ذرائع ابلاغ کا کردار اور منفی اثرات

ابوشامل

محفلین
[FONT=&quot]مشرق میں صحافت ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات میں بھی تقدیس کا یہی رنگ جھلکتا ہے۔ مغرب میں تو اس کے لیے [FONT=&quot]journalism[/FONT][FONT=&quot] کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا زیادہ سے زیادہ مطلب روزنامچہ تحریر کرنا ہو سکتا ہے جبکہ مشرق میں عربی اور اس سے وابستہ زبانوں میں لفظ صحافت رائج ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے اور دین میں صحیفوں کی حیثيت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی "آفاقی پیغام"۔ [/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]قیام پاکستان کے بعد سے اکیسویں صدی تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا کردار مخصوص دائرے تک ہی محدود رہا لیکن قومی کردار کی تعمیر، تہذیبی و اخلاقی اقدار کی پاسداری اور اصلاح احوال سے کبھی غفلت نہیں برتی گئی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستان میں جیسے ہی نجی ٹی وی چینلوں کے آغاز کے ساتھ ہی جو "ابلاغی انقلاب" برپا ہوا اس نے ملک کو سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ جدید دور میں عوام کی سوچ و فکر پر گہرا اثر مرتب کرنے والا میڈیا اب پاکستان میں ایک ایسی دو دھاری تلوار ثابت ہو رہا ہے جو اپنے ہی ملک کی نظریاتی، اخلاقی و حقیقی سرحدوں کے درپے ہو گیا ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]حقیقتا تو عوامی رحجانات ہی میڈیا کو اپنا رخ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں، لیکن وطن عزیز میں میڈیا عوامی رحجانات کو "نئے نئے رخ" عطا کر رہا ہے۔ صرف یہ امر زیر غور لائیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی صرف 30 فیصد آبادی خواندہ ہو وہاں میڈیا کیا کیا قیامتیں ڈھا سکتا ہے۔ میڈیا "[FONT=&quot]trend setter[/FONT][FONT=&quot]"[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]ہے جو عام آدمی کے ملبوسات سے لے کر اس کی سوچ تک پر گہرے اثرات ڈالتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے مثبت کردار کا مطالبہ جائز بر حق ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]ذرائع ابلاغ کی جانب سے ایک جانب جہاں عوام میں مایوسی بڑھانے کا کام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب غیروں کی تہذیب کو اپنی تہذیب سے برتر ثابت کر کے احساس کمتری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ تہذیب اسلامی سے ناطہ توڑ کے تہذیب ہند سے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]اس معاملہ پر ہماری حکومتوں نے بہت بڑي غلطی کی ہے کہ نجی [FONT=&quot]چینلوں کے آغاز کے موقع پر ہی ان کے لیے “ضابطۂ اخلاق” مرتب نہ کیا۔ "ضابطۂ اخلاق" میں میرا زیادہ زور "اخلاق" پر ہے جس سے بلاشبہ ہمارا ذرائع ابلاغ اب بالکل عاری ہوچکا ہے۔ جس طرح کے پروگرامات نشر ہو رہے ہیں یہ ثقافت حقیقتا تو شاذ و نادر ہی دِکھے گی، یا پھر وطن عزیز میں کہیں اس کا وجود ہے تو وہ ایک مخصوص طبقے اور حلقوں تک ہی محدود ہے۔ حتٰی کہ سندھی اور پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں کے چینل بھی جس طرح کے پروگرامات اور گانے نشر کرتے ہیں اُس میں دکھائی گئی ثقافت کا حقیقت سے دور پرے کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، کیا آپ نے کبھی سندھ یا زیریں پنجاب کے کسی گاؤں میں گھومنے والی لڑکی کو جینز و ٹی شرٹ میں ملبوس دیکھا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ثقافت "درآمد" کرنے کا یہ عمل جبرا کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی و نظریاتی بنیادوں کو کھودنے کی اس سوچی سمجھی حکمت عملی کا واضح ہدف نوجوان نسل ہے جو اب میڈیا کے تمام "اسباق" کو ازبر کرنے کے بعد "میدانِ عمل" میں "عملی تجربات" کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]قدامت پسند تو درکنار کچھ ترقی پسند اور لادین ساتھی بھی ایسے واقعات سناتے ہیں جو آنکھیں کھول دینے کے کافی ہیں۔ جیسے ایک میرے عزیز استاد، جو ایک مشہور اخبار کے معروف ترقی پسند کالم نگار ہیں، نے بتایا کہ ایک شادی میں ان کے سامنے بچہ اپنی والدہ سے یہ کہتا پایا گیا کہ "امی ایسے کیسے شادی ہو گئی؟ سات پھیرے تو لگائے نہیں؟"۔ علاوہ ازیں کئی بچوں کی زبان پر ذرائع ابلاغ نے بہت برا اثر ڈالا ہے حتی کہ "خ" کو "کھ" اور "پھ" کو "ف" بولنا کئی بچوں کی عادت بن چکی ہے۔ اسکولوں میں پرائمری سطح پر بھی بچے "پریم پتر" کے ہمراہ پکڑے جا چکے ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]دوسری جانب ملک بھر میں ایک جانب جہاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حتی کہ کئی واقعات میں5، 6 سالوں کی معصوم جانیں بھی اپنی عصمت اورجان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کیا معاشرے میں پھیلتا ہوا یہ جنسی انتشار ذرائع ابلاغ کا پھیلایا ہوا نہیں ہے؟ جس کا ہر ڈرامہ، ہر فلم، ہر کارٹون، ہر پروگرام ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت اور ان کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ علاوہ ازیں ساس اور بہو کے تعلق اتنا بھیانک کر کے پیش کیا جا رہا ہے کہ اب دونوں رشتوں کے درمیان ایک دوسرے سے حسن ظن رکھنے کا رحجان ہی کم ہوتا جا رہا ہے اور بہو گھر آنے سے قبل ہی یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا کر آتی ہے کہ اس کی ساس ظالم ہوگی۔ اس سے ہمارے معاشرے میں رائج خاندانی نظام پر براہ راست زک پڑی ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملکی ذرائع ابلاغ نے مغربی و ہندو "بد تہذیب" کا شیطانی رقص ہر گھر میں جلوہ گر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن اسے مسلم تہذیب سے اتنی دلی پرخاش ہے کہ مسلم معاشرے کی بنیادی ظاہری علامات تک سے اس طرح قطع نظر کر رہا ہے جیسے وہ بھی “دہشت گردی” کی علامات ([FONT=&quot]Symbol[/FONT][FONT=&quot]) ہیں۔ بنیادی علامات کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اسلام کی عظیم ترین دعوت اور انقلاب آفریں پیغام کو تو مسلمان کب کے بھلا چکے، اب لے دے کے بنیادی ظاہری علامات نماز، روزہ، حج وغیرہ ہی رہ گئی ہیں۔ لیکن “ٹوپی اور پائنچے” والے اس “بے ضرر اسلام” سے بھی آزادئ اظہار کے ان نام نہاد علمبرداروں کو اتنی چڑ ہے کہ کسی نجی ٹیلی وژن چینل کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوتا ہےنہ اوقات نماز و اذان کے بارے میں کوئی معلومات ملتی ہے، حدیث مبارکہ کا کوئی سلسلہ ہے نہ اسلاف کے عظیم کارناموں کی کوئی خبر، مسلمانوں کی قرون اولٰی سے کوئی نسبت دکھائی جاتی ہے نہ اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کے لیے کوئی سنجیدہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ بس لے دے کر پردہ، موسیقی، جہاد اور مستشرقین کے "ہدایت یافتہ" وہ تمام مسائل نام نہاد "مذاکروں" اور "ٹاک شوز" میں پیش کیے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے ذہنوں کو مزید منتشر کرنا ہوتا ہے۔ ان پروگرامات کا بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو "جدید روشن خیالی" کے فلسفے سے مکمل ہم آہنگ ([/FONT][FONT=&quot]Compatible[/FONT][FONT=&quot]) ثابت کر دیا جائے اس کی واضح مثال "الف"، "غامدی" اور اسی طرح کے دیگر پروگرامات ہیں۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں کی 70فیصد آبادی کسی بھی زبان میں اپنا نام لکھنے سے بھی قاصر ہو، وہ اسلام کے حوالے سے متنازع موضوعات پر گفتگو سننے کے بعد ایمان کے کس درجے پر پہنچے گی؟ اس کا اندازہ ہر شخص کو بخوبی ہوجانا چاہئے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]یہ حال ہے “اسلام کے قلعہ” کی “توپوں” کا۔ ابلاغی جنگ کے اس دور میں وطن عزیز میں صورتحال یہ ہے کہ اس کی حقیقی اور ابلاغی دونوں توپوں کا رخ اس کی اپنی ہی جانب ہے۔ حقیقی توپیں محب وطن عناصر کا خاتمہ کر رہی ہیں تو ابلاغی توپیں نظریاتی اساس کے درپے ہیں۔[FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]ہمارے ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ذمہ دار شخصیات کے بجائے کاروباری افراد کی ملکیت ہیں جو [FONT=&quot]منافع کے اعتبار سے ہی سب کچھ دکھاتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں موجودگی کے باعث خود پر عائد ہونے والی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی بری الذمہ ہیں۔ مقصد گفتگو صرف اور صرف اتنا ہے کہ میڈیا جب ملکی سیاسی معاملات پر صرف اس لیے اتنا اثر انداز ہو رہا ہے کیونکہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے تو قوم کی اخلاقی تربیت اور تہذیب کی حفاظت کہیں اعلی و ارفع مقصد اور قومی ذمہ داری ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]اخلاقی میدان میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف بھرپور "دراندازی" کے علاوہ عوام میں مایوسی پھیلانے میں بھی نجی چینلوں سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں کے تحت [FONT=&quot]خبر کو جوں کا توں پیش کرنا ہمارے ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ لیکن جب 2 منٹ کی خبر کو طول دے کر 4 گھنٹے پر محیط کیا جائے گا اور اس پر مذاکرے و مباحثے پیش ہوں گے تو خبر تو خود بخود مبالغہ آمیز ہوگی ہی ۔ خبروں میں رنگ آمیزی کا یہ رحجان اس وقت کہیں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے جب وہ پاکستان جیسے ملک میں ہو۔ یہی سب سے بنیادی نکتہ ہے کہ ایسے ملک میں جہاں کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہو، اور خواندہ افراد بھی معاشرے کا کوئی واضح نظریہ اپنے ذہن میں نہ رکھتے ہوں کیا وہاں "جارحانہ انداز کی صحافت" کی جا سکتی ہے؟ [/FONT][/FONT]
[FONT=&quot]ایک جانب رنگین ثقافت کا حد سے زیادہ اظہار اور دوسری جانب خبروں کی رنگ آمیزیوں کے نتیجے میں جو قوس قزح بکھری ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد خصوصاً نوجوان طبقہ اپنے مذہب، قوم و ملک سے مکمل مایوسی کا شکار ہو چکا ہےاور اس کی آنکھوں پر مادہ پرستی و عیش پسندی کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ وہ تعیشات کے حصول کے لیے بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ بیرونی ثقافت و رسوم و رواج کے بجائے قومی کردار کی تعمیر اور تہذیبی اقدار و ثقافت کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی [FONT=&quot]یہ تعین بھی کیا جائے کہ ہماری صحافت کا موضوع کیا ہے؟ ان کا ہماری حقیقی قومی ترجیحات سے کیا تعلق ہے؟ ملکی سیاسی معاملات پر صرف اس لیے اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا کہ ذرائع ابلاغ جمہوری اقدار کے فروغ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں تو قوم کی اخلاقی تربیت اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت اس سے کہیں زیادہ بڑی ذمہ داری ہے۔ معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور اچھائیوں کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اسے ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے بلکہ اس کی پوری قوتیں درآمد شدہ ثقافت کو قوم پر بالجبر لاگو کرنے پر لگ رہی ہیں۔ اور ایک مستقل رو بہ زوال و ناخواندہ قوم پر تو درآمد شدہ ثقافت کچھ زیادہ ہی اثر دکھاتی ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]بیرونی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تو سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی تہذیب ہو، جب آپ کی تہذیب کے بند ہی ٹوٹ چکے ہوں تو کون سی یلغار اور کون سا مقابلہ؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
 

