دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ (مکمل)

دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب (مکمل)

دو سال پہلے دیوان غالب پر جو کام اس محفل پر شروع ہوا تھا، آج میں سمجھتی ہوں کہ وہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ کم از کم میں جتنا کام کر سکتی تھی اپنی بساط بھر، وہ کر دیا۔ اب دیوانِ غالب (مکمل) آپ کے سامنے ہے۔

ان دو سالوں میں نسخۂ اردو ویب پر جو کام ہوا، اس کی تفصیل یہ ہے:
الف) یکم اپریل 2006 کو اس کی ٹائپنگ اور محفل پر پوسٹنگ مکمل ہوگئی۔ ٹائپنگ کرنے والوں کے نام یہ ہیں:
اعجاز اختر (الف عین)
سیدہ شگفتہ
نبیل نقوی
شعیب افتخار (فریب)
محب علوی
رضوان
شمشاد

ب) اپریل 2006 میں ہی اعجاز عبید صاحب نے سارے کام کو ایک فائل میں مرتب کیا۔ اس کی ابتدائی پروف ریڈنگ کی اور اس کا دیباچہ لکھا۔ نیز مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔

1۔ دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ
2۔ دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی لاہور
3۔ دیوانِ غالب۔ نول کشور پریس لکھنؤ

ج) اپریل 2006 کو میں نے محفل میں شمولیت اختیار کی ۔ مئی میں دیوان پر کام شروع کیا اور 20 جون 2006 کو میں نے اس کی پروف ریڈنگ مکمل کی اور مندرجہ ذیل نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور ان نسخوں کے اختلاف پر فٹ نوٹس لکھے۔

1۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر)
2۔ شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی ( نسخۂ آسی)
3۔ دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ)
4۔ دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر
5۔ دیوان غالب (نسخۂ حمیدیہ)

حالانکہ ان پانچ نسخوں کے علاوہ میرے پاس 5 اور نسخے موجود تھے مگر ان کو مستند نہ جانتے ہوئے ، ان سے استفادہ نہ کیا۔

اس کے علاوہ ایک ضمیمہ کا اضافہ کیا جس میں نسخۂ مہر سے اس کلام کو ٹائپ کرکے شامل کیا جو غلام رسول مہر صاحب نے مولانا عبد الباری کے نسخے سے نقل کیا تھا۔

د) 12 مارچ 2007 کو میں نے ضمیمۂ دوم کا اضافہ کیا۔ ضمیمۂ دوم در اصل نسخۂ حمیدیہ سے 7 غزلوں کا انتخاب تھا۔
ھ) اسی دوران مجھے دیوان غالب کا ایک اور نسخہ ملا۔ یہ نسخہ حامد علی خان نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے کو مرتب کرتے وقت ان کے پیش نظر بے شمار نسخے تھی۔ ان سارے نسخوں میں جو اختلاف تھے، وہ حامد علی خان نے حواشی میں ذکر کیے۔ میں نے ان حواشی اور فٹ نوٹس کو ٹائپ کرکے ان کو 7 اکتوبر 2007 کو نسخۂ اردو ویب میں شامل کیا۔

و) اسی دوران جناب اعجاز عبید صاحب نے بھی دیوان پر جاری رکھا اور مندرجہ ذیل نسخوں سے وہ اشعار جو ہمارے نسخہ میں درج نہیں تھے، ان کو ٹائپ کرکے مجھے بھیج دیے:

1۔ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخطِ غالب، نسخۂ رضا سے
2۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء (نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)
3۔ دیوانِ غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضاؔ

میں نے ان اشعار کی پروف ریڈنگ کی، ان کو اس نسخے میں (نسخہ حمیدیہ کے ترتیب پر) مناسب جگہوں پر رکھا۔ میرے پاس موجود دوسرے نسخوں کے ساتھ موازنہ کیا اور اختلاف پر بھی فٹ نوٹس لکھے۔ مزید کام یہ کیا کہ وہ اشعار جو متداول و مشہور دیوان کا حصہ نہیں تھے، ان اشعار اس نسخے میں سرخ رنگ سے نمایاں کیا۔

مزید براں فرخ بھائی(سخنور) نے چند اشعار اور حواشی میں پروف کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، ان کی تصحیح کی۔ ایک مشہور شعر چھوٹ گیا تھا اس کو شامل کردیا۔

