دلِ ناز تھوڑا کشادہ تو کیجئے

La Alma

لائبریرین

دل ِناز تھوڑا کشادہ تو کیجے
محبت ذرا اور زیادہ تو کیجے

ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے

میسر ہے ساغر، جنوں بھی قلم بھی
مراعات سے استفادہ تو کیجے

ہوا لے نہ جائے یہ نامہ کہیں اور
سو ہمراہ کوئی پیادہ تو کیجے

ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے

خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے
 
آخری تدوین:
اصلاح تو اساتذہ کا کام ہے، میں ایک نو آموز کی حیثیت سے اقتباس میں کچھ تجاویز پیش کر رہا ہوں. شاید ایک آدھ بات درست ہو.

دل ِناز تھوڑا کشادہ تو کیجے
محبت ذرا اور زیادہ تو کیجے

پہلے مصرع میں 'تھوڑا' لفظ زبان پر گراں محسوس ہوا۔ دوسرا مصرع رواں نہیں ہے.
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

اس شعر میں بھی روانی کی کمی محسوس ہوئی

یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے

روانی متاثر ہو رہی ہے. شعر کے دونوں مصرعے ہم آہنگ نہیں لگتے.
میسر ہے ساغر، جنوں بھی قلم بھی
مراعات سے استفادہ تو کیجے

یہاں مراعات کا ساغر, جنوں اور قلم سے رشتہ کا ابلاغ سمجھ نہیں آیا.
ہوا لے نہ جائے یہ نامہ کہیں اور
سو ہمراہ کوئی پیادہ تو کیجے

نامہ قاصد لے کر جاتا ہے, پیادہ نہیں.
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے

خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے

"کن, فیکون' تو کائنات کی متواتر حقیقت ہے ہمیشہ جاری و ساری ہے اس کا اعادہ میرے خیال میں یہاں نظر ثانی کا حقدار ہے.​
 

La Alma

لائبریرین
اصلاح تو اساتذہ کا کام ہے، میں ایک نو آموز کی حیثیت سے اقتباس میں کچھ تجاویز پیش کر رہا ہوں. شاید ایک آدھ بات درست ہو.
بہت شکریہ .
آپ روانی کس کو کہتے ہیں ؟
میرے خیال میں پیادہ، قاصد یا ہرکارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے.
ساغر ،جنوں اور قلم والا شعر کم از کم شاعروں کو تو سمجھ آنا چاہیے ☺
مقطع میں تو خدا سے اپنی حالت ِ زار بیان ہو رہی ہے .

سر الف عین
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دل ِناز تھوڑا کشادہ تو کیجے
محبت ذرا اور زیادہ تو کیجے

دوسرے مصرعے کی تقطیع پر غور کیجئے گا۔۔۔ زیادہ ۔۔۔ کی "ی " نہیں گرنی چاہئے۔۔۔ ۔ایک مثال دے رہا ہوں، اصلاح کے طور پر یہی مصرع لکھ دیا جو میں لکھ رہا ہوں تو غلط بھی ہوسکتا ہے: وفا کو ذرا سا زیادہ تو کیجے ۔۔۔ (یہاں "ی" نہیں گرتی)

ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

فریبِ سخن قابل ِ غور ہے۔ سادہ کا متضاد پیچیدہ ہوتا ہے، نہ کہ فریب۔۔۔۔

یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے

۔۔۔ ۔ترکِ تمنا کی جگہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت ہوتو واضح ہوجائے گا۔۔۔ یہ مانا ہے دشوار۔۔۔ ویسے بھی قدرے غیر فصیح لگتا ہے، یعنی الفاظ آگے پیچھے کرکے اسے اور بہتر بنالیجئے تو ٹھیک رہے گا۔