ماوراء

محفلین
ابوشامل، اس اقتباس میں فانٹ کو بدلا ہے۔ آپ کی تحریر میں جو فانٹ ہے، اس میں پڑھنے میں مزہ نہیں آتا۔:(

مشرق میں صحافت ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات میں بھی تقدیس کا یہی رنگ جھلکتا ہے۔ مغرب میں تو اس کے لیے Journalism کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا زیادہ سے زیادہ مطلب روزنامچہ تحریر کرنا ہو سکتا ہے جبکہ مشرق میں عربی اور اس سے وابستہ زبانوں میں لفظ صحافت رائج ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے اور دین میں صحیفوں کی حیثيت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی "آفاقی پیغام"۔
قیام پاکستان کے بعد سے اکیسویں صدی تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا کردار مخصوص دائرے تک ہی محدود رہا لیکن قومی کردار کی تعمیر، تہذیبی و اخلاقی اقدار کی پاسداری اور اصلاح احوال سے کبھی غفلت نہیں برتی گئی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستان میں جیسے ہی نجی ٹی وی چینلوں کے آغاز کے ساتھ ہی جو "ابلاغی انقلاب" برپا ہوا اس نے ملک کو سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ جدید دور میں عوام کی سوچ و فکر پر گہرا اثر مرتب کرنے والا میڈیا اب پاکستان میں ایک ایسی دو دھاری تلوار ثابت ہو رہا ہے جو اپنے ہی ملک کی نظریاتی، اخلاقی و حقیقی سرحدوں کے درپے ہو گیا ہے۔
حقیقتا تو عوامی رحجانات ہی میڈیا کو اپنا رخ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں، لیکن وطن عزیز میں میڈیا عوامی رحجانات کو "نئے نئے رخ" عطا کر رہا ہے۔ صرف یہ امر زیر غور لائیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی صرف 30 فیصد آبادی خواندہ ہو وہاں میڈیا کیا کیا قیامتیں ڈھا سکتا ہے۔ میڈیا "trend Setter"ہے جو عام آدمی کے ملبوسات سے لے کر اس کی سوچ تک پر گہرے اثرات ڈالتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے مثبت کردار کا مطالبہ جائز بر حق ہے۔
ذرائع ابلاغ کی جانب سے ایک جانب جہاں عوام میں مایوسی بڑھانے کا کام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب غیروں کی تہذیب کو اپنی تہذیب سے برتر ثابت کر کے احساس کمتری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ تہذیب اسلامی سے ناطہ توڑ کے تہذیب ہند سے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔
اس معاملہ پر ہماری حکومتوں نے بہت بڑي غلطی کی ہے کہ نجی چینلوں کے آغاز کے موقع پر ہی ان کے لیے “ضابطۂ اخلاق” مرتب نہ کیا۔ "ضابطۂ اخلاق" میں میرا زیادہ زور "اخلاق" پر ہے جس سے بلاشبہ ہمارا ذرائع ابلاغ اب بالکل عاری ہوچکا ہے۔ جس طرح کے پروگرامات نشر ہو رہے ہیں یہ ثقافت حقیقتا تو شاذ و نادر ہی دِکھے گی، یا پھر وطن عزیز میں کہیں اس کا وجود ہے تو وہ ایک مخصوص طبقے اور حلقوں تک ہی محدود ہے۔ حتٰی کہ سندھی اور پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں کے چینل بھی جس طرح کے پروگرامات اور گانے نشر کرتے ہیں اُس میں دکھائی گئی ثقافت کا حقیقت سے دور پرے کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، کیا آپ نے کبھی سندھ یا زیریں پنجاب کے کسی گاؤں میں گھومنے والی لڑکی کو جینز و ٹی شرٹ میں ملبوس دیکھا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ثقافت "درآمد" کرنے کا یہ عمل جبرا کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی و نظریاتی بنیادوں کو کھودنے کی اس سوچی سمجھی حکمت عملی کا واضح ہدف نوجوان نسل ہے جو اب میڈیا کے تمام "اسباق" کو ازبر کرنے کے بعد "میدانِ عمل" میں "عملی تجربات" کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