ز) اسی دوران مولانا امتیاز عرشی کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو کہ ماہنامہ ماہ نو کے فروری 1998 کے غالب نمبر میں شامل تھا۔ یہ مضمون دیوان غالب کے ایک نسخہ جو کہ نسخۂ بدایوں کے نام سے مشہور ہے پر تھا۔ معلوم ہوا کہ نسخۂ بدایوں میں دو اشعار ایسے شامل ہیں جو کہ کسی اور نسخے میں شامل نہیں۔ وہ اشعار یہ ہیں:

اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے
اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج ملا
آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے

ان دو کو فوراً شامل کردیا۔

یہ فائل آپ میرے دستخط میں دیے گیے ویب سائٹس سے ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں

دعاؤں کی طالب۔۔

جویریہ مسعود

آپ نے تو بہت بڑا کام کر دکھایا، مادام! بہت خوب!
 

ابن رضا

لائبریرین
ِِِ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایک رسالہ "چراغِ سخن" کے نام سے موسوم ہے مطبوعہ مارچ 1915 جس کا مطالعہ کیا توکچھ حیران کن و منطقی اعتراضات بابت کلامِ غالب و شرح از مولانا حسرت موہانی سامنے آئے ۔ مصنف کوئی یاس آتش پرست صاحب ہیں جو کہ آتش و میر کے پنکھے ہیں۔ موصوف کا کہنا ہےکہ غالب کا جو کلام مشہور و معروف ہوا اس کی تعریف ممکن نہیں وجہ یہ کہ وہ محاکاتِ و تخیل حقیقت کے دائرے اور حدود کے اندر ہے تاہم اگر پورا دیوان دیکھا جائے تو جو خود ساختہ الفاظ اور خود ساختہ معنی و مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے اور قابلِ تنقید ہے۔

(ایک اقتباس
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مئے تری رفتار دیکھ کر)

تخیل کی باگیں اگر قوتِ ممیزہ( جو قوت تخیل کو اعتدال اور حقیقت سے بھٹکنے نہیں دیتی) کے قابو سے نکل جائیں تو اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسےکسی سوار کے لیے مطلق العنان گھوڑا جس سے شاعری کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ میر کی تخصیصِ موضوعِ سخن اپنی جگہ مگر تخیل و افکار کو موزوں الفاظ غیرمہمل معانی اور اندازِ بیاں دینا ہی اصل کام ہے

خیال رہے یہ مری ذاتی رائے نہیں
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
تاہم اگر پورا دیوان دیکھا جائے تو جو خود ساختہ الفاظ اور خود ساختہ معنی و مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے اور قابلِ تنقید ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آتش و غالب کا موازنہ نظم طباطبائی نے بھی کیا تھا مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ آتش کا غالب کے آگے کیا مقام ہے۔ میر خدائے سخن تھے مگر ان کے ہاں صرف یاس و حزن ہے جبکہ غالب کے ہاں تخیل اور معنی آفرینی۔
سارے الفاظ و تراکیب کسی زبان میں خود ساختہ ہی ہوتے ہیں۔ یہ آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ اسی طرح زبانیں بنتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ غالب کے تراکیب اس وقت کے لحاظ سے نئی بات تھی مگر جب آپ کے پاس تخیل بلند ہو تو مشکل الفاظ آہی جاتے ہیں اور یہی مسئلہ اقبال کے ہاں بھی تھا
 
آخری تدوین:
درج ذیل غزل کے دو شعروں میں وزن درست نہیں ہے۔ رہنمائی مطلوب ہے:
غزل کا وزن ہے: مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن، بحر ہزج مثمن مقبوض سالم


عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ
پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر
جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرّہ‌ ہائے خم بہ خم آگے

دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

جیہ مزمل شیخ بسمل سید عاطف علی مہدی نقوی حجاز
 
لگتا ہے کہ دیوان غالب نسخہ اردو ویب کو از سر نو دیکھنا پڑے گا :(
میرے خیال میں کچھ اغلاط ہیں ، اور غلطیوں سے پاک تو کوئی کتاب ہو ہی نہیں سکتی چاہے آپ ایک ہزار بار اس کی پروف ریڈنگ کرلیں یا کروالیں۔ :)
 
Top