دے کوئی طبیب آ کے ہمیں ایسی دوا بھی
لذت بھی رہے درد کی ، مل جائے شفا بھی

دم گھٹنے لگا سن کے وفاداری تمھاری
ہم کو تو نہ لگنے دی کبھی تم نے ہوا بھی

روح و بدن و طاقت اسی رب نے ہیں بخشے
اعمال ہوں اچھے تو وہی دے گا جزا بھی

ناداں! طلبِ علم خود آغازِ عمل ہے
پھر پوچھنا کیسا کہ عمل تم نے کیا بھی

اچھوں سے تو اچھائی سبھی اچھے ہیں کرتے
اچھا یہ ہے اچھائی کا قائل ہو برا بھی

ہے میرے خیالات کی پرواز جو محتاط
بدعت سے بھی بچنا ہے ، دکھانا ہے نیا بھی

محرومِ اجابت نہ سمجھ خود کو اسامہ!
ہے نعمتِ عظمیٰ تجھے توفیقِ دعا بھی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت ہے۔ خصوصاً مطلع کا جواب نہیں۔واہ سرسری صاحب۔
۔اچھے ہیں کرتے۔کی جگہ ۔ کرتے ہیں اچھے۔شاید زیادہ مناسب رہے۔۔۔۔ یہ اچھائی والا مصرع بہت "اچھا " ہے۔:)
 
بہت ہی خوبصورت ہے۔ خصوصاً مطلع کا جواب نہیں۔واہ سرسری صاحب۔
۔اچھے ہیں کرتے۔کی جگہ ۔ کرتے ہیں اچھے۔شاید زیادہ مناسب رہے۔:)
اس لاجواب پسندیدگی کا بہت شکریہ۔۔۔۔
پہلے ”کرتے ہیں اچھے“ لکھا تھا ، مگر اس میں ذو معنی ہورہا ہے ، یعنی ”اچھے“ مخاطب بھی لگ رہا تھا اس لیے میں نے ”اچھے ہیں کرتے“ کرکے معنی فی البطن کو من البطن کرکے علی البطن کردیا۔ :)
ایک بار پھر بہت شکریہ تعریف کا۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب
ناداں! طلبِ علم خود آغازِ عمل ہے
پھر پوچھنا کیسا کہ عمل تم نے کیا بھی
ناداں کے ساتھ اگر ’تو‘ کا صیغہ ہو تو بہتر ہو۔
مقطع میں ’اجابت‘ لفظ ہٹا ہی دو تو اچھا ہے، کچھ اور کہا جائے کہ اس لفظ کے دوسرے معنی بھی ہوتے ہیں، جو زیادہ عام ہے
 
خوب
ناداں! طلبِ علم خود آغازِ عمل ہے
پھر پوچھنا کیسا کہ عمل تم نے کیا بھی
ناداں کے ساتھ اگر ’تو‘ کا صیغہ ہو تو بہتر ہو۔
مقطع میں ’اجابت‘ لفظ ہٹا ہی دو تو اچھا ہے، کچھ اور کہا جائے کہ اس لفظ کے دوسرے معنی بھی ہوتے ہیں، جو زیادہ عام ہے
توجہ کا بہت شکریہ استاد جی!

ناداں والا مصرع اس طرح کردوں؟

ناداں! طلبِ علم خود آغازِ عمل ہے
پھر پوچھتے کیوں ہو کہ عمل تم نے کیا بھی

اور مقطع۔۔۔
محرومِ عنایت نہ سمجھ خود کو اسامہ!
ہے نعمتِ عظمیٰ تجھے توفیقِ دعا بھی
 

امان زرگر

محفلین
اک ادا سے دل چھلنی, اک ادا تسلی کی
یارِ مَن ستمگر بھی، یارِ مَن مسیحا بھی

ایک جگہ غزل نظر سے گزری تو درج بالا شعر بھی تھا اس غزل میں۔۔۔۔۔؟؟؟؟
 
Top