دل پر جو ترے عشق کا سایہ نہیں ہوتا

عاطف ملک

محفلین
ایک پرانی غزل، ممکن ہے کہ پہلے بھی شریکِ محفل کی ہو، لیکن آج یاد آ گئی تو پیش کر رہا ہوں۔استادِ محترم اعجاز عبید صاحب سے خصوصی نظر کی درخواست کے ساتھ:

دل پر جو ترے عشق کا سایہ نہیں ہوتا
پیروں تلے یہ درد کا صحرا نہیں ہوتا

چاہت میں کسی کی، کرے خود کو کوئی برباد
ناں ناں مری جاں، آج کل ایسا نہیں ہوتا

مخمور نگاہوں سے یوں ترغیب نہ دیجے
چہرے کو چھپا لینا ہی پردہ نہیں ہوتا

آتش ہی کی بیدادگری کا یہ کرم ہے
ذرہ کوئی یونہی تو شرارہ نہیں ہوتا

میں، جو کہ خدا سے بھی خفا ہوں تری خاطر
تو، جس کو مرا ذکر گوارا نہیں ہوتا

خود سے بھی گریزاں ہوں، زمانے سے بھی باغی
پھر بھی تری چاہت سے کنارا نہیں ہوتا

آوارگیِ دل کا بھی کچھ حال نہ پوچھو
ہو جاتا ہے ہر اک کا، ہمارا نہیں ہوتا

مرنا بھی گوارا ہے مگر کیا کریں عاطفؔ
مر کے بھی تو اس درد کا چارا نہیں ہوتا
نوٹ: دوسرے شعر میں نہ کو دو حرفی باندھنے کی غلطی کا احساس ہے لیکن مصرع کی اس سے بہتر صورت فی الوقت نہیں سوجھ رہی سو غزل شریک کر دی۔
 
آخری تدوین:
Top