دیوان غالب

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دُود ، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو ، سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے ، جادۂ صحرا اے جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو !
پُر ہے سایے کی طرح ، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں ، گر تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ ، مثلِ گُلِ شمع ، پریشاں مجھ سے

بیکسی ہاے شبِ ہجر کی وحشت ، ہے ہے !
سایہ خُرشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں ، تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں ، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے ، اسد !
ہے چراغاں ، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے

----××----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش ! یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ، اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چُھپائے نہ بنے

اِس نزاکت کا بُرا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا
ہاتھ آئیں ، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں ؟ کہ نہ آؤ ، تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب !
کہ لگائے نہ لگے ، اور بُجھائے نہ بنے


----××----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے

جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے

ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یارب ! کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ گِرانجانی کرے

میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
مُوے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

خط عارض سے ، لکھا ہے زُلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے

----××----




وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے

کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے

دِکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

پلا دے اوک سے ساقی ، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا ، نہ دے شراب تو دے

اسد ! خوشی سے مرے ہاتھ پانو پُھول گئے
کہا جو اُس نے ، ”ذرا میرا پانو داب تو دے “

----××----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


تپِش سے میری ، وقفِ کش مکش ، ہر تارِ بستر ہے
مِرا سر رنجِ بالیں ہے ، مِرا تَن بارِ بستر ہے

سرشکِ سر بہ صحرا دادہ ، نورالعینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا اُفتادہ بر خوردارِ بستر ہے

خوشا اقبالِ رنجوری ! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں ، طالعِ بیدارِ بستر ہے

بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے

ابھی آتی ہے بُو ، بالش سے ، اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو ، خوابِ زلیخا ، عارِ بستر ہے

کہوں کیا ، دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں ، غالب !
کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر ، خارِ بستر ہے

----××----





خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے ، تُو دُشمن نہ ہو جائے

سمجھ اس فصل میں کوتاہی نشوونما ، غالب!
اگر گُل سَرو کے قامت پہ ، پیراہن نہ ہو جائے

----××----





فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے ؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے

ہاں ، کھائیو مت فریبِ ہستی !
ہر چند کہیں کہ ہے ، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ ، غم نہ ہووے
اُردی جو نہ ہو ، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد !
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

ہستی ہے ، نہ کچھ عَدم ہے ، غالب !
آخر تو کیا ہے ، ”اَے نہیں ہے؟“


----××----



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اِس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اِک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

----××----



ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے

در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے

یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالب کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے

----××----





کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گلچیں ہے

کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے

بجا ہے ، گر نہ سُنے ، نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

اسد ہے نزع میں ، چل بیوفا ! برائے خُدا !
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے


----××----



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو ؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

مرتے مرتے ، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے

عارضِ گُل دیکھ ، رُوئے یار یاد آیا ، اسد !
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے


----××----


دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے ، کیا کہیے !

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے !

سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے ؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے ، کیا ، کہیے !

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے ؟

حَسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے
سِتم ، بہائے متاعِ ہُنر ہے ، کیا کہیے !

کہا ہے کِس نے کہ غالب بُرا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے

----××----

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے

بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا مَیں ! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے

کیوں نہ ہو بے التفاتی ، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے

میرے غمخانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی ، مجھے

بدگماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا ، کاشکے !
اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے

وائے ! واں بھی شوِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے ؟

ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری ، واہ واہ !
پھر ہُوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے

دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نَو زندگی
میرزا یوسف ہے ، غالب ! یوسفِِ ثانی مجھے



----××----​


یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ یارب ، مجھے
سُبحۂ زاہد ہوا ہے ، خندہ زیرِ لب مجھے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ دَر ، رہنِ سخن
تھا طلسمِ قُفلِ ابجد ، خانۂ مکتب مجھے

یارب ! اِس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے !
رشک ، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں !
آرزو سے ، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

دل لگا کر آپ بھی غالب مُجھی سے ہوگئے
عشق سے آتے تھے مانِع ، میرزا صاحب مجھے





 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمایش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمایش ہے

قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمایش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمایش ہے

کرینگے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروے تن کی آزمایش ہے

نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی !
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمایش ہے

وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ” غافل تھے “
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمایش ہے

رہے دل ہی میں تیر ، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمایش ہے

نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمایش ہے

پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل ؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُرشکن کی آزمایش ہے

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو !
ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمایش ہے

وہ آوینگے مِرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالب !
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمایش ہے



----××----


کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں ، گر آجائے ہے ، مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مُجھ سے

خُدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے !
کہ جتنا کھینچتا ہوں ، اور کِھنچتا جائے ہے مُجھ سے