قدامت پسند تو درکنار کچھ ترقی پسند اور لادین ساتھی بھی ایسے واقعات سناتے ہیں جو آنکھیں کھول دینے کے کافی ہیں۔ جیسے ایک میرے عزیز استاد، جو ایک مشہور اخبار کے معروف ترقی پسند کالم نگار ہیں، نے بتایا کہ ایک شادی میں ان کے سامنے بچہ اپنی والدہ سے یہ کہتا پایا گیا کہ "امی ایسے کیسے شادی ہو گئی؟ سات پھیرے تو لگائے نہیں؟"۔ علاوہ ازیں کئی بچوں کی زبان پر ذرائع ابلاغ نے بہت برا اثر ڈالا ہے حتی کہ "خ" کو "کھ" اور "پھ" کو "ف" بولنا کئی بچوں کی عادت بن چکی ہے۔ اسکولوں میں پرائمری سطح پر بھی بچے "پریم پتر" کے ہمراہ پکڑے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب ملک بھر میں ایک جانب جہاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حتی کہ کئی واقعات میں5، 6 سالوں کی معصوم جانیں بھی اپنی عصمت اورجان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کیا معاشرے میں پھیلتا ہوا یہ جنسی انتشار ذرائع ابلاغ کا پھیلایا ہوا نہیں ہے؟ جس کا ہر ڈرامہ، ہر فلم، ہر کارٹون، ہر پروگرام ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت اور ان کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ علاوہ ازیں ساس اور بہو کے تعلق اتنا بھیانک کر کے پیش کیا جا رہا ہے کہ اب دونوں رشتوں کے درمیان ایک دوسرے سے حسن ظن رکھنے کا رحجان ہی کم ہوتا جا رہا ہے اور بہو گھر آنے سے قبل ہی یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا کر آتی ہے کہ اس کی ساس ظالم ہوگی۔ اس سے ہمارے معاشرے میں رائج خاندانی نظام پر براہ راست زک پڑی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملکی ذرائع ابلاغ نے مغربی و ہندو "بد تہذیب" کا شیطانی رقص ہر گھر میں جلوہ گر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن اسے مسلم تہذیب سے اتنی دلی پرخاش ہے کہ مسلم معاشرے کی بنیادی ظاہری علامات تک سے اس طرح قطع نظر کر رہا ہے جیسے وہ بھی “دہشت گردی” کی علامات (symbol) ہیں۔ بنیادی علامات کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اسلام کی عظیم ترین دعوت اور انقلاب آفریں پیغام کو تو مسلمان کب کے بھلا چکے، اب لے دے کے بنیادی ظاہری علامات نماز، روزہ، حج وغیرہ ہی رہ گئی ہیں۔ لیکن “ٹوپی اور پائنچے” والے اس “بے ضرر اسلام” سے بھی آزادئ اظہار کے ان نام نہاد علمبرداروں کو اتنی چڑ ہے کہ کسی نجی ٹیلی وژن چینل کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوتا ہےنہ اوقات نماز و اذان کے بارے میں کوئی معلومات ملتی ہے، حدیث مبارکہ کا کوئی سلسلہ ہے نہ اسلاف کے عظیم کارناموں کی کوئی خبر، مسلمانوں کی قرون اولٰی سے کوئی نسبت دکھائی جاتی ہے نہ اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کے لیے کوئی سنجیدہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ بس لے دے کر پردہ، موسیقی، جہاد اور مستشرقین کے "ہدایت یافتہ" وہ تمام مسائل نام نہاد "مذاکروں" اور "ٹاک شوز" میں پیش کیے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے ذہنوں کو مزید منتشر کرنا ہوتا ہے۔ ان پروگرامات کا بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو "جدید روشن خیالی" کے فلسفے سے مکمل ہم آہنگ (compatible) ثابت کر دیا جائے اس کی واضح مثال "الف"، "غامدی" اور اسی طرح کے دیگر پروگرامات ہیں۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں کی 70فیصد آبادی کسی بھی زبان میں اپنا نام لکھنے سے بھی قاصر ہو، وہ اسلام کے حوالے سے متنازع موضوعات پر گفتگو سننے کے بعد ایمان کے کس درجے پر پہنچے گی؟ اس کا اندازہ ہر شخص کو بخوبی ہوجانا چاہئے۔
