ابن انشا دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں - ابن انشا

NAZRANA

محفلین
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں

یونہی تو نہیں دشت میں پہنچے، یونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے ؟ جگ میں ہوئے ہو رُسوا بھی؟
اس کے سِوا ہم کُچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سُن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے ہو کیوں طُول میاں

کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی، شہر سے نکلیں، رُسوا ہوں
تجھ کو دیکھا، باتیں کرلیں، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدِ دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

کلامِ ابنِ انشاء
 

نبیل

تکنیکی معاون
نذرانہ صاحب، اتنی خوبصورت شاعری پوسٹ کرنے پر ایک بار پھر میری جانب سے شکریہ۔ میں امید کرتا ہوں کہ کبھی نہ کبھی ایسی صورت نکل آئے گی کہ شاعری زیادہ بہتر طور پر فارمیٹ کی جا سکے گی۔ اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ویب ڈیزائن کے کوئی ٹرکس جانتے ہیں تو براہ کرم ہمیں بھی اس سے آگاہ کریں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں​
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بھول میاں​
اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا ترا اصول میاں​
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں​
یونہی تو نہیں دشت میں پہنچے، یونہی تو نہیں جوگ لیا​
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول میاں​
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے ؟ جگ میں ہوئے ہو رُسوا بھی؟​
اس کے سِوا ہم کُچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں​
نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں​
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں​
سُن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر​
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے ہو کیوں طُول میاں​
کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے​
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں​
انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدِ دل و جاں نذر کرو​
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں​
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ زحال مرزا صاحب یہ غزل پوسٹ کرنے کیلیے۔

چونکہ یہ غزل پہلے پوسٹ ہو چکی تھی سو محفل پالیسی کے مطابق مجھے آپ کا موضوع ضم کرنا پڑا، افسوس۔۔۔

خیر، امید ہے پوسٹ کرتے ہیں گے۔
 
غزل
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دُھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ، دیکھ ہمیں مت بُھول میاں

اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا ترا اصُول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمُول میاں

یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے، یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پُھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے؟ جگ میں ہوئے ہو رُسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں

نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزُول میاں

سُن تو لیا کسی نار کی خاطر، کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قِصّے کو، اب دیتے کیوں ہو طُول میاں

کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر، کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظُور ہے یہ بھی شہر سے نِکلیں، رُسوا ہوں
تُجھ کو دیکھا، باتیں کر لیں، محنت ہوئی وصُول میاں

اِنشاؔ جی کیا عُذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
رُوپ نگر کے ناکے پر، یہ لگتا ہے محصُول میاں
ابنِ انشا
 
Top