دم اضطراب مجھ کو جو خیال یار آئے

الف نظامی

لائبریرین
دم اضطراب مجھ کو جو خیال یار آئے
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے

تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے
تو انہیں سے دور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے

مرے دل کو درد الفت وہ سکون دے الٰہی
میری بیقراریوں کو نہ کبھی قرار آئے

مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دے
وہ اگر میرے سرہانے دم احتضار آئے

سبب وفور رحمت میری بے زبانیاں ہیں
نہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے

کھلیں پھول اس پھبن کے کھلیں بخت اس چمن کے
مرے گل کدے پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے

نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا دیکھا پیار
وہ بنے خدا کا پیارا تمہیں جس پہ پیارا آئے

مجھے کیا الم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم الم کا
کہ علاج غم الم کا میرے غمگسار آئے

جو امیر و بادشاہ ہیں اسی در کے سب گدا ہیں
تمہیں شہریار آئے تمہیں تاجدار آئے

جو چمن بنائے بن کو جو جناں کرے چمن کو
مرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے

یہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے در پر
جسے لینے ہوں دو عالم وہ امیدوار آئے

ترے صدقے جائے شہا یہ ترا ذلیل منگتا
ترے در پہ بھیک لینے سبھی شہریار آئے

چمک اٹھے خاک تیرہ بنے مہر ذرہ ذرہ
مرے چاند کی سواری جو سر مزار آئے

نہ رک اے ذلیل و رسوا در شہریار پر آ
کہ یہ وہ نہیں ہیں حاشا جنھیں تجھ سے عار آئے

تری رحمتوں سے کم ہیں مرے جرم اس سے زائد
نہ مجھے حساب آئے نہ مجھے شمار آئے

گل خلد لے کے زاہد تمہیں خار طیبہ دے دوں
مرے پھول مجھ کو دیجئے بڑے ہوشیار آئے

بنے ذرہ ذرہ گلشن کو ہو خار خار گلبن
جو ہمارے اجڑے بن میں کبھی وہ نگار آئے

ترے صدقے تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ
وہ وقار لے کے جائے جو ذلیل و خوار آئے

ترے در کے ہیں بھکاری ملے خیر دم قدم کی
ترا نام سن کے داتا ہم امیدوار آئے

حسن ان کا نام لیکر تو پکار دیکھ غم میں
کہ وہ نہیں غافل پس انتظار آئے

از حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
 
Top