دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے (قیصرالجعفری)

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ غزل بہت سے گلوکاروں نے گائی ہے۔ اور زیادہ تر نے "دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے" کر کے گائی ہے۔ جبکہ اصل شعر "دیواروں سے ملکر رونا اچھا لگتا ہے"۔ اور دوسری بات کہ چند احباب نے انٹرنیٹ کی دنیا میں اس کے چند اشعار (خاص کر مقطع) کو ناصر کاظمی سے منسوب کر رکھا ہے جبکہ یہ اصل غزل جناب قیصرالجعفری صاحب کی ہے۔

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصؔر کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرہ اپنا لگتا ہے
یہی غزل آصف علی صاحب کی آواز میں سنیے۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔ !! خاص طور پر ،،

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے


کمال ہے ۔۔۔۔ شکریہ نین بھیا :) :)
 
Top