میسر ہے ساغر، جنوں بھی قلم بھی
مراعات سے استفادہ تو کیجے

کاشف اسرار احمد سے متفق ہوں۔۔۔ لیکن ایک اضافہ بھی کرتا چلوں کہ چلئے مان لیتے ہیں ساغر، جنوں اور قلم سب کی سب مراعات ہیں، تو ان سب مراعات کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ ساغر ، جنوں اور قلم تینوں الگ الگ دنیاؤں کے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔
ہوا لے نہ جائے یہ نامہ کہیں اور
سو ہمراہ کوئی پیادہ تو کیجے

۔۔۔۔ پیادہ سپاہی کو کہتے ہیں، سو مضمون ہی پیچیدہ ہوگیا۔۔۔
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے
۔۔۔ شعر کی خوبصورتی اور معنوں پر اپنے طور پر غور کرنا اتنا آسان نہیں جیسا کہ نثر میں ہوا کرتا ہے، پہلے اور دوسرے مصرعے کو آپس میں ملا کر اس کی نثر بنا کر دیکھ لیجئے، پیغام یہ ہوا کہ خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں ہے اور جعلسازی کو لبادہ بنا لیا جائے تو بہت اچھی بات ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خلوص و وفا کی جتنی ضرورت آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔۔۔
خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے

ایک بات تو یہ کہ حد کے "د" پر میں نے شد پڑھی ہے، وہ غلط ہوسکتا ہے، حدِ جاں شاید درست ہو، لیکن کن فکاں کا اعادہ تو پوری کائنات آپ کو گواہی دے گی، مسلسل ہو رہا ہے۔ اقبال نے اسی مضمون پر دیکھئے، کیا لکھا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ۔۔۔
 
بہت شکریہ .
آپ روانی کس کو کہتے ہیں ؟
میرے خیال میں پیادہ، قاصد یا ہرکارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے.
ساغر ،جنوں اور قلم والا شعر کم از کم شاعروں کو تو سمجھ آنا چاہیے ☺
مقطع میں تو خدا سے اپنی حالت ِ زار بیان ہو رہی ہے .

سر الف عین
اپنے اس سوا ل کے جواب میں جناب@شاہد شہنواز بھائی کا مراسلہ دیکھیں۔
دل ِناز تھوڑا کشادہ تو کیجے
محبت ذرا اور زیادہ تو کیجے

دوسرے مصرعے کی تقطیع پر غور کیجئے گا۔۔۔ زیادہ ۔۔۔ کی "ی " نہیں گرنی چاہئے۔۔۔ ۔ایک مثال دے رہا ہوں، اصلاح کے طور پر یہی مصرع لکھ دیا جو میں لکھ رہا ہوں تو غلط بھی ہوسکتا ہے: وفا کو ذرا سا زیادہ تو کیجے ۔۔۔ (یہاں "ی" نہیں گرتی)

ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

فریبِ سخن قابل ِ غور ہے۔ سادہ کا متضاد پیچیدہ ہوتا ہے، نہ کہ فریب۔۔۔۔

یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے

۔۔۔ ۔ترکِ تمنا کی جگہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت ہوتو واضح ہوجائے گا۔۔۔ یہ مانا ہے دشوار۔۔۔ ویسے بھی قدرے غیر فصیح لگتا ہے، یعنی الفاظ آگے پیچھے کرکے اسے اور بہتر بنالیجئے تو ٹھیک رہے گا۔

میسر ہے ساغر، جنوں بھی قلم بھی
مراعات سے استفادہ تو کیجے

کاشف اسرار احمد سے متفق ہوں۔۔۔ لیکن ایک اضافہ بھی کرتا چلوں کہ چلئے مان لیتے ہیں ساغر، جنوں اور قلم سب کی سب مراعات ہیں، تو ان سب مراعات کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ ساغر ، جنوں اور قلم تینوں الگ الگ دنیاؤں کے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔
ہوا لے نہ جائے یہ نامہ کہیں اور
سو ہمراہ کوئی پیادہ تو کیجے