یہ حال ہے “اسلام کے قلعہ” کی “توپوں” کا۔ ابلاغی جنگ کے اس دور میں وطن عزیز میں صورتحال یہ ہے کہ اس کی حقیقی اور ابلاغی دونوں توپوں کا رخ اس کی اپنی ہی جانب ہے۔ حقیقی توپیں محب وطن عناصر کا خاتمہ کر رہی ہیں تو ابلاغی توپیں نظریاتی اساس کے درپے ہیں۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ذمہ دار شخصیات کے بجائے کاروباری افراد کی ملکیت ہیں جو منافع کے اعتبار سے ہی سب کچھ دکھاتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں موجودگی کے باعث خود پر عائد ہونے والی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی بری الذمہ ہیں۔ مقصد گفتگو صرف اور صرف اتنا ہے کہ میڈیا جب ملکی سیاسی معاملات پر صرف اس لیے اتنا اثر انداز ہو رہا ہے کیونکہ وہ ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے تو قوم کی اخلاقی تربیت اور تہذیب کی حفاظت کہیں اعلی و ارفع مقصد اور قومی ذمہ داری ہے۔
اخلاقی میدان میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف بھرپور "دراندازی" کے علاوہ عوام میں مایوسی پھیلانے میں بھی نجی چینلوں سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں کے تحت خبر کو جوں کا توں پیش کرنا ہمارے ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ لیکن جب 2 منٹ کی خبر کو طول دے کر 4 گھنٹے پر محیط کیا جائے گا اور اس پر مذاکرے و مباحثے پیش ہوں گے تو خبر تو خود بخود مبالغہ آمیز ہوگی ہی ۔ خبروں میں رنگ آمیزی کا یہ رحجان اس وقت کہیں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے جب وہ پاکستان جیسے ملک میں ہو۔ یہی سب سے بنیادی نکتہ ہے کہ ایسے ملک میں جہاں کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہو، اور خواندہ افراد بھی معاشرے کا کوئی واضح نظریہ اپنے ذہن میں نہ رکھتے ہوں کیا وہاں "جارحانہ انداز کی صحافت" کی جا سکتی ہے؟
ایک جانب رنگین ثقافت کا حد سے زیادہ اظہار اور دوسری جانب خبروں کی رنگ آمیزیوں کے نتیجے میں جو قوس قزح بکھری ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد خصوصاً نوجوان طبقہ اپنے مذہب، قوم و ملک سے مکمل مایوسی کا شکار ہو چکا ہےاور اس کی آنکھوں پر مادہ پرستی و عیش پسندی کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ وہ تعیشات کے حصول کے لیے بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ بیرونی ثقافت و رسوم و رواج کے بجائے قومی کردار کی تعمیر اور تہذیبی اقدار و ثقافت کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی یہ تعین بھی کیا جائے کہ ہماری صحافت کا موضوع کیا ہے؟ ان کا ہماری حقیقی قومی ترجیحات سے کیا تعلق ہے؟ ملکی سیاسی معاملات پر صرف اس لیے اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا کہ ذرائع ابلاغ جمہوری اقدار کے فروغ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں تو قوم کی اخلاقی تربیت اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت اس سے کہیں زیادہ بڑی ذمہ داری ہے۔ معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور اچھائیوں کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اسے ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے بلکہ اس کی پوری قوتیں درآمد شدہ ثقافت کو قوم پر بالجبر لاگو کرنے پر لگ رہی ہیں۔ اور ایک مستقل رو بہ زوال و ناخواندہ قوم پر تو درآمد شدہ ثقافت کچھ زیادہ ہی اثر دکھاتی ہے۔ بیرونی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تو سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی تہذیب ہو، جب آپ کی تہذیب کے بند ہی ٹوٹ چکے ہوں تو کون سی یلغار اور کون سا مقابلہ؟
 

