ایماں کی حلاوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
اسلام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
پایا ہے سکوں دل نے، کہا لب نے جب ’’اللہ‘‘
اس نام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
ہر لمحہ نبی چاہتے امت کی ہدایت
اس کام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
ساقی سے لیا ہے جو ، وہ لوگوں میں کرو عام
اس جام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
داعی سے ذرا پوچھو کہ جس دن وہ تھکا ہے
اس شام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
دعوت سے ہو آمادہ کوئی ، خوب ہے ، لیکن
ناکام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
امت کے ہر اک خاص کی دعوت بھی بجا ہے
ہر عام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
سب جانتے ہیں نظْم تمھاری ہے اسامہ!
گم نام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
 
بہت اچھا واقعی
الاسلام یعلو ولا یعلی علیه
لیکن ہم سب کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہی پڑے گی ÷
ورنہ کل خدا کی بارگاہ میں خدا کی راہ سے بھٹکے ہوئے ان بندوں کا ہاتھ ہوگا اور ہمارا گریبان
وہ گویا ہونگے بار الہ یہ تیرے بندے تھے جس کے پاس تیرا پیغام تھا اور انھوں نے ہم تک اسے نہیں پہنچایا اور ہم سرگرداں ہی رہ گئے
اسامہ بھائی یاد دہانی کے لئے شکریہ
 
بہت اچھا واقعی
الاسلام یعلو ولا یعلی علیه
لیکن ہم سب کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہی پڑے گی ÷
ورنہ کل خدا کی بارگاہ میں خدا کی راہ سے بھٹکے ہوئے ان بندوں کا ہاتھ ہوگا اور ہمارا گریبان
وہ گویا ہونگے بار الہ یہ تیرے بندے تھے جس کے پاس تیرا پیغام تھا اور انھوں نے ہم تک اسے نہیں پہنچایا اور ہم سرگرداں ہی رہ گئے
اسامہ بھائی یاد دہانی کے لئے شکریہ
تعریف ، تائید اور حوصلہ افزائی کا شکریہ۔
کس امتی پر دعوت کے حوالے سے کتنی ذمہ داری ہے یہ ایک نازک موضوع ہے۔
خوش رہیے۔
 
ایماں کی حلاوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
اسلام کی دعوت کا مزہ اور ہی کچھ ہے
سبحان اللہ، بہت خوب اسامہ بھیا! اللہ پاک آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
بہت عمدہ لکھا آپ نے۔ مطلع پڑھ کر لگتا ہے کہ "کا مزہ اور ہی کچھ ہے" ردیف ہے اور حلاوت اور دعوت قافیہ۔ لیکن اس کے بعد قافیہ بدل گیا اور اسلام، نام، کام اور جام قافیہ ٹھہرے۔
اگر پہلے مصرعے میں حلاوت کی بجائے دعوت ہی رہنے دیں اور "کی" سے پہلے اسلام کا ہم قافیہ لفظ استعمال کریں تو شاعری کا تقاضہ پورا ہو جائے گا۔ بہرحال کلام کی خوبصورتی قائم و دائم ہے۔ بہت لطف آیا۔ خوش رہیں۔
 
سبحان اللہ، بہت خوب اسامہ بھیا! اللہ پاک آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
بہت عمدہ لکھا آپ نے۔ مطلع پڑھ کر لگتا ہے کہ "کا مزہ اور ہی کچھ ہے" ردیف ہے اور حلاوت اور دعوت قافیہ۔ لیکن اس کے بعد قافیہ بدل گیا اور اسلام، نام، کام اور جام قافیہ ٹھہرے۔
اگر پہلے مصرعے میں حلاوت کی بجائے دعوت ہی رہنے دیں اور "کی" سے پہلے اسلام کا ہم قافیہ لفظ استعمال کریں تو شاعری کا تقاضہ پورا ہو جائے گا۔ بہرحال کلام کی خوبصورتی قائم و دائم ہے۔ بہت لطف آیا۔ خوش رہیں۔
جزاکم اللہ خیرا راجا صاحب!
اگر آپ مطلع کے پہلے مصرعے کو آزاد خیال کرلیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
 
جزاکم اللہ خیرا راجا صاحب!
اگر آپ مطلع کے پہلے مصرعے کو آزاد خیال کرلیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
لیکن ردیف کی موجودگی قافیہ کی عدم موجودگی کا بھرپور احساس دلا رہی ہے، اس لئے پہلے مصرعے کو آزاد خیال کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ معذرت
 
Top