ویسے سیاستدانوں سے سیکھنے والا آئیڈیا برا نہیں ہے،سیکھ کر گھر میں سیاست کی جا سکتی ہے۔بمقابلہ ہسبینڈ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بٹیا ہم لوگ اللّہ نہ کر ے سیاست دانوں جیسے بنیں میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو ‘گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں!!!
وعلیکم السلام۔ الحمد للہ۔۔اللہ پاک کا بہت کرم ہے آپی جان۔ بس گھر میں آجکل کچھ تعمیر کا کام شروع ہے ،اس لئے وقت کم ملتا ہے ۔
بس پھر بے فکر ہوجائیے یہ نہیں نکلنے والے ہمارے ایک کزن ایک قصہّ سناتے ہیں اس حوالے سے جو آپ کے بھی گوش گذار کرتی ہوں!!!!!ہمارے یہاں کچھ کام ہورہا تھا کہنے لگے باجی اب یہ سال بھر نہیں نکلنے والے !!!!!ہم نے کہا واہ بھیا یہ کیا کہہ رہے ہیں کہنے لگے جب آپ کھُرا بنوانے مزدور کو بلاتے ہیں تو وہ اپنے گھر کہتا ہے سال بھر کا کام مل گیا تو ماں پوچھتی ہے ایسا کیسے تو کہتا ہے کہ پہلے تھوڑا ٹھیڑا بنواؤں گا جب مالک کہیں گے تو توڑ دوں گا پھر کوئی دوسرا نقص ڈال دوں اور اسی توڑنے بنانے میں وقت نکلتا جائے گا۔۔۔کرتے بٹیا ایسے ہی ہیں بس جب گھُس جائیں تو اِنکو نکالنا مشکل ہوجاتا ہے
جی بالکل میٹھا ہوتا ہے صبر کا پھل۔ جب انسان زندگی کی بہت ساری آزمائشوں اور اپنوں کے کافی حد تک نامناسب رویوں کو اللہ پاک کی مدد سے صبر کے ساتھ سہتے ہوئے اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکل آتا ہے تو اس کا اجر اسے کسی نہ کسی خوشی کی صورت مل جاتا ہے۔ اب وہ خوشی مادی بھی ہو سکتی ہے اور قلبی سکون بھی۔ خوشیاں میٹھی ہی ہوتی ہیں ، تو صبر کا پھل میٹھا ہوا نا۔
ہمارا بھی ایک سوال مائیں اکثر اپنے بیٹوں کے لئے دلہن لانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کے لئے چاند سی دلہن لاؤں گی۔ اس حساب سے بیٹیوں کے لئے کہنا چاہئیے کہ اپنی بیٹی کے لئے سورج سا دُلہا لاؤں گی۔ لیکن تب کسی شہزادے کا ذکر آ جاتا ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ سورج اور بیٹے کی بیوی میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھا جا سکتا۔
بیٹے کی بیوی کو چاند سے تشبیہ دی گئی ہے اور چاند کی ٹھنڈک تو آنکھوں کو بھاتی ہے۔ اوہ اب سمجھے کہ ایسا طنزیہ طور پر کہا جاتا ہو گا شاید۔