۔۔۔۔ پیادہ سپاہی کو کہتے ہیں، سو مضمون ہی پیچیدہ ہوگیا۔۔۔
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے
۔۔۔ شعر کی خوبصورتی اور معنوں پر اپنے طور پر غور کرنا اتنا آسان نہیں جیسا کہ نثر میں ہوا کرتا ہے، پہلے اور دوسرے مصرعے کو آپس میں ملا کر اس کی نثر بنا کر دیکھ لیجئے، پیغام یہ ہوا کہ خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں ہے اور جعلسازی کو لبادہ بنا لیا جائے تو بہت اچھی بات ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خلوص و وفا کی جتنی ضرورت آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔۔۔

خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے

ایک بات تو یہ کہ حد کے "د" پر میں نے شد پڑھی ہے، وہ غلط ہوسکتا ہے، حدِ جاں شاید درست ہو، لیکن کن فکاں کا اعادہ تو پوری کائنات آپ کو گواہی دے گی، مسلسل ہو رہا ہے۔ اقبال نے اسی مضمون پر دیکھئے، کیا لکھا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ۔۔۔
 

La Alma

لائبریرین
دل ِناز تھوڑا کشادہ تو کیجے
محبت ذرا اور زیادہ تو کیجے

دوسرے مصرعے کی تقطیع پر غور کیجئے گا۔۔۔ زیادہ ۔۔۔ کی "ی " نہیں گرنی چاہئے۔۔۔ ۔ایک مثال دے رہا ہوں، اصلاح کے طور پر یہی مصرع لکھ دیا جو میں لکھ رہا ہوں تو غلط بھی ہوسکتا ہے: وفا کو ذرا سا زیادہ تو کیجے ۔۔۔ (یہاں "ی" نہیں گرتی)

ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

فریبِ سخن قابل ِ غور ہے۔ سادہ کا متضاد پیچیدہ ہوتا ہے، نہ کہ فریب۔۔۔۔

یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے

۔۔۔ ۔ترکِ تمنا کی جگہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت ہوتو واضح ہوجائے گا۔۔۔ یہ مانا ہے دشوار۔۔۔ ویسے بھی قدرے غیر فصیح لگتا ہے، یعنی الفاظ آگے پیچھے کرکے اسے اور بہتر بنالیجئے تو ٹھیک رہے گا۔

میسر ہے ساغر، جنوں بھی قلم بھی
مراعات سے استفادہ تو کیجے

کاشف اسرار احمد سے متفق ہوں۔۔۔ لیکن ایک اضافہ بھی کرتا چلوں کہ چلئے مان لیتے ہیں ساغر، جنوں اور قلم سب کی سب مراعات ہیں، تو ان سب مراعات کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ ساغر ، جنوں اور قلم تینوں الگ الگ دنیاؤں کے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔
ہوا لے نہ جائے یہ نامہ کہیں اور
سو ہمراہ کوئی پیادہ تو کیجے

۔۔۔۔ پیادہ سپاہی کو کہتے ہیں، سو مضمون ہی پیچیدہ ہوگیا۔۔۔
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے
۔۔۔ شعر کی خوبصورتی اور معنوں پر اپنے طور پر غور کرنا اتنا آسان نہیں جیسا کہ نثر میں ہوا کرتا ہے، پہلے اور دوسرے مصرعے کو آپس میں ملا کر اس کی نثر بنا کر دیکھ لیجئے، پیغام یہ ہوا کہ خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں ہے اور جعلسازی کو لبادہ بنا لیا جائے تو بہت اچھی بات ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خلوص و وفا کی جتنی ضرورت آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔۔۔

خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے

ایک بات تو یہ کہ حد کے "د" پر میں نے شد پڑھی ہے، وہ غلط ہوسکتا ہے، حدِ جاں شاید درست ہو، لیکن کن فکاں کا اعادہ تو پوری کائنات آپ کو گواہی دے گی، مسلسل ہو رہا ہے۔ اقبال نے اسی مضمون پر دیکھئے، کیا لکھا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ۔۔۔
اپنے اس سوا ل کے جواب میں جناب@شاہد شہنواز بھائی کا مراسلہ دیکھیں۔
یعنی ساری کی ساری غزل کٹہرے میں ...
بہرحال آپ دونوں کی توجہ کے لیےبہت مشکور ہوں .