زین

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر ہے۔
کیا آپ کالم وغیرہ بھی لکھتے ہیں‌اگر ہاں ، تو کون کون سے اخبارات یا جرائد میں ؟؟؟؟
 

ابوشامل

محفلین
نہیں بھئی زین۔ میں کالم نگار نہیں، البتہ بلاگ لکھتا ہوں۔
میرے پاس وقت نہیں تھا، اس لیے اپنی ہی چند پرانی تحاریر سے کچھ اقتباسات شامل کر کے یہ ملغوبہ بنایا ہے، جو آپ لوگ "حلیم" سمجھ کر مزے لے لے کر کھا رہے ہيں :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم بہت خوب ابوشامل صاحب میں نے آپ کا بلاگ بھی پڑھا ہے بہت اچھا لکھتے ہیں آپ بہت خوب
اس پر تو آپ نے کمال ہی کر دیا ہے بہت شکریہ
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ فنِ تحریر آپ کا پیدائشی فن ہے
 

مکی

معطل
آپ کے قلم کے زور کا تو میں شروع سے ہی قائل ہوں.. جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں.. اور یہ تحریر انہی کمالات میں سے ایک کمال ہے..

ماوراء پوسٹ کے فونٹ کے حوالےسے درست فرما رہی ہیں.. آپ کی ہر پوسٹ کا فونٹ خراب ہوتا ہے اور پڑھنے میں نہیں آتا، مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے براؤزر کا فونٹ تاہوما میں بدل کر رکھتے ہیں اس لیے اصل فونٹ کیا ہے آپ کو پتہ نہیں ہوتا.. یقین نہ آئے تو یہ دیکھ لیجیے:

screenshot_01.png
 

Raheel Anjum

محفلین
ابو شامل بھائی! واقعی کمال کا لکھا ہے۔اپ کا تجزیہ بہت حقیقت پسندانہ ہے اور میں اس سے سو فی صد متفق ہوں۔ لیکن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اب جبکہ نستعلیق فانٹ‌موجو د ہے تو آپ نے توہاما یا پھر نفیس نسخ میں لکھنے کو کیوں ترجیح دی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
مضمون کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ مضمون واقعی بہت مفید اور معلوماتی ہے ۔ میڈیا کے حوالے سے جو نکات اٹھائے وہ واقعی قابل غور ہیں ۔ مگر مذہبی حوالے سے کسی شخصیت کو میڈیا کے منفی اثرات میں شامل کرنا ، میں سمجھتا ہوں زیادتی ہے ۔ جس کی مثال اس مضمون میں غامدی کے حوالے سے ہے ۔ اس کا تعلق علمی بحث سے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی شخصیت کو میڈیا کے منفی اثرات میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر غامدی اور دیگر شخصیت کے بارے میں کسی بحث کا آغاز کرنا ہے تو اس کے لیئے ایک علمی نشت رکھی جائے تو بہتر ہے ۔ الف ، غامدی جیسے پروگرام میں دیگر علماء بھی " حاضریاں " دیتے ہیں ۔ جن کا تعلق ہر مسلک اور طرزِ فکر سے ہوتا ہے ۔ مگر میں نے کسی کو غامدی کے سامنے ٹکتے ہوئے نہیں دیکھاہے ۔ اگر اس شخص کو آپ اپنے علم سے قائل یا مرعوب نہیں کرسکتے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حضرات کو پہلے خود اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہیئے ۔ تاکہ پھر غامدی " جیسے لوگ " ۔۔۔ میڈیا پر آکر منفی رحجان نہ پھیلائیں ۔
 
سلام مسنون!

اس سلسلے کے مضامین میں یہ پہلا مضمون ہے جسے پڑھا ہے۔ اور پڑھنے سے پہلے ہی میں نے اپنا ذہن ناقدانہ کر لیا تھا۔ اس لحاظ سے فی الحال صرف اتنا کہوں گا کہ عنوان کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا۔ بلکہ موضوع کے حیطے کو مختصر کر کے ایک گوشے میں ڈال دیا گیا۔ شاید یہی مضمون ایک مختلف عنوان کے تحت انتہائی جامع تصور کیا جا سکے۔ اور دوسری چیز یہ کہ مضمون نگاری میں مواد کی ترتیب اور روانی جس اسلوب کی متقاضی ہے اسے برتنے میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔

مزید تفصیلی تبصرہ سبھی مضامین کو پڑھنے کے بعد ہی کر سکوں گا۔
 

ماوراء

محفلین
مضمون پروفیشنل قسم کا تھا ۔۔اور یقیناً اچھا بھی تھا۔ لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ اتنے مشکل انداز میں لکھا ہے، کہ مجھے سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ :(
 

