میر دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی

غدیر زھرا

لائبریرین
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی

واشُد کُچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دِل کے تئیں
اقلیمِ عاشقی کی ہوا، اب بگڑ گئی

گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی

خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی

باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میر کوئی دبے جب بگڑ گئی

(میر تقی میر)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
واہ کیا خوب انتخاب ہے۔ میر ہی کا ایک شعر یاد آ گیا:
آئے ہیں میر منہ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج​
 
Top