مطلع میں زیادہ کی "ی" کو نہیں گرایا گیا بلکہ "اور" کو "فا" کے وزن پر لیا ہے

"سادہ " کا عین متضاد یہاں مقصود بھی نہیں ہے "فریبِ سخن" اسی طرح ہے جیسے سادگی سے تصنع، پرکاری، بناوٹ یا فریب کاری وغیرہ وغیرہ .

"ترکِ تمنا "کہنے میں کیا حرج ہے میرے نزدیک تو یہ ترکیب زیادہ وسعت کی حامل ہے .تمنا تو کوئی بھی ہو سکتی ہے جبکہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت کا استعمال شعر کے مفہوم کو محدود کر دے گا

ساغر ، جنوں اور قلم کے کمبی نیشن سے تو شاہکار تخلیق ہو سکتے ہیں مگر افسوس ہمارے شاعر حضرات استفادہ کرنے کو تیار ہی نہیں :)

ویسے تو پیادہ، قاصد کے متبادل کے طور پر لیا گیاہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے .

اگر لکھنے والے کو خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں تو زبردستی تو نہیں کی جا سکتی نا :)

کن فکاں والے شعر میں پہلے مصرع پر بھی ذرا غور فرمائیے ، خدا سےصرف اپنی ہستی کی ترتیب ِنو کی خواہش کی گئی ہے . کن فیکون کی کائناتی گتھیاں نہیں سلجھائی گئیں
.
باقی بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے آپ سب سے رہنمائی ملتی ہے کہ ایک قاری کس نہج پر سوچ رہا ہے .بہت شکریہ
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عنی ساری کی ساری غزل کٹہرے میں ...
بہرحال آپ دونوں کی توجہ کے لیےبہت مشکور ہوں .
۔۔۔ غزل کٹہرے میں کبھی نہیں تھی،اظہارِ رائے سے اس میں موجود جن عیوب کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ ثابت نہیں ہوتے۔ ہم جو بیان کرتے ہیں اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ ہمیں یہ دکھائی دیا، یہ نہیں کہ "یہی ہے، اس کے علاوہ نہیں ہوسکتا۔"
مطلع میں زیادہ کی "ی" کو نہیں گرایا گیا بلکہ "اور" کو "فا" کے وزن پر لیا ہے
÷÷÷تقطیع کے حساب سے غلط نہیں ہے، اور کو "اُر" کردیجئے تو وہ بھی میری نظر میں روانی کے اعتبار سے درست نہیں، لیکن کِیا جاتا ہے۔ آپ بھی کرسکتی ہیں۔
"سادہ " کا عین متضاد یہاں مقصود بھی نہیں ہے "فریبِ سخن" اسی طرح ہے جیسے سادگی سے تصنع، پرکاری، بناوٹ یا فریب کاری وغیرہ وغیرہ .
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے
۔۔۔ شعر کو دیکھ کر یہاں مناسب عین متضاد لایا جانا بہتر تھا۔ آپ کا مقصود نہیں، یہ تو ہم جانتے ہیں، تبھی تو آپ نے فریبِ سخن کا استعمال کیا۔ لیکن اس سے بات واضح نہیں ہوتی۔ خیر یہ ہماری رائے ہے۔ اختلاف آپ کا حق ۔۔۔