وہ بَد خُو ، اور میری داستانِ عشق طُولانی
عبارت مُختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے ، مُجھ سے

اُدھر وہ بدگمانی ہے ، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی ! کیا قیامت ہے !
کہ دامانِ خیالِ یار ، چُھوٹا جائے ہے مُجھ سے

تکلف بر طرف ، نظارگی میں بھی سہی ، لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظُلم دیکھا جائے ہے ، مُجھ سے

ہوئے ہیں پانو ہی پہلے ، نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے

قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہمسفر غالب !
وہ کافر ، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بست مژہ ، سیلی ندامت ہے

نہ جانوں ، کیونکہ مٹے داغِ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے

بہ پیچ و تابِ ہوس ، سلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتۂ سلامت ہے

وفا مقابل و دعواے عشق بے بُنیاد
جنونِ ساختہ و فصلِ گُل ، قیامت ہے !



---××---


 

الف عین

لائبریرین
رونے سے اور عرشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آھ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
 

الف عین

لائبریرین
[align=justify:0ebdf22ca5]نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے
ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کرنہ بزمِ عیشِ دوست
واں تو میرے نالے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے[/align:0ebdf22ca5]
 

الف عین

لائبریرین
عرضِ نازِ شوخئِ دنداں برائے خندہ ہے
دعوئ جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یل جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے
سوزشِ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریۂ و لب آشنائے خندہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
آئنہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے
تا کُجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن؟
چشمِ وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
[align=justify:9624a53994]جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی
لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانئِ صحرا کرے کوئی
ناکامئِ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی
سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی
ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاز یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
بیکارئ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسد
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی[/align:9624a53994]
 

الف عین

لائبریرین
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا
تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
 

الف عین

لائبریرین
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک
ہم سخن اور ہم زباں، حضرتِ قاسسم و طباں
ایک تپش کا جانشین، درد کی یادگار ایک
نقدِ سخن کے واسطے ایک عیارِ آگہی
شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک
ایک وفا و مہر میں تازگئِ بساطِ دہر
لطبف و کرمکے باب میں زینتِ روزگار ایک
گُلکدۂ تلاش کو، ایک ہے رنگ، اک ہے بو
ریختہ کے قماش کو، پود ہے ایک، تار ایک
مملکتِ کمال میں ایک امیرِ نامور
عرصۂ قیل و قال میں، خسروِ نامدار ایک
گلشنِ اتّفاق میں ایک بہارِ بے خزاں
مے کدۂ وفاق میں بادۂ بے خمار ایک
زندۂ شوقِ شعر کو ایک چراغِ انجمن
کُشتۂ ذوقِ شعر کو شمعِ سرِ مزار ایک
دونوں کے دل حق آشنا، دونوں رسول (ص) پر فِدا
ایک مُحبِّ چار یار، عاشقِ ہشت و چار ایک
جانِ وفا پرست کو ایک شمیمِ نو بہار
فرقِ ستیزہ مست کو، ابرِ تگرگِ بار ایک
لایا ہے کہہ کے یہ غزل، سائبۂ رِیا سے دور
کر کے دل و زبان کو غالبِ خاکسار ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسخے میں اگرچہ 'طپش' ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہئے
 

الف عین

لائبریرین
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
محفلیں برہم کرے ہے گنجفۂ بازِ خیال
ہیں ورق گردائِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم
باوجودِ یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں
ہیں چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ ہم
ضعف سے ہے، نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو
ہیں وبالِ تکیہ گاہِ ہِمّتِ مردانہ ہم
دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسد
جانتے ہیں سینۂ پُر خوں کو زنداں خانہ ہم
 

الف عین

لائبریرین
نِکوہِش ہے سزا فریادئِ بیدادِ دِلبر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگَ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتئِ مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دَورِ ساغر کی
کروں بیدادِ ذوقِ پَر فشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اُڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہپر کی
کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!
مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟
 

الف عین

لائبریرین
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی یا حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ کیوں پیٹوں سر
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ باُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی
دوست گر کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، ایک تمنّائے دوا ہے تو سہی
غیر سے دیکھیے کیا خوب نبھائی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالب
شہرۂ تیزئِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی
 

الف عین

لائبریرین
لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے
ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے
وہ نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ!
ساتھ حُجّاج کے اکثر کئی منزِل آئے
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"
دیدہ خوں بار ہے مدّت سے، ولے آج ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی خون میں شامل آئے
سامنا حور و پری نے نی کیا ہے، نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر، تیرے مقابِل آئے
اب ہے دِلّی کی طرف کوچ ہمارا غالب!
آج ہم حضرتِ نوّاب سے بھی مِل آئے
 
Top