طارق شاہ
محفلین

غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل سے ٹالنے کے لئے
اِک تو لمحہ نکال سکتا ہے
کب خبر تھی کہ عاشقی میں خلشؔ
دِل مُصِیبت میں ڈال سکتا ہے
شفیق خلشؔ