ابوشامل

محفلین
مضمون کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ مضمون واقعی بہت مفید اور معلوماتی ہے ۔ میڈیا کے حوالے سے جو نکات اٹھائے وہ واقعی قابل غور ہیں ۔ مگر مذہبی حوالے سے کسی شخصیت کو میڈیا کے منفی اثرات میں شامل کرنا ، میں سمجھتا ہوں زیادتی ہے ۔ جس کی مثال اس مضمون میں غامدی کے حوالے سے ہے ۔ اس کا تعلق علمی بحث سے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی شخصیت کو میڈیا کے منفی اثرات میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر غامدی اور دیگر شخصیت کے بارے میں کسی بحث کا آغاز کرنا ہے تو اس کے لیئے ایک علمی نشت رکھی جائے تو بہتر ہے ۔ الف ، غامدی جیسے پروگرام میں دیگر علماء بھی " حاضریاں " دیتے ہیں ۔ جن کا تعلق ہر مسلک اور طرزِ فکر سے ہوتا ہے ۔ مگر میں نے کسی کو غامدی کے سامنے ٹکتے ہوئے نہیں دیکھاہے ۔ اگر اس شخص کو آپ اپنے علم سے قائل یا مرعوب نہیں کرسکتے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حضرات کو پہلے خود اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہیئے ۔ تاکہ پھر غامدی " جیسے لوگ " ۔۔۔ میڈیا پر آکر منفی رحجان نہ پھیلائیں ۔
ظفری بھائی! مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ، آپ کی جانب سے سندِ تعریف ملنا واقعی اعزاز ہے لیکن افسوس ہے کہ آپ کی جذباتی وابستگی کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ویسے میں مضمون میں عرض کر چکا ہوں اور میرا سوال ابھی تک قائم ہے کہ کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواندہ افراد کی تعداد بہت کم ہو کیا وہاں اختلافی مسائل کو غامدی اور الف جیسے پروگراماتکے ذریعے ہوا دینا درست ہے؟ کیا اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پردہ، موسیقی، تعدد ازدواج وغیرہ ہے؟

سلام مسنون!

اس سلسلے کے مضامین میں یہ پہلا مضمون ہے جسے پڑھا ہے۔ اور پڑھنے سے پہلے ہی میں نے اپنا ذہن ناقدانہ کر لیا تھا۔ اس لحاظ سے فی الحال صرف اتنا کہوں گا کہ عنوان کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا۔ بلکہ موضوع کے حیطے کو مختصر کر کے ایک گوشے میں ڈال دیا گیا۔ شاید یہی مضمون ایک مختلف عنوان کے تحت انتہائی جامع تصور کیا جا سکے۔ اور دوسری چیز یہ کہ مضمون نگاری میں مواد کی ترتیب اور روانی جس اسلوب کی متقاضی ہے اسے برتنے میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔

مزید تفصیلی تبصرہ سبھی مضامین کو پڑھنے کے بعد ہی کر سکوں گا۔
ناقدانہ تبصرے کا بہت شکریہ حضور! مضمون کا پورا احاطہ نہ کر پانے کا دکھڑا میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں۔ آئندہ پوری کوشش کروں گا کہ موضوع پر رہ کر اور اختصار کے ساتھ لکھوں۔

مضمون پروفیشنل قسم کا تھا ۔۔اور یقیناً اچھا بھی تھا۔ لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ اتنے مشکل انداز میں لکھا ہے، کہ مجھے سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ :(
اوہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ یہ بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ ہر قاری کو با آسانی سمجھ میں آئے۔ اس جانب توجہ دلانے کا بہت شکریہ
 

arifkarim

معطل
آپ کے قلم کے زور کا تو میں شروع سے ہی قائل ہوں.. جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں.. اور یہ تحریر انہی کمالات میں سے ایک کمال ہے..

ماوراء پوسٹ کے فونٹ کے حوالےسے درست فرما رہی ہیں.. آپ کی ہر پوسٹ کا فونٹ خراب ہوتا ہے اور پڑھنے میں نہیں آتا، مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے براؤزر کا فونٹ تاہوما میں بدل کر رکھتے ہیں اس لیے اصل فونٹ کیا ہے آپ کو پتہ نہیں ہوتا.. یقین نہ آئے تو یہ دیکھ لیجیے:

screenshot_01.png

میرا پاس علوی نستعلیق میں کوئی مسئلہ نہیں!
 
مضمون کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے اول انعام ملا ہے اور اس کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ اسے اتنا پڑھا نہیں گیا جتنے ووٹ‌ ملے ہیں آخر حق دوستاں بھی کوئی چیز ہوتی ہے
 
Top