محمد تابش صدیقی
منتظم
اور سوچا ہو گا کہ اس میں سر کوئی کیوں اور کیسے دے گا؟آپ کے توسط سے آج ہم نے اوکھلی دیکھ لی۔ بہت شکریہ
اور سوچا ہو گا کہ اس میں سر کوئی کیوں اور کیسے دے گا؟آپ کے توسط سے آج ہم نے اوکھلی دیکھ لی۔ بہت شکریہ
یہ سننا آپ کو فینٹیسی لگتا ہو گا۔ خواتین سے پوچھیے، شکر ادا کرتی ہوں گی۔صبح صبح نماز سے فارغ ہوکر خواتین مدھانی چلارہی ہیں۔۔۔
مکھن نکال رہی ہیں۔۔۔
پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔۔۔
باورچی خانے کی چمنی سے نکلتا دھواں علامت تھا کہ صبح سویرے زندگی بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔۔۔
دیسی گھی کے نرم گرم پراٹھے اور لسی یا چھاچھ ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کی صفائی۔۔۔
کبھی بہت ساری عورتیں جمع ہوجاتیں ۔۔۔
اور چکی پر نہ جانے کیا کیا دَلا اور پسا جاتا۔۔۔
میرے والد صاحب نے 1971ء میں اپنا ایکسپورٹ کا بزنس شروع کیا تو فون ان کی مجبوری بن گیا سو سنا ہے ہزاروں لاکھوں جتنوں سے کچھ برس کے بعد فون لگ گیا۔ ان کا کام چونکہ گھر کے پاس ہی تھا سو ایک ایکسٹینشن گھر میں بھی لگ گئی۔ اس لیے میں نے اپنے بچپن ہی سے گھر میں فون دیکھا، شاید چار ہندسوں پر مشتمل نمبر تھا۔ہمارے ہاں 1993 میں لگا تھا۔ اس شکل و صورت والا
نہیں یادِ ماضی پہ آہیں بھرتی ہیں۔۔۔یہ سننا آپ کو فینٹیسی لگتا ہو گا۔ خواتین سے پوچھیے، شکر ادا کرتی ہوں گی۔
!Thank you very much, Sir
بالکل ایسا ہی ہے۔ ان کی تو یادیں ہیں۔نہیں یادِ ماضی پہ آہیں بھرتی ہیں۔۔۔
ان کاموں میں بے شک محنت تو تھی۔۔۔
لیکن اس محنت مشقت کا پھل صحت کی صورت میں ملتا تھا۔۔۔
یہ تو ابھی تک جگہ جگہ موجود ہیں۔ چند دن پہلے ہی میں اپنے کالج کی طرف اتفاق سے گیا تو دیکھا کہ پچیس تیس سال پہلے جو رس بیچنے والا ایک جگہ ہوتا تھا وہ اب تک وہیں ہے اور ارد گرد کا سارا علاقہ کمرشل ہو چکا ہے لیکن وہ وہیں ہے اور دکان پر رش بھی ویسا ہی تھا۔اس طرح کی ریڑھی سے گنے کا رس پئے ہوئے بھی زمانہ ہی ہو گیا۔
وہ تو ہے۔۔۔بالکل ایسا ہی ہے۔ ان کی تو یادیں ہیں۔
میرا اشارہ موجودہ نسل کی جانب ہے۔
سلائی کڑھائی کا کام بھی روز ہوتا تھا. پتا نہیں کیا کیا کاڑھا جاتا رہتا تھا اور گھر کے معمولات سے فارغ ہو کر سارا دن اس طرح وقت گزرتا کہ سب کڑھائی کر رہی ہیں اور باتیں کر رہی ہیں یا کچھ بُننا اور اس قسم کے مشاغل ہوتے تھے.صبح صبح نماز سے فارغ ہوکر خواتین مدھانی چلارہی ہیں۔۔۔
مکھن نکال رہی ہیں۔۔۔
پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔۔۔
باورچی خانے کی چمنی سے نکلتا دھواں علامت تھا کہ صبح سویرے زندگی بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔۔۔
دیسی گھی کے نرم گرم پراٹھے اور لسی یا چھاچھ ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کی صفائی۔۔۔
کبھی بہت ساری عورتیں جمع ہوجاتیں ۔۔۔
اور چکی پر نہ جانے کیا کیا دَلا اور پسا جاتا۔۔۔
پھر فہد اشرف کی ڈھینکی پر گندم کو پھونکیں مار مار کر بھوسی اڑائی جاتی۔۔۔
خوشی اور تہوار کے مواقع پر سب خواتین مل کر دوپٹے رنگتیں۔۔۔
مہندی لگتی۔۔۔
چوڑیاں کھنکتیں۔۔۔
فضاؤں میں خوشیوں سے بھرپور قہقہے گُھلتے ۔۔۔
چولہے پر پتیلے چڑھتے، چمچے کھڑکتے ۔۔۔
لبے چوڑے دستر خوان بچھتے۔۔۔
لوگ آتے جاتے، کھاتے جاتے۔۔۔
سارا دن یہ سلسلہ چلتا ۔۔۔
جی ہاں یہ بھی تھا۔۔۔سلائی کڑھائی کا کام بھی روز ہوتا تھا. پتا نہیں کیا کیا کاڑھا جاتا رہتا تھا اور گھر کے معمولات سے فارغ ہو کر سارا دن اس طرح وقت گزرتا کہ سب کڑھائی کر رہی ہیں اور باتیں کر رہی ہیں یا کچھ بُننا اور اس قسم کے مشاغل ہوتے تھے.
اب مشاغل انٹرنیٹ کی مرہون منت ہیں اور وہ سب سے بڑا ٹائم ایٹر ہے.
آج شام کوشش کرتا ہوں، امی کے اپنے ہاتھ کی بنی ٹی کوزی کی تصویر لینے کی۔سلائی کڑھائی کا کام بھی روز ہوتا تھا. پتا نہیں کیا کیا کاڑھا جاتا رہتا تھا اور گھر کے معمولات سے فارغ ہو کر سارا دن اس طرح وقت گزرتا کہ سب کڑھائی کر رہی ہیں اور باتیں کر رہی ہیں یا کچھ بُننا اور اس قسم کے مشاغل ہوتے تھے.
اب مشاغل انٹرنیٹ کی مرہون منت ہیں اور وہ سب سے بڑا ٹائم ایٹر ہے.