"ترکِ تمنا "کہنے میں کیا حرج ہے میرے نزدیک تو یہ ترکیب زیادہ وسعت کی حامل ہے .تمنا تو کوئی بھی ہو سکتی ہے جبکہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت کا استعمال شعر کے مفہوم کو محدود کر دے گا
یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے
۔۔۔ ترکِ تمنا ۔۔۔ بے شک وسعت کے اعتبار سے زیادہ بہتر ترکیب ہے۔ لیکن غور فرمائیے تو کیا یہ ممکن بھی ہے کہ انسان تمنا چھوڑ دے؟ یہاں چھوڑنے کو نہیں کہا جارہا، صرف ارادہ کرنے کو کہا گیا، لیکن اس کا ارادہ کرنے کی تلقین جو درست ہی نہیں اور جس کے سبب سے کائنات میں حرکت جو زندگی کی بنیاد ہے، وہ تھم جائے یا بالکل معدوم ہوجائے۔۔۔ ایک بار پھر، شعر آپ کا، تو رائے بھی آپ کی درست مانی جائے گی۔۔ جو مناسب لگے۔

ساغر ، جنوں اور قلم کے کمبی نیشن سے تو شاہکار تخلیق ہو سکتے ہیں مگر افسوس ہمارے شاعر حضرات استفادہ کرنے کو تیار ہی نہیں :)
۔۔یاد رکھئے گا شاہکار خود بولتا ہے کہ وہ شاہکار ہے۔اس کا استفادہ کرنے کو لوگ چاہے تیار نہ ہوں، لیکن مانتے ضرور ہیں کہ اچھی بات کہی گئی ہے۔ جیسے کافر پیغامِ حق کا جواب دیتے تھے : ہم کیا کریں کہ اپنے آبا کا طریقہ نہیں چھوڑ سکتے لیکن جو آپ کہہ رہے ہیں، وہ بھی سچ ہے۔ آپ کو اس شعر میں شاہکار والی بات دکھائی دیتی ہے تو اسے چھوڑنا تو دور، ایک لفظ بھی تبدیل مت کیجئے گا۔
ویسے تو پیادہ، قاصد کے متبادل کے طور پر لیا گیاہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے .
۔۔۔ غلط ہے یا ہوسکتا ہے؟؟اس سوال کا جواب آپ پر چھوڑ تے ہیں۔۔۔ جو ٹھیک لگے۔
اگر لکھنے والے کو خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں تو زبردستی تو نہیں کی جا سکتی نا :)
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے

۔۔۔بے شک۔۔ زبردستی تو کسی بات کی نہیں۔ لیکن غور فرمائیے آپ کے اس شعر میں کائناتی سچائی کا سا عنصر پایا جاتا ہے، یعنی ایک تلقین کی جارہی ہے ہر خاص و عام کو، جو توجہ دے۔ یہاں محض لکھنے والا مراد نہیں ہے۔ ۔
کن فکاں والے شعر میں پہلے مصرع پر بھی ذرا غور فرمائیے ، خدا سےصرف اپنی ہستی کی ترتیب ِنو کی خواہش کی گئی ہے . کن فیکون کی کائناتی گتھیاں نہیں سلجھائی گئیں
.خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے
۔۔۔آپ نےسچ کہا۔ پہلے مصرعے پر شاید میں نے غور نہیں کیا، کرتا تو ایک اور اختلاف ہوتا۔ انسان بہترین صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ حد جاں دھواں ہی دھواں تو کسی قدر جنات کی سی بات لگتی ہے۔ انسانوں میں کیسے ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ خیر ہم اس کو سائنسی اور دینی دونوں ہی سطح پر دیکھ رہے ہیں، آپ کا مدعا کچھ اور ہے۔۔۔ہستی کی ترتیب نو اول تو بیان نہیں کی گئی، دوم، میں کہوں گا کہ یہ غلط ہے۔خدا کی ہر تخلیق ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ انسان ان تخلیقات ، بلکہ مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ وہ نامکمل کیسے ہوا؟
 

