اعتبار ساجد دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں

نوید ملک

محفلین
دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں
زندگی! تو نے ہمیں کیسی سزائیں دی ہیں

شعلوں جیسی ہی عطا کی ہیں سلگتی بوندیں
آگ برساتی ہوئی ہم کو گھٹائیں دی ہیں

اک دعا گو نے رفاقت کی تسلی دے کر
عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں

دل کو بجھنے کا بہانہ کوئی درکار تو تھا
دکھ تو یہ ہے ترے دامن نے ہوائیں دی ہیں

کیسا ماحول ملا ہے ہمیں جینے کے لئے
دینے والے نے ہمیں کیسی فضائیں دی ہیں

اعتبار ساجد
 
Top