانے میں آتش، ناسخ اور مصحفی وغیرہ کی تھی۔ایک ایک مصرعہ تراشا ہوا، شعر میں چستی اور زائد یا بھرتی کے الفاظ سے پاک، مضامین آلودہ لیکن کلام میں غضب کی روانی ۔
نمونہ کلام حاضرہے ۔ہمیں اعتراف ہے کہ دوستوں کی طبع نازک کا خیال رکھتے ہوئے بہت زیادہ 'چھانٹی' کرنی پڑی۔یہی وجہ ہے کہ خیال و زباں کے اعتبار سے ہم وہ بلند اشعار شامل نہیں کر سکے، جو ان کے فن کا شاہکار ہیں۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہیں وہ ’شاہکار‘ پڑھ کر فیس بکی فرینڈ ہماری وال کو ہی سنڈاس سمجھ کر بھاگ نہ جائیں۔ چلیں ناک بند کر کے پڑھیے
٭خیال زلف بتاں میں جو پیچ کھاتے ہیں
مروڑ ہو ہو کے پیچش کے دست آتے ہیں
٭کسی کے پاد سے اڑتے نہ کنکری دیکھی
اڑائے دیتا ہے چرکیں پہاڑ پھسکی سے
٭وہ جنتی ہے مرے جو مرض سے دستوں کے
ہے یہ ثواب تو باز آئے اس صواب سے ہم
٭عبث بدنامیوں کا ٹوکرہ سر پر اٹھانا ہے
لگانا دل کا بس جھک مارنا اور گو کا کھانا ہے
٭رو زو شب ہگنے سے تم اس کے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو، چرکیں نے وطن چھوڑا ہے
٭قبر پہ آکے بھی اس بت نے نہ موتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئی
چرکین سے کسی نے ایک بار کہا کہ دنیا کے ہر موضوع کوبول و بزار کی زبان میں بیان کر سکتے ہو تو ذرا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری کو بیان کرکے دکھاﺅ۔ فوراً کہا:
٭رن میں جس دم تیغ کھینچی حیدر کرار نے
ہگ دیا دہشت کے مارے لشکر کفار نے
یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتا ہے....ہڑبڑا کر ہگ دیا ، لشکر کفار نے
[تحریر کا ماخذجناب ابرار الحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین،جناب شمس الرحمن فاروقی کا مقدمہ اور ڈاکٹرانیقہ مرحومہ کا ایک مضمون ہے۔]
بشکریہ جناب محمد فیصل شہزاد
 

RAZIQ SHAD

محفلین
ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔
ردیف دیا گیا:
"دل بنا دیا"
اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھے۔
سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا:
اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا
اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی ، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟
لیکن جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔
انہوں نے کہا:
بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھےاور خیام الہند کہلاتے تھے۔ جگر کے کلام کو سنتے ہی وہ سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا،ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پاوں میں ڈال دیے۔
اس واقعے سے قبل دہلی کی لال قلعہ میں ایک طرحی مشاعرہ تھا۔ قافیہ " دل" رکھا گیا تھا۔ اُس وقت تقریبا سبھی استاد شعراء موجود تھے۔ان میں سیماب اکبرآبادی اور جگر مرادآبادی بھی تھے۔سیماب نے اس قافیہ کو یوں باندھا۔۔۔۔۔
خاکِ پروانہ،رگِ گل،عرقِ شبنم سے
اُس نے ترکیب تو سوچی تھی مگر دل نہ بنا
شعر ایسا ہوا کہ شور مچ گیا کہ اس سے بہتر کوئی کیا قافیہ باندھے گا؟۔ سب کی نظریں جگر پر جمی ہوئی تھیں۔
معاملہ دل کا ہو اور جگر چُوک جائیں۔۔وہ شعر پڑھا کہ سیماب کو شعر لوگوں کے دماغ سے محو ہوگیا۔
زندگانی کو مرے عقدہء مشکل نہ بنا
برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا
پہلے مصرع میں کر کی جگہ ( کے ) ہے شاید ( کر ) کی وجہ سے پہلا مصرع وزن سے خارج لگتا ہے

جبکہ جگر مراد آبادی کا دوسرا شعر بھی کچھ یوں ہے
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن​
زندگانی کو مرے عقدۂ مشکل نہ بنا
برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا

( عقدۂ )
 
Top