الف عین

لائبریرین
فنی اعتبار سے تو محض مطلع میں اعتراض کی گنجائش ہے۔ ’اُر زیادہ‘ کیا جائے تو بھی روانی تاثر ہے، اور اگر رواں صورت ’اور، زادہ‘ تو زیادہ کے تلفظ کی غلطی ہوتی ہے، کچھ درمیانی راہ نکالی جائے۔
اس کے علاوہ پیادہ تو بہر حال پیدل سپاہی کو ہی کہا جاتا ہے، نامہ بر کو نہیں۔
باقی اغلاط کو میں اگنور کر دیتا ہوں۔ بہت سی باتیں شاعر یا شاعرہ کی مرضی کر مطابق بھی چھوڑ دینی چاہئے نا!!
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
دنی اعتبار سے تو محض مطلع میں اعتراض کی گنجائش ہے۔ ’اُر زیادہ‘ کیا جائے تو بھی روانی تاثر ہے، اور اگر رواں صورت ’اور، زادہ‘ تو زیادہ کے تلفظ کی غلطی ہوتی ہے، کچھ درمیانی راہ نکالی جائے۔
اس کے علاوہ پیادہ تو بہر حال پیدل سپاہی کو ہی کہا جاتا ہے، نامہ بر کو نہیں۔
باقی اغلاط کو میں اگنور کر دیتا ہوں۔ بہت سی باتیں شاعر یا شاعرہ کی مرضی کر مطابق بھی چھوڑ دینی چاہئے نا!!
درست سر .بہت شکریہ .
 

نور وجدان

لائبریرین
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے
اس اعتراض پر اک شعر ذہن میں ہے
ہر شخص پر خلوص ، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی

میرا خیال ہے عروض میں ا1 کا الٹ 2 ہوگا مگر شاعری میں امتزاج اچھا لگتا ہے یا موافقت ۔۔جس سے پرت در پرت کئی معانی جنم لیتے ہی۔
 

La Alma

لائبریرین
اس اعتراض پر اک شعر ذہن میں ہے
ہر شخص پر خلوص ، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی

میرا خیال ہے عروض میں ا1 کا الٹ 2 ہوگا مگر شاعری میں امتزاج اچھا لگتا ہے یا موافقت ۔۔جس سے پرت در پرت کئی معانی جنم لیتے ہی۔
نور سچ پوچھیں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا .آپ کی بات میرے اتنے اوپر سے گزری کہ NASA کی مدد لینی پڑے گی :)
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سچ پوچھیں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا .آپ کی بات میرے اتنے اوپر سے گزری کہ NASA کی مدد لینی پڑے گی :)

ہر شخص پر خلوص ، ہر شخص پر وقار​
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی

یہاں پر سادگی کو خلوص وقار کا متضاد ٹھہرایا گیا ہے ۔
آپ کے شعر میں بھی فریب کو سادگی سے ملایا جا سکتا ہے
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

یہی کہنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب سمجھ نہیں آئے تو چھوٹ دے دیجیے گا
 
ہر شخص پر خلوص ، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی

یہاں پر سادگی کو خلوص وقار کا متضاد ٹھہرایا گیا ہے ۔
آپ کے شعر میں بھی فریب کو سادگی سے ملایا جا سکتا ہے
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

یہی کہنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب سمجھ نہیں آئے تو چھوٹ دے دیجیے گا
یہ جو شعر آپ نے لکھا ہے یہ کس بحر میں ہے؟؟
 

La Alma

لائبریرین
ہر شخص پر خلوص ، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی

یہاں پر سادگی کو خلوص وقار کا متضاد ٹھہرایا گیا ہے ۔
آپ کے شعر میں بھی فریب کو سادگی سے ملایا جا سکتا ہے
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے

یہی کہنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب سمجھ نہیں آئے تو چھوٹ دے دیجیے گا
اس خلوص بھرے شعر پر ایک لائیک تو بنتا ہی ہے .
بہت عمدہ .
 
Top