دیوان غالب

رضوان

محفلین
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے


آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غمہاے نہانی اور ہے

برہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے


دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے


قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلاے آسمانی اور ہے


ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
 

الف عین

لائبریرین
شگفتہ تمھاری خاموشی سے فکر ہو رہی ہے۔ رضوان نے ی سے شروع کر دہیا ہے، اور میں بھی تقسیم کا تم کو کہہ کر بھول بیٹھا۔ اب تم یہ فوراً بتاؤ کہ تم ’ی‘ کی غزلیات کس غشل سے کر رہی ہو تاکہ رضوان وہاں سے آگے نہ بڑھیں۔ دوہرا کام حتی الامکان نہ ہو تو بہتر ہے۔
دوسرے، میں نے سوچاتھا کہ پہلے غزلیات ہو جائیں تو آگے بڑھا جائے۔
اب بتاؤ سب لوگ کہ قصائد وغیرہ کون کرنے کے لئے تیا ہے۔ شروع کے دو ایک میں نے کر دئے ہیں۔ لیکن ادھر میں مختلف نسخوں کے حصول اور نسخۂ اردو ویب کی شکل متعین کرنے میں لگ گیا تھا۔ تو جلدی جلدی اس کام کو تکمیل تک پہنچا ہی دیا جائے ۔
 

رضوان

محفلین
اعجاز صاحب ہاتھ پر ٹوک دیا آپ نے۔ :lol:

اب میں محب کے ذمہ جو تھاا اس کی چھپائی شروع کرتا ہوں ۔ تاکہ پھر آپ ترتیب سنوار سکیں اور محب واپس ،،آب گم،، میں مجھے مدد کر سکے
 

رضوان

محفلین
لیکن شگفتہ س سے ل تک پہلے ہی لکھ چکی تھیں اب ماوراء والا حصہ یعنی ے کا آخر وہی رہتا ہے شاید کیونکہ ماوراء ،، زاویہ،، لکھنے میں مصروف ہے۔ وہ والا کام کر دیتا ہوں پھر دیکھا جائیگا۔ یعنی ے کا آخری حصہ
 

رضوان

محفلین
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

باوجودِ یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں
ہیں چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ ہم


ضعف سے ہے نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو
ہیں وبالِ تکیہ گاہ ہمّتِ مردانہ ہم


دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسد
جانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
 

رضوان

محفلین
ب نالہ حاصلِ دل بستگی فراہم کر
متاعِ خانہ زنجیر جز صدا معلوم

××××××××××××××××××××××××××××××


مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم


وہ حلقہ‌ہاے زلف کمیں میں ہیں یا خدا
رکھ لیجو میرے دعواے وارستگی کی شرم
 

رضوان

محفلین
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی


دیکھو اے ساکنانِ خطّہ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی


کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی


سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی


سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی


ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی


کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالب
شاہ دیں دار نے شفا پائی
 

رضوان

محفلین
تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے


رہا آباد عالم اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے

×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××


کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری


خلشِ غمزہ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری


کیا بیاں کر کے مرا روئینگے یار
مگر آشفتہ بیانی میری


ہوں ز خود رفتہ بیداے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری


متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری


قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری


گرد بادِ رہ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری


دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری


کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری​
 

رضوان

محفلین
نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
پاے طاؤس پئے خامہ مانی مانگے


تو وہ بد خو کہ تحییر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے


وہ تبِ عشق تمنّا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××


گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے


واں کنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر
یاں نالے کو اور الٹا دعواے رسائی ہے

از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے
جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے​
 

رضوان

محفلین

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی


اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی


کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی


صد حیف وہ نا کام کہ اک عمر سے غالب
حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صُورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ؟

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو ،چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بُو بھی اے چارہ گر نہیں آتی ؟

ہم وہاں ہیں ، جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کِس منہ سے جاؤ گے غالب !
شرم تم کو مگر نہیں آتی !


