دل

تیشہ

محفلین
وہ تم جو چھوڑ گئے تھے دکھا ہوا میرا دل
سفر نے ڈھونڈ لیا ہے رہا سہا میرا دل

کچھ اسطرح سے کسی تعزیت کی آس میں تھا
کسی نے ہنس کے بھی دیکھا تو رو دیا میرا دل

ہے اپنی اپنی رسائی رہ محبت میں
ہے اپنا اپنا طریقہ تیرا خدُا میرا دل

نگر نے معجزہ مانگا تیری محبت کا
تو جھوم جھوم کے صحراؤں سے اٹھا میرا دل

کسی نے جب بھی یہ پوچھا کہ کون ہے فرحت
تو مسکراُ کے ہمیشہ یہی کہا میرا دل ،
 

تیشہ

محفلین
دیکھی کبھی جو مڑ کے خدائی تیرے بغیر
ہم کو کہیں بھی دی نہ دکھائی تیرے بغیر

سورج نے سرد کردیا فکرو خیال کو
بارش نے دل میں آگ لگائی تیرے بغیر

بچھڑے ہیں اور لوگ بھی اس راہ میں مگر
ویسی لگی نہ ہمکو جدائی تیرے بغیر

ہم تو در قفس پہ رہا ہوکے مرگئے
راس آسکی نہ جاں کو رہائی تیرے بغیر

خوشبو ، کتاب، خواب ، اُداسی کا فائدہ
ہم کیا کریں گے اپنی کمائی تیرے بغیر ۔
 

شمشاد

لائبریرین
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
(خواجہ حیدر علی آتش لکھنوی)
 

تیشہ

محفلین
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے :hatoff:

ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سے ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے

دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے

یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے ۔
 

تیشہ

محفلین
دِلوں کو برف کرتی رائیگانی سے نکل آئے
کوئی کیسے محبت کی کہانی سے نکل آئے

اُسے بس ایک پل کو دیکھنا تھا بات کرنا تھی
مگروہ اشک ِسادہ جو روانی سے نکل آئے

گماں تھا عمر لگ جائے گی اس حیرانی ِغم میں
مگر ہم شامِ وحشت کی گرانی سے نکل آئے
 

تیشہ

محفلین
کرم اک مہرباں کردو میری چاہت امر کردو
میرا دل پیار سے بھر دو میری چاہت امر کردو

میں ساری عمر سجدہِ تشکر میں بتاِ دوں گا
میرا اک کام گر کردو میری چاہت امر کردو ،

میری پلکوں کو چھُو لو تم حسیں یاقوت ہونٹوں سے
میرے آنسو گہر کردو میری چاہت امر کردو

چلو چھوڑو محبت میں گلے ِ اچھے نہیں لگتے
یہ باتیں درگزر کردو میری چاہت امر کردو
 

شمشاد

لائبریرین
نہ محبت نہ دوستی کے لیے
وقت رکتا نہیں کسی کے لیے

دل کو اپنے سزا نہ دے یوں ہی
اس زمانے کی بے رخی کے لیے
 

تیشہ

محفلین
کوئی شام ایسی بھی شام ہو کہ صرف میرے ہی نام سے
میرے سامعین ہوں شگفتہ دل 'میرے دلگداز کلام سے

میری گفتگو کے گلاب سے ہو دلوں میں ایسی شگفتگی
کوئی ایسی نکہت خاص ہو کہ مہک اٹھے دروبام سے

کوئی رنگ ان میں میں کیا بھروں، انہیں یاد رکھ کے بھی کیا کروں
یہ جو بھیڑِ بھاڑ میں شہر کی' مجھے لوگ ملتے ہیں عام سے

میری رات میری حبیب ہے یہ بڑی عجیب وغریب ہے
میرے ساتھ چھوڑ دیا کرو میرے ہم نشیں مجھے شام سے

میں محبتوں کا امین ہوں ' میں دلوں کی رُت کا یقین ہوں
مجھے پیار کرتے ہیں اہل دل ' میرے فن سے میرے کلام سے
 

عمر سیف

محفلین
خواب دیکھا تو خواہشوں نے کہا
کاش ایسا کبھی کہیں ہوتا
دل کی آنکھیں‌ بھی خوب آنکھیں ہیں
وہ دکھاتی ہیں جو نہیں ہوتا
 
Top