×××××​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دلِ ناداں ! تُجھے ہوا کیا ہے ؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

ہم ہیں مُشتاق ، اور وہ بیزار
یا اِلٰہی ! یہ ماجرا کیا ہے ؟

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو کہ " مُدعا کیا ہے ؟"

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
۔


ق


جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں ؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے ؟

شکَنِ زُلفِ عنبریں کیوں ہے ؟
نگہِ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے ؟

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں ؟
اَبر کیا چیز ہے ، ہَوا کیا ہے ؟

ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ، ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب !
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے

×××××

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
۔
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانہء عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

نازشِ ایامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا

میں نے روکا رات غالب کو ، وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیلِ گریہ میں ، گردُوں کفِ سیلاب تھا​

---- ×××× -----​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جامے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟
بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے !

چاک مت کر جیب ، بے ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چُھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دُشمنی نے میری ، کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے ، دیکھا چاہیے

اپنی ، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آراء چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نااُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل ، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خُوبرویوں کو اسد
آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے


----- ××××× -----​
 

فریب

محفلین
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرزوروش جانتے ہیں ہم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتلاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملّت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ دادودید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے
سخن میں خامہ غالب کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی لیکن اس میں دم کیا ہے​
 

فریب

محفلین
صبح دم دروازہ خاور کُھلا
مہرِ عالم تاب کا منظر کُھلا
خسروِ انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینہ گوہر کُھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو رازِ مہ اختر کُھلا
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا
سطحِ گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کُھلا
صبح آیا جانبِ مشرق نظر
اِک نگارِ آتشین رُخ، سر کُھلا
تھی نظر بندی کیا جب ردِّ سحر
بادہ گُل رنگ کا ساغر کُھلا
لا ے ساقی نے صبُوحی کے لیے
رکھ دیا ہے ایک جامِ زر کُھلا
بزم۔ سلطانی ہُوئی آراستہ
کعبہ امن و اماں کا در کُھلا
تاجِ زرّیں مہرِتاباں سے سوا
خسروِ آفاق کے مُنہ پر کُھلا
شاہِ روشن دل بہادر شہ کہ ہے
راز۔ ہستی اس پہ سرتاسر کُھلا
وہ کہ جس کہ صورتِ تکوین میں
مقصدَ نُہ چرخ و ہفت اختر کُھلا
وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے
عقدہ احکامِ پیغمبر کُھلا
پہلے دار کا نِکل آیا ہے نام
اس کے سرہنگوں کا جب دفتر کُھلا
رو شناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرہ قیصر کُھلا
قطعہ
توسنِ شہ میں وہ خوبی ہے کہ جب
تھاں سے وہ غیرتِ صرصر کُھلا
نقشِ پا کی صورتیں وہ دلفریب
تو کہے بُت خانہ آذر کُھلا
مجھ پہ فیضِ تربیر سے شاہ کے
منصبِ مہر و مہ و محور کُھلا
لاکھ عقدے دل میں تھے لیکن ہر ایک
میری ھحدِ وسع سے باہر کُھلا
تھا دِل وابستہ قفلِ بے کلید
کس نے کھولا، کب کُھلا، کیونکر کُھلا
باغِ معنی کی دکھاؤں گا بہار
مجھ سے گر شاہِ سخن گر کُھلا
ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نفس،
لوگ جانیں طبلہ عنبر کُھلا
 

فریب

محفلین
روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہگزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوں‌نمود نہ ہو لالہ زار کی
بُھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستان کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائے کہ ہوا ہے بہار کی
 

فریب

محفلین
باغ پا کر خفقانی ڈرارتا ہے مجھے
سایہ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہرِ تیغ بہ سر چشمہ دیگر معلوم
ہُوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اُگاتا ہے مجھے
مدّعا محوِتماشائے شکستِ دل ہے
آئینہ خانے میں کوئی لے جات ہے مجھے
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے
زندگی میں تو محفل سے اُٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے
 

فریب

محفلین
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہٴ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے، کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہٴ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
 
Top